معاشرہ اور سماجی رویے

ہمارا بنیادی نظام تعلیم
ٖٖفیاض ندیم ، صاحب مضمون

معاشرہ اور سماجی رویے

از، فیاض ندیم

انسان اپنے ماحول کو محسوس کرنے اور سمجھنے کے لئے اپنے حواس کا استعمال کرتا ہے۔قدرت نے انسان کو بہت طاقتور حواس سے نوازا ہے جن سے ہم اپنے ارد گرد کے ماحول میں موجود محرکات کو محسوس کرتے ہیں اور اپنے ادراک اور سمجھ کے مطابق ان کے جوابات مرّتب کرتے ہیں۔ اور یہی جوابات ہمارے رویّوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ بلا شعبہ ان رویّوں کا تعلق ہمارے ماحول کی ساخت کے ساتھ ساتھ ہماری جینیات سے بھی ہوتا ہے۔ اسی لئے مختلف لوگ ایک ہی قسم کے ماحول میں مُختلف ریّوں کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن ماحول ہمارے روّیوں کو تبدیل کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عصبی نظام ہمارے جسم میں پیغامات کی ترسیل۔ محرکات کے ادراک۔ ہمارے جوابات کی تشکیل اور ان جوابات کو اظہار میں ڈھالنے کے لئے ہمارے ہمارے مسّلز کو پیغامات کی ترسیل کرتا ہے۔ یہ پیغامات برقی اشاروں کی شکل میں ہمارے اعصاب پر ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقل ہوتے ہیں اور اعصاب کے سروں پر موجود ریشوں سے اگلے اعصاب میں ایک جو ڑ (synapse) سے ہوتے ہوئے کیمکلز (Neurotransmitters) کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔ جدید سانئس کے مطابق عصبی ریشوں میں انہی تحاریک کی وجہ سے تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ عصبی خلیوں کی تعداد میں اضافہ تو نا ہونے کے برابر ہوتا ہے، لیکن ان خلیوں کی تعداد میں کمی زندگی کے ساتھ ساتھ ہوتی رہتی ہے۔ عصبی ریشے ٹوٹتے رہتے ہیں، نئی شاخیں بنتی رہتی ہیں اور مختلف خلیوں کے درمیان جوڑوں کی نوعیت بدلتی رہتی ہے۔ اسی طرح ایک خلیے سے دوسرے خلیے میں پیغام رسانی کرنے والے کیمیکلز بھی ان تحاریک کے نتیجے میں بدلتے رہتے ہیں۔ یہی تبدیلیاں ہمارے روّیوں میں تبدیلیوں کا باعث بنتی ہیں۔ یہاں تک کہ فقط ہمارے سوچنے کا عمل بھی اس طرح کی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے اور ہمارے رویّے میں مثبت یا منفی تبدیلی ہونے لگتی ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا ماحول ہمارے رویّوں پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اور ہماری عمر کے ساتھ ساتھ ہمارے رویّے کی تشکیل میں اس کا کتنا بڑا کردار ہے۔ خوبصورت ماحول، کسی کا ہمارے ساتھ دلکش رویہ، کسی کی مسکراہٹ۔ ماحول میں حرکیات کا ردھم، خوبصورت آوازیں، موسیقی، آرٹ، خوبصورت تحریریں، یہ سب ہمارے رویّوں پر مثبت اثرات مرتّب کرتے ہیں۔جبکہ دوسری طرف خراب ماحول، کرخت رویّے، شور، آلودگی، بے ترتیبی اور یہاں تک کہ برے واقعات کی خبریں ہمارے رویّوں کی تباہی کا باعث بنتی ہیں۔ لہٰذا ہمارے اندروں کی ترتیب ہمارے بیرون کی ترتیب سے جڑی ہوئی ہے۔ اور اسی طرح ہمارے بیرون کی تخریب، ہمارے اندرون کی تخریب کا باعث بنتی ہے۔
