البرٹ کامیو اور سارتر: برسوں کے یارانے کس بات پر گئے

البرٹ کامیو اور سارتر کے آزادی کے تصور پر خیالات

البرٹ کامیو اور سارتر
البرٹ کامیو اور سارتر

ترجمہ: (یاسر چٹھہ)

از سیم ڈریسر (Sam Dresser)
اس مضمون کا اصل انگریزی متن موقر جریدے aeon.co پر دستیاب ہے۔

البرٹ کامیو اور سارتر کا آپسی ناتہ عجیب اور بظاہر بے ربط نوعیت کا تھا۔ البرٹ کامیو فرانسیسی نژاد الجیرین، غربت سے عبارت حالات میں آنکھ کھولنے والے تھے؛ پر چہرہ مہرہ بہت وجیہہ و دلکش تھا۔ ژاں پال سارتر کا تعلق فرانسیسی معاشرت کے بالائی طبقات سے تھا اور شکل و صورت اور بلحاظ نین نقش کسی خدا کے برتے گئے بخل کا منظر تھے۔
کامیو اور سارتر کی پیرس میں آپسی ملاقات پہلی جنگ عظیم کے دوران اس پر جرمنی کے قبضے کے برسوں میں ہوئی۔ وقت کے ساتھ اس میں پختگی آئی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ان میں باہم کافی گرم جوشی پیدا ہوگئی۔ ان دنوں کے دوران جب پیرس شہر کی روشنیاں پھر سے لوٹ رہی تھیں کامیو، سارتر کے سب سے قریبی ترین دوست بن چکے تھے۔ سارتر نے کچھ گزرے وقتوں بعد کہیں لکھا کہ “ ہمیں آپ سے ان دنوں کس قدر محبت تھی!”

یہ دونوں احباب اس عہد کے درخشاں ستارے تھے۔ اخبارات ان کی روزمرہ کی مصروفیات پر خبریں بنایا کرتے؛ کامیو شہر پیرس میں ہمہ دم مختلف محفلوں کی رونق تھے؛ جبکہ معروف کیفے سارتر Les Deux Magots ججرہ مقیم تھے۔ جیسے ہی شہر پیرس کی تعمیرنو کا کام شروع ہوا، ان دونوں احباب نے مزاج و احوال شہر کو زبان دی۔

یورپ جنگ کے عذابوں کو بھگت کر سوختہ ہوچکا تھا۔ لیکن جو راکھ پیچھے بچی تھی اس سیاہ رو راکھ میں ایک نئی دنیا کے خواب کا نقشہ بنانے اور بننے کے لئے روشنائی کی صورت میں ڈھلنے کے امکانات موجود تھے۔ حرف و جملہ کے مداحین و قارئین کی نظریں کامیو اور سارتر پر چپکی ہوئی تھیں؛ وہ منتظر تھے کہ یہ دونوں دوست کیسے اس راکھ سے وہ روشنائی بناتے ہیں جو امکانات و ممکنات کی شکل کشائی کرسکیں۔ اسی ذہنی کیفیت و فکر کے سمندر کے بیچ کامیو اور سارتر کی ایک شریک کار Simone de Beauvoir اپنی یادوں کو کریدتے ہوئے کہتی ہیں:

“ہم گویا اس جنگ کی بھٹی میں جھونکے جانے کے بعد کے عہد کو نئی آئیڈیالوجی دینے کے لئے مقرر ہوئے تھے۔”

یہ آئیڈیالوجی نظریہ وجودیت کی شکل میں سامنے آئی۔ سارتر، کامیو اور ان کے دیگر دانشور احباب نے مذہب کو رد کردیا، نئے اور ذہنی ارتعاش پرور کھیل اسٹیج پر پیش کئے؛ انہوں نے قارئین کو حقیقت پسندانہ روش کے ساتھ جینے کے لئے ابھارا؛ اور دنیا و مافیھا کی لغویت کے متعلق لکھا: ایک ایسی دنیا جو کسی مقصد کے تصور اور قدر کی بنیاد سے تہی دامن ہے۔ البرٹ کامیو نے لکھا:
“یہاں صرف پتھر ہیں، گوشت پوست ہے، ستارے ہیں اور وہ سچ جنہیں چھونے کی حس محسوس کر سکتی ہے۔”

