اردو زبان میں گالیوں کے ارتقا کا مختصر تنقیدی جائزہ

اردو زبان میں گالیوں کے ارتقا کا مختصر تنقیدی جائزہ

از، ابو عزام

راقم کا یہ مضمون ‘فیروزالمغلظات’ کے پہلے ایڈیشن میں چھپنے کے لئے تیار ہے۔ آپ قارئین سے تنقید و تبصرے کی گذارش ہے۔

اتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

ہر زبان میں گالیاں ایک منفرد نثری و گفتنی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ کسی کے اہل زبان ہونے کا پتا لگانا ہو تو ان کی گالیوں کا موازنہ کریں ، وہیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ تارکین وطن کی گالیاں ان کے اپنے ملک میں عہد قیام کی نشانی ہوتی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ کسی زبان کو سیکھنا ہو تو اس کے لئے سب سے پہلے اس کی گالیاں سیکھنی چاہئیں۔ اس سیانے نے یہ بات ایک گالی دیتے ہوئے کہی۔

گالیاں دینے کے بھی آداب ہوتے ہیں کہ واقعہ مشہور ہے جو جامعہ کراچی میں ہمارے اردو کے استاد محترم سناتے تھے کہ مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب کے مخالف انہیں‌ خطوط میں‌ گالیاں لکھتے رہتے تھے۔ ایک بار کسی مخالف نے انہیں ماں‌ کی گالی لکھ دی۔ مرزا اسے پڑھ کر ہنسے اور بولے، اس بیوقوف کو گالی دینے کا بھی شعور نہیں ہے۔ بوڑھے اور ادھیڑ عمر شخص کو بیٹی کی گالی دینی چاہیے تاکہ اسے غیرت آئے۔ جوان آدمی کو ہمیشہ جورو کی گالی دو کہ اسے جورو سے بہت لگاؤ ہوتا ہے اور بچے کو ہمیشہ ماں‌ کی گالی دیتے ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ ماں سے مانوس ہوتا ہے۔

غالب کو گالیوں سے خاص لگاو تھا؛ اکثر بول چال میں اس کا التزام رکھتے تھے۔ قبلہ راشد بھائی اس ضمن میں فرماتے ہیں، نقل کفر، کفر نا باشد کہ “خداوند نے انگریزی زبان گالیاں دینے کے لیے بنائی ہے”۔ کہ اردو زبان کی گالی دل پر جا لگتی ہے اور انگریزی میں دی گئی گالی کو ہنسی خوشی مذاق ہی مذاق میں ٹالا جا سکتا ہے۔

ہم اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جہاں گالیاں دینا سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ہماری سب سے بڑی گالی ‘چغد’ یا ‘بھینس کا منہ’ ہوا کرتی تھی جس پر بہت ڈانٹ سننے کوملتی۔ پطرس مرحوم نے اپنے مضمون ‘میں ایک میاں ہوں’ میں ہماری کیفیت سے اتفاق کیا ہے جس پر ہم ان کے بڑے ممنون ہیں۔

گالی کا تہذیب یا بدتہذیبی سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ذخیرہ الفاظ کی طرح یہ بھی ایک زبان کے زندہ ہونے کی نشانی ہوتی ہیں، مثلا اربن ڈکشنری کو ہی لے لیجیے۔ راقم کاماننا ہے کہ اردو کی گالیاں فاعل و مفعول کے بغیر لا معنی ہوتی ہیں، الا یہ کہ یہ امور وضاحت طلب نہ ہوں۔ انگریزی زبان کی بہت سی زود زبان گالیاں اردو میں بلا فاعل بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں، مثلا انگریزی کی ‘ف’ کی گالی اردو میں سراسر بے معنی ہے۔

اسی طرح محرمات کی گالی جو اردو کی گالیوں کی بنیادی اصطلاحات میں سے ہے انگریزی زبان میں نہایت بودی ٹھہرے گی۔ اسی طرح انگریزی کی’ش’ والی گالی اردو میں بچوں کی مخلوط محفل کے رد میں استعمال ہونے والی چڑ، یا حیدر آبادی زبان میں نکمے آدمی کے لیے استعمال ہونے والا لفظ بنے گی اور اس کے لیے بھی فاعل کی موجودگی ضروری ہے، مثلا ‘اجی کیا پاجامہ آدمی ہیں آپ، یہ بلی کا گو لے کر آئے کیا ”اور یہ بالکل پارلیمانی گفت و شنید میں مستعمل ہو سکتی ہے۔

