ہمارے تین اسٹریٹجک اتحادی : امریکا، چین، سعودی عرب

ایک روزن لکھاری
سید کاشف رضا

ہمارے تین اسٹریٹجک اتحادی : امریکا، چین، سعودی عرب

(سید کاشف رضا)

پچھلے ستر برسوں کے دوران پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ہمارے اسٹریٹجک اتحادی صرف تین ملک رہے ہیں: امریکا، چین اور سعودی عرب۔ چین سے تعلقات کے بارے میں ہمارے معاشرے میں ایک وسیع تر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ باقی دو اسٹریٹجک اتحادیوں سے تعلقات کے بارے میں اختلاف موجود ہے۔
امریکا ہمارا سب سے پرانا اسٹریٹجک اتحادی رہا ہے۔ ہم سرد جنگ کے زمانے میں واضح طور پر مغربی دنیا کے ساتھ تھے اور سیٹو اور سینٹو جیسے اہم معاہدوں میں شامل تھے۔ امریکا مغربی جمہوریت ، لبرل ازم اور انسان کی حریت فکر کی روایت کا سب سے طاقت ور نمایندہ بھی تھا اور پاکستان بنانے والی قیادت بہ شمول قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کا نظریاتی جھکاؤ بھی اسی جانب تھا۔ اس لیے سوویت یونین کی بہ نسبت امریکا ہمارا فطری اتحادی تھا۔

اس قیادت نے پاکستان اس نظریے کی بنیاد پر بنایا تھا کہ برصغیر میں ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں اور ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے تہذیبی تحفظ کے لیے ایک الگ ملک کی ضرورت ہے۔ ایک الگ ملک کے قیام سے یہ تہذیبی ضرورت جب پوری ہو گئی تھی تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ ملک کی بانی قیادت اپنے ذاتی رجحانات کے تحت پوری طرح مغربی جمہوریت، لبرل ازم اور حریت فکر کی روایت پر عمل پیرا ہو جاتی، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ امریکا اور مغرب ہمارے لیے فکر کے بجائے صرف اسلحے کی وصولی کا ذریعہ بن کر رہ گئے۔ اس پر امریکا اور مغرب کی حکومتوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔

ہمارے تین اسٹریٹجک اتحادی : امریکا، چین، سعودی عرب

امریکا کو جب کوئی اسٹریٹجک ضرورت پیش آئی اس نے پاکستان کو بھاڑے کے ٹٹو کے طور پر استعمال کیا۔ ایوب، یحییٰ، ضیاء اور پرویز مشرف کی فوجی حکومتوں میں بھاڑے کا یہ ٹٹو صرف ایک فون کال پر کام کر دیا کرتا تھا اس لیے ہماری فوجی حکومتیں امریکا کو زیادہ پسند رہیں۔ امریکا اور مغرب میں رائج جمہوریت، لبرل ازم اور حریت فکر کی روایات پاکستان میں نہ پنپ سکیں۔ مجھے اعتراض امریکا کے اسٹریٹجک اتحادی ہونے پر نہیں، اس پر ہے کہ ہم نے اپنے ملک کو ایک جدید ملک بنانے میں امریکا سے خاطر خواہ مدد نہیں لی ۔ ہم نے اس سے صرف اسلحے کی ڈیلنگ کی اور ہماری حکومتیں، خصوصاً ہمارے فوجی حکمران ، اس کے لیے بھاڑے کے ٹٹو کا کام کرتے رہے۔ اور امریکا کا رویہ بھی اس سلسلے میں کچھ یوں رہا کہ:

ع: دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر

آج پاکستان کے بجائے امریکا کا فطری اتحادی بھارت ہے تو اس کی وجہ وہ آئین، طرز حکومت اور طرز سیاست ہے جو آزادی کے بعد بھارت نے اپنایا۔
پاکستان کا دوسرا اسٹریٹجک اتحادی چین رہا ہے اور شاید پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی کام یابی بھی چین ہی ہے۔ جب بھارت چین کے ساتھ اپنے سرحدی معاملات طے نہیں کر پا رہا تھا تو پاکستان نے چین کے ساتھ ایک سرحدی معاہدہ کر لیا۔ اس کے بعد اپنے پہلے اسٹریٹجک اتحادی امریکا کی چین سے دوستی بھی کرا دی۔ یہ دوستی چونکہ یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے کرائی تھی اس لیے اس کے صلے میں مشرقی پاکستان کے مسئلے میں کچھ حاصل نہ کیا جا سکا۔ چین کی اس دوستی کی وجہ سے پاکستان کو خطے میں ایک مخاصم بھارت کے مقابلے میں ایک لیوریج حاصل ہو گیا۔