ہمیں اس دنیا میں ہی جینے کا انتخاب کرنا ہے۔ اس دنیا کی ہر چیز کو خود اپنے تخیل کے معانی اور قدریں سونپنی ہیں تاکہ ان اشیاء کا کچھ نا کچھ مطلب و معنی بن پائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ گوکہ آزاد ہیں، پر یہ آزادی ایک بوجھ ہے: اس آزادی کے ساتھ چونکہ ایک سنگین، اور کمر توڑ دینے والی یہ ذمے داری بھی ہے کہ حقیقی انداز authentically میں زندگی کرنا اور کچھ سر انجام دینے کا احساس پیدا کئے رکھنا ہے۔

اگر آزادی کے تصور نے البرٹ کامیو اور سارتر کو ایک فلسفے کی لڑی میں پروئے رکھا، تو اس کے ساتھ ہی انصاف کے لئے جدوجہد نے ان دونوں کو سیاسی طور پر متحد رکھا۔ وہ نا انصافی کا مقابلہ کرنے اور اور انصاف کے لئے جدوجہد کرنے پر کمربستہ تھے۔ ان کی نظر میں مزدوروں اور کسانوں کے سوا کوئی اور طبقہ نہیں تھا جس سے بہت نا انصافی روا رکھی جاتی تھی۔ کامیو اور سارتر کو یہ مزدور اور کسان اپنی محنت کے ساتھ پا بہ زنجیر نظر آتے تھے اور ایسے محسوس ہوتے تھے جیسے ان کی انسانیت اندر سے کاٹ ڈالی گئی ہو؛ ان کے خیال میں ان مزدوروں اور کسانوں کو آزادی کا احساس دلانے کے لئے نئے نظام ہائے سیاست کا تعمیر کیا جانا ضروری تھا۔

اکتوبر 1951 میں کامیو نے The Rebel شائع کیا۔ اپنی اس کتاب میں کامیو نے اسی انداز سے بغاوت کے فلسفے کی ایک خام سی شکل میں عکاسی کی۔ یہ فی نفسہ کوئی فلسفیانہ نظام تو نہیں تھا، پر فلسفیانہ اور سیاسی خیالات کا ایک ملغوبہ ضرور تھا: اس کی رو سے ہر انسان آزاد ہے، لیکن آزادی بذاتہ اضافی تصور ہے۔ بندے کو کچھ حدود کا پاس رکھنا چاہئے، اعتدال کا دامن تھامے رکھنا چاہئے؛ جہاں خطرہ مول لینا ضروری ہو، اس خطرے کا پورا شعور و ادراک کیا ہونا چاہئے؛ مطلق تصورات نفی انسانیت ہیں۔

مجموعی طور پر کامیو نے انقلابی تشدد کو مذموم قرار دیا ہے۔ کامیو کے خیال میں تشدد کا سہارا انتہائی ناگزیر حالات میں ہی جواز رکھتا ہے۔(انہوں نے فرانس کی جنگ کی کوششوں کو آخر سراہا ہی تھا۔) لیکن ان کے خیال میں تاریخ کے دھارے کو اپنی خواہشات کے مطابق چلانے کے لئے تشدد و عسکریت کا استعمال یوٹوپیائی، آمرانہ، اور کسی فرد کی جانب سے اپنے آپ سے دھوکہ دہی کرنے جیسا ہے۔

