سڑاند ، افسانہ از، جواد حسنین بشر

سڑاند Sarrand

سڑاند 

افسانہ از، جواد حسنین بشر (ابنِ مسافر)

آنکھ کھلی تو میں نے خود کو کھولتے ہوئے لاوے پر تیرتے پایا۔ دہکتے اور کھولتے ہوئے لاوے کا گویا ایک سرخ انگارہ اور حدود نا آشنا سمندر تھا جس کی سطح پر میرا بدن دھیرے دھیرے ہچکولے لے رہا تھا۔ میرا وجود پگھل بھی رہا تھا اور نہیں بھی پگھل رہا تھا۔ میری نظریں اپنی کلائیوں اور ایڑیوں پر ٹھہر گئیں جن پر لوہے کے دہکتے کڑوں میں جکڑے رہنے کے باعث تاریک تر نشانات پڑ چکے تھے۔ مجھے کچھ کچھ یاد آنے لگا۔ مجھے آگ کے کوڑوں سے ادھیڑا اور برابر ہانکا جا رہا تھا۔ مجھے جن زنجیروں میں جکڑا گیا تھا، انھیں شاید بلند ترین درجہ حرارت پر تپایا گیا تھا۔

وہ سب کیا تھا؟ میں کسی لمبی نیند سے جا گا تھا شاید اور جاگتے ہی بد ترین حالات کو جھیلنے کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ اُس سے پہلے بھی جب میں جاگا تھا تب بھی کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا کر نا پڑا تھا مجھے۔ پھر شاید میرے بدن میں کسی نے چند گرام تیز رفتا دہکتا سیسہ اتار کر مجھے لمبی نیند سلا دیا تھا۔

میری یاد داشت میرا ساتھ دے رہی تھی لیکن میں کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ کوڑا بردار ہانکنے والے مجھے برابر جس طرف ہانک رہے تھے اُس طرف دور کچھ زیادہ ہی وسیع و عریض افق پر دھویں کے بھیانک اور گہرے سیاہ بادل ناچ رہے تھے۔ پھر اچانک مجھے ٹھوکر لگی تھی اور میں اوندھے مُنھ آگ اگلتی ریت پر جا گرا تھا اور پھر۔ ۔۔۔

اب میری آنکھ اس کھولتے اور دہکتے ہوئے لاوے کے سمندر پر کھلی تھی۔ میرے ذہن میں بے ہوش ہونے سے پہلے ہانکنے والوں کا ایک جملہ ابھی بھی تازہ تھا۔ وہ کسی جہنم کا نام لے رہے تھے۔ جہاں مجھے ہمیشہ ہمیشہ رہنا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں اُس جملے کو یاد داشت کے دھاگے کا ہاتھ آیا سِرا بناتا دہکتے اور کھولتے ہوئے سرخ انگارہ سمندر نے مجھے نگل لیا اور میرا ذہن ایک بار پھر بے پناہ گرم اور تاریک وادیوں میں اترتا چلا گیا۔

۔۔۔

بے شمار صدیوں جتنا وقت گزر چکاہے یا پھر شاید ۔۔۔ اب میں جس جگہ رہتا ہوں وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں کوئی بھی رہنا پسند نہیں کرے گا۔ یہاں ہر جانب آگ کی مہیب لپٹیں ہیں اور کھولتے ہوئے پانی کے گہرے اور وسیع تالاب ہیں۔ فضاؤں پرگلتی سڑتی اور جلتی ہوئی کھالوں کی سڑاند کا قبضہ ہے اور آگ کی مہیب لپٹیں ہمہ وقت نگلنے کو تیار۔ تالابوں سے اٹھتی دبیز بھاپ کے خونی رنگ نے ماحول کو اور بھی بھیانک روپ دے رکھا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ میں جہنم میں ہوں۔

اب میں اس ماحول کا عادی ہو چکا ہوں جس میں ہمہ وقت ذبح ہوتے یا بھونے، کاٹے اور پیسے جا رہے زندہ اجسام کی چیخ و پکار کے علاوہ اور کوئی آواز سماعتوں نہیں ٹکراتی۔ مجھے یہاں وہ سبھی لوگ ملے جنھوں نے مجھے گمراہ کیا تھا۔ ان میں کچھ تو وہ تھے جن کے نام سے میں صرف ان کی تحریروں کی وجہ سے واقف تھا اور کچھ ایسے بھی تھے جنھیں میں صورت سے بھی پہچانتا تھا یعنی میں نے ان کی ساکت یا متحرک تصویریں دیکھ رکھی تھیں۔ یعنی وہ سب جن کی وجہ سے میں جہنم کا لقمہ بنا تھا۔ لیکن عجیب بات تھی کہ ان کو یہاں دیکھ کر مجھے اتنا ہی دکھ ہوا تھا جتنا دنیا میں ان کے بارے میں یہ سن کر ہوتا تھا کہ وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے؟

