واشک سے لاہور تک کا سفر

دو حصوں کا حصہ اول

واشک سے لاہور تک کا سفر

واشک سے لاہور تک کا سفر

(اظہار حمید بلوچ)

میرا نام اظہارحمید بلوچ ہے، ضلع واشک بلوچستان سے تعلق ہے. میں نے 2008 میں میٹرک واشک ہائی اسکول سے پاس کیا. میں نے ساتویں جماعت تک واشک ہائی اسکول سے پڑھا پھر ابو نے مجھے بسیمہ جو واشک کی تحصیل ہے، پڑھنے کے لیے بھیجا. بسیمہ پڑھائی کے حوالے سے اس وقت بہت مشہور تھا. نویں کلاس بسیمہ سے پاس کرنے کے بعد واپس واشک چلا گیا. دسویں جماعت کے لیے واشک ہائی اسکول میں داخلہ لیا اورتیاری کے لیے کوئٹہ چلا گیا۔

میں بہت ذہین تھا، کلاس میں ہمیشہ پوزیشن لیتا تھا. ریاضی میں میٹرک تک میں سو میں سے کبھی پچانوے سے کم نمبر نہیں لیے. مجھے اساتذہ کی طرف سے ہمیشہ بہت محبت ملتی تھی کیوں کہ میں بہت محنت کرتا تھا. کوئٹہ میں میں اپنے ابو کے ایک دوست کے گھر میں رہائش پذیر تھا. وہاں اچانک ایک دن میرے پیٹ میں شدید درد شروع ہوا جو دو دن تک رہا. مجھے بی ایم سی ہسپتال میں بہت دفعہ ڈاکٹروں کو دکھایا گیا لیکن کوئی بہتری نہیں آئی. خیر ڈاکٹر کے کہنے پر ٹیسٹ کروائے تو پتہ چلا کہ مجھے کالا یرقان ہے اور آخری اسٹیج ہے. میں بہت پریشان تھا. پڑھائی کے شوق ہی ختم ہو گیا۔

ایک دن مجھے ایک دوست نے کہا کہ ڈاکٹر شربت خان مندوخیل بہت مشہور ڈاکٹر ہے، ان کے پاس چلے جاؤ. میں اپنے سارے ٹیسٹ اٹھا کر اکیلے وہاں گیا. ڈاکٹر کو جب ٹیسٹ دکھائے تو پہلا سوال یہی پوچھا کہ آپ کے ساتھ کوئی ہے، میں نے کہا نہیں.انہوں نے کہا کہ اکیلے نہیں گھوما کرو، آپ کی حالت کبھی بھی خراب ہوسکتی ہے. میں عمر میں اس وقت چھوٹا تھا، موت سے بہت ڈر لگتا تھا. تو میں روتے ہوئے گھر گیا. وہاں سارے پریشان تھے. ابو کو کال کی. انہوں نے خاران بلایا. میں خاران اکیلے روانہ ہوا۔

خاران میں انکل کے گھر گیا. صبح کا وقت تھا، ابو بازار گئے تھے اور انکل ڈیوٹی پہ. گھر والے سارے باہر کام کر رہے تھے. میں کمرے میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک جھٹکا محسوس ہوا. ایسا لگا جیسے جسم میں آگ لگ گئی ہو. اس کے بعد میں جب ہوش میں آیا تو میرا سر ابو کی بانہوں میں تھا اور ہاتھ میں کینولہ لگا ہوا تھا، ڈرپ چل رہا تھا. آنکھیں کھولنے کے بعد سب مجھے بوسہ دینے لگے. مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے. ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ اسے کراچی لے جاؤ لیکن کچھ کہہ رہے تھے نہیں اس کو دم کراؤ، یہ مُلا ہی کا مسئلہ ہے۔

اگلے دن مجھے کراچی لے جایا گیا. وہاں آغا خان میں داخل کرایا. میرے ساتھ میرے انکل اور بڑے بھائی تھے. ابو خضدار سے واپس ہوگئے کیونکہ وہ مجھے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے. پھر دو تین سال تک بستر پر پڑا رہا، ہوش نہیں تھا کہ میں کون ہوں. چھ مہینے تک ابو کے سوا میں کسی کو بھی نہیں پہنچانتا تھا. کبھی کبھی میں ہفتے کے پانچ دن ہوش میں نہیں ہوتا تھا۔