تیسری دنیا کے ترقّی پذیر ممالک کا المیہ ہے کہ ہمارے ارد گرد بے ترتیبی بکثرت پائی جا تی ہے۔ ہمارے ہاں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد چونکہ نا ہونے کے برابر ہوتا ہے، لہٰذا آپ کو سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک ملے گی۔ ہارنز کا استعمال بکثرت ملے گا۔ فلیش لائٹنگ بار بار دیکھنے کو ملے گی۔ اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اس بے ترتیبی کو مذید بڑھا دیتی ہیں۔ اسی طرح ہمارے بازاروں میں بھی آپ کو دکانوں کا مال فٹ پاتھوں پر پڑا ملے گا، جس سے پیدل چلنے والے سڑکوں کے بیچ آ جائیں گے، اور ٹریفک کے مسائل کا باعث بنیں گے۔ بلکہ اکثر آدھی آدھی سڑکیں ٹھیلے اور ریڑھی والوں کے قبضے میں ہوتی ہیں۔ اور ٹریفک کے لئے رستہ تنگ ہو جاتا ہے، اور پارکنگ کے مسائل اس مسئلے کو مذید گھمبیر کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ ساری بے ترتیبی ہمارے رویّوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اسی لئے ہمارے کمرشل ڈرائیورز کے رویے کرخت، زُبان سخت اور چہرے کے تاثرات غصیلے ملیں گے۔ اور عام لوگ بھی اس طرح کے بازار سے ایک چکر لگا کے آجائیں تو نارمل ہونے میں کافی وقت لگ جا تا ہے۔ اور اس ابنارمل حالت کے دوران اُن کے رویے میں واضح سختی موجود رہتی ہے۔ اگر ہم منڈیوں اور بازاروں میں خریدوفروخت کے حوالے سے بات کریں تو آپ کو بے ہنگم بازاروں میں لوگوں کی حرکیات کا فرق اُن جگہوں سے واضح ملے گا جہاں دکانیں ترتیب سے ہوتی ہیں، رش منظم ہوتا ہے اور معاملات کرنے والے ملازمین خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں۔
ایسے بازار جہاں صفائی کی صورتِ حال ناقص ہوتی ہے۔ بدبو ہوتی ہے اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر سڑکوں کے کناروں پر پڑے ہوں وہاں پر طبیعت میں کراہت کا احساس رہتا ہے اور دماغ بوجھل رہتا ہے۔ جہاں صفائی کا بہترین انتظام ہو، سڑکیں صاف ستھری ملیں، ہریالی بھی ہو تو طبیعت میں خوشگواری رہتی ہے اور اس کا ہمارے رویے پر بھی بہت مثبت اثر ہوتا ہے۔ بے ترتیبی، شور، سڑکوں پر آلودگی، بازاروں میں اور دکانوں کے آگے کوُڑا ، حتّٰی کہ کھانے پینے کی جگہوں پر صفائی کا ناقص انتظام ہمارے اعصاب پر بُرا اثر ڈالتے ہیں اور ہماری بیالوجی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں، جو ہمارے عمومی رویّوں میں منفی تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں۔ ظاہر ہے اس میں کئی اور عوامل بھی حصہ ڈالتے ہیں۔ جیسے غربت، تعلیم کی کمی۔ انصاف کی کمی اور ذرائع تک ہماری دسترس کا نا ہونا، سبھی کا ہمارے رویوں کی تشکیل میں اپنا اپنا حصہ ہے۔ لیکن ان مندرجہ بالا عوامل کا بھی کسی نا کسی طرح ہمارے ارد گرد کی ترتیب، خوبصورتی اور ردھم سے تعلق بنتا ہے۔
