انگلینڈ بمقابلہ پاکستان کرکٹ میچ : جھنڈوں پر اٹکی حب الوطنی

جھنڈوں پر اٹکی حب الوطنی

 انگلینڈ بمقابلہ پاکستان کرکٹ میچ : جھنڈوں پر اٹکی حب الوطنی

(عمران مشتاق چوہان)

رواں ہفتے برطانیہ میں پاکستان بمقابلہ انگلینڈ کرکٹ میچ ہوا۔ پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں نے اپنے موجودہ ملک برطانیہ کی بجائے اپنے آبائی وطن پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو پاکستانی پرچم لہرا کر، پاکستانی ٹیم کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے کھل کر سپورٹ کیا۔ پاکستانی ٹیم انگلینڈ کے خلاف میچ جیت گئی۔ تارکین وطن پاکستانیوں نے جوش و جذبے کے ساتھ فتح کا جشن بھی منایا۔ حالانکہ برطانوی شہریت کے لیے اپلائی کرتے وقت انہوں نے برطانیہ سے وفاداری کا حلف دیا ہوا تھا۔

اس سب کے باوجود برطانوی عام انگریزوں یا حکومت برطانیہ نے کسی پاکستانی نژاد برطانوی پر برطانیہ کے خلاف پاکستان کو سپورٹ کرنے پر غداری کا مقدمہ چلایا؟ کسی عیسائی برطانوی عالم نے ان لوگوں پر غداری کا فتوی جاری فرمایا۔؟ بالکل بھی نہیں۔ یہ ہوتی ہے جمہوریت اور اظہار رائے کی مکمل آزادی۔ جو بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت میں نفرت کی نظر ہو چکی ہے۔

اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجئے: کشمیر میں گندی جنگ پر بحث

پاکستان کی سرزمین پر بھارت بمقابلہ پاکستان میچ ہورہا ہو اور کوئی پاکستانی بھارتی ٹیم کو پسند کرنے کی وجہ سے انڈیا کو سپورٹ کر دے، انڈیا کا پرچم لہرا دے یا انڈین ٹیم کے حق میں نعرے لگا دے تو پاکستانی پولیس اور خفیہ ایجنسی تو بعد کی بات ہے عام پاکستانی ہی اسے قتل کرنے پر آجائیں۔ ملک سے غداری کے سرٹیفکیٹ الگ سے ملیں گے۔

بالکل یہی حساب بھارت کا بھی ہے، اگر بھارت کی سرزمین پر کوئی بھارتی شہری پاکستان کی سپورٹ کر دے تو وہ پھر ہسپتال ہی پہنچے گا۔ دیش دروہی کے مقدمے چلیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے شہریوں کے لیے اس میں اخلاق و اظہار رائے کی آزادی کا سبق ہے بشرط یہ کہ کوئی سیکھنے والا ہو۔ عدم برداشت معاشروں کے لیے زہر قاتل ہوتی ہے۔

لہذا قابل احترام ہمسایے پاکستان اور بھارت کے شہریوں سے گزارش ہے کہ برطانیہ سے سبق سیکھتے ہوئے، ریاست جموں و کشمیر کے آزادی پسندوں پر غداری کے فتوے نہ صادر فرمایا کریں، جیسے کہ 1947ء سے پہلے خود بھارت پر برطانیہ کا قبضہ تھا۔ اور پاکستان تو بھارت کو تقسیم کر کے قائم کیا گیا۔ جب کہ ریاست جموں و کشمیر کے لوگ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کی بھی تقسیم بالکل نہیں چاہتے۔

ریاست جموں و کشمیر بھارت یا پاکستان کا قانونی و آئینی حصہ ہر گز نہیں ہے، اس کا فیصلہ ریاستی عوام کی مرضی سے ہونا باقی ہے، جس کا وعدہ بھارت و پاکستان دونوں کی حکومتوں نے 13 اگست 1948ء کو اقوام متحدہ کی قرارداد حق خود ارادیت میں کیا ہوا ہے۔

یہ صرف ریاست کے لوگوں کا ہی حق ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کی بات کریں، بھارت کے ساتھ الحاق کی بات کریں یا پھر اپنے وطن کی انڈیا پاکستان دونوں سے مکمل آزادی کا مطالبہ کریں۔ کسی پاکستانی و بھارتی شہری یا حکومت کے پاس اس طرح کا کوئی قانونی اختیار بالکل بھی نہیں کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں پر اپنی رائے مسلط کریں۔

پاکستان، بھارت اور جموں و کشمیر کی عام عوام غربت، بے روز گاری اور صحت جیسے مسائل سے مر رہی ہے جب کہ اسی عوام کے ٹیکسوں پر عیاشی کرنے والے حکمران طبقات کے اپنے بچے یورپ سمیت دنیا کی اعلی ترین یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں۔ ان کا اپنا پیسہ، کاروبار اور علاج معالجہ بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہی ہوتا ہے۔ ان کی اپنی نسلیں صرف حکمرانی کرنے کے لیے ہی یورپ سے واپس آتی ہیں۔

جب کہ انڈیا اور پاکستان کے حکمران طبقات اور مقبوضہ ریاست کی سری نگر، مظفر آباد اور گلگت کی اسمبلیوں میں بیٹھے انہی پاکستانی و بھارتی حکمرانوں کے کٹھ پتلی حکمران اپنے ووٹرز کو قبائلی، علاقائی، مذہبی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کر کے، نفرتیں پھیلا کر، لوگوں کی توجہ ان کے بنیادی مسائل سے ہٹا کر، خود کھرب پتی بن گئے ہیں۔ جبکہ ووٹر عوام غریب سے غریب ترین ہو رہی ہے۔

پاکستان، بھارت اور ریاست جموں و کشمیر کی غریب عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ جنگوں اور ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کے مقابلے میں نہیں، بلکہ ان خطوں کی ٹیکس دینے والی عوام کی تعلیم، صحت، روزگار اور خوشحالی پر لگایا جائے۔ ان تینوں خطوں بھارت، پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر کے تعلیم یافتہ باشعور نوجوانوں کو اپنے اصل بنیادی مسائل کو سمجھ کر اپنے حقوق کی جنگ بلا تمیز علاقہ، قبیلہ، مذہب و فرقہ لڑنے کی ضرورت ہے۔

امن، سلامتی، ترقی، خوشحالی سب کے لیے۔ بھارتیوں کا بھارت زندہ باد۔ پاکستانیوں کا پاکستان زندہ باد۔ باشندگان ریاست جموں و کشمیر کی ریاست زندہ باد۔جیو اور جینے دو۔