اب اس دوستی کا نتیجہ عظیم الشان ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں پاکستان کی شراکت کی صورت میں نکلا ہے جس کے نتیجے میں چین بھارت کے دائیں بائیں دو بڑی اقتصادی شاہراہیں بنا کر اپنی عالمی تجارت میں بھارتی سرزمین یا سمندر کے استعمال سے بڑی حد تک مستغنی ہو جائے گا۔ لیکن کیا چین ہمارے معاشرے کی پیش رفت میں کوئی مدد دے سکتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔ چین خود مغربی ٹیکنالوجی ہی کا نقال ہے۔ اوریجنل فکر کے سوتے اب بھی یورپ اور امریکا ہی سے پھوٹتے ہیں جن سے ہم نے بیر پالا ہوا ہے۔ چین کو پاکستان میں جمہوریت اور سول سوسائٹی کے فروغ سے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔ چینی زبان ہمارے معاشرے کے لیے مکمل طور پر اجنبی ہے۔ چین نے شہری تعلقات کے فروغ کے لیے دنیامیں اس سے بھی کم کوشش کی ہے جتنی اس کے پڑوس کا رقیب جاپان کرتا رہا ہے۔

ہمارے تین اسٹریٹجک اتحادی : امریکا، چین، سعودی عرب

پاکستان میں ایک چینی اخبار شروع ہو چکا ہے جس کے ایک عہدے دار کے مطابق پاکستان میں چار لاکھ چینی موجود ہیں۔ پاکستانی معیشت فوجی ادوار میں مغرب کی امداد کے طفیل ابھرتی اور اس کے بعد ڈوبتی رہی ہے۔ ایسے میں چین کی مدد سے سی پیک بھی نہ ہو تو ہمارے پاس اپنا معاشی جمود توڑنے کے لیے کوئی متبادل بھی موجود نہیں۔

یہ بھی ملاحظہ کیجئے: قطر سعودی عرب تنازع اور پاکستانی

سعودی عرب ہمارا تیسرا اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔ جب ایٹمی تجربات کے بعد ہماری معاشی مشکلات بڑھیں تو سعودی عرب نے ہمیں مفت تیل فراہم کیا۔ سعودی عرب کے پاس ایک ایسا چیک بک موجود ہے جس کے استعمال کے لیے اسے کسی قانون سے کچھ پوچھنا نہیں پڑتا۔ اسی لیے ریمنڈ ڈیوس امریکا کو واپس چاہیے ہوتا ہے تو اس کے لیے پیسہ سعودی چیک سے آتا ہے۔ ہمارے ایک منتخب وزیراعظم کو ایک سابق منتخب وزیراعظم جیسے انجام سے بچانے کے لیے انھیں اپنے ہاں مہمان بنا کر لے گیا۔ جب افغانستان میں طالبان حکومت کو کوئی ملک تسلیم نہیں کرتا تھا تو پاکستان کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اسے تسلیم کرتے تھے۔ حج اور عمرہ سعودی معیشت کا اہم عنصر ہیں اور غیر ملکی سیاحت کے لیے پاکستانی ریاست اور عوام کی اولین پسند بھی۔ سعودی عرب کو جس سستی لیبر کی ضرورت پڑتی ہے وہ پاکستان سے ملتی ہے۔ سعودی عرب کو اپنے تحفظ کے جو خدشات لاحق ہیں ان کے لیے بھی وہ پاکستانی فوج کی طرف دیکھتا ہے۔ ایسے میں جب بھی ایران اور سعودی عرب کا سوال آئے گا، تو ہماری ریاست لامحالہ سعودی عرب کی طرف ہی دیکھے گی۔

