پر تشدد سوچ اور پر تشدد عمل

رفیع اللہ میاں

پر تشدد سوچ اور پر تشدد عمل

از، رفیع اللہ میاں

سوچ کے ٹکراؤ اور دہشت کے عملی اقدامات میں بہت فرق ہے۔ لوگ عام طور پر متعدل مزاج نہیں ہوتے۔ وہ سوچ میں شدت اور حد درجے یک طرفگی کے ساتھ جیتے ہیں۔

یہ امکان کہ ہمارے مقابلے میں دوسرا درست ہوسکتا ہے؛ ایک سخت مشکل معاملہ ہوتا ہے۔ ایسا سوچنا خود کو غلط ثابت کرنے کے بارے میں سوچنا ہے۔ خود کو غلط ثابت کرنے کا مطلب ہم خود پر تنسیخی لکیر کھینچنے کے مترادف لیتے ہیں۔ یہ خیال ہمیں حلق سے جکڑ لیتا ہے کہ دوسرا اگر درست ہے تو اس کا مطلب ہے تم ختم ہوگئے۔ اور سوچ میں خود بہ خود شدت اور حد درجے یک طرفگی بس جاتی ہے۔

مزاج میں اعتدال یہ ہے کہ کوئی بھی سوچ پوری کی پوری درست یا غلط نہیں ہوتی۔ اس لیے دوسرے کے درست ہونے کا امکان بہرحال موجود ہے۔ آگے بڑھ کر انسانی سطح پر اس امکان سے ہاتھ ملالیا جائے۔

لیکن مذہب ہو یا ایسا نظریہ، جس کے پیروکار اسے اوّل و آخر حتمی سمجھیں، اگر انھیں کھلے عام دوسروں کو ڈرانے، دھمکانے، ہراساں کرنے، جان سے مارنے کا جواز بنا لیا جائے؛ تب، اسے محض سوچ کا ٹکراؤ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ ٹکراؤ نہیں بلکہ دہشت گردانہ حملے ہیں۔ عام لوگوں کی غیر متعدل مزاجی، سوچ کی شدت اور حد درجے یک طرفگی کو کسی مذہب یا نظریے کا سہارا درکار ہوتا ہے۔ جوشخص مذہب کو کسی کی موت کے لیے جواز بناسکتا ہے وہ عیار ذہن دوسروں کی سوچ کو بھی مرنے مارنے کے لیے جواز بنا سکتا ہے۔

ہم یہ سمجھنے کی اکثر غلطی کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں کہ سوچ اور عمل میں یہ شدت مذہب اور نظریے کی دَین ہے۔ کسی بھی مذہب اور نظریے میں یہ طاقت نہیں ہوتی کہ وہ لوگوں کو کسی خاص مقصد کے لیے متحرک کرسکے۔ یہ صرف نقطۂ نظر اور ہدایت کا مجموعہ ہوتے ہیں، ایک تجویز۔ جس کی ترجمانی اور تشریح کے لیے انسان کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح داستان گو کے ہاتھ میں ایک خاص قسم کی طاقت ہوتی ہے اور وہ اپنی لسانی صلاحیت سے وہ جذبات و احساسات سامعین کے اندر پیدا کردیتا ہے جو وہ پیدا کرنا چاہتا ہے، اسی طرح تعبیر و تشریح اور ترجمانی کرنے والا بھی اپنی طاقت کے احساس سے لبریز ہوتا ہے۔ وہ مذہب اور نظریے کے نام پر اپنے پیروکار بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ طاقت ور ہونے کی تمنا رکھتا ہے۔ طاقت کی خواہش رکھنے والے مذہب اور نظریے، سیاست، معیشت، فن کے نام پر لوگوں کو اپنے گرد جمع کرتے ہیں۔ ان کے اندر وہ احساسات اور جذبات پیدا کرتے ہیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں جو ان کے لیے طاقت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

