انکم ٹیکس ختم کیجیے، متبادل نظام اپنائیے 

Naeem Baig

انکم ٹیکس ختم کیجیے، متبادل نظام اپنائیے 

از، نعیم بیگ

پاکستان کے عوام  ٹیکس نہیں دینا چاہتے۔ ( حکومتی بیان)      

بھائی صاحب تو ایف بی آر انھیں پکڑے ناں۔ افسران دھوپ میں نکلیں اور چھاپے ماریں۔ رشوت نہ لیں اور کام کریں۔ صرف ٹھنڈے دفتروں میں بیٹھ کر سہل حل نہ نکالیں۔ مجرم نہیں پکڑا جاتا۔ موٹر سائیکل کی ڈبل سواری بند کر دو۔ دہشت گرد نہیں پکڑا جاتا موبائل بند کر دو۔ غرض کام نہیں کرنا کمروں میں بیٹھ کر حل نکالنا۔ 

اب ان افسروں اور حکومت  نے یہ حل نکالا کہ پانچ لاکھ روپیے تک کے بینک اکاؤنٹ پکڑ لو۔ آسان راستہ۔  

کیوں بھئی کوئی قانون ہے یا غنڈہ گردی؟  

کیسے پکڑ سکتے ہیں آپ؟ کوئی قانون پاکستان میں ایسا موجود نہیں جو حکومت کو بہ راہِ راست بینکوں تک رسائی دے۔

حکومت یا افسروں کے مُنھ سے نکلی ہوئی ہر بات قانون نہیں ہو سکتی۔ پہلے ایسا قانون بنائیں یا کروڑوں اکاوُنٹ ہولڈرز  کے بارے عدالتی اجازت لیں۔  

آپ جان لیں جو حکومتی آمرانہ  اقدامات معاشی فرسٹریشن میں اٹھائے جا رہے ہیں ان سے جو بے اعتمادی کی فضا پیدا ہو رہی ہے وہ بالاخر غیر ڈاکومنٹڈ (بلیک)  اکانومی میں بدل رہی ہے۔

بینکوں سے اگر ایک بار اعتبار اٹھ گیا تو کبھی بَہ حال نہ ہو پائے گا۔ پھرآپ ڈاکومنٹڈ اکانومی کو ترسیں گے۔

ابھی ستر برس میں  بھی ہم مکمل طور پر ڈاکومنٹ نہ ہو پائے ہیں۔ دوسری بات پوری دنیا میں بینک اکاؤنٹس تک بہ راہِ راست حکومتی رسائی نہیں ہوتی۔ صرف عدالت ذاتی اکاؤنٹ تک پہنچ سکتی ہے۔ پاکستان کے آئین میں نجی پراپرٹی کو تحفظ حاصل ہے۔ آپ جہالت بھرا قدم نہ اٹھائیں۔ آپ  ملک اور اس کی معیشت کو پچاس برس پیچھے لے جا رہے ہیں۔

دوسری  بات کہ یہ دباؤ صرف متوسط طبقے کی کمر توڑنے پر صرف ہو رہا ہے اور ان کی بچتوں پر ڈاکے کے مترادف  ہے۔ غریب کے پاس روٹی کے پیسے نہیں، اسے فکر ہی نہیں۔ نہ اکاؤنٹ نہ پیسے سو مزے میں ہیں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر بھیک مانگ رہے ہیں۔ میرے پوچھنے پر، ایک خاندان جس کے چار/ پانچ افراد الگ الگ چوراہوں میں کھڑے تھے، نے بتایا کہ ہم کوئی ایک ہزار روپیہ سے زائد روزانہ فی بندہ بنا لیتے ہیں۔ واہ یہ ہوا ناں کار و بار!

اور اپر کلاس کی تو بات ہی نہ کریں وہ حکومتی دسترس سے نکل چکی ہے۔

اب رہے درمیانے طبقے والے۔ پانچ لاکھ ہیں کیا؟ ایک عام متوسط شخص کو اوپن ہارٹ اوپریشن دس لاکھ میں پڑتا ہے۔ ایک سٹِنٹ stent ڈالیں تو  چار سے سات لاکھ کا خرچ ہے۔ کمال ہے نا! لوگ صحت کا خیال خود رکھیں۔ بچوں کو تعلیم خود دیں فی بچہ بارہ ہزار روپیہ مہینہ۔ شیلٹر کا انتظام خود کریں کم از کم دو کمرے کا کرایہ تیس ہزار۔ اپنی ذاتی اور جائیداد کی سیکورٹی خود کریں۔ فی گارڈ  پچیس ہزار مہینہ۔ 

