خیبرپختونخوا میں عسکریت پسندی اور’ سنیما کلچر‘ کی بحالی

خیبرپختونخوا

(عدیل سعید)

خیبرپختونخوا (کے پی) میں مذہبی انتہاپسندوں کی جانب سے سینما گھروں پر حملوں اور فلمسازوں کو دھمکیوں کے بعد، پشاور میں فلم کے شائقین کے لیے، سینما جانا اچھے وقتوں کی ایک یاد بن گیا تھا۔ دہشت گردی سنہ 2007 سے اب تک جاری ہے۔

اب، فوجی آپریشن ضربِ عضب اور عسکریت پسندوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف جاری سیکیورٹی آپریشنوں کی مہربانی سے امن بحال ہونے کے ساتھ، کے پی میں فلمی صنعت تیز رفتاری کے ساتھ احیاء کی نشانیاں ظاہر کر رہی ہے۔

فوج نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں ضربِ عضب کا آغاز کیا تھا جو آج تک جاری ہے۔

فروری 2014 میں، پشاور میں شمع سینما اور پکچر ہاؤس کو گرنیڈ حملوں کے ایک سلسلے نے ہلا کے رکھ دیا تھا، جس میں 20 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حملوں نے بہت سے مکینوں کو ڈرا کر فلم دیکھنے جانا ترک کروا دیا تھا۔

سنہ 2007 اور 2014 کے درمیان کے پی اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں اپنے دہشت کے دور میں عسکریت پسندوں نے فلم سازوں، فنکاروں اور گویوں کو بھی خوفزدہ کیا تھا۔

دہشت گردی نے مقامی فلموں کی تیاری کو انتہائی کم کر دیا تھا، جس سے فلم شائقین کے پی میں سینما کی ثقافت اور بڑی اسکرین پر تفریح کے مستقبل کے بارے میں ایک غیریقینی صورتحال کی حالت میں آ گئے تھے۔

مقامی فلمی صنعت کا عروج

صنعت کے بھیدیوں کا کہنا ہے کہ تاہم، گزشتہ دو برسوں میں صورتحال نے ایک مثبت موڑ لینا شروع کر دیا ہے۔

پشاور میں ایک سینما کے مالک، فلم ساز اور اداکار شاہد خان نے کہا، اب پشتو، اُردو اور انگریزی میں اپنی پسندیدہ فلمیں بے خوف ہو کر دیکھتے ہوئے، سینکڑوں فلم بین مقامی فلمی صنعت کے عروج میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا، “امن و امان کی صورتحال میں بہتری آنے کے بعد ہمارے کاروبار میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے، اور سینما جانے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ سنہ 2014 میں فوجی آپریشن ضربِ عضب شروع ہونے سے قبل، کے پی شو بزنس سالانہ صرف چھ یا سات فلمیں تیار کرتا تھا، جو کہ 30 یا 40 فیصد نشستیں بھرے ہوئے سینما گھروں میں چلائی جاتی تھیں۔

شاہد نے کہا، “اداکاروں اور ٹیم کے دیگر ارکان پر حملوں کے خوف سے ہم نے کے پی میں خوبصورت مقامات پر فلم بندی کرنا بند کر دیا تھا۔”

وہ بے رحم تصویر اب قصۂ پارینہ بن گئی ہے۔

انہوں نے کہا، “گزشتہ دو برسوں میں، کے میں پشتو فلموں کی ایک ریکارڈ تعداد تیار کی گئی ہے۔”

انہوں نے کہا کہ سنہ 2015 میں، کے پی کی صنعت نے پشتو زبان کی تقریباً 16 فلمیں تیار کیں۔ اس سال، اسی رفتار سے کام کرتے ہوئے، صنعت نے نو فلمیں تیار کی ہیں اور دسمبر سے پہلے مزید پانچ فلمیں ریلیز کرنے کا منصوبہ ہے۔

شاہد نے کہا، “انتہاپسندی ۔۔۔ نے ہماری علاقائی فلمی صنعت کو نقصان پہنچایا، لیکن یہ تفریح کے اس ذریعے کو مکمل بند کرنے میں ناکام رہی۔”

انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں پشاور میں، سینما گھروں کی تعداد 15 سے کم ہو کر 7 ہو گئی تھی، لیکن فلمی ثقافت سالم رہی اور عوام بڑی اسکرین کے نظاروں سے لطف ہو رہے ہیں۔

فلمی صنعت کو حکومتی، نجی معاونت درکار ہے

صنعت کے بھیدی اس کاروبار کو مضبوط کرنے کے طریقوں پر بحث کر رہے ہیں۔

پشاور کے فلمی ہدایتکار ارشد خان، جنہوں نے 80 سے زائد پشتو فلموں میں ہدایتکاری کی ہے، نے  بتایا کہ کے پی حکومت کو فلمی صنعت میں دلچسپی لینے کی ضرورت ہے تاکہ نجی شعبہ بھی آگے بڑھے۔

انہوں نے کہا، “صنعت کو سرکاری سرپرستی کی ضرورت ہے، اور حکومت کو جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس نئے سینما گھر تعمیر کرنے چاہیئیں۔”

انہوں نے کہا کہ کے پی حکومت اور فلم شائقین یکساں فکرمند ہیں کہ صوبے کی فلمی صنعت کو نظرانداز کرنا اس کے مٹ جانے کی طرف لے جا سکتا ہے۔

پورے کے پی میں اعدادوشمار سینما گھروں پر – محض دہشت گردی ہی نہیں –