طاقت کی خواہش ہی سے ریاست کی طاقت جنم لیتی ہے۔ ریاست کے عمّال کی سوچ اگر بیمار حد تک بے حس ہو تو وہ ایسے شہری پیدا کرتا ہے جن کی سوچ کبھی معتدل نہیں رہتی۔ جب معاشرے میں سوچ کو اعتدال پر لانے والی تعلیمی و تربیتی سرگرمی دکھائی نہ دے تو سمجھ لینا چاہیے کہ ریاست کیا چاہتی ہے۔ ریاست ایسے نجی اداروں کو پروان چڑھنے دیتی ہے جہاں درست تعلیم و تربیت کے نام پر سوچ میں بے اعتدالی پیدا کی جاتی ہے۔ ہر ادارے کا یہی دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ درست خطوط پر تعلیم دے رہا ہے۔ اپنے ’درست‘ پر اس حد تک غیر محسوس انداز میں اصرار کہ دوسرا خود بہ خود ’غلط‘ دکھائی دے، ان اداروں کا طرۂ امتیاز ہے۔ ظالمانہ طاقت جمع کرنے والی ریاست کے لیے یہ ادارے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ان سے براہ راست کام نہ بھی لے، تب بھی یہ اس کے دست و بازو ہوتے ہیں۔

طاقت کے بے حس پجاریوں کے درمیان مذہب، نظریہ، سیاست، معیشت، فنون سب کے سب تصورات بے چارگی کی شکل ہوتے ہیں۔ سب تشکیل کردہ ساختیں۔ ہر ساخت کے اندر ’حتمی درست‘ کا مقولہ پیوست کیے ہوئے۔ اسی لیے ڈی کنسٹرکشن کا پیش کار فلسفی اسے دھوکا کہتا ہے۔ سوچ کا ٹکراؤ حتمی نہیں ہوتا۔ اسے حتمی سمجھنے والے یا تو سوچ کی شدت کا شکار ہوتے ہیں یا پھر عملی دہشت گردی پر اتر آتے ہیں۔ سوچ اور عمل کا تعلق آپس میں جڑا ہوا ہے لیکن ایک پرتشدد عمل تک پہنچنے کے لیے سوچ کی خودکار صلاحیت سے ہٹ کر بیرونی طاقت کے اُکساوے درکار ہوتے ہیں جو سوچ کی خودکار صلاحیت کو منجمد کرکے رکھ دیتے ہیں۔ اس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہدایات اور تجاویز کے مجموعے سوچ کی خود کار صلاحیت کو منجمد نہیں کرتے۔ ہدایات اور تجاویز کی نوعیت اپنے اندر ایسے خواص کی حامل ہے جو ذہن کو جان و مال کی حرمت کی طرف راغب کرتے ہیں۔

طاقت مجتمع کرنے کی خواہش رکھنے والے اداروں اور گروہوں کے لیے تباہ کن ایک ہی چیز ہے؛ سوچ و فکر کا اعتدال جو پرتشدد عمل کے آگے بند باندھ دیتا ہے۔ معاشرے کے اندر سوچ اور عمل کی شدت پسندی کے درمیان موجود فرق کو مٹانے کی کوشش کا مقصد ایک ہی ہوسکتا ہے؛ دھوکے پر مبنی ایک ایسی ’کلیت‘ کی تشکیل جو ریاست کی ظالمانہ گرفت کو مزید مضبوط بنادے۔ پر تشدد سوچ جب تک پرتشدد عمل میں نہیں ڈھل جاتی، یہ تب تک اعتدال کے اندر رہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو اعتدال کے اندر ہے وہ پرتشدد کیسے ہے؟ کسی سوچ کے خاتمے کی خواہش شدت کے اس دائرے میں لے کر جاتی ہے جہاں سوچ تو غیر معتدل رہتی ہے لیکن عمل اعتدال سے نکلا نہیں ہوتا۔ یہ سوچ اور عمل کے درمیان کا اعتدال ہے جو غیر معتدل سوچ کو عمل کے اعتدال کے اندر رکھتا ہے۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ عمل کی شدت سے عاری سوچ کی شدت کا جواز کیا ہے؟ یہ جواز طاقت کے ادارے پرتشدد عمل کے ذریعے ہی فراہم کرتے ہیں۔ ایک گروہ کا پرتشدد عمل دوسرے گروہ کی پرتشدد سوچ کے لیے محرک بنتا ہے۔

