سچ کی اقسام

Irfan Hussain aik Rozan
عرفان حسین، صاحبِ مضمون

سچ کی اقسام

عرفان حسین

ایک کھیل ”monopoly‘‘ میں کھلاڑی اپنے ٹوکن استعمال کرتے ہوئے جائیداد کی خریدوفروخت کرتے یا اسے کرائے لیتے یا دیتے ہیں۔ اس کھیل میں کامیاب ہونے والا کھلاڑی وہ ہوتا ہے جس کے پاس سب سے زیادہ ا ثاثے ہوں۔ ہمارے ہاں بھی اس کھیل کا ”چربہ‘‘ دیکھنے میں آرہا ہے۔ حکمرانوں نے خود کو اس کھیل کے ماہر کھلاڑیوں کے طور پر پیش کیا ہے ۔ اُنھوںنے ”محض کھیل ہی کھیل میں ‘‘ سٹیل ملز، پیپرملز، شوگر ملز اور لند ن کی مہنگی جائیدادوں کی خریدوفروخت کرڈالی ۔ اس دوران اُنھوں نے کھیل کا ایک اہم کارڈ ”Get Out Of Jail Free‘‘بھی حاصل کررکھا ہے ۔ اس کارڈ کی موجودگی کھلاڑیوں کو جیل جانے کے مخصوص خانے میں قدم رکھنے کے باوجود جیل جانے سے بچالینا ہے۔

کاش زندگی بھی اس کھیل کی طرح سادہ اور آسان ہوتی۔ سپریم کورٹ میں ہونے والی موجود سماعت کے دوران ہم نے چکرا دینے والے انکشافات دیکھے ہیں۔ حکمرانوں کا انتہائی چکر دار سرمایہ پتہ نہیں کن کن راہوں کا مسافر رہا ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے اُن کے مالیاتی امور کا زیادہ علم نہیں تھا اور نہ ہی میں اُن کے ا ثاثہ جات کی زیادہ جان کاری رکھتا تھا۔سماعت کے دوران بیانات نے مجھے پہلے سے بھی زیادہ پریشان کردیا ہے۔ مجھے یقین ہے فاضل جج صاحبان نے چکردار بیانیے کا درست مطلب اخذ کر لیا ہوگا۔

میں جانتا ہوں کہ اس معاملے میں کہیں ایک وفاقی وزیر کے نام کی باز گشت بھی سنائی دیتی ہے۔ اسی طرح ایک قانونی فرم، موزاک فونسیکا کی بھی کہیں کارفرمائی ہے ۔ اومان کے بھی کوئی شیخ صاحب سنائی دے رہے ہیں۔ اس کھیل کے اہم کھلاڑی، وزیر ِاعظم کے بچے ہیں اور بنیادی توجہ کا مرکز شریف خاندان کی ملکیت لندن کے مہنگے فلیٹس ہیں۔لیکن کس نے کیا خریدا اور کیا چکر چلا یا گیا؟یہ معاملہ کسی نشہ آور سانپ کی طرح چکراتا اور بل کھاتا جارہا ہے۔اور جبکہ 90کی دہائی کے وسط میں ہم شریف خاندان کے چار ”مے فیئر‘‘ فلیٹس کے بارے میں بھی سن چکے ہیں۔جس انداز سے ان کو حاصل کیا گیا اور جس طرح اس پر شریف فیملی کا دفاع کرتے ہوئے وضاحتیں پیش کی گئیں، وہ ابھی تک ایک معمہ ہے۔

کچھ عرصہ پہلے، ایک ٹویٹ میری نظروں سے گزرا کہ اصل سچ کے مقابل ایک ”بظاہر سچ‘‘ بھی پایا جات ہے اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر کے مطابق کچھ” متبادل سچ ‘‘بھی ہوتے ہیں۔گزشتہ سال امریکی صدارتی انتخابات کے بعد سچائی کے بعد کے دور کے بارے میں بہت سی باتیں کی گئیں اور اب ہم اس دور میں موجود ہیں جہاں سچ کوایجنڈے اور ضرورت کے مطابق موڑ لیا جاتا ہے ۔لیکن سچ کے لچکدار ہونے کے بعد اس دنیا میں رستہ کی تلاش کیسے ہو سکے گی جہاں مضبوط حقائق کو لوچ دار نشانات میں تبدیل کر دیا جاتا ہے جن کی شکل اور رتبہ تبدیل شدہ ہوتے ہیں ؟

