دین، سماج اور سماجی فہم

ڈاکٹر عرفان شہزاد

دین، سماج اور سماجی فہم

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

انسانوں پر حکومت کرنے والے کسی بھی نظام یا نظریے نے یا ان کے حاملین نےجب بھی سماجی علوم اور انسانی نفسیات کو نظر انداز کر کے احکام کی تنفیذ کی ہے، انسان اور سماج کی زندگی سے کھلواڑ کیا ہے، فساد مچایا ہے۔
سیاست میں اس کی مثال کمیونزم ہے جس نے اصلاح کے نام پر دنیا میں عظیم فساد برپا کیا اور فرد کے استحصال کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ مذہب میں اس کی مثال قرونِ مظلمہ کی پاپائیت اور اسلام کی ملائیت کی ہے۔ پاپائیت باقاعدہ ایک ادارہ تھا، مرور زمانہ سے جب وہ کمزور ہو گیا تو پاپائیت کو بھی پسپا ہونا پڑا اور اس کے مزاج میں بھی تبدیلی آئی۔ اب وہ سماج سے زیادہ واقف ہو گیا ہے، چنانچہ آج کا پوپ مذہب کے نام پر جنگ کی بجائے سیاسی جنگوں کے خلاف بھی امن کا درس دیتا ہے۔
لیکن اسلام میں ملائیت چوں کہ کوئی باقاعدہ ادارہ نہ تھا، یہ اہل مذہب اور اہل مدارس تھے، جو اکثر اپنے سماج سے کٹے ہوئے ماحول میں تعلیم اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے اپنے انسان نا آشنا اور سماج نا شناس مزاجوں کے ساتھ مسلسل چلے آ رہے ہیں۔
ایک طرف تو خود انسانی طبائع ایسے رجحان پائے جاتے ہیں جو سماجی علوم کو سمجھنے اور برتنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہ شدید منطقی، ریاضیاتی اور مردم بیزار طبائع ہوتی ہیں، دوسرے اگر نظام تعلیم میں بھی سماجی علوم موجود نہ ہوں تو نارمل طبائع بھی ایسی تعلیم کے اثر سے خشک منطقی، ریاضیاتی اور مردم بیزار طبائع میں ڈھل جاتی یا متاثر ہو جاتی ہیں۔ ہمارے مدارس کے نصاب میں تاریخ، عمرانیات، بشریات کے مضامین نہیں پڑھائے جاتے۔
مذہب میں اس ذہنیت سازی کا تسلسل ہمیشہ سے رہا ہے، جس کی وجہ سے مذہب صدیوں سے جامد قواعد و ضوابط اور بے لچک فقہ آراء کا مجموعہ رہا ہے اور اس کا یہی تاثر لوگوں میں عام رہا ہے۔ فقہی آراء نے ہمیشہ مجبور ہو کر لچک کا مظاہرہ کیا۔ ورنہ اس کا اصل مزاج اپنے فریم میں مقید رہنے کا ہے۔ اس کے سامنے احتجاج کرنا پڑتا ہے کہ کچھ گنجایش پیدا کرے۔ عہد قدیم میں علمائے یہود اس کی کلاسیکی مثال رہے ہیں، جن کے ہاں ہر حکم کی لمبی چوڑی فقہی تفصیلات پائی جاتی تھیں اور وہ اس پر بڑی سختی سے عمل کرتے تھے۔
جہاں تک خالص دین کا تعلق ہے، اس میں سماجی پیچیدگیوں کا خیال رکھا گیا تھا۔ انسانی نفسیات کی رعایتیں موجود ہوتی ہیں، لیکن اہل مذہب میں ایسی طبائع کا غلبہ رہا جنھوں نے ان سماجی اور نفسیاتی رعایتوں کا خیال نہیں رکھا، اور دین کو اپنی طبیعت اور اپنے نظام تعلیم سے تشکیل پانے والے مزاج کے تحت خشک اور بے لچک قانون اور فقہ کے طور پر پیش کیا اور اس پر اصرار کیا۔
