پاکستان کو خونی انقلاب کی نہیں تعلیمی انقلاب کی ضرورت ہے

صاحب مضمون، عثمان عابد

(عثمان عابد)
حال ہی میں United Nationsنے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ جس کے مطابق پاکستان تعلیم کے میدان میں دنیا سے 50 سال پیچھے ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس رپورٹ کے منظر عام پر آتے ہی پورے ملک میں کھلبلی مچ جاتی ۔ سوشل میڈیا میں اس رپورٹ پر گرما گر م بحث ہوتی ۔ الیکٹرونک میڈیا اس خبر کو Breaking News کے طور پر عوام کے سامنے لاتا ۔ تعلیمی ایمرجنسی کی بات ہوتی۔ سیاست کے ایوانوں میں بے چینی کی لہر دوڑ جاتی ۔غر ض جس طرح بھار ت کی نام نہاد Surgical Strikesپر ہماراجذبہء حب الوطنی قابل دید تھا ۔۔۔کاش United Nationsکی اس رپورٹ پر بھی ہم اسی جوش و جذبے کا  اظہار کرتے۔ لیکن من حیث القوم ہم خواب غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہمارا بنیادی مسئلہ کیا ہے ؟ کیا دہشت گردی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے ؟ کیا توانائی کے بحران پر قابو پا کر ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو جائے گا؟ کیا بے روزگاری ، معاشی مسائل اور کرپشن پر قابو پا کر ہم سپر پاور بن جائیں گے؟ نہیں ! بالکل نہیں ! بلکہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہاں کا زنگ آلود اور فرسودہ تعلیمی نظام ہے ۔ جس دن ہم لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ دہشت گردی ، توانائی کا بحران ، بے روزگاری ، کرپشن یا معاشی مصائب کی بجائے یہاں کا فرسودہ اور زنگ آلود تعلیمی نظام ہے اُسی دن سے پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گا۔ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی ترجیحی فہرست میں تعلیم کا نمبر سب سے آخر میں آتا ہے ۔ اگر دوسرے ممالک سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان اپنے GDP کا محض2% تعلیم پر خرچ کر رہا ہے ۔ ہمارے ہمسا ئیہ ملک افغانستان میں اگرچہ جنگ کی کیفیت ہے لیکن وہ بھی ہم سے دوگنازیادہ یعنی اپنے GDP کا 4% تعلیم پر خرچ کر رہا ہے ۔ ہندوستان سے موازنہ کریں تو وہ اپنے GDP کا 7% تعلیم پر خرچ کر رہا ہے ۔
کاش کوئی ان حکمرانوں کو جا کر بتائے کہ اُجالا سکیم لانچ کر نے سے ،طلباء میں سولر لائٹس تقسیم کرنے سے ، نوجوانوں پر لیپ ٹاپ نچھاور کر نے سے ، طلباء کو قرض دینے سے یا اسکولوں اور کالجوں میں داخلے کی شرح بڑھانے سے اگر ہمارا تعلیمی نظام ٹھیک ہو سکتا تو تین دہائیاں پہلے ہی ٹھیک ہو چکا ہوتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ابھی تک فرسودہ اور زنگ آلودہے ؟ آخر کیوں ہماری ڈگریوں کو دوسرے ممالک میں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے؟ دنیا کی پہلی سو یونیوسیٹیز میں ہماری ایک بھی یونیورسٹی شامل نہیں ۔ ایسا کیوں ؟ ہمارا تعلیمی نظام ہمارے اندر مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے سے کیوں قاصر ہے؟ ان سب سوالوں کے جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں تعلیمی نظام کی تباہی کی اصل وجہ یعنی جڑ تلاش کرنا ہوگی ۔ ہمارے تعلیمی نظام کی تباہی کی اصل جڑ Memory Based Education یعنی رَٹاّکلچر ہے۔ جب تک ہم رَٹاّکلچر کو ختم نہیں کر یں گے ہم کبھی بھی اپنا تعلیمی نظام درست نہیں کر سکتے ۔ جب تک ہم اپنے تعلیمی نظام کو رَٹاّ کلچر کی زنجیروں میں جکڑے رکھیں گے ۔۔ ترقی کا خواب ہمیشہ خواب ہی رہے گا۔ ہمارا تعلیمی نظام ایک ایسی بنجر زمین کی ماند ہے کہ جس پر جہالت کی خار دار جھاڑیاں تو اُگ سکتی ہیں لیکن یہ زمین تخلیقیت (Creativity) کی فصل اُگانے سے قاصر ہے ۔
