خود ساختہ نجات دہندگان: یہ ڈکٹیٹر کس خاک کا رزق ہوتے ہیں؟

ڈکٹیٹروں کی بھاگم دوڑی

ڈکٹیٹروں کی تصاویر

(یاسر چٹھہ)

پاکستان کی آزادی کے بعد محض ایک عشرہ ہی گزرا کہ ہمارے ملک پر ایک مطلق العنان فیلڈ مارشل نے اپنے آپ کومسلط کردیا۔ پھر رہے نام اللہ کا، بس سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس پر فی الوقت مزید بات نہیں کریں گے کہ روز اخباری کالم اور سائبر دنیا ان پر تبصروں کی پیش کاری میں مصروف ہیں۔ ساتھ ہی کتنے سارے لوگ ہیں جو پھر ان کے آنے کی دہائیاں دیتے نہیں تھکتے۔ ایسے لوگ کون ہوتے ہیں ان کا کسی قدر حال ہمارے اس لنک پر موجود مضمون میں میسر ہے۔

سر دست مضمون یہ ہے جیسا کہ ہمارے ہاں کے آخری نجات دہندہ، جناب جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف آج کل بیرونی علاج کی چادر میں لپٹے ملک سے باہر تشریف لے گئے ہوئے ہیں، اسی طرح باقی دنیا کے ان کے ہم مسلک و ہم منصب حکمران اور نجات دہندگان اپنے ستاروں کے غروب ہوجانے کے بعد کہاں جا کے ٹھہرتے ہیں؟ ان کے قافلہ ہائے انانیت کہاں جا کر رکتے ہیں؟

یہ مضمون اپنی مرکز نگاہ میں طاقت کے سنگھاسنوں پر خود آئین، خود قانون، خود مقننہ خود عدلیہ اور خود ہی جو من چاہے بنے ہوئے وقت کے (نا) خداؤں کے اپنے ملکوں سے دوسری منزلوں پر ہوائی جہازوں کے پروں پر اڑ جانے، یا اپنی انا کے زور پر اڑ جانے کی باقاعدہ سائنسی انداز سے جرنل آف پولیٹکس Journal of Politics میں کچھ عرصہ بعد شائع ہونے والے مضمون سے اخذ ہونے والے چیدہ چیدہ نکات کا خلاصہ ہے۔
یہ مضمون معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں 30 جنوری 2017کو شائع ہونے والے Daniel Krcmaric اور Abel Escribà-Folch کے آرٹیکل سے اخذ شدہ ہے۔ اس آرٹیکل کو اس کی اصل شکل میں پڑھنا بہت سے ایسے احباب کے لئے مثال کا کام بھی کرسکتا ہے جو ہمیں “ایک روزن” پر انتہائی طویل پر گوکہ اپنی حیثیت میں بہت عمدہ مضامین بھجوا دیتے ہیں۔ اس مضمون کی مثال واضح کرنے میں مدد دے سکتی ہے کہ سنجیدہ مضامین کو جب سائبردنیا پر اشاعت کروانا مقصود ہو تو ان میں مختصرا اہم نکات دینا اس فزیکل سپیس کے ایکو سسٹم ecosystem کا تقاضا ہے۔ ویب سائٹس کو کسی صورت، کم از کم ٹیکنالوجی کی موجودہ ترقیاتی سطح پر، پوری طرح کتاب اور تحقیقی مجلے کا نعم البدل نہیں سمجھنا ہوگا۔

اب اپنے موجودہ مرکزی مضمون کی طرف آتے ہیں۔ محققین نے 1946 سے لے کر موجودہ وقت تک اعدادوشمار شمار جمع کئے ہیں۔ ان کے یہ اعدادوشمار ڈکٹیٹروں کی بیرونی ملک منزلوں اور ٹھکانوں کے متعلق اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ان محققین کے اعدادوشمار کا مجموعہ اس بات کو آشکار کرتا ہے کہ تقریبا 52 ایسے ممالک ہیں جو تاریخی طور پر ڈکٹیٹروں کی پسندیدہ آماجگاہیں بنے رہے ہیں۔ تحقیق کے مطابق امریکہ، برطانیہ، روس، ارجنٹینا اور فرانس کو ڈکٹیٹروں کو پناہ فراہم کرنے والے ممالک میں سرکردگی کا درجہ حاصل رہا ہے۔ نقشہ نیچے دیا گیا ہے۔