اس کے مقابلے میں وہ اہل مذہب جو طبعاً نرم مزاج یا سماجی علوم اور انسانی نفسیات کا ادراک رکھتے تھے، یا ایسے نظام تعلیم و تربیت، جس میں سماجی علوم شامل تھے، میں تعلیم حاصل کر کے اپنا مزاج تشکیل دے چکے تھے، انھوں نے مذہبی ہوتے ہوئے بھی ان رعایتوں کا خیال تو رکھا، لیکن اس کی وجہ مذہب کی بجائے ان کی اپنی طبیعت قرار پائی۔ یہ متصوفین کا گروہ تھا۔ ایسے اہل مذہب آزاد خیال، وسیع المشرب اور شریعت سے لا پروا قرار دیے گئے۔ خود ان لوگوں نے بھی اپنی وسیع الظرفی اور نرمی کا جواز مذہب سے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی، نہ اپنی اس روش کو شریعت کی روشنی میں پیش کیا۔ وجہ یہی تھی کہ دین و شریعت کا تاثر ہی یہ تھا کہ یہ بے لاگ قانون ہے جس کی اطاعت ہر حال میں فرض ہے۔ اور اس میں رو رعایت برتنا شریعت سے عدم وفاداری پر مبنی ہے۔
ہم یہاں قرآن و سنت سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں جس سے دین و شریعت کے اس پہلو کو نمایاں کر کے دکھانا مقصود ہے کہ دین اسلام کے ایمان، اخلاق اور قانون کے تمام تقاضے انسانی مزاج اور سماج کی پیچیدگیوں کو کیسے مد نظر رکھتے ہیں۔
1۔ خدا کی وحدانیت اور اس کے بھیجے ہوئے رسول پر ایمان لانا دین کا اولین مطالبہ ہے۔ لیکن کیا یہ مطالبہ ہر ہر انسان سے یکساں بنیادوں پر ہے؟ اتنا تو سب علماء نے تسلیم کیا کہ جس تک کسی رسول کی خبر نہ پہنچی ہو، اس کے لیے رسالت پر ایمان لانا ضروری نہیں، البتہ توحید پر ایمان لانا عقل و فطرت کے تحت ضروری ہے۔ اب خبر پہنچنے کا کیا معیار ہے۔ تو یہاں وہی قانونی ذہن در آیا اور کہا گیا کہ بس ایک بار خبر پہنچانا ضروری ہے کہ اللہ کا ایک رسول یہ دین اور اس کے تقاضے لے کر آیا ہے، اگر اس سرسری دعوت کا انکار کر دیا جائے تو آدمی ابدی جھنم کا مستحق ہو جاتا ہے اور ایک مسلمانوں کے امام کو ان منکرین کا قتل اور محکوم بنانا جائز ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ مسلم فوج حملہ کرنے جا رہی ہو اور یہ معلوم ہو کہ ان لوگوں کو دعوت ایمان ملی نہیں تو حملے سے پہلے ان کو دعوت دی جائے، قبول کر لیں تو ٹھیک ورنہ حملہ کر دیا جائے (القدوری)۔
یہاں سماج اور انسان کی نفسیات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہاتھ میں تلوار اٹھا کر آپ تبلیغ کریں اور لوگ ایک ہی جَست میں ایمان لانے کے تمام سماجی اور نفسیاتی موانع جن کو توڑنے میں نوحؑ کو بھی نو سو پچاس سال لگے اور ابراہیمؑ کی اولاد کو اپنے والد کے دین پر ہی واپس لانے میں محمد رسول اللہ ﷺ کو 23 سال لگے اور اس دوران یہ براہِ راست مخاطبین رسول کی ذات میں خدا کی کھلی نشانیوں کا مشاہدہ بھی مسلسل کر رہے تھے۔ قرآن میں ان مخاطبین کے اعتراضات اور خدا کے جوابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے آبائی دین کو ترک کرنے اور دوسرا دین اپنانے میں کتنے موانع پیش آتے ہیں، خدا نے ان کو اپنے اعتراضات اور شبھات پیش کرنے کا خوب خوب موقع دیا، اور مسلسل 23 سال ان کو طرح طرح سے سمجھایا گیا، تب کہیں جا کر ان کی کثیر تعداد نے ایمان قبول کیا اور ان پر اتمام حجت ہوا۔

