اسلامی جمعیت طلبہ کے ہاتھوں میں ہو جو تقدیر جامعہ پنجاب

Asif Mehmood
آصف محمود، صاحب مضمون

اسلامی جمعیت طلبہ کے ہاتھوں میں ہو جو تقدیر جامعہ پنجاب: یہودیوں کی جامعات میں فقط “انقلاب، انقلاب”

(آصف محمود)

لاہور کی جامعہ پنجاب میں جو ہوا ہمارے سامنے ہے لیکن یروشلم کے حداش آئن کیرم یونیورسٹی ہاسپٹل اور حیفہ کے رامبام میڈیکل سنٹر میں جو کچھ ہو چکا ہے کیا ہمیں اس کا علم ہے؟

کینسر جیسے موذی مرض کی انہوں پنے ویکسین بنا لی ہے۔اس ویکسین کا کمال یہ ہے کہ اس کا کوئی سائڈ ایفیکٹ نہیں ہے۔یہ صرف کینسر کا باعث بننے والے خلیوں کو تباہ کرے گی۔یروشلم کے حداش آئن کیرم یونیورسٹی ہاسپٹل اور حیفہ کے رامبام میڈیکل سنٹر میں اس ویکسین کے کامیاب تجربات ہو چکے ہیں ۔اسرائیل کے ڈاکٹر لیور کیمرون کا کہنا ہے کہ بلڈ کینسر سمیت نوے فیصد کینسر کا کامیاب علاج اس ویکسین کے ذریعے ممکن ہے.

کم بختوں نے اپنے تعلیمی اداروں کو علم و تحقیق کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ ان جاہلوں کو کوئی سمجھانے والا نہیں کہ تعلیمی ادارے تو نظریات کے قلعے ہوتے ہیں۔یہودی دنیا میں ہیں ہی کتنے۔۔چند لاکھ ؟ان بد بختوں کو احساس ہی نہیں کہ یہودیت خطرے میں ہے اور تعلیمی اداروں سے اگر نظریاتی جوان تیار نہ ہوئے تو یہودیت دم توڑ جائے گی۔کاش کوئی رجل رشید ہوتا جو یہودیوں کو بتاتا جامعات بھی کسی میدان کارزار سے کم نہیں ہوتے اور نظریات کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔

اسلامی جمعیت طلبہ کے ہاتھوں امن یرغمال

اسرائیل دنیا کا واحدملک ہے جو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پر اپنے جی ڈی پی کا تیس فیصد سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔آبادی کے تناسب سے اسرائیل میں سائنسدانوں کی تعداد دنیا بھر کے تناسب سے دس گنا زیادہ ہے۔بی بی سی کی 14اکتوبر 2012کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکنالوجی کا علم رکھنے والا ملک اسرائیل ہے۔تل ابیب اس وقت دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا رہا ہے۔نیوز ویک کا کہنا ہے تل ابیب کا شمار دنیا کے دس بڑے سائنسی مراکز میں ہوتا ہے۔گوگل کے چیئر مین ایرک شمریت کا کہنا ہے کہ اسرائیل امریکہ کے بعد دنیا کا سب سے بڑا ہائی ٹیک سنٹر ہے۔

اسرائیل چونکہ صحرا پر مشتمل ہے اس لیے اسے توانائی اور پانی کے بحران کا سامنا رہا۔اس نے ہماری طرح دنیا کے آ گے دست سوال دراز نہیں کیا بلکہ اپنی خوشیاں خود تلاش کیں۔بجلی کے بحران کا حل اس نے سولر واٹر ہیٹر کی صورت میں ڈھونڈا۔آج اسرائیل کی پچھتر فی صد آبادی یہ ہیٹر استعمال کر رہی ہے اور دنیا بھر میں یہ ہیٹرز استعمال ہو رہے ہیں۔اسرائیل میں پینتیس کمپنیاں یہ ہیٹر تیار کر کے دنیا کو فروخت کر رہی ہیں اور قومی آمدن میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔

صحرا میں دور تک پانی پہنچانا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔پائپ موسم کی حدت سے لیک ہو جاتے تھے۔اسرائیل نے یہ پراجیکٹ ہیبریو یونیورسٹی کے حوالے کیا۔یونیورسٹی میں یہودیوں نے طلبہ تنظیموں کے ذریعے دنیا فتح کرنے کا ملا نصیر الدینی فارمولا لاگو نہیں کیا تھا بلکہ وہاں صرف علمی و تحقیقی کام ہوتا ہے چنانچہ دو سالوں میں یونیورسٹی نے اس کا حل نکال لیا۔اب وہاں پانی کی لیکج کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔انٹر نیشنل واٹر ایسو سی ایشن نے اسرائیل کے اس کامیاب پراجیکٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: اسرائیل نے کمال کر دیا ہے۔صرف اسرائیل کے اس واٹر پراجیکٹ پر آسٹریلیا میں آٹھ پی ایچ ڈی مقالے لکھے جا چکے ہیں۔گیارہ ممالک اسرائیل سے یہ ٹیکنالوجی خرید رہے ہیں۔

