ارطغرل غازی، کمال اَتا ترک اور جناح کی مداحی

Rozan Social Speaks
ایک روزن سوشل

ارطغرل غازی، کمال اَتا ترک اور جناح کی مداحی 

لکھنے کا یہ مقصد نہیں کہ مسلمانوں کی گم شدہ تاریخ نہ پڑھائی جائے، ضرور پڑھائی جائے اور طالب علموں سے تحقیق کے لیے اس پر مقالے لکھوائے جائیں مگر پھر جو کچھ سامنے آئے گا اس پر بلبلانا مت کہ تکلیف بہت ہو گی۔ مثلاً ابنِ تیمیہ اور الذھبی نے جو لکھا ہے کہ سب اُمّہ ڈنڈے پر چڑھ جائے گی۔  سلفُ الصّالحین کو امتِ مسلمہ کی سر بلندی کے لیے بھانڈ مسخروں، فلموں، ڈراموں اور نوٹنکیوں کی حاجت نہیں تھی؛ بَل کہ اسی تاریخ میں لکھا ہے کہ وہ سادہ لوگ تھے۔ سادہ زندگی تھی اعلیٰ کردار تھا۔

از، عامر مغل

بَہ یک وقت ارطغرل غازی، کمال اَتا ترک اور جناح کا مداح ہونا بنیادی طور فکری و انتشارِ ذہنی، schizophrenia، ہے؛ اب چُوں کہ پاکستان جناح صاحب نے اسلام کے نام پر بنایا تھا لہٰذا اسلام میں ڈرامے اور فلمیں نشاۃُ الثّانیہ کی تجدید کے لیے پیمانہ نہیں ہو سکتے۔

جہلاء سب ___ پاکستانی حضرات اکثر محمود غزنوی اور صلاحُ الدّین ایوبی کے مداح رہے ہیں اور ان دونوں کی قصیدہ خوانی بہت ہوتی ہے جب کہ ان دونوں نے اسماعیلیوں/ فاطمیوں اور قرامطیوں کا کافی جھٹکا کیا تھا؛ جب کہ جناح صاحب کے آبا و اجداد خود قرامطی تھے اور مسلم لیگ میں جناح صاحب کے ساتھی بھی قرامطی تھے۔

یہی نہیں، سر آغا خان جناح کے بہت قریبی ساتھی تھے، بَل کہ دو قومی نظریے کے بانی سر سید احمد خان کے بھی مربّی تھے اور علی گڑھ کالج کو یونی ورسٹی کا درجہ انگریزوں سے کہہ کر سر آغا خان نے دلوایا تھا۔ سرسید کی گُم راہی اور ان کے منکرِ حدیث و زندیق ہونے پر عُلَماء کا اجماع ہے۔

لہٰذا پاکستان کی جاہل حکم ران اشرافیہ اور ان سے بڑے جاہل اینکر اور صحافی قدیم اور گُم شدہ تاریخ کی چُول میں نہ گھسیں ورنہ اس کی مثال can of worms کی ہو گی ___ اگر کھل گیا تو مُنھ دکھانے جیسے نہیں رہیں گے ___ بَل کہ وہی مثال ہو گی کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔

اسی طرح پاکستان میں بسنے والی مختلف مذہبی اقلیتوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے جناب حمزہ علی عباسی نے جو مذہبی اصول میں کھینچا تانی کی ہے تا کہ حمزہ علی عباسی حافظ سعید صاحب کے ساتھ اپنا ماضی چھپا سکیں، تو ایسا نہ کریں بَل کہ اس کے لیے آئین کو سیکولر بنائیں۔ مذہبی اصول کو نہ چھیڑیں۔

جُہَلاء اشرافیہ گُم شدہ تاریخ کو پیٹ رہی ہے جب کہ فدوی مستند کتابوں سے (جو موجود ہیں) ان میں سے کافی کچھ ٹویٹر پر پوسٹ کر چکا ہے اور اگر ان ہی کتابوں میں سے کچھ باب مطالعۂِ پاکستان میں شامل کر لیے جائیں تو وہ سر پٹھول ہو گی کہ ساری تاریخ دانی ہوا ہو جائے گی؛ دو قومی نظریہ نسیاً منسیاً ہو جائے گا۔

ابھی پچھلے دنوں کسی نے وہاں سے سورج طلوع کروایا تھا جہاں سورج کی روشنی نہیں، یعنی ترکوں اور مغلوں کی تاریخ کو گڈ مڈ کیا، جب کہ مغلوں کے جدِّ امجد تیمور لنگ خلافتِ عثمانیہ کا بد ترین دشمن تھے اور انھوں نے با یزید یلدرم کے ساتھ با قاعدہ جنگ کی، قید کیا اور خلافتِ عثمانیہ کو نقصان پہنچایا۔

