قصہ چناب و جہلم کی مہمان نوازی کا

قصہ چناب و جہلم کی مہمان نوازی کا

قصہ چناب و جہلم کی مہمان نوازی کا

از، اظہار حمید بلوچ

میرا تعلق ضلع واشک بلوچستان سے ہے اور میں بی ایس سوشیالوجی پنجاب یونیورسٹی سے کر رہاہوں۔ پنجاب یونیورسٹی میں اکثر اٹھنا بیھٹنا بلوچ اور پٹھانوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ بہت کم باقی لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا۔ یہاں پنجاب آئے ہوئے مجھے پانچ سال ہوگئے۔ میں اکثر اپنے کاموں میں مصروف رہتاتھا، کہیں بھی گھومنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ ہاں ایک بات یہ بھی ہے کہ مجھے گھومنے کا کبھی شوق بھی نہیں رہا۔ میرے دماغ میں بس ایک چیز بیھٹی تھی کہ وہاں جاؤں گا جہاں سے میں اپنے لوگوں کے لیے کچھ کر سکوں۔ قوم کی خدمت کا بڑا جذبہ تھا۔ بس ہمیشہ سوچتا کہ کہیں نہ کہیں سے اپنے لوگوں کے لیے کچھ کام کرسکوں۔

خیر باتیں بہت ہیں لیکن جس حوالے سے میں لکھنا چاہتاتھا، اب اسی نقطے پہ آتا ہوں۔ میں پانچ سال میں ایک دفعہ اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ روہتاس نمک کی کان پر گیا تھا لیکن وہاں ہماری کسی سے بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ بس گھوم پھر کر واپس آئے۔ جب پنجاب یونیورسٹی میں ہنگامہ آرائی ہوئی تو اس کے بعد میرا دل کبھی بھی نہیں لگتا تھا کہ میں یونیورسٹی میں رہوں۔ ہروقت ایک بے چینی سی ہوتی تھی۔ میں نے دوستوں سے مل کہ ایک پروگرام بنایا کہ کہیں جائیں گے تو دماغ بھی تروتازہ ہوگا۔ پروگرام بنا تو میں نے گجرات کے دوستون سے حال حوال کیا کہ ہم آ رہے ہیں تو انہوں نے کہا ہمارا بھی ایک پروگرام ہے، آپ آ جائیں۔

بہرحال میں نے دوستوں کو بتایا تو ان میں سے اسرار، ہیردین اور قاسم تیار ہوئے۔ گجرات تک ہم نے موٹرسائیکل پر سفرکیا۔ پروگرام میں شرکت کی۔ پروگرام کے بعد مجھے دریا دیکھنے کا بہت شوق تھا تو ہم دریائے چناب گئے۔ کشتی پہ سواری کی اس کے بعد ہم جب جوس پی رہے تھے تو دریائے جہلم مجھے یاد آیا۔ میں نے کہا جہلم جانا ہے تو دوستوں میں احسان کھیتران نے جو گجرات یونیورسٹی کا طالب علم اور بلوچ کونسل کا سابق چیئرمین بھی ہے، نے کہا میرا ایک دوست ہے پنجابی میں اس کو فون کروں گا۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ جب فون کیا تو احسان نے کہا وہ میرا ہمارے لیے انتظام کر رہا ہے۔

خیر ہم روانہ ہوئے تو میرے ذہن میں ایک بات گھوم رہی تھی کہ کیسے لوگ ہوں گے، پنجابی ہے، بازار میں آ کر سلام دے کر ہمیں رخصت کرے گا… جب ہم جہلم پہنچے تو میں نے دوستوں سے کہا کہ اب دریائے جہلم کی سیر کریں گے۔ ہم ویسے بھی دریا دیکھنے آئے ہیں۔ جب ہم دریا کے پاس پہنچے تو ایک بزرگ کشتی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ احسان نے اس سے بات کی کہ ہمارے بلوچستان سے آئے دوست بوٹنگ کرنا چاہتے ہیں تو رعایت کرو۔ اس نے بہت پیار سے بات کی اور ہمیں بہت عزت دی، رعایت بھی کی۔

جب بوٹنگ سے واپس آئے تو دوسرے دوستوں کو بھی جانا تھا لیکن احسان نے کہا میرا دوست انتظار کر رہا ہے۔ میں اس کے دوست کو نہیں جانتا تھا، لیکن مجھے بہت غصہ آیا مگر بتا نہ سکا کیوں کہ ہمارے ذہن میں جو بچپن ایک بات پنجاب کے حوالے سے بٹھائی گئی تھی، بس وہی بات گھوم رہی تھی اور وہ بات لاہوریوں نے بہت جگہوں پر سچ ثابت بھی کی تھا. میں ان کو بھی لاہوری جیسا سمجھ رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔

ہم جب جہلم شہر پہنچے تو احسان نے اپنے دوست کو فون کیا۔ ہمیں پتہ معلوم نہیں تھا۔ اس کے دوست نے کہا یہاں آس پاس کسی کو موبائل دو میں اس کو بتاتا ہوں، وہ آپ لوگوں کو سمجھائے گا۔ ایک بزرگ روڈ پر کھڑا کسی سواری کے انتظار میں تھا۔ جب احسان نے اس کو فون دیا تو وہ ایک دوسرے سے بات کرتے کرتے اپنا تعارف بھی کروا گئے۔ وہ ایک دوسرے کو جانتے بھی تھے۔ فون منقطع کر کے بزرگ نے ہمیں بڑی محبت سے راستہ بتایا اور معذرت کی کہ میں تو پنڈی جا رہا ہوں ورنہ میں آپ لوگوں کو اس کے گھر پہنچا دیتا۔ ہم بزرگ کے بتائے ہوئے پتے پہ روانے ہوئے۔

دوست کا گھر جہلم شہر سے پندرہ کلومیٹر دورتھا۔ ہم جب نزدیک پہنچے تو احسان کے دوست نے موٹرسائیکل پر کسی کوہمارے استقبال کے لیے بھیجا تھا تاکہ ہمیں گھر ڈھونڈنے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ ہم جب اس دوست کےگھر پہنچے تو وہ ایک گاؤں تھا۔ سب چارپائی پہ باہر میدان میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے جب ہمیں دیکھا تو ہمارے لئے اٹھ کر آئے، سلام کیا۔ ہم گیارہ دوست تھے۔ دو گاڑی میں تھے، دو موٹرسائیکل پر ہمارے ساتھ آئے تھے۔

سلام کرنے کے جب چارپائی پہ بیٹھ گئے تو سب کے چہرے پہ ایک خوشی کی لہر تھی۔ وہ بہت خوش تھے۔ میں حیران تھا یہ کیا ہو رہا ہے۔ احسان نے اپنے دوست کا تعارف کرایا۔ ہم سب نے اپنا تعارف کرایا۔ ہم میں چیئرمین بلوچ کونسل گجرات احسان اور باقی دوست تھے۔ احسان نے اپنے دوست کا نام صدام بتایا۔ صدام نے پھر اپنے پاس بیٹھے لوگوں کا تعارف کرایا۔ ان میں ایک دو اس کے رشتہ دار تھے، باقی اس کے ہمسایہ تھے۔ صدام کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ تھی اور کہہ رہا تھا کہ میں نے اپنے ہمسایوں کو بلایا ہے کہ ہمارے گھر آج بلوچستان سے مہمان آ رہے ہیں۔ صدام نے کہا اب تو رات جتنے لوگوں سے میں ملا تھا سب کو بتایا تھا۔

خیر محفل گرم ہوئی۔ ساتھ ساتھ ان کے ہمسائے آ رہے تھے اور جا رہے تھے۔ وہ بالکل ہمارے جیسے تھے۔ ان کا رہن سہن، پیار سے ملنا، سب کچھ ہمارے جیسا تھا۔ بس صرف زبان میں فرق تھا کہ ہم ان کی زبان نہیں سمجھ پا رہےتھے۔ پہلے ہمیں بوتل پلائی گئی، پھر کھانے کا وقت ہوا تو ہم کمرے میں کھانا کھانے گئے۔ طرح طرح کے پنجابی کھانے… اس کے ہمسایے بھی ہمارے کھانے میں شامل تھے۔

گپ شپ بہت لمبی چلی۔ بلوچوں کی طرح صدام کے ساتھ ایک بزرگ بیٹھا تھا جس کے حال حوال نے جو محبت دی، وہ میں مرتے دم تک بھی نہیں بھولوں گا۔ پنجابی لوگوں کے حوالے سے جو بھی باتیں ذہن میں تھیں وہ ساری غلط ثابت ہوئیں۔ انہوں نے ہمیں اپنی دی ہوئی محبت کا قرض دار بنایا۔ بس ایک ہی بات میں ذہن میں گھوم رہی تھی کہ یہ نفرتیں ہم میں نہیں، یہ امیر طبقہ نے اپنے آپ کو بنانے اور ہمیں تباہ کرنے کے لیے پیدا کی ہیں۔

صدام نے آخر میں بہت منت کی کہ آپ لوگ بیٹھو صبح گاؤں والے آ ئیں گے۔ آپ لوگوں سے مل لیں گے لیکن دوستوں کی مجبوری تھی کہ ہمیں ان کو خداحافظ کہنا تھا۔ چائے پینے کے بعد صرف ہمیں اس شرط پر صدام نے خداحافظ کہا کہ ہم واپس آئیں گے، دو دن صدام کے ساتھ رہیں گے اور صدام ہمیں گھڑ سواری بھی کرائے گا۔ صدام نے واپسی پہ اپنے دوست عمران کے ساتھ ہمیں سڑک تک پہنچایا اور ایک بار پھر ہم سے وعدہ لیا کہ ہم ضرور واپس اس کے پاس جائیں گے۔

لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ پنجاب کے اندر بھی ہمارے ہمدرد موجود ہیں۔ دوریوں اور نفرتوں کو اب ختم کرنا ہے۔ اپنے لوگوں سے جب تک ہم نہ مل لیں گے تو ہم ایک دوسرے کو نہیں سمجھ پائیں گے۔

پہلا حصہ: واشک سے لاہور تک


Courtesy: haalhawal.com