ایک دفعہ ایسا بھی ہوا تھا کہ واشک کے ڈاکٹرون نے مجھے مردہ قرار دیا تھا. جب جسم میں تکلیف ہوتی تھی تو میں اپنے ہونٹوں کو دانتوں سے ایسے کاٹتا تھا کہ میرے منہ میں خون ہی خون ہوتا تھا. بالوں کو اپنے ہاتھوں سے نوچتا تھا. مجھے دس دس بندے بھی قابو نہیں کر سکتے تھے. ایک دفعہ ایسا ہوا کہ جسم میں گرمی اتنی شدید ہوئی کہ برف میرے جسم پہ رکھتے تھے تو برف بھی ہاتھ لگانے کے قابل نہیں ہوتے تھے. یہ دوسال بیماری میں بہت بڑی تکلیف سے گزرا. بہت سے واقعات ہوئے. آخر کار سب بیزار ہوگئے جہاں بھی ملا نام سنتے تھے وہاں ابو مجھے ضرور لے جاتے تھے لیکن کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ کیا ہوا ہے. بس صرف تسلی دے رہے ہوتے تھے۔

کہانی بہت بڑی ہے لیکن مختصر کر کے آگے بڑھتا ہوں. 2010 میں الحمد اللہ اللہ پاک مجھ پر مہربان ہوا اور صحت میں بھی بہتری آئی تو میں نے اپنے فارم ایف ایس سی کے لیے پنجگور بھیجے. کالج سے مجھے فون آیا کہ پری انجینئرنگ لینی ہے یا پری میڈیکل. مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ کیا بلا ہے. میں نے کہا اگر انجینئرنگ لوں تو میں انجینئر بنوں گا. اس نے کہا ہاں، پھر میں خوش ہوا اور داخلہ لے لیا. مجھے لگا کہ میں دو سال کے بعد میں انجینئر بنوں گا، نوکری کروں گا۔

واپس صحت مند ہونے کے بعد کوئٹہ گیا اور وہاں میڈیکل ٹیکنیشن میں داخلہ لیا. داخلہ لیتے ہی بی ایم سی میں کام شروع کیا. چھ مہینے میں اتنا کام سیکھ لیا کہ پرائیویٹ بھی کام مل گیا. سلیم کمپلیکس اور امداد ہسپتال میں کام کرتا تھا. تنخواہ بھی ملنی شروع ہوئی. میں بچپن سے ہی شرارتی تھا جس مریض کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے تو میں اس کو کسی بھی طریقے سے بھگا دیتا تھا. اتوار کے دن او پی ڈی میں ڈیوٹی لگتی تھی کیونکہ میرا کافی تجربہ تھا اور میں مریضوں کا پیسہ نہیں لیتا تھا. ساتھ ساتھ ایف ایس سی بھی چل رہی تھی. 2012 میں ایف ایس سی مکمل ہوئی لیکں میں نے کبھی بھی کلاس نہیں لی تھی. مجھے نہیں پتہ تھا کہ ایف ایس سی کے بعد خضدار میں ایک انجینئرنگ یونیورسٹی ہے، وہاں ٹیسٹ دیتے ہیں۔

بی ایم سی میں ڈیوٹی بھی کی تھی لیکن معلوم نہیں تھا کہ یہاں بھی ایف ایس سی کے بعد آتے ہیں. گھر میں کوئی خاص پڑھا لکھا نہیں تھا کہ گائیڈ کرتا. پورے واشک میں بھی ایسا کوئی نیں تھا کہ گائیڈ کرتا. ایف ایس سی نقل سے پاس کیا. بیماری کی وجہ سے دماغ زیادہ بوجھ برداشت نہیں کرتا تھا. اس لیے پڑھائی سے دور رہا. ابو کی ساری امیدیں ختم ہو گئی تھیں. ابو ہر وقت یہی کہتے تھے کہ آپ سے جو امید تھی اب وہ نہیں رہی. اب تم میڈیکل ٹیکنیشن کر کے آجاؤ، یہاں میڈیکل کھولو اور لوگوں کی خدمت کرو. ہر طرف میرے لیے اندھیرا تھا. میں اتنی تکلیف گزارنے کے بعد بھی مایوس نہیں تھا. مجھے ہر وقت بس یہی محسوس ہوتا تھا کہ میں ضرور کچھ کروں گا. آخرکار زندگی نے کچھ عرصے کے لیے آزمانا بند کر دیا اور خوشیاں جنگ اخبار کے ایک اشتہار سے شروع ہوگئیں. وہ اشتہار پنجاب یونیورسٹی کے داخلے کا تھا۔

پنجاب یونیورسٹی کیسے آیا اور یہاں کون سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، تبدیلی کیسے آئی، انشااللہ اگلے حصے میں بیان کروں گا۔

دوسرا حصہ: قصہ چناب و جہلم کی مہمان نوازی کا


Courtesy: haalhawal.com