لکھنے کا یہ مقصد نہیں کہ مسلمانوں کی گم شدہ تاریخ نہ پڑھائی جائے، ضرور پڑھائی جائے اور طالب علموں سے تحقیق کے لیے اس پر مقالے لکھوائے جائیں مگر پھر جو کچھ سامنے آئے گا اس پر بلبلانا مت کہ تکلیف بہت ہو گی۔ مثلاً ابنِ تیمیہ اور الذھبی نے جو لکھا ہے کہ سب اُمّہ ڈنڈے پر چڑھ جائے گی۔

سلفُ الصّالحین کو امتِ مسلمہ کی سر بلندی کے لیے بھانڈ مسخروں، فلموں، ڈراموں اور نوٹنکیوں کی حاجت نہیں تھی؛ بَل کہ اسی تاریخ میں لکھا ہے کہ وہ سادہ لوگ تھے۔ سادہ زندگی تھی اعلیٰ کردار تھا۔ 300 کنال کے محل میں نہیں رہتے اور gluten free ناشتہ نہیں کرتے تھے بَل کہ اکثر روزہ ہوتا تھا۔


مزید دیکھیے:

قائد اعظم کا سگار اور بڑے قاضی صاحب کی شیروانی  از، یاسر چٹھہ

دستور ساز اسمبلی اور جناح صاحب کی ویٹو پاور  از، اکمل سومرو


ابنِ سعود نے سعودی عرب کو بدعتی شریفینِ مکہ (اردن کے موجودہ حکم رانوں کے جدِّ امجد) اور مشرک ترکوں کے قبضے سے آزاد کرایا تو محمد علی جوہر اور دیگر حواس باختہ برِّ صغیر کے مولوی ان کے پاس گئے کہ مکہ/مدینہ کو اُمّہ کے علاوہ قرار دیا جائے۔ انھوں نے جوہر اور دیگر مولویوں کو تلوار دکھا کر بھگا دیا۔

اور یہ تو خان عبدالغفار خان کی اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ جب وہ حج پر سعودی عرب گئے تو آلِ سعود نے تمام صحرائی قذاقوں کو زیر زبر کر دیا تھا اور امن بحال کر دیا تھا، جب کہ ترکوں کے دور میں شریفینِ مکہ جب حاکم تھے صحرائی قذاق حاجیوں کو لوٹتے تھے اور بھتّہ شریفینِ مکہ کو دیتے تھے۔

ڈرامے، فلمیں اور نوٹنکیاں وقت گزارنے اور تفریح کے لیے تو ٹھیک ہیں اور اسی طرح تاریخ بھی ہے، یعنی مطالعے اور تحقیق کی حد تک، مگر تاریخ بالخصوص گُم شدہ تاریخ کی بنیاد پر پاکستان جیسے diverse ملک میں ریاست کی تشکیل کرنا خطرے سے خالی نہیں۔

اور جب مسلمانوں کی گم شدہ تاریخ بالخصوص ترک، مملوک، کرد اور دیگر کی جب کبھی بھی پاکستانی ریاست کے بیانیے میں داخل کی جائے گی تو لا محالہ مسلک، فرقہ اور عقائد کی بحث چھڑے گی جو پاکستان کے لیے زہرِ قاتل ہو گی اور ڈراموں میں وہ نہیں دکھائی جاتی۔

ہوش کے ناخن لیں، اور یہ جو تجدیدِ تاریخ کا بَہ ذریعۂِ ترک ڈراموں باسی کڑہی میں ابال اٹھ رہا ہے یہ در اصل نسیم حجازی کی واہی تباہی لغو جھوٹے ناول پڑھ کر اٹھ رہا ہے جو حجازی صاحب نے تاریخ کے نام پر انڈیلے ہیں اور پاکستانیوں کو فتُور میں مبتلا کیا ہے۔

نسیم حجازی کے اسلامی تاریخی ناولوں میں پردے اور شرم و حیا کی نسیم حجازی نے دھجیاں بکھیری ہیں؛ خاک و خون ہو، اور تلوار ٹوٹ گئی ہو، معظم علی ہو، یا آخری چٹان ان سب میں بے ہُودہ چھانڑے بازی اور محبوب معشوق کی کٹ بازیاں بیان کی گئی ہیں؛ بے غیرتی سکھائی ہے۔

پاکستان کے مُبیّنہ سیکولر اور لبرل، جو کہ جناح صاحب کے اندھے مقلدین ہیں، سب سے زیادہ مَت ان کی ماری گئی ہے؛ بل کہ شیطان نے ان کی راہ ماری ہے۔ جناح صاحن کمال اَتا ترک کے مداح تھے۔ ذرا اٹھائیں کوئی مستند تاریخ اور پڑھیں کتنے ظالم اور متشدد غالی شخص تھے اتا ترک، ان کے ہاتھوں پر مظلوموں کا خون ہے۔

خلافتِ عثمانیہ کے دور میں اگر ترک صوفی مولویوں نے جِہل اور غُلو کا مظاہرہ کیا تو اس سے بڑھ کر ظلم کا مظاہرہ کمال اَتا ترک نے کیا؛ وہ مُطلقُ العَنان بنے اور مذہب کے ہی دشمن ہوئے: یعنی دونوں طرف ہی غُلو ہوا۔