“مطلقا آزادی اہل قوۃ کا غالب آ جانے کا حق ہے،” کامیو نے لکھا، جبکہ “انصاف مطلق تمام کے تمام اضداد و تضادات کے خاتمہ کرنے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے؛ اس طور پر یہ آزادی کو تباہ کر دیتا ہے۔” آزادی اور انصاف کے بیچ کشمکش اس بات کی متقاضی رہتی ہے کہ ان میں ایک مسلسل توازن قائم کئے رکھنے اور آپسی سیاسی صلح کاری کا بندوبست ہوتا رہے۔ ہمیں اس بات کو شرف قبولیت دینے اور دل سے لگائے رکھنے کی ہمہ وقت ضرورت ہوتی ہے جو ہمیں ہماری حدود میں رکھتی ہے: یہ چیز ہمارے اندر کی انسانیت ہے۔ کامیو نے کہا کہ، “ جینا اور دوسروں کو آزادی سے جینے دینا، اس امر کی تخلیقی صورت گری کے لئے بہت ضروری ہے کہ جس کا ہونا ہمارے انسان ہونے کے لئے ضروری ہے۔

سارتر نے The Rebel کو بہت ناک بھنویں چڑھا کر پڑھا۔ سارتر کا یہ خیال تھا کہ کامل و اکمل آزادی اور انصاف قابل حصول ہیں؛ یہی بات تو کمیونزم کا فکری ماحصل تھی۔ سرمایہ داریت کے زیر سایہ اور غربت کے چنگل میں محنت کش کبھی آزاد نہیں ہو سکتے؛ ان محنت کشوں کو مواقع واختیار بھی کیسے تھے؛ کتنے قابل نفرت اور انسانی درجے سے گرے ہوئے میسر تھے: وہ ایک بے رحم اور برگشتہ کردینے والی مزدوری کریں، یا پھر مر جائیں۔

لیکن جابروں کو اختیار سے بے دخل کرنے اور کھلے تناظر میں محنت کشوں کو خودمختاری لوٹانے سے، کمیونزم ہر فرد کو مادی خواہش و طلب کے بندھن سے آزاد جینے کی راہ دکھا سکتی ہے۔ اس طور پر وہ انہیں حق انتخاب سونپ دیتی ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو کسی انداز پر تعمیر کرسکتے ہیں۔ یہ بات انہیں آزادی سے ہمکنار کر دیتی ہے اور اس انداز کی ٹیڑھ میڑھ سے پاک مساوات قرین انصاف بھی ہے۔

پر مسئلہ یہ ہے کہ سارتر اور دوسرے بہت سارے بائیں بازو کے ہمدردوں کے لئے کمیونزم کے لئے انقلابی عسکریت برتنے کی اشد ضرورت تھی۔ ان کے خیال میں اس وقت کے موجود نظام و انصرام کا بہرصورت گرایا جانا بہت ضروری تھا۔ بلا شک سب کے سب بائیں بازو کے ہمدرد اس طرح کے تشدد آموز رویے کے قائل نہیں تھے۔ اس طرح کے سخت گیر اور معتدل مزاج بائیں بازو کے ہمدردوں، یعنی کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں، میں تقسیم کوئی نئی بات کسی طور بھی نا تھی۔

سنہ 1930 کے پورے عشرے اور سنہ 1940 کی دہائی کے اولین برسوں میں بائیں بازو کے خیالات کے حاملین، فسطائیت کے مشرکہ دشمن کے خلاف عارضی طور پر متحد ہوگئے۔ البتہ فسطائیت کے تباہ ہوجانے کے بعد بائیں بازو کے تشدد و عسکریت پسندی کے حامیوں اور ان حربوں کے اپنانے کے مخالفین میں پرانی عدم موافقت اور دراڑوں نے پھر سے جنم لے لیا۔ ان دراڑوں اور عدم اتفاق نے اس وقت بڑی ڈرامائی شکل اختیار کرلی جب عملی طور پر یورپ میں دائیں بازو کے خیالات والی قوتیں ختم ہوگئیں، اور سویت یونین کا بول بالا ہوگیا۔ موخرالذکر نے سخت گیر بائیں بازو والوں کو پورے یورپ میں توانا اور مضبوط کرنا شروع کر دیا۔
لیکن زیر عتاب مزدوروں کی سزا کے لئے بنائے گئے کیمپوں، سوویت یونین میں دہشت کی پیدا شدہ عمومی فضا، اور ملزموں کے لئے مقدمات کی کارروائی کے طریقوں کی خبریں سامنے آنے سے یورپ کے بائیں بازو کے خیالات رکھنے والوں کے لئے بہت بے چین کردینے والے سوالات اٹھا دیئے۔ جنگ عظیم دوئم کے مابعد کے وقت میں ہر بائیں بازو کے خیالات والا دوسرے سے یہی ایک سادا سا سوال کرتا کہ، آپ کس گروپ کی طرف ہیں؟

