بلوچستان میں اُردو کا اولین مشاعرہ

بلوچستان مین اردو

بلوچستان میں اُردو کا اولین مشاعرہ

از، آغا گل

بلوچستان میں یوں تو شعر و ادب کا ذوق ابتدا سے ہی چلا آیا ہے۔ لوری جسے اب لورالائی کہتے ہیں، ڈیورنڈ لائن کے ذریعے افغانستان سے الگ کر کے بلوچستان میں شامل کیا گیا تھا۔ انگریز سرکار مفتوح علاقے کے ساتھ برٹش کا لاحقہ لگا دیا کرتی جیسے برٹش بلوچستان، برٹش گھانا، برٹش کولمبیا وغیرہ۔ مانا کہ اس علاقہ میں نہ تو بلوچ تھے اور نہ ہی برٹش۔ وجہ یہ تھی کہ برٹش انڈیا کی جغرافیائی حدود بڑھا کر چھ شمالی دروں کو اپنے تسلط میں رکھنا چاہتے تھے۔ کیونکہ تاجر، حملہ آور دروں کے ذریعے ہی آگے بڑھتے ہیں۔

ان دروں پر قبضہ کرنے کا مطلب تھا ہر قسم کی پیش قدمی کا راستہ روک دینا۔ ہندی، ہندوی ، اردو بلوچستان میں عام رہی۔ مگر اہل ذوق اظہار خیال کے لیے فارسی زبان ہی سے کام لیتے۔ پشتو، براہوی یا بلوچی کی ریڈر شپ نہیں تھی ۔ نہ ہی پریس میں ایسا ٹائپ دستیاب تھا۔ شعرو سخن کے لیے فارسی کے بعد جو زبان مقبول ہوئی وہ اردو زبان ہی تھی۔ جس نے اٹھارویں صدی کے آخر حصہ میں بلوچستان بھر میں مقبولیت حاصل کی۔ انگریز ابتداء میں ڈیرہ غازی خان، لورالائی، ژوب میں آئے اور پشین کو مستقر بنایا۔ ازاں بعد کوئٹہ میں ۱۸۸۴ء میں فوجی چھائونی قائم کی۔ لورالائی برٹش بلوچستان کا حصہ تھا۔ جہاں بلوچستان کا اولین اردو مشاعرہ منعقد ہوا۔

بیسویں صدی کے آغاز میں بلوچستان میں کوئی لیتھو پریس نہ تھا۔ قلمی کتب تیار کی جاتیں جن کے لیے موٹا ہاتھ کا بنا کاغذ استعمال کیا جاتا۔ ایسا Hand Made Paper کاروباری حضرات بہی کھاتوں کے لیے بھی استعمال کرتے۔ سُنگر کے سیٹھ طوطا رام نے ایسے کئی کاغذ مجھے بھی دیئے تھے۔ پریس اور اخبارات کی عدم دستیابی کے باعث بلوچستان کی علمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں کبھی منظر عام پہ نہ آتیں۔ اگرچہ اردو زبان نہایت ہی سرعت کے ساتھ مقبول عام ہوئی جاتی تھی۔ ادبی ذوق رکھنے والے نے لورالائی میں پہلا طرحی مشاعرہ منعقد کیا۔ ان باذوق حضرات نے ادبی سرگرمیوں کو روشناس کرانے اور ادب کی ترویج کے لیے اپنے وسائل سے ایک ادبی رسالہ ”قندیل خیال” ۱۹۱۴ء میں جاری کیا۔ رسالہ نوضرب ساڑھے پانچ انچ سائز کا تھا۔ صفحات چالیس کے قریب ہوا کرتے۔