جاری سماعتوں میں حکمران خاندان کی ٹیم لندن کی جائیداد پر وضاحتوں کے ایک لمبے سلسلے کے ساتھ پیش ہوئی۔ وزیراعظم نواز شریف کے بچے بھی ہماری اس الجھن میں شامل دکھائی دیتے ہیں۔ روزمرہ کے بیانات میں شریف خاندان اور عمران خان کے وفاداروں کے ٹی وی کیمروں کے سامنے معاملے کوبہت تھوڑا واضح کیا ہے۔ خود عمران خان کے بنی گالہ کی زمین اور اس پر کی گئی تعمیر کے بارے میں دیے گئے بیانات سے تصویر ابھی تک دھندلی ہے۔یہ پیسہ ان کی سابقہ بیوی جمائمہ خان کا تحفہ تھا یا قرض؟ اس کی منتقلی کس طرح ہوئی؟ اور عمران خان کی لندن میں موجود اپنی آف شور کمپنی اور فلیٹ کا کیا معاملہ ہے؟

صاف بات یہ ہے کہ مجھے اس کی ذرا پروا نہیں ۔لیکن جب یہ بے کار معاملات پاکستا ن کے ایشوز میں مرکزی حیثیت اختیار کرتے ہیں اور لاحاصل اور لامحدود ٹی وی مباحثوں کا حصہ بنتے ہیں،ان تنازعات کی لہر کے اثرات سے بچنا بہت مشکل ہے۔سچ کی روشنی نظر ضرور آتی ہے اور وہ سادگی کی بدولت پہچانا جاتا ہے۔ایک دفعہ جب جھوٹ بولا جاتا ہے تو مزید وضاحتیں اور تاریکیاں اس کو چھپانے کے لیے لازمی ہوجاتی ہیں۔جب فریب کی تہیں بچھا دی جاتی ہیں تو پوری عمارت غیر مستحکم ہو جاتی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا الزامات کا جواب دینے کا طریقہ نہایت سادہ ہے۔وہ محض یہ کہتے ہیں ــکہ ہاں میں نے بھی یہ کہیں سنا ہے۔لیکن ایک سویڈش سیاست دان نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ امریکی صدر کا ذریعہ اطلاعات”فوکس نیوزــ‘‘Fox News کے علاوہ کچھ ہو گا۔سیاست دانوں کے لیے سچ طاقت کا تابع فرمان ہو تا ہے۔پ روپیگنڈا کرنے کی مشینیں حکومتوں کے دل میں پائی جاتی ہیں۔”سپن ڈاکٹرز ــ‘‘ خبروں کو بہترین سکل میں سادہ لوح عوام تک پہنچا دیتے ہیں۔ووٹرز سے ”سچے وعدے‘‘ کیے جاتے ہیں۔

گویا جھوٹ سیاست کی کرنسی ہے اس لیے ٹرمپ کے سادہ اور آسان جوابات سے کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔ہٹلر اور اس کے پروپیگنڈا کرنے والے وزیر گوئیبل ایک بڑے جھوٹ کے ”اثرات‘ پر یقین رکھتے تھے۔دراصل دونوں اس بات پر متفق تھے کہ اگر آپ حقائق سے بالکل ہٹ کرایک بات کریں اور اسے دہراتے رہیں تو عام لوگ اسے مکمل سچ کے طور پر قبول کر لیتے ہیں کیوں کہ وہ اتنے بڑے جھوٹ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔اور پھر اعداد و شمار بھی ایک اہم حیثیت رکھتے ہیں۔

جیسا کہ مارک ٹوائن کا کہنا ہے کہ جھوٹ ہوتے ہیں، بدترین جھوٹ ہوتے ہیں اور اعداد وشمار ہوتے ہیں۔ان اعداد کو اکثر دلائل دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔جیسا کہ ”آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی سطح سے اوپر زندگی بسر کر رہی ہے‘‘۔ اس کے مخالف بیان یہ ہو تا ہے کہ ”آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے گزارا کر رہی ہے‘‘! ایک فیری ٹیل پناکو میں ایک کردار ”ووڈن پپٹ‘‘کی ناک جھوٹ بولنے پر لمبی ہو جاتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ منصفوں کے سامنے جھوٹ بولنے والوں کی ناکیں آخر کتنی لمبی ہوں گی۔

بشکریہ: روزنامہ دنیا آرکائیوز