جلا وطن ڈکٹیٹروں کو پناہ دینے والے ممالک
امریکہ، برطانیہ، روس، ارجنٹینا، اور فرانس میں سے ہر ملک نے 1946 سے اب تک کم از کم پانچ جلا وطن ڈکٹیٹروں کو پناہ دی ہے۔

محققین کے مطابق تاریخ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ جلاوطنی ڈکٹیٹروں کو اپنے ملکوں میں طاقت کے سنگھاسنوں سے چمٹے رہنے کے خلاف ایک موثر حکمت عملی کے انداز کی بنیاد فراہم کرتی رہی ہے۔ اس کی ایک مثال فلپائن کے فرڈیننڈ مارکوس کو امریکہ کی جانب سے ریاست ہوائی میں ایک پرتعیش جلاوطنی فراہم کیا جانا ہے۔ اس جلاوطنی کا کم از کم ایک مثبت فائدہ یہ ہوا کہ فرڈیننڈ مارکوس کی جانب سے 1986 میں منعقدہ شدید دھاندلی زدہ عام انتخابات کے بعد اس کی جانب سے عوامی احتجاج کو ممکنہ طو پر شدید طریقے سے کچلنے سے باز رکھنا تھا۔

عین اسی سال فرانس اور امریکہ کے سفارتکاروں نے ہیٹی Haiti سے تعلق رکھنے والے بدعنوان، کرپٹ اور متشدد رہنما جین کلاڈ ڈوویلئیر Jean-Claude Duvalier کو اقتدار سے ہٹنے پر قائل کیا۔ اس کے بدلے میں کلاڈ ڈوویلئیر کو فرنچ ریوریا French Riveria میں جلاوطنی اختیار کرنے کی سہولت فراہم کی گئی۔

اسی طرح کی کہانیاں یوگنڈا کے رہنما عیدی امین جنہیں سعودی عرب میں جلاوطنی ملی، زائ Zaire ر کے موبوتو سیسی سوکو، جنہیں مراکو میں جلاوطنی اختیار کرائی گئی، لائبیریا کے چارلس ٹیلر جنہیں نائجیریا میں جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ ان کے علاوہ بھی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔

اس تحقیقی مطالعہ کے محققین اپنے شماریاتی تجزیے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ یہ مطلق العنان حکمران، یا ڈکٹیٹر کہاں جا کر جلاوطنی اختیار کرتے ہیں، اس بات کا بہت سے عوامل پر انحصار ہوتا ہے۔ ان عوامل میں ان ڈکٹیٹروں کے کچھ خاص بیرونی ممالک سے تعلقات و روابط کی نوعیت، جغرافیائی قربت اور ممکنہ میزبان ممالک کی مختلف خصوصیات سمیت کئی عوامل ہو سکتے ہیں۔ یہ سب عوامل اپنے اپنے طور پر اہم ہیں۔

محققین ان آثار و قرائن کو بہت دلچسپ قرار دیتے ہیں: اولا، ترقی پذیر ممالک کے ڈکٹیٹروں کی ایک بڑی تعداد اپنے ملک کے پرانے نوآبادیاتی آقاؤں کے پاس جا کر جلا وطن ہونے کو ترجیح دیتے ہیں؛ دوئم، راہ فرار لیتے ہوئے مطلق العنان حکمران جمہوری ریاستوں میں جانے سے عمومی طور پر کتراتے ہیں۔ اس صورتحال سے استثنائی صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی ایسی جمہوریہ ان ڈکٹیٹروں کی اہم سیاسی اتحادی کا درجہ رکھتی ہو۔