پھر بھی جو منکر رہے تو ان کی تباہی کا حکم نازل ہوا کہ یہ لوگ اب محض ضد کی وجہ سے ایمان لانے سے منکر تھے ورنہ ان کے پاس کوئی عذر نہیں بچا تھا۔ اس لیے ایسے منکرین کو مجرم قرار دے کر ان کو نشان عبرت بنا دینے کا فیصلہ ہوا۔ لیکن ہمارے فقھا انسان کے ان نفسیاتی اور سماجی موانع کو ختم کرنے کا کوئی موقع دیے بغیر محض رسالت کی خبر پہنچانے کو اتمام حجت سمجھتے رہے، اور اسی بنا پر غیر مسلموں پر تاخت کرنے اور ان کو محکوم بنانے کا شرعی جواز مہیا کرتے رہے۔ یہی وہ جواز ہے جو آج طالبان اور داعش کی صورت میں ہمارے سامنے کھڑا ہے۔
ہندوستان کے بادشاہ التمش اور محمد تغلق کے دور میں ہندوستان کے فقھا بادشاہ سے مطالبہ کرنے آئے کہ ہندو اہل کتاب نہیں، مشرک ہیں ان سب کو قتل کرا دیا جائے، مگر بادشاہوں نے عملی مجبوریوں کی بنا پر عذر پیش کیا، تو انھوں نے کہا کہ پھر ان کو ذلیل و خوار کر کے رکھا جائے، امور مملکت میں شریک نہ رکھا جائے۔
دوسری طرف قرآن میں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کے ساتھ مسیحؑ اور ان کی والدہ کو بھی خدا بنا لینے والوں کے لیے مسیحؑ روز قیامت خدا کے حضور مغفرت کی سفارش کرتے ہیں۔
اور یاد کرو، جب اللہ پوچھے گا: اے مریم کے بیٹے عیسیؑ، کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا تم مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو۔ وہ عرض کرے گا: سبحان اللہ، یہ کس طرح روا تھا کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ہے۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو آپ کے علم میں ہوتی، (اِس لیے کہ) آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور آپ کے دل کی باتیں میں نہیں جانتا۔ تمام چھپی ہوئی باتوں کے جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔ میں نے تو اُن سے وہی بات کہی تھی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھارا بھی۔ میں اُن پر نگران رہا، جب تک میں اُن کے درمیان تھا۔ پھر جب آپ نے مجھے وفات دی تو اُس کے بعد آپ ہی اُن کے نگران رہے ہیں اور آپ ہر چیز پر گواہ ہیں۔ اب اگر آپ انھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ ہی زبردست ہیں، بڑی حکمت والے ہیں۔ اللہ فرمائے گا: یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کی سچائی اُن کے کام آئے گی۔ اُن کے لیے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ زمین و آسمان اور اُن کے اندر تمام موجودات کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (سورہ مائدہ، آیت 116-120)
ادھر ابراہیم دعا کرتے ہیں کہ ان کی اولاد میں ان کی توحید کی تعلیم سے انحراف کر کے مشرک ہو جائے تو تو ان کا معاملہ تیرے حوالے ہے اور تو بخشنے والا ہے۔ آیت ملاحظہ کیجیے۔
اِنھیں وہ واقعہ سناؤ، جب ابراہیم نے دعا کی تھی کہ میرے پروردگار، اِس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو اِس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کو پوجنے لگیں۔ پروردگار، اِن بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیا ہے۔ (یہ میری اولاد کو بھی گمراہ کر سکتے ہیں)، اِس لیے جو (اُن میں سے) میری پیروی کرے، وہ میرا ہے اور جس نے میری بات نہیں مانی، (اُس کا معاملہ تیرے حوالے ہے)، پھر تو بخشنے والا ہے، تیری شفقت ابدی ہے۔ (سورہ ابراہیم، آیت 355-36)
