علاقہ غیر کی عورت اور نیا نویلا منٹو

Rozan Social Speaks
ایک روزن سوشل

علاقہ غیر کی عورت اور نیا نویلا منٹو 

علاقہ غیر کی عورت بھی ایک دن ہالی وڈ فلموں کی خواتین کی طرح خود سے، اکیلے شوہر کی تلاش میں شہر آ کر یہ سب کچھ کر کے، گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے واپس چلی جائے گی___ اپنے پیچھے نشان نہ چھوڑنے کے لیے ہزارہ جا کر پھر وہاں سے گھوم کر علاقہ غیر چلی آئے گی۔

از، یاسر چٹھہ

“(اسے) منٹو صاحب کا بے وفائی کرنے والے ایک شوہر کی بیوی کا شہر آ کر اس کی محبوبہ کی تکہ بوٹی بنا کر اسی شوہر کو کھلا دینے اور پھر شوہر کو گاڑی میں ڈال کر علاقہ غیر وہ بھی ہزارہ ڈویژن کی جانب لے جانے والا افسانہ پڑھ کر ان کے ویژنری ہونے کا گمان ہوا۔

(کالی ہوا چلتی ہے۔ اس سے پہلے کالی آندھی چلتی رہی۔ اس سے درختوں کے کچھ ہَتّے جل گئے تو کچھ جانے کہان اڑ چلے گئے۔)

علاقہ غیر کہلانے والے علاقے کی عورتیں بھی ایک دن ہالی وڈ فلموں کی خواتین کی طرح خود سے، اکیلے شوہر کی تلاش میں شہر آ کر یہ سب کچھ کر کے، گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے واپس چلی جائیں گی___ اپنے پیچھے نشان نہ چھوڑنے کے لیے ہزارہ جا کر پھر وہاں سے گھوم کر علاقہ غیر چلی آئیں گی۔”

اور انہیں اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہو گا۔ (خوف کے احساس کا اگلے وقتوں میں غائب ہو جانا، پچھلے وقتوں کے خوف کی موجودگی کی وہ چھینک تھی، جو آنسو تو لے آتی ہے، پر نکلتی نہیں۔)

اس کے بعد اس نے سعادت حسن منٹو کے جنم دن کی مبارک باد کی ٹویٹ کر دی۔

ٹویٹ کے کچھ گھنٹے گزرنے کے بعد اسے نا محسوس افراد کسی نا معلوم جگہ لے گئے۔


مزید دیکھیے:

کیا منٹو محض ایک افسانہ نگار ہے؟  از، محمد عاطف علیم

عورت، فحاشی اور حاجی صاحب از، فداء الرحمن


مجھے علی ارقم کے اس فیس بک سٹیٹس میں عصری کہانی (ہماری یہاں کی سکہ بند کہانی کی نہیں) کی پوری شعریات پورے اہتمام سے موجود نظر آتی ہیں۔

بہت سارے کہانی پڑھنے اور لکھنے والے لوگ میری اس characterisation سے اپنے فی الوقتی جمالیات و ادبی کی گھنگھور گھٹاؤں میں بستے بستے متفق نہیں ہو سکیں گے۔

But who cares.

اوپر والے متن میں راقم نے کچھ ترمیم، تدوین اور اضافے کیے ہیں۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