میرے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اسی قابل ہیں اور جو بھی اُن کو اہم سمجھتا ہے وہ بھی اسی قابل ہے کہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ جلے۔ اور شاید اسی لیے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

دنیا میں سوچنے سمجھنے والا ہر ایک انسان یہاں موجود تھا۔

وہ پہلا شخص جو مجھے ملا تھا آگ کی مہیب لپٹوں کے سائے میں بیٹھا تھااوریہاں بھی فکر میں غرق تھا۔ اسی نے مجھے اس دیوار کے بارے میں بتایا تھا جس کے دوسری طرف عیش و نشاط کے ہنگامے برپا رہتے تھے اور اُس طرف سے آرہی فرحت بخش اور اشتہا انگیز خوشبوئیں اِدھر والوں کی تکلیفوں اور چیخ و پکار میں مزید اضافے کا سبب بنتی تھیں۔ وہ مجھے بھی اُس دیوار کے قریب لے گیا تھا۔

میں نے غور سے سنا تو وہ عیش و نشاط کے ہنگامے دراصل عجیب و غریب صداؤں کے حامل تھے۔ مسلسل چبانے کی آوازیں، ڈکارنے کی آوازیں، کراہنے کی مخصوص آوازیں، تھپتھپاہٹیں، لپٹنے، چوسنے اور غٹا غٹ نوش در نوش کی آوازیں اورچیخ و پکار کی نسوانی آوازیں۔ میں وہاں زیادہ دیر نہیں ٹھہرا اور واپس پلٹ آیا۔ لیکن دیوار کے قریب جانے کا واقعہ بہت پہلے کا ہے بہت پہلے کا۔ اب سنا تھا کہ دیوار کے اُس جانب کی آوازوں کی شدت میں مسلسل کمی آ رہی تھی اور اِدھر کے باسی اِس کی وجہ جاننے کے لیے جیسے صدیوں سے بے چین تھے۔

۔۔۔

میں جہنم میں خوش ہوں۔ سچ مچ خوش ہوں۔

وہ سب مجھے یہاں ملے جن سے میں دنیا میں ملنا چاہتا تھا لیکن وہ مجھ سے کئی دھائیوں یا پھر صدیوں پہلے ہو گزرے تھے۔ اُس پہلے شخص کے بعد جو مجھے اس دیوار کے پاس لے گیا تھا میں ایک دوسرے شخص سے بھی ملا تھا۔ جس کے سَر پر واضح طور پر ایک گومڑ سا بنا ہواتھا۔ میں جانتا تھا کہ دنیا میں اس کے سر پر ایک سیب گرا تھا لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ سَر پر سیب گرنے سے اتنا بڑا گومڑ کیسے بن سکتا ہے؟

اس نے مجھے بتا یا کہ آگ کی یہ مہیب لپٹیں کھولتے ہوئے تالابوں کی سطح پر کیوں جھکی رہتی ہیں۔ مجھے ایک تیسرا شخص بھی ملا تھا۔ اُس نے جو کچھ بتایا تھا وہ حیرت انگیز تھا۔ اُس نے بتایا تھا کہ جہنم کے کسی کونے میں کچھ سوچنے اور کھوجنے والوں نے ماحول کو بدل ڈالا تھا اور یہ سلسلہ جہنم کے دیگر علاقوں تک پھیلنے اورتیز تر ہونے کی خبریں مسلسل آ رہی تھیں۔ ایک چوتھا شخص بھی مجھ سے ملا تھاجس کی تائید پر میں نے دنیا میں بہت کچھ جھیلا تھا۔ میں بے شمار لوگوں سے مل چکا تھا۔ ان میں سے اکثر ایسے تھے جنھیں دنیا میں انتہائی شریف النفس، انسان دوست اور اہلِ علم میں شمار کیا جاتا رہا تھا۔