ہمارے تین اسٹریٹجک اتحادی : امریکا، چین، سعودی عرب

سعودی عرب میں صاف صاف بادشاہت قائم ہے جو نہ صرف خطے میں دیگر بادشاہتوں کے تحفظ میں مددگار ہے بلکہ جس نے مصر میں ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں بھی ایک فوجی آمریت کو مضبوط کیا ہے۔ ایران میں ایک کنٹرولڈ جمہوریت جو وہاں کی ڈیپ اسٹیٹ کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ ایران اپنے وسائل اپنے ملک پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے دائیں بائیں دیگر ملکوں میں اپنی حامی حکومتوں کی مدد پر صرف کر رہا ہے، جو خود اس کی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے تین اسٹریٹجک اتحادیوں میں سے یہ سعودی عرب ہے جس کی فکری قبولیت ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارا ملک مذہبی دہشت گردی کے ایک منحوس چکر میں پھنسا ہوا ہے۔

اپنی مذہبی انتہاپسندی کو ایران نے بھی ایکسپورٹ کیا لیکن پاکستان میں ساٹھ ہزار افراد کی جان جس آئیڈیالوجی نے لی وہ ایران سے نہیں، سعودی عرب سے ایکسپورٹ ہوئی تھی۔ اب ہم مذہبی دہشت گردی سے نکلنے کے خواہش مند ہیں لیکن سعودی عرب کی اسٹریٹجک دوستی ترک بھی نہیں کر سکتے اور یہ سعودی عرب خود امریکا سے اسٹریٹجک تعلقات قائم کر چکا ہے۔

آخری ایک پیراگراف ان تین اسٹریٹجک دوستیوں سے متعلق خواہشات کے بارے میں

راقم کی خواہش ہے کہ ہم مغرب اور امریکا کی جمہوریت، سیکولرازم اور حریت فکر کی روایت کو اپنائیں تاکہ ہم مغرب اور امریکا کے فطری اتحادی بن سکیں۔یہ امریکی غلامی کی وکالت نہیں، کیونکہ امریکا کی غلامی تو پاکستان میں ان حکومتوں نے زیادہ کی جو مذکورہ تین مغربی روایات کے منکر تھے۔ اگر ہم ایک توانا جمہوریت قائم کر کے اپنے ملک کو سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھا سکے تو امریکا ہمیں ایک فون کال پر بھاڑے کا ٹٹو بنانے کے بجائے ہم سے احترام کے ساتھ بات کرے گا۔ چین کے ساتھ سی پیک اور اوبور فی الحال ٹھیک ہے، لیکن دو معاملات پر نظر رکھنا ہو گی۔ ایک تو اس بات پر کہ پاکستان میں چینی لیبر کا اتنا ہجوم نہ ہو جائے کہ ہمارے مزدوروں کے لیے جگہ ہی نہ بچے یا ہمارے کسی کم آبادی والے خطے میں آبادی کی ہیئت تبدیل ہو جانے کا خدشہ پیدا ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ چین ہمارا خام مال خام حالت ہی میں چین لے جانا نہ شروع کر دے۔ سعودی عرب کو اپنا اسٹریٹجک اتحادی برقرار رکھتے ہوئے اس کی فرقہ وارانہ لڑائیوں اور عزائم سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کرنا ہو گی۔
ان تینوں کاموں پر بہ یک وقت پیش رفت ایک ہی صورت میں ہو سکتی ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت برقرار رہے اور منتخب قیادت ہی معاملات کو حل کرے۔ خارجہ پالیسی کے معاملات کو سایوں سے نکال کر دن کی روشنی میں کھڑا کیا جائے۔ نیز دہشت گردی کا بیانیہ مکمل طور پر ترک کر کے ملک میں حریت فکر کی مغربی روایت کا راستہ کھولا جائے اور اس کی راہ میں حائل پابندیاں ختم کی جائیں۔ سوشل میڈیا پر مختلف آراء پیش کرنے والے کارکنوں پر قدغن سے لگتا ہے کہ پاکستان ابھی اس راستے پر ایک قدم بھی بڑھانے کے لیے آمادہ نہیں۔

About سیّد کاشف رضا 26 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