اب جب کہ محقیقین کہتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ ان ڈکٹیٹروں کی قصد کرنے کی منازل اور مقامات کون سی جگہیں اور ممالک ہوتے ہیں، ایک سوال یہ اٹھایا جا سکتا ہے کیا اب ان ڈکٹیٹروں کو پردیسوں میں پناہ کے حصول میں کسی قسم کی زیادہ مشکلات کا سامنا تو نہیں؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہوسکتا ہے سرد جنگ کے اختتام نے سپر پاوروں کے لئے دنیا کے مختلف گوشوں سے جلاوطن ہو کر آنے والے ڈکٹیٹروں کو اپنے یہاں پناہ دینے کے ممکنہ ثمرات کو قدرے کم کر دیا ہے۔

لیکن اس تصویر کا ایک اور اہم پہلو اس شکل میں موجود ہے جسے کیتھرین سیکنک Kathryn Sikkink جیسے ماہرین زیر بحث لائے ہیں۔ کیتھرین سیکنک کی رائے میں “عدل و انصاف ایک کی نئی آبشار” نے جنم لیا ہے۔ اس نسبتا نئی پیش رفت کی ذیل میں بہت سارے حکمرانوں، بھلے وہ جہاں کہیں بھی موجود ہوں، کے احتساب اور بازپرس کے دروازے کھلے ہیں۔ کیا عالمی عدالت انصاف International Criminal Court اور سرکردہ ڈکٹیٹروں اور رہنماؤں کی گرفتاریوں کے واقعات نے کسی طور پر دوسرے رہنماؤں کے لئے باہر کے ممالک میں جلاوطنی اختیار کرنے، یا پناہ لینے کی کشش کو کم کیا ہے؟ (اس سلسلے میں آگسٹو پنوشے، چارلس ٹیلر، ہیسین ہیبر Hissene Habre اور دیگر کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے) اس سے کیا مطلب نکلتا ہے۔ کیا اس سے یہ معنی اخذ تو نہیں کئے جا سکتے کہ اب جلا وطنی اختیار کرنے میں پہلے جیسی کشش برقرار نہیں رہی؟

اسی بات سے ہی ایک اہم ذیلی نکتہ اخذ کیا جا سکتا ہے: اگر جلاوطنی اختیار کرنے کی سہولت کی عدم دستیابی ہو تو غیر مقبول اور مسائل میں گھرے مطلق العنان حکمران کسی نا کسی طور پر اقتدار سے ہی چمٹے رہنے کو ترجیح دے سکتے ہیں، اور اپنے میسر مرتبے ک ہی صرف مراعات کا آخری مرکز جانتے سمجھتے رہ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم لیبیا کے معمر قذافی کا کیس سامنے رکھتے ہیں۔ سنہ 2011 میں عالمی عدالت انصاف کی جانب سے معمر قذافی کی گرفتاری کا حکم نامہ جاری ہوا۔ معمر قذافی نے جلاوطنی اختیار کرنے کی نسبت آخری لمحے تک لڑنے مرنے کو اپنے لئے منتخب کیا۔ اسی بات نے واشنگٹن پوسٹ کے جیکسن ڈیہل Jackson Diehl کو اپنے اس نتیجے پر پہنچنے دیا کہ، “اہلیان لیبیا معمر قذافی پر بین الاقوامی مقدمہ چلانے کی وجہ سے خانہ جنگی کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔” کچھ اسی طرح کی بات ماہرعلم سیاسیات باربرا والٹر Barbra Walter نے شام کے بشر الاسد کی ذیل میں بیان کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اسی طرح کی بات بشرالاسد کو تحریک دیتی محسوس ہوتی ہے کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ فرار اور جنگ کا رستہ تو منتخب کررہے ہیں، لیکن کسی جگہ جلاوطنی اختیار کرنے کو قبولنے کو ہر گز تیار نہیں۔

محققین کی تحقیق اس بات کو ثابت کرتی دکھائی دیتی ہے محض معمر قذافی اور بشرالاسد ہی نہیں ہیں جو چھپنے چھپانے کے امکان کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جلاوطنی بقول محققین کے اب معمول کے اختیاری فیصلے سے پرے جاتی نظر آتی ہے۔ نیچے ایک گراف اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کرے گا۔