اگر ہم ترقی یافتہ اور ترقی پذیر قوموں کا تقابلی جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ماحولیاتی محرکات کا رویوں کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہے۔ جاپان میں آپ کے قریب سے گذرنے والا کوئی بھی شخص بلا وجہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ دے جائے گا۔ اور آپ کچھ دیر اسی میں سرشار رہیں گے۔ آپ کسی سے ملنے جائیں تو وہ آپ کو جھک کر آداب کہے گا اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھے گا اور آپ کو بیگانگی کا احساس تک نہیں ہونے دے گا۔ اگر آپ کو کسی آفس میں کوئی کام ہے تووہ لوگ جب تک آپ کا کام مکمل نہیں ہو جائے گا آپ کے ساتھ رابطے میں رہیں گے اور آپ کو ہر ممکن مدد دیں گے اور آپ کو یہ احساس دلاتے رہیں گے کہ آپ کا کام زیرِ تکمیل ہے۔ اور جتنا عرصہ آپ آفس میں موجود رہیں گے سینکڑوں مسکراہٹیں آپ تک پہنچتی رہیں گی۔ اسی طرح وہاں سڑکوں پر آپ کو کہیں بھی کوڑا ، کاغزپڑے نہیں ملیں گے۔ سڑکوں کے کنارے لگے پودے اور پھول ایک خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں، پودوں کی تراش خراش پر خواص توجہ دی جاتی ہے اور کہیں آپ کو فالتو جڑی بوٹیاں اُگی نہیں ملیں گی۔ رنگ برنگے پتوں والے درخت قطاروں میں بہت ترتیب سے موجود ہونگے۔ اس ماحول کا طبیعت پر ایک خوش گوار اثر ہوتا ہے جو جاپانیوں کے رویوں سے ثابت بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ جب آپ جاپان سے باہر نکلتے ہیں تو یہ فرق آپ کو بہت واضح محسوس ہوتا ہے۔ سڑکوں پر رات کے 2 بجے بھی قوانین پر مکمل عملدرآمد ہوتا نظر آئے گا، چاہے سڑک پر فقط ایک گاڑی ہی کیوں نا جا رہی ہو۔
اسی طرح یورپی ممالک امریکہ، کینیڈا وغیرہ میں بھی عام لوگوں کے رویے بہت خوش گوار ہوتے ہیں۔ سڑکوں پر پیدل چلنے والوں کی عزّت ہوتی ہے، سب قوانین کی بہت حد تک پیروی کرتے ہیں اپنی غلطی پر معافی مانگنے کا رواج عام ہے۔ ایک دوسرے کی چھوٹے چھوٹے کاموں میں مدد کرنے کا کلچر ہے۔ ایک دوسرے کو عزت سے پکارنے کی روش ہے اور آپ کو اونچی آواز اور کرخت لہجہ مہینوں میں کبھی ملے گا۔ اس کی بھی بہت حد تک وجہ وہاں پر موجود ترتیب، خوبصورتی، ٓارٹ سے آشنائی، صفائی کا ماحول، سبزہ، شور کی کمی اور قوانیں کی موجودگی ہے۔ اس سارے ماحول کا اثر ہمارے رویوں پر پڑتا ہے اور ایک عمومی کلچر جڑ پکڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہاں اختلافات نہیں ہوتے، ایک دوسرے سے ناراضگیاں نہیں ہوتیں، یا رقابتیں نا پید ہیں، ظاہر ہے یہ سب فطرت کا حصہ ہیں اور انسانی جبلتوں میں شامل ہیں، لیکن ان کے اثرات طبیعتوں پر زیادہ اس لیے نہیں ہوتے کہ مجموعی طور پر ماحول پر سکون ہوتا ہے۔ احترام کا ماحول ہوتا ہے، لوگ ایک دوسرے کے معاملات میں ٹانگ نہیں اڑاتے۔ دوسروں کی حرکات اور کردار پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتے، لہٰذا نفرتیں کم سے کم سطح تک رہتی ہیں۔ اور ایسے ہی یہ سب آنے والی نسلوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے، معاشرہ اخلاقیات کی تعلیم کا اپنے عمل سے بندوبست کرتا چلا جاتا ہے اور پندو نصائح کی لمبی لمبی تقریریں نہیں کرنی پڑتیں۔عام وعظ سے ویسے بھی وہاں اجتناب کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ امریکی سکولوں میں تو عام اساتذہ کو طلبأ کیلئے اخلاقیات پر بات کرنا بھی ممنوع ہے۔ یہ سب معاشرہ طالب علم کو اپنے عمل سے سکھاتا چلا جاتا ہے اور طلبأ اچھی چیزیں خود ہی سیکھتے چلے جاتے ہیں۔ مثتثنیات ہر جگہ پر ہیں وہاں پر بھی آپ کو سخت رویے، لڑائیاں، دیکھنے کو ملیں گی لیکن یہ بہت ہی کم ہونگی اور کنٹرول ہو سکنے کے قابل ہونگی۔ اور اِن کے پیچھے بھی وجہ بے ترتیبی اور غیر متوازن رویے ہی ہوتے ہیں۔