ان دونوں پیغمبروں کی دعاؤں کا جواب پہلے کسی فقیہ سے معلوم کیجیے، وہ بتائے گا کہ مشرکین کے حق میں دعائے مغفرت سے خدا نے منع کیا ہے۔ لیکن قرآن میں اللہ تعالی نے ان دونوں پیغمبروں کی دعاؤں کے جواب میں ایسا کچھ نہیں کہا۔ مسیحؑ کی دعا کے جواب میں تو نہ صرف رحم کی بلکہ ان کے ناسمجھی میں اختیار کردہ مشرکانہ عقائد پر دیانت دارانہ ایمان کی شرط کے ساتھ اپنے فضل کا وعدہ بھی کیا ہے۔

ایسا کیوں؟ اس لیے کہ خدا یہاں انسانی نفسیات اور سماجی موانع کی رعایت رکھ رہا ہے۔ وہ لوگ جن کو مسیحؑ کی تعلیم اپنی اصل شکل میں نہیں مل پائی لیکن یہ تعلیم انھیں مسیحؑ کے نام پر ہی ملی، پھر تثلیث کی یہ تعلیم انھیں تاویل کے ساتھ عقیدۂِ توحید ہی کی صورت میں بیان کی گئی کہ ایک ہی خدا تین صورتوں میں ظاہر ہوا ہے۔ یعنی حلول کا وہی عقیدہ جو ہمارے صوفیا میں بھی پایا جاتا ہے۔ مسیحؑ کے ماننے والوں نے اس بتائے گئے عقیدے پر دیانت داری سے ایمان لایا اور ان کی فطرت میں موجود توحید خداوندی کا تصور اس تعلیم سے متاثر ہو گیا، اور وہ سادہ طبائع اس فطری عقیدے کی درستی کی طرف متوجہ نہ ہو سکیں کیونکہ سماج میں اس کا داعیہ بہت مضبوط تھا، اس لیے خدا نے بھی ان کی رعایت کی اور نہ صرف ان کو معاف کیا بلکہ انعام سے بھی نوازنے کا اعلان کیا۔ ان کا معاملہ ان مشرکین کی طرح نہیں ہے جو کھلے شرک کا ارتکاب کرتے تھے۔ شرک کی تاویل نہیں کرتے۔ اس طرح اپنی وجدان کی فطری توحید کی خلاف ورزی کرتے ہیں، نیز ان کا معاملہ ان مشرکین کی طرح بھی نہیں ہے جن کوئی رسول اتمام حجت کر کے ان کے لیے انکار کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔
مگر آج کا فقیہ یہ رعایت آج کے کیسی یہودی و نصرانی یا ہندو کو دینے کو تیار نہیں۔ ان کے مطابق آج بمشکل کوئی غیر مسلم ہو گا جس تک اسلام کی ‘خبر’ نہ پہنچ گئی ہو اس لیے اس پر درست عقائد پر ایمان لانا فرض ہے، نہ لایا تو کوئی بخشش نہیں، نہ ہی اس کے لیے مغفرت کی دعا کی جا سکتی ہے۔ مگر دیکھیے کہ خدا کے پیغمبر دعا بھی کرتے ہیں اور خدا کی طرف سے امید افزا جواب بھی پاتے ہیں۔ لطف کی بات یہ کہ ان صریح آیات کے ہوتے ہوئے بھی وہ ان آیات کی تاویل کرتے ہیں کہ جو مطلب سمجھ آ رہا ہے وہ یہ نہیں کچھ اور ہے اور خدا انہیں معاف کرنے والا نہیں۔
اس مسئلے کو سماجی سطح پر سمجھانا ہو تو ایک کیس کے طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے دیہات مضافات کے پیر پرست، قبر پرست اور غیر اللہ سے مدد مانگنے والے مشرکانہ عقائد رکھنے والے مسلمانوں کی آخرت کا کیا ہو گا جو قرآن اور سنت کی محفوظیت کے باوجود ایسے عقائد اور اعمال کا شکار ہوئے اور ان تک اسلام کی خبر بھی پہنچ چکی ہے۔ وہ قرآن کی درست تعلیم کی طرف کتنا متوجہ ہوتے ہیں، اگر کسی تاویل کی بنا پر ان کے لیے رعایت کا تصور موجود ہے تو مسیح کے پیرو کاروں کے لیے کیوں نہیں جن تک مسیح کی تعلیمات اپنی خالص صورت میں پہنچ نہ پائیں۔ ان کو محض اسلام کی خبر پہنچنے ابدی جھنم کا مستحق کیوں قرار دیا جائے؟