جلا وطن ڈکٹیٹروں کو پناہ کا گراف
2012 کے بعد 10 فی صد سے بھی کم ڈکٹیٹروں نے بیرون ملک جلاوطنی کا انتخاب کیا۔

کہانی کچھ اور ہے اور نسبتا پیچیدہ ہے۔ ایسا صرف بطور ایک سادہ جملے، کہ جلاوطنی کے اختیار کے سلسلہ کا گراف بس نیچے کی طرف ہے، سے سمیٹنا درست بات نہیں ہوگی۔ مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جلاوطنی اختیار کرنے کے سلسلے کو جو رویہ جاتی نمونہ سامنے آتا نظر آتا ہے اس سے اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ جلاوطنی اختیار کرنے کا فیصلہ کسی حکمران کے ماضی کے احوال و آثار اور رویوں پر بہت حد تک منحصر ہوتا ہے۔

ایسے حکمران جنہیں عدالت سے سزا ملنے کا قوی امکان ہو اور جو وسیع پیمانے پر ظلم و جبر کی کارروائیوں کی بذات خود نگرانی کرتے رہے ہوں ان کے جلاوطنی پر چلے جانے کے امکانات 90 کی دہائی کے بعد سے کم ہوتے نظر آئے ہیں۔ لیکن ایسے حکمران جنہیں قانون کی عدالتوں سے سزا ملنے کے کم امکانات ہوں آج بھی جلاوطن اختیار کرنے کو فوقیت دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی جلا وطنی اختیار کرنے کی نسبت پہلے کے وقتوں جیسی ہی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی مدنظر رہے کہ ایسے حکمران جن کے پاس مواقع اور امکانات کا فقدان ہو، وہ بہ نسبت زیادہ لڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی مثالوں کے طور پر معمر قذافی اور بشرالاسد کے نام پیش کئے جا سکتے ہیں۔

ایسی صورتحال عالمی احتساب و بازپرسی کے نظام کے ایک تاریک پہلو کے طور پر سامنے آتی ہے۔ لیکن اس ناخوشگوار صورتحال کا کم از کم ایک روشن پہلو یہ سامنے آت نظر آتا ہے کہ محدود ہوتے جلاوطنی کے امکانات کے باعث مطلق العنان نفسیات کے ممکنہ حکمرانوں کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کم سے کم کرنے کے لئے ایک فصیل کھڑی ہوتی نظر آتی ہے۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔

2 Comments

  1. خود ساختہ نجات دہندگان اور جلا وطنی کی فضا میں رہنے والے حکمران عموما معاشی طور پر خوش حال ہوتے ہیں …. یہی وجہ ہے کہ انکے پرانے آقا انہیں دوبارہ خوش آمدید کہتے ہیں ….
    لاطینی امریکہ کے جلاوطن البتہ غربت میں مارے گئی … ایسے میں سامراجی کردار کو آپ نے ڈسکس نہی کیا مجھے کچھ تشنگی لگی ….
    مضمون کا موضوع منفرد ہے ۔۔۔۔

  2. بیگ صاحب، تبصرے کے لئے ممنون ہوں۔ یہ مضمون کسی اور علمی مضمون کے نکات کا خلاصہ یا رپورٹ کی نیت سے پیش کیا گیا ہے۔ ان جیسے علمی انداز کے مضامین کی روایت ایسی ہی رہتی ہے کہ وہ اپنے تحقیقی قضیہ جات/ سوالات سے آگے پیچھے نسبتا کم جاتے ہیں۔ اگر اس مضمون کو ایک معروف اکیڈمک جرنل Journal of Politics میں چھپنا ہے تو اسے اکیڈمک روایات کا پاس رکھنے کی خاطرتشنگیاں رہ جانے دینا اکیڈمیشن کی مجبوری بن جاتی ہے۔

Comments are closed.