ملتان کی ثقافت اور شرمساری کلچر کا حملہ

a village in Pakistan
Picture Credit, Pinterest

ملتان کی ثقافت اور شرمساری کلچر کا حملہ

از، غُلامِ شبیر

ملتان کی آبادی کے اکثر نام وہاں پر آباد کسی خاص شخص کی کاوش اور محنت سے منسوب ہیں: مثال کے طور پر بند بوسن، لودھی کالونی، بھڑینگ والا، صالح مہے۔ اسی طرح دیہی آبادی پر مشتمل ایک قصبے کا نام نواب پور ہے۔

نواب پور پہلے ایک چھوٹی سی بستی تھی: سر سبز و شاداب گھنی۔ شاید اس کی وجہ سے اس سے مُتصِل بہنے والا دریا اور چھوٹی بڑی نہریں تھیں۔ جہاں مکان کچے تھے سوائے چند ایک پکی عمارتوں کے جو زمین داروں کی تھیں۔ یہ شہری آبادی کے پھیلاؤ کی وجہ سے اب قصبے کا روپ دھار چکی ہے۔

یہاں پر نواب پور کی منظر کشی اس کے افراد کی طرزِ زندگی، ان کے تفریحی مشاغل، شادی بیاہ کی رُسُوم، لوک ادب، لوک عقائد کے اجمالی ذکر کے ساتھ ساتھ ان گُھس بَیٹھئِیوں کی نظریاتی تبلیغ و اشاعت اور اس کے نتیجے میں ان سادہ لوح لوگوں کو اپنے کلچر سے اجنبیت اور  شرمساری کے احساس میں مبتلا کرنے والی افرا تفری کا اِحاطہ ہے۔

بستی کا نقشہ کچھ ایسے تھا کہ یہاں آباد افراد زمین دار اور کاشت کار تھے۔ باقی محنت کش طبقہ خاندانی پیشوں سے منسلک تھا، جن میں موچی، ترکھان، نائی، کمھار اور میر زادے (میراثی) رہائش پذیر تھے۔

بالکل سادہ طبیعت کے لوگ فیشن سے نا آشنا؛ زیادہ تر لُنگیاں اور کُرتا یا قمیض پہننے والے روایت کے پابند، بزرگ اور مرد سر پر پگڑی باندھتے تھے۔

یہاں کے نو جوان عام طور پر کُشتی اور کبڈی کے مشاغل میں دل چسپی لیتے اور یہاں پر گودی پیر اور پیر بخاری کے نام سے ہونے والے میلوں ٹھیلوں پر بیل دوڑاتے۔

اس کے علاوہ مرغوں، ریچھ-کتوں کی لڑائی اور بیل دوڑانے کا رواج عام تھا۔ میلوں پر تِھیئٹر اور علاقے میں کچّی ٹاکی کے نام سے لطف اندوزی کا رحجان تھا۔

شادی بیاہ کی رُسُوم میں منگنی، دن گننا، مینڈھی، بارات، جہیز، رسمِ نکاح، رخصتی کی رسم، دُلھن کی ڈولی، کونڈے پکڑائی کی رسم، ولیمہ، ست واڑہ اور وٹَّہ سَٹّہ شامل تھیں۔

لوک ادب کسی بھی معاشرے کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے ہم خوشی، غمی، محبت، نفرت کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ادب اظہار کا فطری ذریعہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ لوک ادب میں لوک قصوں اور لوک گیتوں کو اہمیت حاصل ہے۔ لوک ادب کا مرکز دیہات ہیں جہاں اس ادب کے کردار موجود ہیں اور یہ ادب زیادہ تر یہیں فروغ پاتا ہے۔

اس بستی میں ہیر رانجھا، سانول، ڈھولا جیسے کردار لوک گیتوں کی صورت میں اپنا پُر لطف اور حسین اثر طاری کیے ہوئے تھے۔

رات کے وقت بزرگ لوگ اکٹھے ہو جاتے۔ حقے کو درمیان میں رکھ دیتے اور قصے کہانیاں شروع کر دیتے۔ ایک قصہ جب شروع ہو جاتا تو یہ کئی کئی دن چلتا رہتا اور ان قصوں کے عنوان اور آغاز کی سطریں عام طور پر ایسی ہوتی تھیں:

 ہِک ہا بادشاہ، ہک ہا موٹا، گنجو لیلا، مڈھڑی مائی… 

اس طرح لوک عقائد یہ تھے۔ بچے کو نظرِ بد سے بچانے کے لے پیٹ پر سُرمے سے کراس نشان لگانا، گھوٹ کو لوہے کی تیز دھار چیز پکڑوا دینا، آنکھ کا پھڑکنا، کالی بلی کا راستہ کاٹنا اور یہ بھی عقیدہ تھا کہ جُمعے رات کو شروع ہونے والی بارش آٹھ دن نہیں رکتی۔