شریعت یعنی قانون کے بیان میں بھی قرآن نے انسانی نفسیات اور سماجی پیچیدگیوں کی رعایت رکھی ہے۔ مثلا زنا کی سزا سو کوڑے مقرر کی گئی، لیکن لونڈی غلاموں کے لیے یہ سزا نصف یعنی پچاس کوڑے رکھی گئی۔ کیوں؟ اس لیے کہ لونڈی غلاموں کی ایک تو تربیت درست طریقے سے نہیں ہو پاتی تھی، دوسرے گھر اور بازار میں مسلسل ان کے آنے جانے کی وجہ سے وہ سماجی تحفظ بھی انھیں حاصل نہ تھا جو انھیں اس جرم سے باز رکھنے میں مدد دے سکے۔ چنانچہ یہ نہیں کیا گیا کہ قانون چونکہ سب کے لیے برابر ہے، اس لیے امیر و غریب، ادنیٰ و اعلیٰ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے گا، نہیں، بلکہ اپنے حالات کے اعتبار سے جو طبقہ رعایت کا مستحق تھا، ان کو سزا میں رعایت دی گئی۔ کیا سزا میں یہ رعایت اس طبقے کے لیے اس جرم کے لیے حوصلہ افزائی کا سبب نہ ہو گا؟ شاید ہوگا، مگر کیا اس بنا پر سزا میں تخفیف کرنی چاہیے یا نہیں؟ خدا کے فیصلے کی روشنی میں قانونی مزاج رکھنے والے اہل علم و اہل مذہب کے لیے اس میں بڑے غور و فکر کا سامان ہے۔
سماجی فہم کی ایسی ہی مثال اخلاقی میدان میں دیکھیے۔ عام مسلمانوں کے لیے گھروں میں داخل ہوتے وقت اجازت لینے کی پابندی عائد کی گئی۔ لیکن گھر کے خادموں، لونڈی غلاموں کو بار بار اجازت لینے سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا کیونکہ اس سے حرج یعنی تنگی پیدا ہوتی تھی۔ لیکن ہمارے فقھا مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے والے قریبی رشتہ داروں سے بھی پردے کا دشوار ترین خود ساختہ فرض خواتین پر عائد کرتے ہیں۔
اب پردے کا معاملہ دیکھیے۔ قرآن میں حجاب کے احکامات اجمالی نوعیت کے ہیں۔ اس پر کیسے عمل کرنا ہے، یہ ہر دور کا سماج اپنے شعورِ حیا کے تحت خود طے کر سکتا ہے۔ مگر عورت کے پردے کے بارے میں ہمارے فقھا نے قرآن کے اجمالی بیانات کی وہ تفصیل کی جو ہندوستان کے بادشاہان اور جاگیر دارانہ سماج کی عورت کے بارے میں رویے اور رواج کی عکاس تھیں۔ جاگیر داروں نے عورت کو اپنی جائداد کی طرح سمجھا تھا اور اس کی حفاظت بھی اسی طرح کی۔ کسی قیمتی سامان کی طرح اسے چار دیواری میں بند کیا اور اس پر پہرے بٹھائے۔ عورت کے پردے کا یہ تصور مسلمان اور ہندو جاگیر داروں دونوں کے ہاں یکساں تھا بلکہ آج بھی جہاں جاگیردارانہ سماج پایا جاتا ہے چاہے وہ ہندو ہو یا مسلم، اس کے نمونے مل جاتے ہیں، اس میں مذہب کی کوئی تقسیم نہیں۔ نزولِ قرآن کے وقت کے عرب کلچر کو بھی اسی رنگ میں پیش کیا گیا۔ حالانکہ حجاب کے اجمالی قوانین کا عرب سمیت کسی کلچر سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر چونکہ یہ احکام اولا عرب کلچر میں نازل ہوئے اس لیے ہمارے فقھا کے لیے حجاب کے وہی رواج اصل قرار پا گئے۔ مگر اس کلچر میں سے بھی انھوں نے وہی عناصر چن چن کر اکھٹے کیے جن سے ہندوستان کے جاگیر دارانہ سماج کے مخصوص حجاب کے تصور کو تقویت ملے۔ اور ان عناصر کو نظر انداز کر دیا جو اس کے خلاف تھے مثلا انھوں نے احادیث کی روایات میں ان روایات کو بہت کم اہمیت دی جن کے مطابق اس دور کی خواتین اپنی شادی کے معاملات خود طے کرتی ہیں، اس کے لیے وہ اپنے گھر میں بن سنور کر بیٹھتی ہیں اور شادی کے خواہش مندوں سے انٹرویو کرتی ہیں (سمیعہ بنت حارث کی مثال، بخاری و مسلم میں) شادی کے پیغامات وصول کرتی ہیں اور اپنے بڑوں سے، بلکہ خود رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں مشورہ کرتی ہیں؛ اپنے مسائل رسول اللہ ﷺ تک پہنچانے کے لیے کسی صحابی سے مکالمہ کرتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں جہاں مرد و خواتین علیحدہ علیحدہ بیٹھتے ہیں وہاں ایک عورت سوال پوچھتی ہے اور اس واقعہ کا راوی اس کا حلیہ بھی بیان کرتا ہے، صحابی ایک دوسرے کی خواتین کو ان کے ناموں سے جانتے ہیں۔ خواتین تجارت کرتی تھیں اور اس کے لیے انھوں نے ایجنٹ رکھے ہوئے تھے، اور ان سے خود معاملات طے کرتی ہیں، صحابی اپنی بہن بیٹیوں کے رشتے خود اپنے دوستوں کو پیش کرتے ہیں اور وہ کبھی قبول کر لیتے ہیں، کبھی انکار کر دیتے ہیں، جس پر کچھ ناراضی بھی ہو جاتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی مشہور حدیث ہے کہ عرب میں امن و امان کا وہ وقت آئے کہ صنعاء سے ایک عورت مع زیورات کے تنِ تنہا چلے گی اور مکہ پہنچے گی اور اسے خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ ہو گا۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میں نے یہ پیشین گوئی پورا ہوتے دیکھی۔ یعنی خواتین اتنے دور کا سفر تنہا کرنے لگی تھیں۔
ان سب کو عناصر کو نظر انداز کیا گیا اور عورت کا وہی کردار فقھا نے متعین کر کے پیش کیا جو جاگیر دارانہ سماج کا خاصا تھا۔ پردے کا یہ بھاری بھرکم رواج بادشاہوں اور جاگیر داروں کے بڑے بڑے محل نما گھروں اور حویلیوں مین تو پھر چل جاتا تھا کہ خواتین کے رہنے بسنے کے علیحدہ حصے ہوتے تھے جن میں وہ کھل کر چلتی پھرتی تھیں، لیکن ہمارے فقھا نے شہروں کے بدلے ہوئے ماحول میں، یہاں کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والی خواتین پر بھی حجاب کی یہی پابندی برقرار رکھی کہ شوہر کے نا محرم رشتہ داروں کے سامنے آنا اور چہرہ دکھانا جائز نہیں۔

چنانچہ ہمارے ہاں ایسے طبقات پائے جاتے ہیں جن کے ہاں ایک سے زیادہ بھائی وغیرہ اکھٹے رہتے ہیں، رشتہ داروں کی آمد و رفت رہتی ہے، اور نا محرم رشتہ داروں کی وجہ سے خواتین سردی گرمی میں، کھانے پینے کے وقت بھی یعنی ہر حال میں اپنے لباس پر ایک عبایا بھی پہنے رکھتی ہیں اور چہرے پر نقاب بھی باندھے ہوئے گزارہ کرتی رہتی ہیں۔ یہاں حرج یعنی تنگی کا فقہی اصول بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ ان خواتین کی ذہن سازی بھی اس طرح کی جاتی ہے کہ انھیں اس غیر ضروری پابندی پر بہ خوشی راضی بھی کرا لیا جاتا ہے اور وہ خود کو دوسروں کے لیے نمونہ عمل سمجھ لیتی ہیں، راضی نہ ہوں تو اس غیر ضروری تکلف کی وجہ سے انہیں کوفت رہتی ہے۔
