بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی میں وفاق کا کردار

بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی

بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی میں وفاق کا کردار

(امانت ٹالپر)

مجھے یاد ہے کہ 2013 میں پاکستان کے مشہور اداروں میں سے ایک کومسیٹس یونیورسٹی کو خیرباد کہہ کر جب میں نے معلوم نہیں دل و دماغ میں سے کس کے کہنے پہ آئی ٹی یونیورسٹی شالکوٹ کا انتخاب کیا تو فیملی ممبرز اور چند دوستوں کے سوا باقی سب نے مجھے دنیا کا احمق ترین انسان قرار دے دیا تھا کہ اسلام آباد چھوڑ کر بلوچستان کے ایک ادارے میں گریجویشن کرنا احمقانہ فیصلے سے زیادہ کچھ نہیں اور بتاتا چلوں کہ کومسیٹس وہ ادارہ ہے جس کا سالانہ بجٹ میرے مظلوم بلوچستان کے تمام تعلیمی نظام کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ گو کہ وہ دوست کہیں نہ کہیں مجھ سے اپنی وفاداری کا اظہار کر رہے تھے لیکن بلوچستان کے تعلیمی نظام سے جڑنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ ان کا مجھے روکنا کن عوامل کی بنیاد پہ تھا، جو ان کے ذہنوں میں نقوش تھے۔
خطہ تو کہیں دور پڑا ہے لیکن لفظ بلوچستان آنکھوں سے گزرتا ہے تو کچھ نظر آئے نہ آئے، نقل کر کے امتحان کیسے پاس کرنا ہے، یہ سب کو نظر آ جاتا ہے۔
بھائی میٹرک کرنی ہے، ایف اے یا پھر ہو بی اے، بلوچستان سب سے عمدہ جگہ ہے نام نہاد ڈگری کے حصول کے لیے۔
اور ہاں ڈومیسائل لوکل بنوا کر پھر اسی مظلوم بلوچستان کی بربادی میں استاد بن کر اپنا حصہ کیسے ملانا ہے، یہ بھی اکثر پنجاب کے لوگ جانتے ہیں اور اس وقت شاید ان کو بلوچستان شفیق و مہربان ممتا کی صورت میں دکھتا ہے۔ بعد میں جن کے عوضی و کرپٹ کلرک بابو لوگ انہی اساتذہ کرام کو حاضری دینے کی زحمت ہی نہیں دیتے لیکن افسوس اس مقام پہ ہوتا ہے کہ جب یہی اساتذہ کرام پنجاب میں حقے کا کش لگا کہ کہتے ہیں جی بلوچستان میں تو سردار تعلیم نہیں چھوڑتے اور لوگ وہاں کے تو جاہل ہی جاہل ہیں۔

مجھے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ بلوچستان اور سندھ میں ہر مسئلے کا اسٹیبلشمنٹ کے پاس ساٹھ سالوں سے ایک ہی جواب کیوں ہوتا ہے کہ جی آپ کے سردار اور  وڈیرے آپ لوگوں کو شعور میں ہی نہیں دیکھنا چاہتے۔

میرے چھوٹے سے دماغ میں بلوچستان اور پنجاب کے تعلیمی نظام کا موازنہ یوں ہوتا گیا کہ وہ پنجاب جہاں میٹرک کے پیپر میں بھی نقل کرتے آپ پکڑے جاؤ تو 3 سال کے لیے کسی امتحان میں آپ بیٹھ ہی نہیں سکتے لیکن بلوچستان اور سندھ میں اگر نقل نہیں تو سمجھ لیں تین سال مسلسل ناکامی کا منہ دیکھنا ہی ہے آپ کو۔

آخر کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کیوں ایسا ہو رہا ہے اس بلوچستان میں جہاں ماورائے عدالت قتل، مسخ شدہ لاشوں کا گرنا استحصالی طاقتوں کی طرف سے جبری گمشدگیوں سے ہٹ کر بھی ایک یہ مسئلہ سینہ تان کر بلوچ قوم کے سامنے کھڑا ہے۔ جس کی میرے نزدیک یہاں کے لوگوں کو ہیروئن کی طرح عادت دی گئی۔ جسے ہم نے شاید چاہتے یا نہ چاہتے قبول کر ہی لیا، لیکن بحیثیت فرد ہمارے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی کہ نقل جیسا ناسور ہماری شخصی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ قومی تشخص کے لیے استحصالی طاقتوں کی طرف سے ایک خطرے سے کم نہیں۔

کبھی ہم نے سوچنے کی کوشش کی ہے کہ ریاست کے دوسرے کسی کونے میں استاد ایک دن چھٹی کرے تو انکوائری کمیٹی بیٹھ جاتی ہے لیکن بلوچستان میں کوئی جو مرضی کرے ریاست کو فرق نہیں پڑتا کیوں؟

اسٹیبلشمنٹ کا جواب: جی سردار آپ کو شعور ہی نہیں دینا چاہتے۔

لیکن آپ پنجاب اور وفاق میں نقل کا تصور بھی نہیں کر سکتے، آخر کیا وجہ ہے؟

بلوچستان میں چند سکول، کالجز ایسے ہیں کہ ان کا بورڈ  فیڈرل ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ؟ کیا وفاق و اسٹیبلیشمنٹ کو بلوچستان میں مرتب کی گئی اپنی تعلیمی پالیسیوں پہ شکوک ہیں جو بلوچستان میں بھی اپنے بورڈ کے ادارے۔