آئیڈیل صورتِ حال تو کہیں بھی نہیں ہوتی۔ اس تقابلی جائزے سے مقصود صرف یہ ہے کہ ہمارے بیرون کا ہمارے اندرون پر کتنا اثر ہوتا ہے۔ اور پھر یہی اندرونی کیفیت ہمارے رویے کی صورت میں بیرون کو لوٹ جاتی ہے اور دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر ہمیں باہر سے ترتیب، خوبصورتی اور عزّت کا ماحول ملے گا تو یہ ہمارے رویے پر خوش گوار اثرمرتب کرے گا، جس کے ردّ عمل میں ہم بھی خوش گوار رویے لوٹاتے ہیں۔ کرخت رویے، گندا اور بے ترتیب ماحول ہمارے اندر توڑ پھوڑ کا باعث بنتا ہے، ہمارے عصبی خلیوں اور ہمارے کیمیکلز میں تبدیلیاں لاتا ہے، جس سے ہمارے اند ر عصبی تحاریک بے ترتیب ہوتی چلی جاتی ہیں اور ہم یہ ساری توڑ پھوڑ جو بیرون سے ہمارے اندر منتقل ہوئی تھی، دوبارہ بیرون کو اپنے متشددانہ رویے کی صورت میں لوٹا دیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں موجود تشدد، غیر رواداری کا رویہ اسی طرح پروان چڑھتا جا رہا ہے اور نتیجہ میں ہم اپنے ارد گرد کو مذید خراب کرتے جا رہے ہیں۔ بازاروں کو گندا کر رہے، درختوں کو کاٹ رہے، آلودگی کو بڑھا رہے، ایک دوسرے کی عزّتِ نفس کو مجروح کر رہے، احترام کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے تشدد کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ شائستگی میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے دفاتر میں عملے کی کام چوری، کمی، یا کرپشن کی وجہ سے سائلین کے کام میں رکاوٹ رہتی ہے، اور کلیریکل سٹاف اچھے بھلے معززین کی سرزنش تک کر ڈالتا ہے۔ اور یہ سب اتنی ہی شدت سے معاشرے میں ردّعمل کے طور پر تناسبِ راست کے مطابق بڑھتا چلا جاتا ہے اور معاشرتی توڑ پھوڑ میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
ہمارے یہاں بھی جن چند جگہوں پر ماحول کو بہتر رکھنے کا اہتمام ہے، سہولیات کی فراہمی ہے اور سروسز کے میعار پر توجہ دی گئی ہے، وہاں رویوں میں بھی خاطر خواہ بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔ ابھی میرے ذہن میں دو مثالیں آرہی ہیں۔ ایک میٹروبس سروس اور دوسرے موٹر وے کا منصوبہ۔ اگر آپ میٹروبس سے منسلک انفرا سٹرکچر، وہاں پر صفائی اور سہولیات کا جائزہ لیں اور عملے کے رویے کا مطالعہ کریں تو ایک خوش گوار تجزیہ سامنے آتا ہے۔ اسی طرح وہاں اس سہولت سے فائدہ اُٹھانے والی عوام کی حرکات، بول چال، رویے، ایک دوسرے کی مدد، احترام، بزرگوں کے ساتھ خوش اخلاقی جیسی اعلٰی خصوصیات بھی دیکھنے کو ملیں گی۔ لوگ دھیمی آواز میں باتیں کرتے نظر آئیں گے۔معمولی پڑھے لکھے اور مزدور طبقے کے لوگ بھی انفراسٹرکچر کو کمال خوش اصلوبی سے استعمال کرتے نظر آئیں گے۔ بس کے اندر بزرگوں کا خصوصی خیال ہوتا ہو انظر آئے گا، خواتین کا احترام ملے گا۔ اس سے بر عکس جب ہم میٹرو سے باہر عام ٹرانسپورٹ سروس میں دیکھتے ہیں تو دھکم پیل، گالم گلوچ غصہ اور بے ترتیبی ملے گی۔ ایسا ہی تجربہ موٹر وے کا ہے۔ موٹر وے صاف ستھری، با ترتیب اور منظم سڑک ہے، جہاں مرمت کا بھی خصوصی خیال رکھا جاتا ہے اور موٹر وے پولیس کا رویہ اور ایمانداری بھی قابلِ تعریف ہے۔ موٹر وے پہ آپ اُنہی ڈرائیورز کو جو عام سڑکوں پر بے ہنگم ڈرائیونگ کرتے ہیں، غلط اوور ٹیکنگ کرتے نظر آتے ہیں، غصے میں رہتے ہیں اور کمال کے بد تمیز ہوتے ہیں، موٹر وے پر یک سر بدل جاتے ہیں، قانون کی پاسداری کرتے ہیں، سپیڈ کی حد کا خیال رکھتے ہیں ، اپنی لین میں رہتے ہیں اور گفتگو میں بھی شگفتہ ہو جاتے ہیں۔ موٹر وے سے اُترتے ہی اپنی اصل روش پہ آجاتے ہیں۔
غیر صحت مند ماحول، تشدد پسندی اور عدم احترام انسان میں چڑچڑے پن کا باعث بنتا ہے، جو مذید ذہنی بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے اور عمومی رویوں کی تباہی اور معاشرتی شکست و ریخت کا با عث بنتا ہے۔ایسے بیمار معاشرے میں صحت مند ذہنی سرگرمیاں نا ہونے کے برابر رہ جاتی ہیں، تخلیقی عمل ختم ہو جاتا ہے اور معاشرہ ذہنی طور پر بانجھ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں انتہا پسندی کو ترویج ملتی ہے اور ایسے گروہ جو دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوّث ہوتے ہیں، اُنہیں انسانی وسائل آسانی سے دستیاب ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ نوجوان طبقہ ایسے ماحول سے تنگ آیا ہوتا ہے، اُس کے اندر کیمسٹری اور بیالوجی بدل رہی ہوتی ہے، سکون تباہ ہو چکا ہوتا ہے، نفسیاتی طور پر اُلجھن ہی اُلجھن سامنے ہوتی ہے اور جب وہ ایسے گروہوں کے ہتھے چڑھتا ہے تو وہ آسانی سے اُسے اپنے مطابق ڈھال لیتے ہیں اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
صحت مند رویوّں اور صحت مند معاشرے کے لئے صحت مند ماحول کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اور صحت مند ماحول کا قیام ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

About فیاض ندیم 14 Articles
پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حیاتیات میں گریجویشن اور ماسٹرز کیا۔بعد ازاں انھوں نے اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ’’ تعلیمی انتظام و انصرام‘‘ میں ماسٹرز بھی کیا اور آج کل ’’تعلیمی انتظام و انصرام ‘‘(EPM) میں ایم ایس کر رہے ہیں۔فیاض ندیم کری کولم ونگ(curriculum) سے بھی گاہے گاہے وابستہ رہے ہیں۔ انھوں نے سکول اور کالج کی سطح کے حیاتیات کے مضمون کے نصاب کی تیاری میں بھی حصہ لیا اُن کی لکھی اور نظر ثانی کی ہوئی درسی کتابیں کے پی کے اور وفاقی تعلیمی اداروں میں پڑھائی جا رہی ہیں فیاض ندیم اسلام آباد کے ایک سرکاری کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔ اُن کا شعبہ حیاتیات اور نباتیات ہے۔

1 Comment

Comments are closed.