بستی والے اپنے اس کلچر میں پُر سُکون، ذہنی توازن اور بھائی چارے سے سجی دھجی زندگیاں بسر کر رہے تھے۔

پھر اچانک مضطرب اور شرمساری کلچر کے ماروں کا گروہ یہاں آ بسا جنھوں نے آتے ہی یہاں کے لوک ادب کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور اس کا آغاز انھوں نے ٹیپ ریکارڈر پر آگ لگانے والے نام نہاد مذہبی پیشواؤں کے آڈیو کیسٹس سے کیا جنھیں اس گروہ کا بڑا ملتان حسین آگاہی بازار سے لے کر آیا جو اس وقت کیسٹس، ٹیپ ریکارڈرز کی خرید و فروخت کا مرکز تھا۔

وہ ایسے مذہبی پیشواؤں کی آڈیو کیسٹس ہوتیں جن کے پاس درسِ نظامی کے سندیں تو دور کی بات قرأتِ قرآن کے سند تک نہ تھی۔ لیکن وہ خطیب کا تخلص ساتھ لگائے لوگوں کو اپنے کلچر سے شرمسار کرنے کا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔

ان میں سے تو ایک نا بینا تھے جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی مدرسے سے فارغُ التَّحصیل نہ تھے، بَل کہ ان کی بیوی نے اُنھیں قرآنِ مجید پڑھایا تھا

اور وہ اب عامۃُ النّاس کو خطبے دیا کرتے تھے۔

اب ایک نا بینا آدمی دیکھنے والوں کو طرزِ زندگی کا درس دے رہا تھا۔ حیرت ہے کہ جو آدمی عربی کے صَرف و نَحو سے واقف نہیں وہ لوگوں کو درسِ قرآن مجید دے رہا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ حضرتِ عُمرِ فاروقؓ کے دور میں ایک عربی دیہاتی قرآن مجید سیکھنے کی غرض سے مسجدِ نبویؐ میں آیا تو وہاں پر موجود ایک قاری نے ایک آیت پڑھائی جس میں اس نے ایک لفظ رسولہ میں ہ پر پیش کو زیر پڑھا دیا۔

وہ عربی دیہاتی کھڑا ہوا اور یہ کہتے ہوئے باہر چلا گیا کہ اگر اللہ اپنے رسولﷺ سے بے زار (نعُوذ بااللہ) ہے تو میں بھی بے زار ہوں؛ میں جا رہا ہوں میں نے نہیں سیکھنا قرآنِ مجید۔ حالاں کہ اس ہ حرف کے اوپر پیش تھی جس کا مطلب بن رہا تھا اللہ اور اس کا رسولﷺ ان مشرکین سے بے زار ہیں۔

جب یہ بات خلیفۂِ وقت تک پہنچی تو انھوں نے اس شخص کو ڈھونڈ کر درست انداز سے پڑھوایا اور آئندہ کے لے یہ قانون بنا دیا کہ جس شخص کو صَرف و نَحو پر عبور نہیں اسے قرآنِ مجید یا اس کی تبلیغ و تعلیم کا کوئی حق نہیں۔

اسی طرح ایک اور مذہبی پیشوا تھے جن کی تقریریں ایک خاص طبقے کے خلاف منافرت پھیلاتی تھی جو اہلِ بیتؑ سے عقیدت کا دَم بھرتے تھے، ان مذہبی پیشوا کے آڈیو کیسٹس بھی لاؤڈ سپیکر پر چلائےجاتے۔

ان آڈیو کیسٹس کے ذریعے اس تبلیغ بارے ان کا مؤقف یہ تھا کہ ہمارا یہ مقصد ہے کہ ہم اپنے مالک کی بندگی کریں اور اس میں شرک کو برداشت نہ کریں۔

اب چُوں کہ اس آبادی کے لوگ لوک کرداروں کی دھن میں رہتے تھے، انھیں ولی اللہ کا درجہ دیتے۔ وہ اس لیے کہ ان کا ماننا تھا کہ مجازی محبوب ہمیں حقیقی محبوب کی طرف لے جاتا ہے۔

ان دنوں ایک شعر زبان زَدِ عام تھا:

نگاہِ ولی میں یہ تاثیر دیکھی

بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

یہ گروہ اس شعر کے تناظر میں جانے کے بَہ جائے، اس کے علامتی مطلب کو سمجھنے کی بَہ جائے یہ کہتے کہ یہ غلط ہے: انسان تقدیر نہیں بدل سکتا؛ یہ شرک ہے؛ اللہ کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔

اس قسم کی عقیدت کے ابطال کو حق بَہ جانب ثابت کرنے کے لیے یہ آدمی مسجد میں بیٹھتے اور سرِ عام سپیکر پر ان مذہبی پیشواؤں کے کیسیٹس چلاتے جو علامتی آڈیوز استعاراتی باتوں میں محبوب تلاش کرنے والی اس آبادی کو گُم راہ، مشرک، حتیٰ کہ کفر تک کا فتویٰ لگانے والے تھے۔

ان نفرت انگیز تقاریر نے دیکھتے دیکھتے ٹکراؤ کی سی شکل اختیار کر لی۔ ہوا یہ کہ معمول کے مطابق سپیکر پر کیسٹ چل رہا ہو رہا تھا کہ آبادی کے پانچ سو کے قریب آدمی اکٹھے ہو کر آ گئے اور آتے ہی انھوں نے کہا:

آپ لوگ ہماری عقیدت کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں کو گُم راہ کہتے ہیں۔ آپ کو ہمارے ناموں تک پر اعتراض ہے۔ البتہ یہ لوگ چند بزرگوں کے کہنے سے اس امید پر واپس لوٹا دیے گئے کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔

اس گروہ نے جب یہ دیکھا تو انھوں نے علاقے سے باہر سعودی فنڈڈ مذہبیوں سے تانے بانے شروع کر دیے، جنھوں نے اس گروہ کو ہر ممکن مدد کا یقین دلایا،اور انھوں نے جلتی پر تیل کا کام یہ کیا کہ ایک جلسے کا انعِقاد کرایا اور ساتھ میں اسلِحہ سے بھری ایک ویگن بھی دی۔

اس گروہ کے سرکردہ فرد نے اس گروہ کے لیڈر کو کہا کہ آپ پروا نہ کریں۔ اس آبادی والوں میں سے اب جو بھی آیا، خالی نہیں جائے گا۔

مقامِ شکر ہے کہ اس بات کا بَر وقت اہلِ علاقہ کو معلوم ہو گیا، جس پر مقامی بزرگوں نے انھیں منع کیا کہ آپ لوگ اعراض کریں وگرنہ یہاں کوئی بہت بڑا خون خرابہ ہو سکتا ہے۔ اس گروہ کے ساتھ جو آدمی آئے ہوئے ہیں یہ سعودی فنڈڈ ہیں آپ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

اب کیا ہوا کہ اس گروہ نے اپنی جڑیں مزید مضبوط کر لیں اور دیکھتے دیکھتے دیگر جماعتوں کے آلۂِ کار بھی بنتے گئے، جن میں ایک ایسا گروہ بھی تھا جس نے اس علاقہ کی ثقافت کو شدید نقصان پہنچایا۔

ان کا ہدف نو جوانوں کی ذہن سازی تھی جنھوں ان کو بیچ کھایا: کھالیں جمع کرا، چندہ جمع کر، عُشر اکٹھا کر اور آخر میں انھیں عسکری ٹریننگ کے لے تیار کرنا، ان کے مقاصد تھے۔

ان کی ذہن سازی کا اثر یہ ہوا کہ یہ نو جوان سرِ عام اہلِ علاقہ کو کہتے اب ہم کافی مضبوط ہو گئے ہیں؛ ہم آپ کے ان مزارات کو ڈھا دیں گے۔ آپ یہ نہ سمجھنا ہم تعداد میں کم ہیں۔ جو کوئی دین کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔ ان نو جوانوں میں سے کئی ایک چُوں کہ عسکری ٹریننگ حاصل کر چُکے تھے، سو وہ اسلِحہ لیے پھرتے تھے۔ اپنے گھروں سے باہر انھوں نے مورچے تک بنائے ہوئے تھے۔

وہ اپنے آبائی ناموں تک کو نیچ اور گھٹیا سمجھتے تھے۔ ان ناموں کو وہ کہتے یہ شِرکیہ نام ہیں، اور خود کو عربی نام دے رکھے تھے۔ پِیراں دِتّہ، پِیراں رَکّھا، محمد بخش، جند وڈا، یہ سب شرکیہ نام ہیں یہ کوئی سلفی نام تو نہیں۔

ایک دفعہ کسی سلفی استاد نے ایک بچے کو مار مار کر اس کی ٹانگ اس لیے توڑ دیں کہ تمھارا نام پیراں دِتّہ کیوں ہے؛  باربار کہنے پر اس نے اپنا نام کیوں نہیں تبدیل کیا۔

اس گروہ کے بیرونی شَہہ دینے والے گروپوں سے تعلق کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی اور گُھس بَیٹھئِیے بیرونی امداد کی خاطر اس دھیمے مزاج، میل ملاپ والے علاقے کا رخ کرنے لگے لیکن انھیں زیادہ پذیرائی نہ مل سکی۔

