چینلز کے اشتہارات: نئے عہد کی اساطیر

فرخ ندیم
فرخ ندیم، صاحبِ مضمون

چینلز کے اشتہارات: نئے عہد کی اساطیر

(فرخ ندیم)

عصری تنقید میں مہابیانیہ کا قصہ عام ہے۔ مغربی ثقافتوں کا سپیس چونکہ بہت مختلف ہے، (انسان کی آفاقیت کی میتھ کا شیرازہ بکھر چکا ہے) ، اس لیے وہاں ہر قسم کے مہا بیانیہ پہ آزادی اور سہولت کے ساتھ بات ہو سکتی ہے۔ اردو کی ما بعد جدیدیت ابھی تک کچھ مخمصوں کا شکار نظر آتی ہے۔ مجبوری، مصلحت، یا رغبت کچھ بھی ہو اردو ما بعد جدیدیت کے نزدیک مہا بیانیہ صرف(آسان ہدف) مارکسی فکر ہی رہ گئی ہے۔ ( یہ تنقید مثال کے طور پہ اور دل کا غبار نکالنے کے لیے اکثر مارکس ازم کو پیش کرتی ہے)۔ طاقت کے گٹھ جوڑ سے بھی فوکو کی مراد مارکسی فلسفے کی طاقت نہیں بلکہ مادی حوالوں سے ہے۔ جہاں سے آئیڈیالوجی کا ظہور ہوتا ہے۔ آج کے تناظر میں طاقت اور اس کا اندھا دھند استعمال جن مراکز سے ہے اردو کی ما بعد جدیدیت کو اس طرف رخ کرنا چاہیے۔میتھ سازی مابعدجدیدعہد میں کب ختم ہوئی؟ بقول رولاں بارت ایک سوپ پاوڈر بھی میتھ بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔بچے خاص بسکٹ کھا کر چیتے بنتے ہیں۔سرمایہ دارانہ کارخانوں میں تیار ہونے والی معجزات سازی اور ٹیکنالوجی کے تعلق سے نئی اساطیر سامنے آ رہی ہیں۔ ’ایک جوس پی کر جسم میں کرنٹ دوڑنے لگتی ہے یہاں تک کہ اس سے بیٹری چارج ہو جاتی ہے ، گاڑی سٹار ٹ ہو سکتی ہے۔ ثقافتی تھیوری کی طرح مابعد جدیدیت کا سروکار بھی محض ادبی متن نہیں۔ سماج و ثقافت کی تزئین و آرائش کرنے والے کچھ دوسرے افکار و افعال بھی ہیں جو توہمات پرستی کو مرکزی اہمیت دیتے ہیں۔ آسیب ساخت رویوں کی ردِ تشکیل بھی اردو مابعد جدیدیت کا علاقہ ہے۔ معاشرے کاسفر’ کرامت شائی‘ اظہاریوں سے مشروط کرنے والے رجعت پسند متون کی داخلی ساختوں پہ بھی بات کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام چینلز پہ چلنے والے اشتہارات نئے عہد کی اساطیر اور قدیم زمانے کی اساطیر کی مجازی اشکال ہیں۔ میڈیائی دنیا کا نیا بیانیہ التباس اور حقیقت کے درمیان کی کچھ شے ہے ،تو یہ اعتراض درست نہیں کہ زبان میں حقیقت نہیں بلکہ زبان حقیقت ساز ی کا عمل ہے؟ہمارے مفکرین شدت پسند رویوں کی مذمت کرتے ہیں لیکن عملی طور پہ عملِ تعدیل کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ ما بعد جدیدیت ہو یا کوئی دوسری فکر، کو میانہ روی اورمکالمہ( ہر اس فکر سے جو مکالمہ کا سپیس دے) سے کام لینا پڑے گا ورنہ آنے والے وقت میں کچھ بھی میتھ کہلا سکتا ہے۔ مارکس ازم تاریخی اور سیاسی طاقتوں کے گٹھ جوڑ اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال سے سماجی متون کی تعبیر کرتا ہے۔ اس لیے وہ لبرل ازم سے فاصلہ رکھتا ہے۔ اسی طرح ما بعد جدیدیت اور لبرل ازم میں بھی فرق اور تعلق کی وضاحت کی ضرورت ہے۔ لبرل ازم سرمایہ دارانہ فکر کا ماٹو ہے مگر ما بعد جدیدیت اپنے جوہر میں مرکز شکن ہے ۔ فوکو، دریدا ، بارت اور جولیا کرسٹیوا نے طاقت کے مراکزکی میتھ شکنی پہ بہت کچھ لکھا ہے۔ مصنف کی موت کا اعلان صرف ادیب کی اسطورہ کی نفی نہیں بلکہ ہر اس نظریہ کی بھی نفی ہے جو سماجی متون کو کنٹرول یا ڈکٹیٹ کرواتا ہے۔ اسی طرح مشل فوکو کی تصانیف میں طاقت اور اس کے محرکات و مقاصدکے کلامیوں کا جینیاتی مطالعہ ملتا ہے۔ قصہ مختصر ان تمام مباحث کا سنجیدہ طالب علم جانتا ہے کہ طاقت کے مراکز میں میتھ سازی کیسے متشکل ہوتی ہے ، متن اور ثقافتی و لسانی سیاست کے پیداواری رشتوں سے کیسے کیسے حیرت کدے تخلیق ہوتے ہیں۔ وہ پوچھ سکتا ہے کہ کیا ادب محض جہانِ حیرت ہے؟ اس سوال کا جواب ادب کے کس طبقے سے پوچھا جائے؟ کیا ادب میں کوئی طبقہ یا طبقاتی شعور ہوتا ہے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے لازما ہمیں ان کے متون سے گہرا رشتہ بنانا ہوگا تاکہ جس جگہ جس سپیس سے متن تجسیم ہوتا ہے اس کی طبقاتی کائنات کی تفہیم کر سکیں۔ دس سال پہلے متن کی پرکھ سے پہلے متن نگار کو دیکھنا پڑتا تھا ، آج ایسا نہیں، اب ادیب کو متن سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے ۔ جس طرح شاعر کی شاعری میں مٹی ، پانی ، آگ اور ہوا انسانی عناصرِ ترکیب ہی نہیں بلکہ آرکیٹائپس بھی ہیں جن کی شعریات سے شاعر کی ذات اور نفسیاتی ساخت کوسمجھا جا سکتا ہے، اسی طرح فکشن ، ناول اورافسانے میں بیانیہ کے کون مکان سے مسئلہ کی ہیئت کا ادراک مل جاتا ہے۔