صحرا میں زراعت کے منصوبے پر کام کرنا انتہائی کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔بالخصوص ہم پاکستانیوں کے لیے تو یہ ایک ناممکن کام ہے کیونکہ ہم سے ابھی تک چولستان کی ویرانیاں ختم نہیں ہو رہیں۔اسرائیل نے نہ صرف اس چیلنج کو قبول کیا بلکہ اس نے کمال کر دکھایا۔اس نے 1959میں ’ڈرپ اری گیشن‘کا کامیاب تجربہ کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ذرا وقت دیکھیں جب وہ یہ تجربہ کر رہا ہے۔یہ وہ دن تھے جب اسے اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔عرب دنیا ابھی اتنی کمزور نہیں ہوئی تھی اور اسرائیل کے لیے چار سو خطرات تھے کہ ایک طوفان اٹھے گا اور اس ناجائز ریاست کا وجود ختم ہو جائے گا۔لیکن ان حالات میں بھی وہ اپنی زراعت پر توجہ دے رہے تھے اور انقلابی منصوبے بنا رہے تھے۔اس سے آپ اندازہ قائم کر سکتے ہیں کہ وہ کس بلا کے منصوبہ ساز ہیں اور خود پر ان کے اعتماد کا عالم کیا ہے۔

آج عالم یہ ہے کہ ڈرپ اری گیشن سے اسرائیل نے اپنے صحراؤں کو قابل کاشت بنا لیا ہے۔صرف قابل کاشت نہیں بنایا اس کی پیداواری صلاحیتوں نے دنیا بھر کے زرعی ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔دنیا کے زرخیز ترین علاقے میں کاشت ہونے والی فصلوں سے چار گنا زیادہ فصل اسرائیل اب اپنے صحراؤں سے اٹھا رہا ہے ۔یہ اوسط دنیا کے بہترین زرعی میدان رکھنے والے مملک بھی نہیں دے سکے۔اسرائیل کے صحراؤں سے کاشت ہونے والے فصل پاکستان کے زرعی میدانوں سے حاصل ہونے والی فصل سے اوسطا پانچ گنا زیادہ ہے۔اس غیر معمولی کامیابی نے امریکہ اور آسٹریلیا کو مجبور کیا کہ وہ اسرائیل سے رجوع کریں چنانچہ آج امریکہ اور آسٹریلیا اسرائیل سے یہ ٹیکنالوجی اور آلات خرید رہے ہیں۔

سپیس سائنس میں اسرائیل اس وقت دنیا میں دوسرے نمبر پر کھڑا ہے۔پہلا سیٹلائٹ’ اوفیق ون‘اس نے 1988ہی میں بنا لیا تھا۔سوئٹزر لینڈ کا ’ لارج ہائیڈرون کولیڈر سنٹر ‘ دنیا بھر میں ایک مقام رکھتا ہے ۔اس میں کام کرنا سائنسدانوں کے لئے ایک اعزاز ہوتا ہے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس وقت اسرائیل کے پچاس سائنسدان اس ادارے میں کام کر رہے ہیں۔اسرائیل اس وقت دنیا میں ایرو سپیس پراڈکٹ بیچنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔

کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں بھی اسرائیل سب سے آ گے ہے۔انٹل نے ڈوئل کور کور ڈو ٹیکنالوجی حیفہ ریسرچ سینٹر میں متعارف کرائی تھی۔فلیش ڈرائیو آج ہماری زندگی کا اہم جزو بن چکی ہے یہ بھی ایک اسرائیلی نے تیار کی تھی۔اس کا نام ڈوو موون تھا۔

بریسٹ کینسر کا علاج اسرائیل نے متعارف کروایا تھا۔دنیا بھر میں جتنی ادویات تیار ہو رہی ہیں،اسرائیل اس میں سرفہرست ہے۔اسرائیل کی ٹیوا فارما سوٹیکل دنیا میں سب سے زیادہ ادویات تیار کر رہی ہے.

یروشلم پوسٹ نے چند سال قبل فخر سے یہ دعوی کیا :’’ ہم چنے ہوئے لوگ ہیں‘‘۔اخبار کا کہنا تھا جن شعبوں میں ہم دوسرے نمبر ہیں وہاں امریکہ اس لیے پہلے نمبر پر ہے کہ امریکہ میں مقیم یہودی اس کی سائنسی تحقیق کو آ گے بڑھا رہے ہیں۔گویا امریکہ کی سائنسی ترقی بھی یہودیوں کی مرہون منت ہے۔

لیکن صاحب اسرائیل کی یہ ساری ترقی کس کام کی۔اس کی یونیورسٹیوں کے طالب علموں کی تو فکری سمت ہی درست نہیں ۔ ان طلباء کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی زبان ان کا کلچر ان کی قوم اور ان کا دین خطرے میں ہے اور وہ یونیورسٹیوں میں صرف علم و تحقیق میں لگے ہوئے ہیں۔حالانکہ انہیں زبان رنگ قومیت علاقے اور دین کی بنیادپر باہم دست و گریبان ہونا چاہیے تھا. روز دنگا فساد کرنا چاہیے تھا. روز سر پھٹول ہونی چاہیے تھی.۔یہودیوں کی معاشی سمجھ بوجھ کی دنیا مثال دیتی ہے لیکن حالت یہ ہے کہ اسرائیل کے سیاست دونوں کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ سیاست کا سستا اور کارآمد ایندھن یونیورسٹیوں سے ملتا ہے۔

اب آپ ہی بتائیے کیا اسرائیل کی تباہی نوشتہ دیوار نہیں۔
کہاں اسرائیل کی جامعات کہاں ہماری جامعات
ہے کوئی ہم سا؟
انقلاب انقلاب
سرخ انقلاب…. سبز انقلاب…. لسانی انقلاب….. قومی انقلاب….. اسلامی انقلاب…..
انقلاب انقلاب

بشکریہ: جناب آصف محمود

1 Comment

  1. اچھا اب پتا چلا کہ پاکستان کی سائنسی ترقی نہ کرنے کی وجہ جمعیت ہے ۔ کیا تحقیق ہے۔ بد دیانتی اور تعصب کی عینک اتار کر بھی لکھیں۔

Comments are closed.