اپنی کتاب The Rebel کے شائع ہوتے ہی کامیو نے ایک پرامن مزاج کی سوشلزم کے لئے آواز بلند کرنا شروع کردی؛ ایک ایسی سوشلزم جو انقلابی عسکریت کا استعمال نا کرے! وہ سوویت یونین سے آنے والی خبروں سے وحشت زدہ ہوجاتے: یہ وہ دیس تو نہیں بنا تھا، جہاں ایک انسان کو دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کے چلنا تھا، جہاں انہوں نے ایک عالی قسم کی آزادی سے ہمکنار ہونا تھا؛ لیکن یہ تو ایک ایسا دیس بن کر سامنے آ رہا تھا جہاں آزادی نا ہونے کے برابر تھی۔ سارتر اس دوران بھی کمیونزم کے سرگرم سپاہی رہے، اور اس کے لئے تشدد آمیز جدوجہد کو اپنانے کو تیار رہے تھے۔

دونوں دوستوں کے بیچ کا اختلاف اور رستوں کی علیحدگی ذرائع ابلاغ کا لذیذ چارہ بنی۔ ایک Les Temps Modernes نام کا مجلہ تھا، جو سارتر کی زیرادارت نکلتا تھا، اس مجلے نے The Rebel کا بہت گہرا ناقدانہ جائزہ لیا۔ سارتر کے اس مجلے کا یہ شمارہ پہلے کی اوسط فروختوں سے تین گنا زیادہ تعداد میں فروخت ہوا۔ دو اخباروں، Le Monde اور L’Observateur نے کامیو اور سارتر کی راہوں کے جدا ہونے کی خبروں کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور بہت سا مواد شائع کرتے رہے۔ آج کے دور میں اس طرح کی کسی دانشورانہ رقابت کی، جس میں عوامی دلچسپی کی یہ سطح ہو، مثال ڈھونڈنا محال ہے: دانشوروں کے اس شدید اختلاف میں اخبارات کے قارئین نے اس عہد کے سیاسی بحران کے چھینٹوں کو اپنے آپ پر پڑتے ملاحظہ کیا۔
اس اختلافی قضیے کے اندر اس بات کی ایک مثال تھی کہ کس طرح سیاست، تصورات کے میدان میں بھی آکر کھل کھیلتی ہے: اس کے ساتھ ساتھ یہ اس بات کی پیمانہ بندی بھی تھی کہ تصورات کس قدر اہم ہوتے ہیں: اگر آپ کسی تصور سے کلی طور پر متفق ہیں تو کیا آپ اس کی خاطر قتل کرنے تک کی حد پر پہنچ سکتے ہیں؟ آزادی کے حصول کی آخری قیمت کیا ہے؟

سارتر کا موقف ایک تضاد کا شکار رہا اور اسی کے تحت آپ نے اپنی باقی ماندہ زندگی میں جدوجہد بھی جاری رکھی۔ وہ سارتر جو، وجودیت کے سرخیل تھے اور جنہوں نے ہی یہ کہا تھا کہ انسان آزاد رہنے کا سزا یافتی ہے، وہی سارتر ایک ایسے مارکسٹ بھی تھے جن کی سوچ یہ بھی تھی کہ تاریخ اپنے وجودی طور طریق میں سچی آزادی کے لئے بہت کم وقفے کے لئے موقع دیتی ہے۔