متن کی تعریف و وضاحت کئی اطراف سے سامنے آ تی رہی ہیں۔ اور متن کو ثقافتی پیدا وار کی بجائے نیچرل مظہر سمجھنے اور سمجھانے کا سلسہ بھی جاری ہے۔یہ مکتبہ فکر نیچر اور کلچر میں فرق کو سمجھ نہیں سکا یا کلچر کی واردات اس کے لیے وہ معنی نہیں رکھتی جو فطرت کا مروج بیانیہ پیش کرتا ہے۔ اسی طرح سے شناخت کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ جب تنقید اور ثقافت کے انسلاک سے نیا مرکب تشکیل پاتا ہے تو زبان و ادب میں بین المتونیت کی دلچسپ مگر حیرت انگیز’ نامیاتی تکثیریت‘ تشکیل پاتی ہے۔ ثقافتی تنقید میں کلچر ،شعور اور نمائندگی بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ معنی خیزی کا عمل اسی مکان سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن کیا یہ تنقید اپنے کلچر کی معصومیت کا مقدمہ ہے؟ ایسا بالکل بھی نہیں۔ مقدمہ صرف اتنا ہی ہے کہ متن کلچر کے اثرات کا ثمر ہے۔ اب کلچر غلط ہے یا صحیح یہ اخلاق یا اصلاح پسندوں کا علاقہ ہے۔ ثقافتی تنقید کی ضرورت اس لیے بھی محسو س کی جاتی ہے کہ پوسٹ ماڈرن اور پوسٹ پروگریسو صورت حال میں ثقافتی سرگرمیوں کا دائرہ کار صرف سنجیدہ شعر و ادب ہی نہیں نہ ہی پاپلور ادب کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ اس میں شک کی گنجائش کم ہی ہے کہ سنجیدہ ادب کی چھتری تلے بہت سے مشہور متون پاپولر ادب ہیں اور زندگی کی ایک خاص سٹیج اور خاص نظریہ کی خدمت کرتے ہیں لیکن وہ بھی ثقافت کا حصہ ہوتے ہیں، ان کی ساختیں بھی ثقافتی نفسیات اور مقبول آئیڈیالوجی کی ترجمان ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ثقافتی گرامر کے ہر فاعل ، فعل اور مفعول کو ایک فطری عمل سمجھ کر رائے عامہ ہموار کی جائے۔ یہ تجربات صحیح ہیں یا غلط، یہ ان کے نتائج پہ منحصر ہے۔ لیکن یہاں پھر ایک مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے کہ نتائج کی قبولیت انفرادی سطح پہ ہو یا اجتماعی، متن کی ، معنی کی اور تعبیر کی آزادی کا رومانس بہت حد تک فرد کی آزادی کی ویلاسٹی کا معاملہ بھی ہے ۔
اردو دنیا کا نو آبادیاتی تجربہ بھی ویسا ہی ہے جیسا دولتِ مشترکہ کی دوسری ریاستوں کے معاشروں کا ہے۔ لیکن جہاں تک رد عمل کا تعلق ہے، اردودنیا میں ایسا کیوں نظر نہیں آتا جیسا افریقی اور کیریبین ثقافتوں میں ملتا ہے۔ یعنی اس کی آواز بہت دھیمی رہی ہے۔ انڈی جنس ، مقامی اور دیسی آوازوں کو تخلیق اور تنقید میں تلاشنا پڑے گا ۔ ان میں وہ نقاد بھی شامل ہیں جنہوں نے انگریزی میں لکھا، مسائل مقامی ہیں فرق صرف اظہار کا ہے۔ ترقی پسند تحریک میں تو انگارے کی اشاعت کے ساتھ ہی ہلچل شروع ہو چکی تھی لیکن ایسامحسوس ہوتا ہے جیسے ڈاکٹر رشید جہاں کی موت استعمار کے خلاف بلند ہونے والی ایک نسائی آواز کی موت ثابت ہوئی۔ حیرت کی بات یہ کہ آج کے ادیبوں کی اکثریت کے نزدیک استعمار کا تصور،زیادہ تر، داخلی ہے۔ تھیوری، زبان و ادب اورما بعد نو آبادیاتی حوالوں سے ڈاکٹر ناصر عباس نئیر کا کنٹری بیوشن مثالی ہے۔ امید ہے اس روایت سے مزید فکری مکانات تعمیر ہوتے رہیں گے اور نئے تنقیدی متون سامنے آئیں گے ۔(پوسٹ )پروگریسو تعلق سے ڈاکٹر روش ندیم نے روایت اور جدت کے ساتھ ارتقا ئی سفر اختیار کیا ہے۔ممکن ہے مستقبل قریب میں کہیں نہ کہیں اشتراکات کی صورت میں کوئی بڑا کام سامنے آئے ۔