میں ان کے یہاں ہونے پر پریشان بھی تھا اور کسی حد تک پرسکون بھی۔ وہ اس لیے کہ ان کی موجودگی سے مجھے ہمہ وقت ایک ڈھارس سی بندھی رہتی تھی۔ مجھے ان پر دنیا میں بھروسا تھا اور ابھی بھی ان پر یقین سا تھا کہ وہ دنیا کی طرح اپنی ذہانت و فکر سے اس جہنم کو جنت میں بدلنے کا کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیں گے۔ جس کا ثبوت جہنم کے کسی کونے سے بدلاؤ کی وہ خبریں تھیں جو اُس تیسرے شخص کی زبانی مجھ تک پہنچی تھیں جس سے میں اُس دوسرے شخص کے بعد ملا تھا جس کے سَر پر واضح طور پرایک گومڑ سا بنا ہوا تھا۔میں اُس پہلے شخص کی طرف چل پڑا جس کا بلاوا مجھ تک پہنچ چکا تھا۔ اُس نے مجھے جلد از جلد آنے کا کہا تھا۔

۔۔۔

میں کچھ دیر پہلے ہی اس پہلے شخص کے پاس پہنچا تھا جو مجھے اس دیوار کے پاس لے گیا تھا جس کی دوسری جانب ہنگامے کے سرد ہونے کی خبروں نے اِس طرف ہلچل مچا رکھی تھی۔ ہر کوئی جاننا چاہتا تھا کہ آخر دیوار کے اُس طرف ایسا کیا ہوا کہ ہمیشہ جاری رہنے کے لیے شروع ہونے والی عیش و نشاط کے رسیاؤں نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔

یہ کیسے ممکن تھا؟

ہم دیوار کے پاس ہی کھڑے تھے اور یہ سچ تھا کہ دیوار کی دوسری جانب وہ تمام آوازیں معدوم ہو چکی تھیں جنھیں میں نے بہت بہت پہلے سنا تھا۔ اُس پہلے شخص نے اپنی مسلسل فکر کے ذریعے دیوار کے اُ س طرف جانے کا راستہ تلاش کر لیا تھا۔ گویا اِس طرف والوں کے تجسس کی تکمیل ہو سکتی تھی۔ میں تو کچھ زیادہ ہی پُر جو ش تھا۔ خاص کر یہ جان کر کہ وہ پہلا شخص صرف مجھے ہی اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔

ہم دونوں نے قدم اس راستے پر اٹھا دیے جو بھول بھلیوں کی طرح دیوار کے اُس طرف جا رہا تھا جہاں اب صرف سکوت تھا۔ جلد ہی اس پہلے شخص نے جیسے کچھ محسوس کر کے مجھے آنکھیں بند کرنے کو کہا۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں اور چلتا رہا۔ کچھ دیر بعد اس نے مجھے کہا کہ اب میں اپنی آنکھیں کھول لوں۔ میں نے آنکھیں کھولیں۔ اور پھر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔

نرم و ملائم ٹھنڈی ہَوائیں،

خوشگوار ترین موسموں کا حسین امتزاج،

سبزہ و گل کی فرحت بخش بہاریں اور خوشبوؤں میں رچی بسی فضائیں۔ ۔۔۔

لگتا تھا کہ یہ سب اُس طرف ملے گا۔ لیکن ۔۔۔ اُس طرف کا منظر تو کچھ اور ہی تھا۔ ۔۔۔

دور بہت دور تک بچھی ہوئی دبیز اور تیز رنگ گھاس کے وسیع تر میدانوں پر، خیموں کے اندر باہر، پھلوں کے چھلکوں اور گٹھلیوں کے ڈھیروں کے درمیان، بے شمار ننگے وجود بکھرے ہوئے تھے جن پر پھیلے چہرے کے لمبے بالوں کے نیچے بڑے بڑے پیٹ پھٹے پڑے تھے اور ان کے پہلو بہ پہلو چاندی جیسی رنگت کے حامل نازک اور لطیف ابدان کے تراشیدہ نشیب و فراز پر بہتے اور ہر دو سوراخوں سے ابلتے ڈھیروں ڈھیر لیس دار سفید مادے کی سڑاند ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے بے اختیار ناک اور مُنھ پر ہاتھ رکھ لیا، میری آنکھوں سے لہو جاری ہو گیا اور میرا ساتھی وہ پہلا شخص جو مجھے دیوار کے اِس پار لایا تھا خون کی الٹیاں کرنے لگا۔