ہمیں ایک ایسے تعلیمی نظام کی ضرورت ہے کہ جس میں طلباء کی Gradingاس بنیاد پر نہ ہو کہ انھوں نے کتنا زبانی یاد کیا ہے ۔ یارَٹاّلگا یا ہے بلکہ اس بنیاد پر ہو کہ ان کے اندر مسئلے کو حل کرنے کی کتنی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے ۔ علم اُسی وقت قابل استعمال ہوتا ہے جب وہ ہمارے Mental Tool Boxکا حصہ ہو نہ کہ محض زبانی یاد ہو۔ اگر ہم اسی نقطے پر ہی عمل کرلیں تو اس سے یقیناً ہمارے تعلیمی نظام میں انقلاب بر پا ہو سکتا ہے ۔ ایک سے زیادہ تعلیمی نظام ، تعلیم کیلئے کم بجٹ ،Memory Based Educations ، ناقص اور بے سمت تعلیمی پالیسز ، کوالٹی ٹیچنگ کا فقدان،ناقص ریسرچ اور سیاستدانوں کی عدم دلچسپی وہ چند بڑی وجوہات ہیں کہ جنہوں نے ہمارے تعلیمی نظام کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ۔
مسائل کی نشاندہی کے بعد اب آتے ہیں ان کے حل کی جانب ۔حکمرانوں اور تعلیمی پالیسی وضع کرنے والوں سے التماس ہے کہ وہ ایک طویل مدتی National Education Policy مرتب کریں کہ جس کا مقصد محض دکھا وا یا عوام کو بیوقوف بنانا نہ ہو بلکہ وہ زمینی حقائق کے مطابق لاگو بھی کی جاسکے ۔ زمینی حقائق کے مطابق شاید فی الحال پورے ملک میں یکساں تعلیمی نظام رائج کرنا شاید ممکن نہ ہو البتہ یکساں تعلیمی نصاب ضرور متعارف کروایا جا سکتا ہے ۔ اس سے دیہاتی اور شہری دونوں قسم کے طلبا کو آگے بڑھنے کا برا بر موقع میسر ہو گا۔ یکساں تعلیمی نصاب سے ملک میں یکجہتی ، امن اور محبت کو فروغ ملے گا اور انشاء اللہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گا۔ اسی طرح امتحانی نظام کو یکسر تبدیل کر کے ایک ایسا نظام وضع کرنا ہو گا کہ جس سے طلباء کی یاداشت جانچنے کی بجائے یہ جانچا جائے کہ آیا ان کے اندر مسائل کو حل کرنے کی کتنی صلاحیت پیدا ہوئی ہے ۔ سکول و کالج کی سطح پر Career Counseling Centerبنائے جائیں تا کہ طلبا اپنے  رجہانات اور مارکیٹ میں موجود مواقعوں کو سمجھ سکیں اور ایک درست سمت میں آگے بڑھ سکیں ۔ بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کی کاؤ نسلنگ بھی بہت ضروری ہے تا کہ وہ اپنے بچوں کو ان کے رجہانا ت اور سکلز کے مطابق کیرئیر کے انتخاب میں معاونت کر سکیں ۔ نیز تعلیمی نظام میں اصلاحات صرف گورنمنٹ اکیلی نہیں کر سکتی بلکہ پبلک اور پرائیویٹ اداروں کے ساتھ ساتھ ہم سب کو مل کر اپنی حیثیت کے مطابق ذمہ داری لینا ہوگی اور ملک کی اکثریت آبادی کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر علم کی روشنی میں لانا ہو گا ۔
اللہ مجھے اور آپ کو دوسروں کی زندگی میں آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

About عثمان عابد 10 Articles
عثمان عابد نے حال ہی میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ڈاکٹر آف فارمیسی کی ڈگری مکمل کی ھے۔ ابلاغ کے مثبت اور تعمیری امکانات پر پُختہ یقین رکھتے ہیں۔ فارماسسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ موٹیویشنل سپیکر اور رائٹر بھی ھیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہیں جن کے لیے وہ تحریری اور مشاورتی شراکت رکھتے ہیں۔ فارماریڈرز نامی میگزین کے چیف ایڈیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نجی تنظیم کے چیف ایگزیکیٹو بھی ہیں۔