گوکہ سارتر نے حقیقی و عملی طور پر کبھی بھی فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی لیکن آپ نے 1956 تک پورے یورپ میں سویت یونین کا دفاع کرتے رہے۔ اس وقت بوڈاپیسٹ Budapest کے مقام پرسوویت ٹینکوں کے آ رکنے نے سارتر کو قائل کردیا کہ سوویت یونین کے آگے بڑھنے کے کوئی امکانات نہیں۔ آپ کو درحقیقت، جیسا کہ آپ نے کہا بھی کہ، ہنگری میں سوویتوں کی جانب سے امریکیوں سے ملتے جلتے رویے سے سخت دکھ ہوا۔

سارتر ساری عمر بائیں بازو کی ایک توانا آواز کے طور پر موجود رہے۔ آپ نے فرانس کے صدر چارلس ڈیگال کو قربانی کا بکرا بنائے رکھا۔ (ایک بار کے بہت سخت تنقیدی حملے کے بعد چارلس ڈیگال کو کہا گیا کہ وہ سارتر کو گرفتار کرائیں، جس پر ڈیگال نے جواب دیا بندے کو والٹیئر کو گرفتار نہیں کرنا ہوتا۔

تاہم سارتر ساری عمر ناقابل پیش گوئی رہے؛ اپنی وفات، جو کہ 1980 میں ہوئی، اس وقت تک سخت گیر ماوازم سے عجیب و غریب طویل تعلق میں منسلک رہے۔ ہر چند سارتر سوویت یونین سے منسلک فکری ناتے سے کوسوں دور چلے گئے تھے، لیکن آپ انقلابی عسکریت کو جائز سمجھنے کے موقف سے منحرف نا ہوئے۔

کمیونزم کے تشدد آموز رستے نے کامیو کو کسی دوسری راہ پر گامزن کردیا۔ آپ نے The Rebel کہا ، “ آخرکار میں آزادی کا انتخاب کرتا ہوں۔ کیونکہ اگر انصاف نہیں بھی مل پاتا تو آزادی کم از کم صدائے احتجاج بلند کرنے کا اختیار، اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی طاقت تو فراہم کئے رکھتی ہے؛ اس طرح کس نا کسی طورپر بات سننے سنانے اور ابلاغ کی راہیں تو کھلی رہتی ہیں۔
سرد جنگ Cold War کے منظر نامے کی دوسرے جانب سے دیکھنے پر کامیو سے ہمدردی محسوس نا کرنا کارمحال سا لگتا ہے؛ اور اس بات پر حیرانی بھی نہیں جاتی کہ سارتر اس دوران بھی ایک وفادار کمیونسٹ بھی رہے۔ کامیو کی جانب سے سنجیدہ سیاسی حقائق سے لگاؤ، اخلاقی عاجزانہ پن، حدود کی ضرورت کی احساس مندی، اور انسانی خطا پذیری کے عنصر کے ادراک سے عبارت پیغام آج بھی بہت عمدہ و نفیس تصور کیا جاتا ہے۔ اپنے تئیں بہت مقدس و قابل قدر آدرشوں کو بھی باہم متوازن و موزوں کیا جانا ضروری امر ہے۔ مطلقیت، اور ناممکن تصوریت جس کی ادعائیت یہ مطلقیت کرتی ہے، آگے کی طرف جانے کا ایک پرخطر رستہ ہے: اور اس کیفیت کی ایک توجیہہ بھی پیش کرتا ہے کہ جس کیفیت میں آج کا یورپ ہے، جو یورپ چنگاریوں کے اوپر بیٹھا ہے، وہ انہی قدرے زیادہ آزادی و مساوات کے خوابوں اور ان خوابوں کی صورت گری کی جدوجہدوں کا شاخسانہ و ثمر ہے، جن کا تصور البرٹ کامیو اور سارتر نے پیش کیا تھا۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔

1 Comment

Comments are closed.