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ بلوچستان کا ایک طالب علم جس بیچارے کو پرائمری سے لے کر گریجویشن تک اس فرسودہ نظام تعلیم سے یہی تربیت ملی ہو کہ امتحان تو نقل کر کے پاس کرنا ہے تو ایسا طالب علم صادق پبلک سکول اور ایچی سن کے فارغ التحصیل سے کیا مقابلہ کرے گا۔

میرے نزدیک ان سب عوامل کے پیچھے ایک گھناؤنی مرتب کردہ سازش ہے جو بلوچستان کے خلاف کئی سالوں سے جاری ہے۔ یہ پالیسی بلوچستان کی رگوں میں جان بوجھ کر پیوست کی گئی ہے۔ کیوں کہ اس ملک میں بیوروکریسی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے لیکن بلوچ قوم کا بیوروکریسی میں شمار آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ایک خاص طبقہ جسے بلوچ نہیں بلوچستان چاہیے، وہ جان بوجھ کر بلوچستان کے تعلیمی نظام میں ایسا ناسور پھیلا چکا ہے کہ بلوچ قوم صرف ان پالیسیوں کے تابع رہے جنہیں وہ مرتب کر کے بلوچ قوم کے حال اور مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔

نیا نظام، نئی بندشیں، اعلان نیا، ہم فقط لشکرِ شاہی کے موافق سوچیں
صاحبِ وقت نے یہ حکم کیا ہے جاری، اپنی نسلوں سے کہو میرے مطابق سوچیں

یہاں نقل کا رجحان اس لیے ہے کیوں کے ریاست کے دوسرے حصوں کے طالب علموں نے سول سروسز میں آ کر ملک خداداد کی بیوروکریسی کا حصہ بننا ہوتا ہے اور باقی رہے بلوچستان کے نقل زدہ بی اے پاس ان بیچاروں نے خاک لاہور والوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس کی واضح دلیل آپ کے سامنے ہے کہ بلوچستان کے بیشتر بلکہ 95 فیصد طالب علم جو نہ جانے بلوچ قوم کی خوش قسمتی یا  بدقسمتی سے کمیشن پاس آفیسرز ہیں، ان کی گریجویشن اور کمیشن کی تیاری یا تو پنجاب کی ہے یا پھر اسلام آباد کی جو ان کی محنت کا نتیجہ ہے یا پھر شاید اس ظلم و ستم کی وجہ جس سے بلوچستان کا ہر شہری گزر رہا ہے اور وہ بیوروکریسی میں خود سمیت اپنی فیملی کا تحفظ دیکھ رہے ہوں، لیکن اسٹیبلشمنٹ جس سے سوال کرنا قانوناً جرم ہے وہ آپ کو ہر مسئلہ کا ایک ہی جواب دیتی ہے کہ آپ کے سردار اور نمائندے آپ کی ترقی کے مخالف ہیں، اور نمائندے بھی وہی جنہیں ہمیشہ بلوچ قوم پر ان کی مرضی کے خلاف مسلط ہی کیا گیا اور جنہیں اسٹیبلشمنٹ نے صرف ،جی سر جی سر ،کہنے کے لیے پالا ہوا ہو۔

یہ مضمون بھی آپ کے ذوق کی نذر ہے: بلوچستان میں خواتین کا بدلتا کردار، از فوزیہ خان

بھائی، باغی نواب بگٹی کو  2006 میں راستے سے ہٹا دیا تھا اور نواب مری بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ باقی رہے عطا اللہ مینگل تو انہوں نے خود ہی نواز شریف کے سامنے شہادت دے دی تھی کہ نوجوان اب ہماری بات نہیں سنتے، لیکن 2006 سے 2017 تک جو آپ نے ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے علاقوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہائی ہیں،  وہی دکھا دیں کہ جن سے بلوچ فیض یاب ہو رہے ہوں۔

سوئی، ڈیرہ بگٹی، اوچ پیر کوہ میں ایک لمبے عرصے سے پاکستان کی مشہور آئل اینڈ گیس کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن کی ایک واضح پالیسی ہے کہ انسانی ضروریات کی بنیادی سہولتیں بشمول تعلیم پر خاصی رقم اسی علاقے کے لیے مختص ہوتی ہے جہاں سے تیل و گیس کے ذخائر نکالے جا رہے ہوں لیکن اس علاقے میں یہ صرف ایک خواب کی مانند ہی ہے، آپ ان سے تعلیم کی کیا توقع رکھیں گے جنہیں 50 سال بعد یاد آیا کہ بھائی جہاں سے گیس نکل رہی ہے، اس علاقے والوں کو تو گیس ہم دے ہی نہیں رہے۔

اختتام پہ میں ڈیلٹا سکولز کی بلوچ قوم کے لیے تعلیمی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جو کامیابی سے نقل کے خلاف اقدامات کر کے اپنی مدد آپ کے تحت بلوچ قوم کے مستقبل کو معیاری تعلیمی روشنی دینے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں جن کے صلہ کا اندازہ حالیہ کمیشن کے کامیاب امیدواروں کی لسٹ سے لگایا جا سکتا ہے اور شاید ان سکولز کو ان کی خدمات کا “صلہ” مل بھی رہا ہے۔


بشکریہ: حال حوال ڈاٹ کام