پیپلز پارٹی کا سیاسی مستقبل

Waris Raza

پیپلز پارٹی کا سیاسی مستقبل

از، وارث رضا 

آزادی کے دھوکے میں جکڑی عوام ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر دھوکے سے دو چار ہو چکی تھی۔ عوام کو لگا تھا کہ اس کے وسائل پر قابض قوتوں کی گرفت ستر برس گزرنے کے بعد شاید کم زور پڑنے کی جانب بڑھ رہی ہے۔

بے روزگاری اور معاشی تنگ دستی سے ستائی عوام کو امید ہو چلی تھی کہ اس کو اب ہوش رُبا مہنگائی میں نوالہ چھن جانے سے نجات مل جائے گی اور یوں بَہ آسانی اس کے نان نَفقہ کے مناسب بند و بست کی کوئی سبیل نکل آئے گی۔

اپنی نسل کے بہتر مستقبل کی یہ کوششیں ملکی عوام مسلسل کئی برسوں سے کرتی رہنے کی عادی بنا دی گئی تھی۔ اسے دیس کے وسائل پہ قابض افراد نے خوابوں میں رہنے کی ایک ایسی “لت” میں ڈال دیا تھا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی دھوکا دہی میں رہنے کے عادی مریض بن چکے تھے۔

بَہ ظاہر جبر کے اس دیس کے عوام اچھے بھلے انسانی رُوپ اور توانا سوچ کے فرد طور دکھائی دیتے تھے۔ اپنی محرومیوں کا گلہ شکوہ بھی کرتے تھے، بہتر تعلیم اور صحت کی آسان سہولیات لینے کے خواہش مند بھی رہتے تھے، ملکی وسائل پر قابض قوتوں کے نا جائز قبضوں سے واقف بھی تھے، جبر کی قوتوں سے نجات بھی چاہتے تھے، مگر انھیں (عوام) کو نسلی طور سے “سیاسی و جمہوری حقوق” لینے کی قوت سے شاید بانجھ کر دیا گیا تھا۔

اس دیس کے عوام کی خواہشات کی تکمیل کے بت پنڈی ریلوے اسٹیشن سے کچھ فاصلے پر قائم  فیکٹری میں سالوں سے تراشے جانے کا سلسہ قائم ہے اور ان کے چہروں پر عوام کو متأثر کرنے والے ماسک پہنا کر عوام کو اس فیکٹری کے ہر دل عزیز وڈیروں، سرداروں، چودھریوں، سرمایہ داروں، خانوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے، جن کی مٹی جبر اور مفادات سے گوندھی جاتی تھی، اور پھر پنڈی فیکٹری میں تیار کردہ یہ کَٹھ پُتلی کردار عوام کے بیچ چھوڑ کر عوامی حقوق کے نام پر ملکی وسائل پر قبضے کا نیا طریقہ ڈھونڈنے کے لیے نئے انداز سے جمہوریت کا راگ الاپ کر عوام کے سارے سیاہ و سفید کا مالک اپنے سنگ تراش آقا کو کر دیا کرتے تھے۔

بات یہاں تک نہ رکتی اور جب کبھی عوامی تنگ آمد بَہ جنگ آمد کے خدشے تحت سب کچھ جبر کی قوتوں کے ہاتھوں سے جاتا دکھائی دیتا تو پنڈی فیکٹری پھر سے نیا بت تراش کر عوام کو نئی امنگوں میں مبتلا کر کے ملک توڑنے، ملک بیچنے اور وسائل پر قبضہ برقرار رکھنے کا نیا طریقہ نکال لیا کرتے تھے۔

ستر برس کے عوام اور اقتداری کھیل میں کبھی دولتانہ، کبھی ٹوانہ، کبھی بھٹو کبھی شریف زادے، کبھی زرداری، کبھی خانقاہی سید، کبھی شہری الطافیے اور کبھی نیازی تواتر کے ساتھ “سلیکٹ” کر کے عوام پر مسلط کیے جا چکے تھے، اور بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ ولایت سے دیسی نام کے گوروں کو لایا گیا تا کِہ عالمی دنیا کی معاشی و سیاسی قوتوں کو خوش کیا جا سکے اور دنیا کو بتایا جا سکے کہ ہم ملکی لوٹ کھسوٹ میں عالمی قوتوں کو خوش کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کبھی کبھار تو افغان جہاد کے نام پر دہشت گردوں کو پیدا کرنے اور انھیں عالمی مفادات کا تَر نوالہ بنانے کا کام بھی بہت سعادت مندی سے جنرل ضیاء اور جنرل مشرف بھی سر انجام دیتے رہے۔