انصاف ہو کہ پانی، ہر شے ندارد۔ بنیادی شہری سہولتیں، جن میں سڑکوں پر چلنے کے دام۔ غرض  ہر چیز کے تو حکومت پیسے لیتی ہے اِن ڈائرکٹ ٹیکسوں کی صورت۔ خود بچت کا شور مچا کر وہی کام کر رہی ہے جو پرانے کرتے تھے۔ پنجاب حکومت گورنر ہاؤس اور وزیرِ اعلیٰ ہاؤس اور صدر ہاؤس کی تَزئِیں و آرائش۔  

یہ نئی اشرافیہ کی حکومت دیتی کیا ہے جو اتنا چلا رہی ہے؟ ان کا مقبول بیانیہ اب پِٹ چکا ہے۔ “نہیں چھوڑوں گا”، “کوئی ڈیل نہیں ہو گی”، “کوئی این آر او نہیں ملے گا،” وغیرہ وغیرہ۔

خاک سار اپنے پہلے کسی کالم میں مخلصانہ طور پر یہ عرض کر چکا ہے۔ آپ دبئی طرز کا معاشی فارمیٹ اپنائیں۔ وہاں کوئی آمدن ٹیکس نہیں لیکن کار و باری ٹیکس سے وہ اتنا کما لیتے ہیں کہ ابو ظہبی کی حکومتی تیل سےزیادہ انکم پیدا کر لیتے ہیں۔ آپ پورے پاکستان میں کار و بار کرنے کے لیے حکومتی لائسنس قائم کر دیں۔ چھوٹے سے ٹھیلے سے لے کر بڑے کار و بار تک لائسنس جاری کریں۔ سب آمدن ٹیکس منسوخ کر دیں۔ ایک برس میں صرف لائسنس فیس آپ کی ملکی ضروریات کو مکمل طور پر پورا کر دے گی۔

آپ ٹھیلے کے لائسنس سے لے کر  دُکان دار، سبزی فروش، گوشت فروش، مینو فیکچرر، ڈاکٹر، وکیل کے دفتر، اسکول، ہسپتال ،کتب فروش، کنسلٹنٹ، انجینئر، غرض کہ پان کے کھوکھے کے لیے بھی لائسنس ہونا لازم ہو۔ ہر کار و بار/دُکان دار کی سالانہ فیس الگ الگ ہو۔

مثال کے طور پر اب میں اپنے علاقے کی ہی مثال دیتا ہوں۔ ایک کلو میٹر کے دائرے میں کوئی ہزار بھر دکان دار تو ہوں گے ہر قسم اور ہر نسل کے۔ پرائیویٹ سکول، پرائیویٹ ہسپتال/ کلینک، نائی دھوبی، فوٹو کاپیئر، چھوٹے چھوٹے مینوفیکچرر۔ سبزی فروش، دودھ فروش، گوشت فروش، وغیرہ۔ اگر دو سے پانچ ہزار سالانہ لائسنس فیس ہی ہو پچاس لاکھ جمع ہو جائے گا۔ یہ پورے پاکستان کے شہروں اور قصبوں کا حساب لائیں تو اس بجٹ میں جو ساڑے آٹھ ٹریلین روپیہ کا ہے ہمارا ریوینیو کوئی تین اشاریہ پانچ ٹریلین کا ہے جب کہ پانچ اشاریہ پانچ ٹریلین چاہیے۔ ورنہ خسارہ ہے۔

میرا یقین ہے کہ میرے تجویز کردہ نظام سے یہ سارا خسارا پورا ہو جائے گا بَل کہ ہم سر پلس ہو جائیں گے۔ بس ایک شرط ہے اس فارمیٹ میں افسران کو کام کرنا پڑے گا جو ان کی سرشت میں نہیں۔ دوسرے یہ کام سب کمپیوٹرائزڈ ہو جائے گا جس میں ان کی اوپری آمدن ماری جائے گی۔ اس لیے اسے نا منظور کر دیا جائے گا مجھے معلوم ہے۔    

حکومت ڈنگ ٹپاؤ نہ سوچے صرف یہ جان لے اگر ملک کی معاشی، سماجی اور ثقافتی ریڑھ کی ہڈی یہ خاموش، محنتی اور مخلص لوئر متوسط طبقہ نہ رہا تو ریاست کی سرواوئل کا سوال اٹھ کھڑا ہو گا۔ یہ باقی کرایے کے وزیر سب تو نوکری کر کے چلے جائیں گے۔ جو اس حکومت کو معلوم نہیں یہ بائیس کروڑ لوگوں کے ملک کا معاملہ ہے۔ ان سے تو گیارہ بندوں کی کرکٹ ٹیم نہیں سنبھل رہی۔  

نا جانے ان کو کون مت دے رہا ہے۔ یہ کیسی چُک نکال رہے ہیں۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