کہانی منڈی کی بھی خالق ہے، اور خداؤں کی بھی

Yasser Chattha
یاسر چٹھہ

کہانی منڈی کی بھی خالق ہے، اور خداؤں کی بھی

از، یاسر چٹھہ

سو نہ منڈی کو نامیاتی مخلوق جانیے، نہ خداؤں کو… ( کسی حد تک تسلسل سے ہم سے جُڑا قاری لفظوں اور جملوں کے اندر موجود خلاء کو بہت ساری موجودگیاں باور کر سکتا ہے۔ باقی جو شِیلا کی جوانی پر دھمال ڈالتے رہتے ہیں، وہ پَتلی گلی لے لیں…اپنا بھلا، سب کا بھلا…)

کہانی مختلف رنگوں اور ڈھنگوں میں سامنے آتی ہے۔ ‘کہانی آتی’ کی ترکیب برتنا، کہنا کچھ عجب سا مزاج رکھتا ہے۔ کہنا چاہیے کہ کہانی عجب سے طور طریقوں سے سامنے آتی رہی ہے؛ بَل کہ جس جس طور پر سامنے آئی ہے، اب اُنھیں عجب کہنا بھی عجیب لگتا ہے۔ یہ عادت ہے، عادت رہی ہے، عادات رہے گی۔ صرف سنانے والا اور سننے والا کسی عظیم تر واہمے میں ہوتا ہے۔

کہتے ہیں کہ کہانی کا اَکھوا غار میں پھوٹا۔

یہ کس نے کہا تھا؟

لکھنے والے کا نام یاد نہیں ہے۔ پر ایسی بات اس وقت پڑھی تھی، سنی تھی، اور مان لی تھی جب اپنی سمجھ بوجھ، تفہیم و تجذیب کے ان ایّام میں تھا جب لکھا معتبر جانا کرتا تھا۔ جس طرح آج کا کوئی بھی عام اوسط فرد، یا کوئی بھی صحافی کہتا پھرتا ہے کہ یہ وہاں لکھا ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ لکھا کب معتبر ہوتا ہے، لکھا بولے جیسا ہی ہوتا ہے۔ جی، بالکل ایسا ہی ہوتا ہے کہ جیسے کوئی اجرتی گواہ …۔

قدم چلتا ہوں، بَل کہ کئی قدم چلتا ہوں، یا پھر جَست بھرتا ہوں۔

کہانی کی کوکھ اسطورہ کو ملی، یا کہانی اسطورہ کے گھر میں پیدا ہوئی؟ چاہتا ہوں، یہ سوال، ایک سوال ہی رہے: اور بَہ فرضِ صورت اس کو جواب سمجھ لیا جائے تو اس کو پھر جواب سمجھ لیا جائے۔ خود یار لوگوں کے لیے تو ہر سوال، جانے سوال ہے، یا جواب، ہر کسی پر، ہر سوال پر، ہر جواب پر کوئی بھروسا نہیں۔

فی وقت (اور ورائے وقت بھی) تو یہی کہنے کا یارا اور حوصلہ جمع کرتا ہوں کہ یہ کہانی ہی ہے جس نے لوگوں کے ان ایمانوں کو بھی اپنے جھولی میں ڈال کر اپنا دودھ پلایا جن کے لیے مر مارنے والے بھول بیٹھے کہ وہ کہانی کی گود میں ہی پَل کر جوان ہوئے ہیں۔ کہانی میں غوطے کھاتے، اور دوسروں کو غوطے دلاتے یہ سمجھنا بھول جاتے ہیں کہ کہانی تو بس کہانی ہوتی ہے۔

کہانی پر سچ، یا جھوٹ کا پیمانے رکھنا، لاگو کرنا اور اپنے کسی واہمے یا واہموں کے تسلسل کے بیانیے کو نا قابلِ سوال صداقت مان کر خود کسی بڑے تہذیبی، meta-civilisational بیانیے کے جوکر، کوئی clown بن جاتے ہیں، اور ان clowns کی گہرائی پر شیکسپیئریئن کلاؤنز کا واہمہ بھی نہیں رکھا جا سکتا۔

کہانی کی کہانی کا تتمہ نہیں ہو رہا۔ بس اپنی کہانی کو خود اپنے ہاتھ لینے کے چند لمحوں کے واہمے کے خواب میں جانے لگا ہوں۔ …

… یاسر

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