اس دیس کی سر سبز و خوش حال وادی میں جب امن اور شانتی اپنا بسیرا مستقل بنیادوں پر کرنے لگتی تو ہمارے حکم راں جنرل ضیاء فرقے اور لسانی عصبیت کو بھڑکانے میں اپنے برادر ممالک کی انتشار پسند پالیسیوں کو اپنے ہاں فروغ دینے سے بھی گریز نہ کیا کرتے اور نہ کبھی شرمندہ ہوتے۔

ایک وقت تک تو ملکی وسائل پر بَہ راہِ راست اقتدار کی طاقت کو جنرل ایوب، یحیی، ضیاء، اور مشرف کے سپرد کیا گیا، مگر عالمی دباؤ اور بد نامی کے خدشے سے بچنے کی خاطر اب اس دیس کا نیا چلن چل نکلا ہے کہ اقتدار کی باگ ڈور تو “طاقت ور اشرافیہ” کے ہاتھوں میں رہے مگر عوام اور عالمی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اقتدار پر بَہ راہ راست طاقت ور اشرافیہ دکھائی نہ دے۔

اس مقصد کے تحت اب دیس میں سونے کی کان کے سنجرانی، زر کے غلام زرداری اور بنی گالہ کے قابض عمران نیازی کی صورت چہرے مل چکے ہیں جو نا پاپا جونز کے ارب پتی جنرل سے حساب مانگ سکتے ہیں نہ ملک ریاض کے نا جائز قبضوں کا پوچھ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ آسٹریلیا میں خریدے گئے جزیروں کا احتساب کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب یہ اشرافیائی نمائندے عوام کے جمہوری حقوق اور آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے پنڈی فیکٹری کے تربیت یافتہ ٹی وی اینکروں کی مدد سے راگ ضرور الاپتے رہتے ہیں جو زرداری سمیت عمران طاقت ور اشرافیہ کے مفادات کو تحفظ دینے کے نام پر عوام سے تا حال کر رہے ہیں، جب کہ طاقت ور اشرافیہ ٹی وی اینکرز اور زرد صحافت سمیت اعلیٰ عدلیہ کو سب ٹھیک ہے کے تحت کنٹرول کیے ہوئے ہے جس کا فائدہ فارن فنڈنگ کیس اور واوڈا کی نا اہلی کو رکوانے میں سب کو دکھائی بھی دے رہا ہے۔

ہاں، البتہ، عوام کی خاموشی کو جوالا دلانے کی قوتیں اس دیس میں ہمیشہ سے غدار، وطن فروش اور صرف بد عنوان رہی ہیں باقی طاقت ور اشرافیہ کے چہیتے عمران، زرداری، گیلانی اور سنجرانی محبِّ وطن اور عوام دوست ہی باور کرائے جاتے ہیں۔

ملک میں پہلی بار اشرفیہ کے پرانے اَردلی بھٹو کے نواسے بلاول کو مرضی و منشاء سے لیاری سے ہروا کر لاڑکانہ سے منتخب کروایا گیا اور ابتدائی تربیت پنڈی کے من پسند شیریں گفتار کو دے کر طاقت ور اشرافیائی پسند و نا پسند سے آگاہ کیا گیا، اور موجودہ عمرانی ٹولے کو “سلیکٹیڈ” کہلوانے کا کام بھی سلیکٹیڈ نانا کے نواسے سے کروا یا گیا؛ جسے بَہ ظاہر نیا عوامی نمائندہ بنا کر ملکی سیاست میں داخل کیا گیا، جس کی باگیں طاقت ور اشرافیہ کے پرانے نمک خوار زرداری کو دے دی گئیں؛ اور عوام کو احساس دلایا گیا کہ ان کی نئی امنگیوں کا پالن ہار ایک نئے جذبے کے تحت عوام کا نجات دہندہ بنے گا۔

