کھچ، کھچ کاری اور سیلیکٹیڈ مواد

Yasser Chattha, the writer

کھچ، کھچ کاری اور سیلیکٹیڈ مواد

از، یاسر چٹھہ

پنجابی زبان کا ایک لفظ ہے جو کثیف کیفیتوں کے بلیغ اظہار پر قادر ہے: کھچ۔

یہ لفظ اسمِ صفت (adjective) بھی ہے، اور اسے تھوڑے سے چندے اور مدد سے فعل (verb) میں بھی ڈھالا جا سکتا ہے۔

اردو میں اس کے نسبتاً قریب ترین لفظ، بے وقوف اور احمق ہے۔ بعض نا عاقبت اندیش گدھے کو بھی اس کیفیت کے اظہار کے لیے بکرا بنانے سے باز نہیں آتے۔ ہمیں جانوروں سے بھی ہم احساسی ہے کہ آخر اہالیانِ نطق کا ان سے گہرا تعلق ہے۔

لیکن قربت کے ان سب تعلقات میں اچھا بھلا سُقم رہ جاتا ہے۔ ہم پنجابی اس کثیف کیفیت کے بالغ و بلیغ اظہار کے لیے کھچ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔

اب کسی کھچ کی کچھ صفاتِ کثیفہ:

1. کھچیں مارنا ایک سلسلہ وار کام ہے۔

2. کھچ اگر کسی خاص لمحے میں ایک کھچ مارتا ہے تو اس کا اثر زائل کرنے کے لیے، یا اس کے دفاع میں مزید کھچیں مارتا ہے۔ یعنی اس کی کوئی کھچ خالص اور تاریخی کھچ نہیں رہتی۔ اسی لیے اوپری پیش کردہ نکتہ میں کھچ کاری کو سلسلہ وار عمل قرار دیا گیا۔

3. تھوڑی مزید روشنی ڈالی جائے. یا وضاحت کی جائے تو گویا کسی کھچ کا کھچیں مارنا سودی بینک کاری جیسا ہے، اور وہ بھی کمپاؤنڈ انٹرسٹ compound interest والا معاملہ۔ گھٹتی نہیں کھچ، ایک بار کی ماری ہوئی۔ اس کی مثال بھی کسی وقت کی سلطنتِ برطانیہ سے دی جا سکتی ہے، جس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اب بھی کھچ کاری کے سامنے جرمنی اور جاپان کے قلابے ایک سانس میں بہ آسانی اور پُر امن طریقے سے ملائے جا سکتے ہیں۔

4. کبھی کبھار کسی بھی کھچ کا لمحۂِ شعور آتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب وہ کہے کہ بس پچھلی کھچ کو بھولنا ہے، اور آگے چُپ رہنا ہے۔ لیکن چُھٹتی نہیں مظلوم مُنھ کو لگی ہوئی۔ اور لَگّی والیاں دی کوئی ناں جانے۔

5. لمحۂِ شعور کو ماپنے کی مشینیں اختراع نا ہونے کے ناتے بہ ظاہر یہ ایک تسلسل ہی رہتا ہے اور نتیجتاً کسی کھچ کی مزید کھچ کاری کا سامان پیدا ہوتا جاتا ہے، تا وقتِ کہ جب کوئی اس سے بڑی کھچ کار کارٹون اسے کسی نمایاں عہدے پر کھینچ تان کر لے آئے۔

تو اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟

6. اس کے بعد بارانِ کھچ ہوتی ہے، اور ہوتی ہی رہتی ہے۔ وہ کسی غیر شاعر نے سیلفی بناتے ہوئے تاریخی شعر سوچا تھا، لیکن نصیبوں والا تھا کہ اس کے بعد پہاڑی کی چوٹی سے پاتال میں جا گرا تھا:

Here’s کھچ’s plenty.

تردیدِ دعویٰ: یہ ایک غیر سیاسی پوسٹ ہے، لیکن اگر کوئی اسے سیاست پر محمول کرنے پر ہی بہ ضد ہو تو بندہ کسی کے خیال کو پکڑ کر گُم تو نہیں کر سکتا ناں۔ اور نا ہی کسی کو کوئی وزیر اعظم کے بیانات پڑھنے سے پہلے کسی مضمون کو دیکھ لینے پر مجبور کر سکتا ہے۔ اب مجھے میلان کنڈیرا کے ناول Identity کے کردار Chantal کا حوالہ دینا پڑے گا، یا ویسے ہی مان جائیں گے۔ خدا مملکتِ خداداد کو نئی نئی سپر سائنس اور روحانیات کے پورے فوائد سمیٹنے کی حتمی و غیر حتمی توفیق دے۔ آمین

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