لیکن کیا یہ اتنی سادہ بات ہے کہ کہا جائے کہ ’ایک گروہ کا پرتشدد عمل دوسرے گروہ کی پرتشدد سوچ کے لیے محرک بنتا ہے۔‘ یہاں عمل اور سوچ کا ’جدلیاتی عمل‘ تو دکھائی دیتا ہے لیکن ’سیاسی سماجی تشکیلی عمل‘ کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ’’پرتشدد عمل‘‘ ایک تشکیلی ساخت ہے۔ اسے ڈی کنسٹرکٹ کرکے دیکھیں تو طاقت کے اکساوے مل جاتے ہیں۔ لیکن ڈی کنسٹرکشن سے قبل ہمیں ایسے حتمی معانی دکھائے جاتے ہیں جو حتمی سچ نہیں ہوتے۔ یعنی سوچ کو ایک ایسی جانب راغب کیا جاتا ہے جہاں موجود معنیٰ حقیقت میں اپنا وجود نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر مذہب زمینی ثقافت کا ایک قدیم حصہ ہے۔ اس کی تشریح و تعبیر کرنے والے ادارے اور خود ریاست آزاد اور معتدل سوچ کو منجمد اور متشدد بنانے کے لیے ’عمل اور رد عمل‘ کا کھیل کھیلا کرتی ہے۔

چناں چہ پرتشدد عمل ایسی شے نہیں ہے جو سوچ کے خود کار تفاعل کا نتیجہ ہو۔ یہ ہدایات اور تجاویز کے مجموعوں سے افزائش نہیں پاتا، اسے سوچ کے خود کار تفاعل کو منجمد کرکے باہر سے ابھارا جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو پرتشدد سوچ کی داخلی کم زوری ہی یہی ہے کہ یہ ایک تشکیلی ساخت کے دھوکے میں آجاتی ہے۔ یعنی تشکیلی ساختوں کو ڈی کنسٹرکٹ کرنے (اس دھوکے سے بچنے) والی سوچ ہی معتدل ہوسکتی ہے۔ تشکیلی ساخت کے دھوکے میں آنے والی سوچ، بہرحال، ایک ایسے مقام پر کھڑی ہوتی ہے، جہاں موافق ماحول ملنے پر اس کے پرتشدد عمل میں ڈھلنے کا امکان موجود ہوتا ہے۔ تشکیلی ساختیں ہمیشہ سوچ کو منجمد کرنے کی طرف راغب کرتی ہیں۔

امن اور سکون والی فضا کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ وہ پرتشدد عمل کا راستہ روک کر اسے ختم کرتی ہے۔ اس کے لیے محرک بننے والے ذرائع پر نگاہ رکھتی ہے۔ سوچ کو معتدل رکھنے والی سرگرمیوں کو فروغ دیتی ہے۔ جب وہ ایسا نہیں کرتی تو دراصل تشدد کو اپنا ہتھیار بنالیتی ہے۔ معتدل سوچ ناقابل برداشت ہوتی ہے، اس لیے ریاست ایسے شہریوں کو اکساتی ہے کہ تشدد کے دائرے میں وہ بھی داخل ہوں۔ پرتشدد اور غیر پرتشدد سوچ کی ایک اور تقسیم کے ذریعے ایسی سوچ کو کاؤنٹر کرتی ہے جو پرتشدد عمل پر تنقید کرکے اس کی مذمت کرتی ہو۔ پرتشدد عمل، پرتشدد سوچ کے لیے جواز نہیں ہے۔ یہ ریاستی ذمہ داری کے دائرہ کار کے اندر کا معاملہ ہے۔ اسے ریاست نے ختم کرنا ہے۔