پنجابی زبان کو گالیوں کے حوالے سے بڑا بدنام قرار دیا جاتا ہے، مثلا ہمارے عزیز دوست اطہر الہی جو آج کل ہالینڈ سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، فرماتے ہیں کہ ملتان میں جمعہ کا خطبہ سنا اور پہلی بار اتنی ساری پنجابی زبان بغیر گالی کے سنی تو کانوں پر یقین نہ آیا۔ چٹکی لے کر یقین دلایا گیا کہ خواب نہیں تھا۔

پارلیمانی زبان کا مفروضہ بھی اب پرانا ہوچلا کہ اب جو زبان پارلیمان میں بولی جاتی ہے، اس سے ادارہ گالیوں کی لغت ‘فیروزالمغلظات’ بنانے کا کام لیتاہے۔ ہمارے وزیر قانون کے قانون کے لمبے ہاتھ تو سبھی کو یاد ہیں مگر اس کے علاوہ اب ہمارے معزز ایوانوں میں اس طرح باتیں ہوتی ہیں۔

گالیوں کے آداب کے سلسلے میں عرض کرتے چلیں کہ اردو زبان کی گالیوں کی تین مختلف اصناف ہیں۔ وہ گالیاں جو مہذب محفل میں کچھ جھجھک کے ساتھ دی جاسکتی ہیں مثلا اکبر الہ آبادی کی گالیاں وغیرہ۔ دوسری جو یاروں دوستوں کے ہمراہ دی جاتی ہیں، مثلا بھینس کا منھ؛ اور تیسری قسم مزید شدید، جیسے کسی کو پرویز مشرف یا میر جعفر کہہ دینا، یہ دل آزاری کی بدترین قسم ہے۔

گالیوں کے آداب کے سلسلے میں آبِ گم میں مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں کہ:

“بزرگوار موجودہ الہ دین یعنی رحیم بخش کو عام طور پر الہ دین ہی کہتے تھے۔ البتہ کوئی خاص کام مثلاً پیر دبوانے ہوں یا بے وقت چلم بھروانی ہو یا محض پیار اور شفقت جتانی ہو تو الہ دین میاں کہ کر پکارتے۔ لیکن گالی دینی ہو ۔ تو اصل نام لیکر گالی دیتے تھے۔”

مزید آداب مغلظات کے سلسلے میں مثال سے فرماتے ہیں کہ:

”خلیفہ نے غصے سے بے قابو ہو کر دو مرتبہ اسے“ تیرا دھنی مرے! کی گالی دی تو بشارت سناٹے میں آگئے۔ لیکن سرِ دست وہ گھوڑے کو قابو میں لانا چاہ رہے تھے۔

اور بسا اوقات گالیوں کا استعمال بوقت ضرورت مدعا کے بیان کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے مثلا:

“کوئی جوان عورت مچھلی لینے آتی تو مچھلی والا ڈھا ڈھال کر بلی کوآرزو بھری گالیاں دینے لگتا۔”

گالی کے لیے خاص الفاظ کا استعمال بھی لازم نہیں۔ منٹو کا ٹوڈی بچہ، انگریزی پٹھو وغیرہ سے زیادہ گندی تہذیبی گالی “کھول دو” ہے، جو کہ حالات و واقعات کے تانوں بانوں سے حساسیت کی ہر رمق کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ تہذیبی گالیوں کی مد میں توبۃ النصوح میں ڈپٹی نذیر احمد لکھتے ہیں:

دوسرا ناہنجار، صبح اٹھا اور کبوتر کھول باپ دادے کا نام اچھالنے کو کوٹھے پر چڑھا، پہر سوا پہر دن چڑھے تک کوٹھے پر دھما چوکڑی مچائی، مارے باندھے مدرسے گیا، عصر کے بعد پھر کوٹھا ہے اور کنکوا ہے، شام ہوئی اور شطرنج بچھا۔ ا توار کو مدرسے سے چھٹی ملی تو بٹیریں لڑائیں۔ تیسرے نالائق، بڑے میاں سو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ، محل رنالں، ہمسائے عاجز، اس کو مار اس کو چھیڑ، چاروں طرف ایک تراہ تراہ مچ رہی ہے۔ غرض کچھ اسطرح کے بے سرے بچے ہیں، ناہموار، آوارہ، بے ادب، بے تمیز، بے حیا، بے غیرت، بے ہنر، بد مزاج، بد زبان، بد وضع کہ چند روز سے دیکھ دیکھ کرمیری آنکھوں میں خون اترتا