حضرت عمر فاروق طبعاً سخت مزاج تھے، مگر دین کا نہایت اعلیٰ فہم رکھتے تھے۔ وہ اپنی طبعی سختی کو دین و شریعت میں دخل دینے نہیں دیتے تھے۔ مثلاً ان کے دور میں مسلسل کئی سال قحط پڑا تو انھوں نے چوری کی سزا معطل کر دی کہ قحط کی وجہ سے لوگ چوریاں کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں، سزا مجرم کو دی جاتی ہے، مجبور کو نہیں۔ عام حالات میں یہ معلوم کرنا شاید مشکل بھی ہو جاتا ہے کہ کون مجبور تھا اور کون نہیں، لیکن اس قحط میں تو چوری کی غالب اکثریت مجبوری کے محرک سے ہی ہونی تھی، اس لیے انھوں نے سزا ہی معطل کر دی۔ یہ ہے وہ سماجی اور نفسیاتی فہم، جس کو عمر فاروق کی بصیرت سمجھتی تھی۔ مگر ہمارے فقھا کی قانون پسندی، منطق اور ریاضیاتی مزاج اسے سمجھنے سے عموماً قاصر نظر آتا ہے۔

ایک اور مثال رسول اللہ ﷺ کی زندگی سے دیکھیے۔ فتحِ مکہ کے بعد آپؐ کی خواہش تھی کہ کعبہ کو اس طرز پر از سر نو تعمیر کرا دیں جس پر ابراہیمؑ نے بنایا تھا اور جسے قریش نے تبدیل کر دیا تھا۔ لیکن آپؐ نے اس وجہ سے اس پر عمل نہیں کیا کہ عرب کے نو مسلم نا سمجھ لوگ کہیں کہ آپؐ نے فتح پاتے ہیں کعبے کو ڈھا دیا۔ انسانی نفسیات اور سماجی پیچیدگیوں کے اس فہم کو آج بھارت میں گائے کی قربانی کے تناظر میں دیکھیے۔ دین کی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں دین کے نام پر کسی غیر ضروری کام کی وجہ سے دین اور دین داروں سے بد ظنی پیدا نہیں کرنی چاہیے۔ ہندوستان میں گائے کی قربانی نہ کرنے سے قربانی کی دینی رسم ختم نہیں ہو جاتی، بلکہ ہمسایہ برادری کے مذھبی جذبات کا لحاظ رکھنا مقصود ہے۔ کیا اسلام ایک دعوت کا دین نہیں ہے؟ کیا دعوت کا یہ انداز درست ہو گا کہ مسلمان ان کے نزدیک ایک مقدس جانور کو ذبح کرنا ضروری سمجھیں جس کا کوئی مطالبہ مذہب نے نہیں کیا؟ یہاں بھی بعض علماء کے نزدیک بھارت میں گائے کی قربانی کرنا دیگر ممالک سے بھی زیادہ ضروری ہے تاکہ مسلمانوں کی طاقت اور دین سے ان کی وابستگی ظاہر ہو، جو مسلمان گائے کی ذبح پر سمجھوتہ کرلے خدشہ ہو گا کہ وہ ہندو مذہب یا تہذہب سے متاثر ہو گیا ہے۔ چناں چہ ہندوستان میں ایک سچا مسلمان وہ ہے جو گائے کی قرنانی کرے۔ یہ ہے سماجی پیچیدگیوں کو نظر انداز کر کے، دین کو محض ایک ضابطے کے طور پر پیش کرنے کا نتیجہ۔

دین محض قانون و ضوابط کا مجموعہ بن پر آیا ہوتا تب بھی اسے خدا ہی کی بنائی ہوئی فطرت کے تقاضوں کے تحت برتا جانا ضروری ہوتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے جگہوں پر خود خدا نے انسانی نفسیات اور سماجی پیچیدگیوں کو لحاظ رکھ کر احکامات اور ہدایات میں رد و بدل اور کہیں تدریج کا انداز اختیار کیا ہے۔ جس سے ہمیں یہ رہنمائی حاصل ہوتی ہے کہ دین کو ایک مجموعۂِ قوانین ہی نہیں بلکہ ایک سماجی عمل کے لحاظ سے سماج میں ترویج اور تنفیذ کرنی چاہیے۔ ان پہلوؤں کو نظر انداز کرنے سے خدا کا دین جو رحمت ہے، انسانوں کے لیے زحمت اور تنفر کا باعث بن جاتا ہے۔