اس گروہ کا لوک گیتوں سے کراہت بارے مؤقف یہ تھا کہ جو چیز اللہ کی یاد سے غافل کر دے وہ حرام ہے، برائی ہے۔ کسی ایسی چیز سے دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے  اور وجہ یہ بتاتے کہ اس میں شرکیہ باتیں ہوتی ہیں۔ ہمارے دلوں پر جادو سا ہو جاتا ہے۔ ہیر رانجھا، سسی پُنوں بے حیائی والے بناوٹی کردار ہیں جو ہمیں دین سے دور کرنے کا مُوجب ہیں۔

اس بستی کے لوگ شادی بیاہ، خوشی غمی میں ایک دوسرے کا ساتھ  نبھاتے تھے، اس لے یہاں مجموعی طور عورت مرد کا تعلق، احترام اور ادب کا تعلق تھا۔ پر اس گروہ نےان سادہ لوح لوگوں کے اس تعلق کو بے شرمی کا ناتہ قرار دیا۔ حتیٰ کہ خون کے رشتوں کو بھی۔ اپنے آپ کو نیک پارسا سمجھنے والے کچھ ایسا ظاہر کرتے کہ عمر اور رشتے میں ادب تک کو بھلا دیتے۔ مثال کے طور پر اگر ایسی کوئی عمر رسیدہ عورت کبھی ان کے حال احوال دریافت کر لیتی تو یہ کہتے پہلے آپ پردہ کریں، پھر بات کریں۔

تو ایسی خواتین کا جواب ہوتا کہ پہلے تو ہم آپ سے عشق کریں، پھر ہمارے خاوند ہمیں طلاق دیں، پھر تم سے ہمارا نکاح جائز ہو؛ تم لوگوں کو شرم نہیں آتی۔ ہم عورتوں نے تمھیں اپنے ہاتھوں میں پالا ہے ہم تمھارے ماں باپ کے برابر ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسی لوگوں کی اولاد خراب سے خراب ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہی ہیں جو ان پابندیوں کا کہہ رہے تھے۔

یہ بھی حقیقت ہے جن حضرات و خواتین نے ان کی بتائی ہوئی پابندیوں کا اثر نہ لیا  انھوں نے اپنی اولاد کی تربیت دُرست کی، کیا ان کی اولاد اچھے ماحول میں نہ رہی تھی؟

اب یہ حضرات خواتین کے لیے ٹیبل کلاک کا استعمال مکرُوہ سمجھتے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ کسی کے آنے کے انتظار میں مددگار آلہ ثابت ہو۔

یہی نہیں یہ حضرات خواتین کا چوڑیاں پہننا نا جائز کہتے۔ خاص کر کے شادی بیاہ کے موقعے پر خواتین کا مہندی یا ہار سنگھار کرنے کو حرام تک سمجھتے اور اس کی وجہ بتاتے کہ کہیں نا محرم متوجہ نہ ہوں جو زمین پر شر پھیلانے میں شامل ہے۔

اس گروہ کی نئی نسل انتہائی شدت سے ان باتوں پر عمل پیرا تھی۔ اس کا قابلِ افسوس اثر یہ ہوا کہ ایسے حضرات و خواتین جو اس علاقائی ثقافت کی شان تھے انھیں جہنمی، شیطان تک کہا جانے لگا۔

یہ نئی نسل کس قدر متشَدّد تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو آدمی بیل بوٹوں والی جائے نماز پہ نماز پڑھتا اسے وہ اس کے پاؤں کے نیچے سے نکال لیتے جس کی وجہ وہ یہ بتاتے کہ جائے نماز سادہ ہو۔ حالاں کہ خود پا پوش جیسی چیز پہن کر مسجد میں نماز پڑھنا جائز سمجھتے۔

جس کمبل پر کسی جان ور کی شکل بنی ہوتی اس کو کاٹ دیتے، ٹی وی توڑنے کے لے بچوں سے اللہ کے نام کی قسم کا عہد لیتے۔

میر زادوں سے نفرت سکھلاتے۔ ان کی رہ میں رکاوٹیں ڈالتے۔ انھیں شیطان کا چیلا کہتے۔ مہندی کی رسم کو ہندووں کی رسم کہتے۔ نیز شادی بیاہ کی تقریبات میں دوہڑے، ماہیے، ناچ گانے کو دین سے دوری، اللہ کی مخالفت، نا راضی کہتے۔

ظاہر ہے جب خوشیوں کو اتنا برا بھلا سمجھایا جائے تو یہ فطری تقاضے چور دروازے ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔

جہاں انسانی حقُوق و فرائض کو پسِ پشت ڈال کر نفرت اور شرمندگی کی دبیز دیواریں کھڑی کر دی جائیں وہاں کی ثقافت مر ہی جائے گی۔ کہتے ہیں جو کسی کے لے گڑھا کھودتا ہے، پہلے وہ خود ہی  اس میں گرتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال ان گھس بَیٹھئیوں کا ہوا۔