اور

“لڑ کے گالیاں بہت بکتے ہیں، لڑکیاں کوسنے کثرت سے دیا کرتی ہیں۔ قسم کھانے میں جیسے وہ بیباک ہیں یہ بھی بے دھڑک ہیں۔”

گالیاں دینے پر جھڑکتے ایسے ہیں:

” اس نے بکیں تو جھک مارا اور تم نے زیادہ بکیں تو زیادہ جھک مارا۔”

قدرت اللہ شہاب نے  شہاب نامہ میں ملک امیر محمد کا ذکر کرتے ہوئے ایک دلچسپ واقع رقم کیا ہے. لکھتے ہیں کہ:

چوہدری ظہور الٰہی سیاست کے افق پر نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے فوجی آمر ایوب کے نزدیک ہو گئے۔ پہلے تو نواب نے چوھدری ظہور الٰہی کو موٹی موٹی اور غلیظ گالیاں دیں، اور ساتھ ہی کاغذوں کا ایک پلندہ ایوب کے سامنے رکھ دیا، جو کہ ایک ایس پی نے ابھی ابھی پیش کیا تھا، اور فرمایا کہ حضور ان کاغذات میں اس ۔۔۔۔ **گالی**۔۔۔۔ آدمی کا کچا چٹھا ہے۔ ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ جناب ابھی تو میں نے اپنا شکاری کتا اس پہ نہیں چھوڑا۔’’

وزرا کا یہ وطیرہ تو تبدیل نہیں ہوا، اب تک ہے کہ:

” کسٹم حکام کو خدشہ تھا کہ وزیر موصوف کے بنکاک سے آنے والےمہمانوں کے پاس غیر قانونی سامان ہے۔ اٍسی لیے انہوں نے تلاشی کرنا چاہی تو چوہدری صاحب طیش میں آ کر کسٹم حکام پر برس پڑے۔ انہیں گالیاں دیں اور نوکری سے گو شمالی کا قصیدہ گایا۔ ایئرپورٹ کے کیمروں نے چوہدری صاحب کی تو تکار و دھکم پیل ثبوت کے لیے محفوظ کرلی۔

“اسی وزیر کے خلاف لاہور کے تھانوں میں عملے کو گالیاں و دھمکیاں دینے پر رپٹ درج ہے۔ تھانہ نو لکھا کے انسپکٹر نوید گجر نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر نے ایک ملزم انتظار شاہ کو فوری رہا نہ کرنے کی پاداش میں تھانے کے عملے کو ننگی گالیاں اور نوکری سے برخاست کروانے کی دھمکیاں دیں۔ لچھے دار زبان استعمال کرنے پر پولیس کے اعلٰی افسروں نے وزیر کے خلاف رپٹ درج کرنے کا حکم دیا۔ میڈیا کو نام نہ شائع کرنے پر ایک افسر نے بتایا کہ چوہدری اور ان کے بھائی جرائم پیشہ افراد کی سفارشیں کرتے ہیں اور انکار کی صورت میں جیل کے عملے کو غلیظ گالیاں و سفاکانہ دھمکیاں سننی پڑتی ہیں۔ حسب سابق چوہدری عبدالغفور نے بائیس مئی کو پریس کانفرنس میں تمام الزامات کی تردید کی-“

یہ تو رہی موجودہ بے ادب دنیا میں وزراء کی روش۔ نیاز فتح پوری نے مولانا حالی کے نام ایک خط میں لکھا تھا۔

” مولانا! آپ کے اسلوب بیان میں مجھ وداع جاں چاہتا ہے۔ اگر آپ کی زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو ہل من مزید کہتا رہوں گا۔“

تو لہذا قارئین ہل من مزید کہتے رہیں۔ اگر آپ کو ہمارے اس مضمون سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو ‘فیروز المغلظات’ کا مطالعہ افاقہ دے گا۔ وہ تمام لوگ جنہیں اس مضمون میں حقیقی گالیوں کے فقدان یا شدید کمی پر افسوس ہوا ہے اوراب کسی احتیاج کے تحت ٹھنڈا گوشت پڑھ رہے ہیں، فورا ذہنی معالج سے رجوع کریں یا وزارت قانون میں نوکری کے اشتہارات دیکھیں۔