عوام میں بلاول اور مریم نواز کے ذریعے نئے ووٹر میں امید پیدا کی گئی کہ وہ عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری سے چھٹکارا دلانے کے لیے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ذریعے عوام کے آئینی اختیارات عوام کو دلائیں گے۔ اپوزیشن کے اس پلیٹ فارم میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سمیت دس سیاسی جماعتوں کو شامل کر کے ملک گیر جلسے و جلوس کروائے گئے، جن میں مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات اور عمران کی سلیکٹیڈ حکومت سے چھٹکارے کا ہدف رکھا گیا۔

اس تحریک میں نوازشریف کا بیانیے “ووٹ کو عزت دو” جب عوام کی امید اور آئینی حقوق حاصل کرنے کی آواز بنتا دکھائی دیا اور اس سے بَہ ظاہر نہ ہٹنے کا عوامی زور بڑھنے لگا تو پی ڈی ایم میں شامل مختلف جماعتوں کو طاقت ور اشرافیہ نے اپنا ہم نوا بنانا چاہا، مگر پی ڈی ایم میں طے شدہ اصول کہ طاقت ور اشرافیہ سے کسی قیمت پر رابطہ نہیں کیا جائے کے تحت سب جماعتیں اصول کی پاس داری کرتی رہیں۔

اسی دوران جب سینیٹ کے الیکشن میں پی ڈی ایم کی طاقت مضبوط دکھائی دی تو طاقت ور اشرافیہ نے اسکندر مرزا کے دور سے اشرافیائی اتحادی سلیکٹیڈ جماعت پی پی کو پی ڈی ایم میں دراڑ ڈالنے کا اشارہ دیا اور یوں پیپلز پارٹی نے طے شدہ پی ڈی ایم کے فارمولے کے بر عکس اسٹیبلشمنٹ زاد جماعت “باپ” کے چار سینیٹر کی حمایت لی اور اے این پی اور جماعت اسلامی کی مدد سے سینیٹ میں گیلانی کو “ہائبرڈ جمہوریت” کا حصہ بننے کے لیے اپوزیشن لیڈر منتخب کروایا اور فوری طور سے گھنٹوں کے اندر نوٹی فیکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔

پی پی پی اور اے این پی کے اس غیر اصولی مؤقف پر پی ڈی ایم نے جب وضاحت چاہی تو طاقت ور اشرافیہ کے اشارے پر اے این پی نے اپنی راہیں جدا کر لیں جب کہ پی پی پی اب بھی عوام میں اپنی ساکھ بچانے اور پی ڈی ایم کو مزید غیر مؤثر کرنے پر اس اتحاد کا غیر فطری حصہ بنے رہنے پر تُلی بیٹھی ہے۔

گو اشرافیائی اینکر اور “ہائبرڈ جمہوریت” کے تجزیہ کار پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کی نوید دے رہے ہیں، مگر امکان ہے کہ پی ڈی ایم طاقت ور اشرافیہ کی “ہائبرڈ جمہوریت” میں شامل ہونے والی جماعت پی پی پی اور اے این پی کو سیاسی نقصان پہچانے کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔

اسٹیبلشمنٹ نواز اینکر پی پی پی کی گرتی ہوئی عوامی ساکھ اور جرنیلی “ہائبرڈ نظام” کو مزید عوام کی حمایت سے نقصان پہنچائیں گے، تا کہ آئندہ الیکشن میں نواز شریف کے بیانیے سے بے نقاب “ہائبرڈ جمہوریت” اور پی پی پی عوامی سطح پر بے اثر ہو جائے اور پی پی پی/اسٹبلشمنٹ کا گَٹھ جوڑ مکمل کھل کر سندھ کے عوام کے سامنے آئے، تا کہ پی پی پی/اسٹیبلشمنٹ کا  نیا “میثاقِ ہائبرڈ نظام حکومت” سے ملک اور سندھ کے عوام مکمل آگاہ ہو جائیں جب کہ پی پی پی، جماعتِ اسلامی اور اے این پی سمیت عوام، اسٹیبلشمنٹ کے “ہائبرڈ جمہوریت” کے عوام دشمن نظام کا مقابلہ ووٹ کی طاقت سے کر سکیں۔

About وارث رضا 36 Articles
وارث رضا کراچی میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔ ملک میں چلنے والی مختلف زمینی سیاسی و صحافتی تحریکوں میں توانا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کا مستقبل عوام کے ہاتھوں میں دیکھنا ان کی جد وجہد کا مِحور رہا ہے۔