بلوچستان میں کہیںپرنٹنگ پریس نہ تھا۔ یہ رسالہ دہلی سے شائع کرایا جاتا۔ اس ادبی رسالہ کے سر پرست خان عزیز الدین خان ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ یہ رسالہ لالہ ٹھاکر داس اینڈ سنز پرنٹر کے زیر اہتمام دلی پرنٹنگ ورکس دہلی سے چھپتا۔ تعداد اڑھائی سو ہوا کرتی۔ قندیل خیال کے روح رواں سردار محمد یوسف خان یوسفؔ پوپلزئی تھے۔ یہ رسالہ دو برس تک شائع ہوتا رہا۔ مگر مالی دشواریوں کے سبب جاری نہ رہ سکا۔ باوجودیکہ شعر گوئی اور شعر سخنی کو عروج ملا۔ برٹش بلوچستان میں اردو شاعری کے علم بردار محمد یوسف خان یوسفؔ پوپلزئی اور لالہ فتح چند نسیمؔ تھے۔ قندیل خیال انہی کے ہاتھوں روشن ہوئی۔ سب سے پہلے اردو زبان میں جلسہ جارج پنجم کی تاج پوشی پہ ہوا تھا۔ اس دور کی شاعری کے شعری اسقام سے قطع نظر ضروری ہے تبرکاً ہی اسے دیکھا جائے تو بہتر رہے۔

پنڈت جیون سنگھ مسکینؔ صدر قانون گو ژوب نے دسمبر ۱۹۱۱ء میں سرکار کی یوں تعریف کی:
شہنشہ ولایت لندن سے چل کے آیا
ارکان کے علاوہ ملکہ بھی ساتھ لایا
دونوں کو ہو مبارک یہ جشن تاجپوشی
لازم ہے تہنیت میں مسکین ؔاب خموشی
منشی فتح چند نسیم اہل کار تحصیل لورالائی سرکار کو خوش کرنے کے لیے پکڑ دھکڑ کی یوں تعریف کرتا ہے۔ آزادی پسندوں کو یوں پیش کرتا ہے۔
جن کی کچھ سمجھی گئیں بدمعاشیاں
ان کے گھر اکثر ہوئیں تلاشیاں
جن کے ہاں کچھ مل گیا پکڑا گیا
لوہے کی زنجیر میں جکڑا گیا
سردار محمد یوسف خان یوسفؔ پوپلزئی کا رنگِ تغزل دیکھیے:
مجھے کیوں روکتا ہے ایک عالم اس پہ شیدا ہے
پڑھا کرتے ہیں کلمہ اس کا مومن سے برہمن تک
خدایا آبرو یوسفؔ کی رکھ لے اس زمانے میں
اسے اب تاکتی ہے بھگن سے لے کر فرنگن تک
بابو نانک سنگھ نانکؔ نقشہ نویس ملٹری ورکس لورالائی کا اپنا ہی انداز تھا:
لگیں جب شولڈر میرے تو گل پہنچیں گے گلشن تک
ہزاروں زال اور رستم ہیں بھاگے اپنے مسکن تک
غزل سن کر یہ نانک کی ہوئی حیران مجلس ہے
اگر چاہے تو لکھ سکتا ہے وہ اشعار من من کے
بلوچستان کے اولین مشاعرے کی روئیداد قندیل خیال میں اس دور کی املا اور تلفظ میں یوں چھپی:
مقام: لورالئے تاریخ ۱۸ اکتوبر ۱۹۱۴ء
ایک طرحی مشاعرہ منعقد ہوا تھا اور روح رواں ”پوپل زائے” قبیلہ کے سردار محمد یوسف خان یوسف تھے۔ تیس سے زیادہ شعراء نے حصہ لیا تھا۔ یوسفؔ علاقہ کے تحصیل دار تھے۔ حصہ لینے والوں میں زیادہ تر مدخولہ تاج برطانیہ تھے۔ اس مشاعرہ کی کتابچہ دور دراز دہلی سے چھپ کر لورالئے پہنچا۔ مولف منشی فتح چند نسیم اہل کار تحصیل لورالئے تھے۔ یوسف دیباچہ میں یوں فرما رہے ہیں:

ایسے ایک مجموعہ کے لیے کسی تمہید کی ضرورت ہی نہیں ہوا کرتی۔ مگر بلوچستانی دنیا میں چونکہ یہ پہلی نظیر ہے جو پیش کی جا رہی ہے۔ اس لیے مجھے امید کرنی چاہیے کہ احباب اس کے حسن پر قوی اور قبح پر کمزور نظر ڈال کر ان معدودے چند کی جو اس میں حصہ لے رہے ہیں حوصلہ افزائی کریں گے اور ان کو اپنے احباب کی نظروں میں کسی پایہ پر پہنچنے کی امید سے مایوس نہیں فرماویں گے۔ یہ شوق اسی حد تک قائم رہنے والا اور بڑھنے والا خیال کیا جا سکتا ہے کہ جب ضروری حوائج اور لازمہ اخراجات کی بھی کفایت ہوتی رہے۔ متوقع ہوں کہ بعید و قریب کی عنایت فرماکر اپنی سرپرستی و شمولیت سے نا امید نہ فرماویں گے۔ مشاعرہ کا مصرع اس طرح تھا:
آخر انسان ہیں ہم بھی تو زباں رکھتے ہیں
نمونہ کلام:
منشی فتح چند نسیمؔ
تری خجلت تری رسوائی کا دھیاں رکھتے ہیں
ورنہ کب ضبط کی ہم تاب رکھتے ہیں
اے نسیمؔ چمنی یار سے میرے کہدے
نے پتہ رکھتے ہیں اپنانے نشاں رکھتے ہیں
محمد یوسف خان یوسفؔ
کیسے دیوانے زمانہ کے ہیں عاشق سارے
خشک باتوں میں بھی وہ چرب زباں رکھتے ہیں
دے دیا میں نے آخر کو نہ رکھا یوسفؔ
دل میرا لے کے میں دیکھوں تو کہاں رکھتے ہیں
فضل خان فضلؔ(فوج میں نائیک)
میرا ایماں ہے ٹھکانے سے اگر ہے ایمان
شعلۂ نور سبھی خورد و کلاں رکھتے ہیں
قبر میں آئے نکیرین تو کہدوں گا پر فضلؔ
ہم مسلماں ہیں شہادت کو قرآں رکھتے ہیں
برٹش بلوچستان میں اردو شاعری کے علم برداروں میں سردار محمد یوسف پوپلزئی اور لالہ فتح چند نسیم کانام آتا ہے۔ بیسویں صدی کی پہلی دھائی میں مولوی عبدالحنان احقرؔ، عنایت اللہ خان ایانحؔ، خان بہادر نبی بخش اسدؔ، چراغ الدین چراغ، محمود خان محمودؔ، نانک سنگھ نانکؔ، فتح چند نسیمؔ، عابد شاہ عابدؔ، عنایت علی عنایت، ہرکرن داس ہرکرنؔ، پنڈت جیون سنگھ مسکینؔ، شیخ محمد عبدالحق کے نام بھی آتے ہیں۔ اس دور کی شاعری چونکہ برٹش سرکار کے ملازمین بھی کیا کرتے۔ وہ سرکار کی بے حد تعریفیں کرتے۔ انگریز خواتین حکمران طبقہ سے تھیں لہٰذا فرنگن کی اصطلاح برٹش نازنین کے لیے مستعمل ہوئی۔ اس شاعری کو کسی دبستان سے وابستہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ گویا دبستان برٹش بلوچستان کی شاعری تھی۔ جس کا رنگ روایتی طور پر عاشقانہ اور برٹش سرکار سے وفا دارانہ تھا۔ اس میں عصری شعور یا ماحول کی عکاسی نہ تھی۔
بت طناز نے آنکھیں ملاتے ہی نکالا دل
بہت ہی کھچکھچایا پر نہ بن آئی کسی فن تک
کچھ ایسے آ گئے ہیں دن ملخ نے کھیت چاٹے ہیں
دعا کرتے بھی گو لاکھوںبرہمن سے ہیں مومن تک
زمانہ مجھ سے چڑتا ہے تو آنسو ڈبڈباتے ہیں
مری درماندگی پُر خون بہاتی ہے فرنگن تک
گماں ہوتا ہے سمجھے ہیں مجھے وہ کاٹھ کا اُلّو
میں جاتا اب تو کونسل میں ہوں عرضی کرنے لندن تک
تجھے کیا فکر ہے یوسفؔ، اٹھا جلدی قدم ، چل دے
بروسہ تجھ پہ ہے سب کو یہاں سے لارڈ کزن تک
٭٭٭٭