اکیسویں صدی کے صحافتی اصول

Khizer Hayat
خضرحیات

اکیسویں صدی کے صحافتی اصول

از، خضر حیات

بھلے وقتوں کی بات ہے جب صحافت مشن ہوا کرتی تھی۔ کئی کئی لوگ خبر ڈھونڈنے کے پیچھے ہوتے تھے۔ خبر ملنے کے بعد پھر کئی کئی لوگ اس کی نوک پلک سنوارنے اور اسے خبریت کے سنگھاسن پر بٹھانے کے قابل بناتے تھے۔

خبروں کا ایسا معیار قائم تھا کہ اس نے سننے دیکھنے والوں کی بھی تربیت کر رکھی تھی۔ کوئی خبر تھوڑی سی بھی ڈھیلی ڈھالی ہوتی تو سننے والوں کو فوراً پتہ چل جاتا کہ ادارے سے یہ خبر اچھی طرح نہیں بنائی گئی یا یہ کہ یہ خبر خبر بنتی ہی نہیں ہے، اسے بس خالی جگہ بھرنے کے لیے ڈال لیا گیا ہے۔ پھر کمرشلزم کا دور آیا، ایشوز اور نان ایشوز جیسی ٹرمز ایجاد ہوئیں، صحافت مشن سے ہٹ کر کاروبار بنا، صحافی ہونا کیرئیر بن گیا، جس نے اس کاروبار میں پیسے لگائے وہ خود ہی ایڈیٹر بن گیا۔ اب کیا خبر ہے اور کیا نان خبر، ہر دو کے درمیان کھینچی گئی لکیر تحلیل ہونے لگی۔ خبر تجزیہ بھی بن گئی، تاثر بھی، جائزہ بھی اور ردعمل بھی۔

کہاں وہ دن کہ خبر پڑھتے ہوئے لہجے کا بھی خیال رکھا جاتا کہ کہیں سننے والے اسے خبر دینے والے شخص یا ادارے کی طرف داری، پسندیدگی یا نا پسندیدگی نہ سمجھ لیں۔ غیر جانب دار رہنا ایک اصول تھا اور کہاں آج خبر لہک لہک کے، منہ چڑا کے، تمسخر اڑاتے ہوئے اور اسی طرح کے دیگر ڈراموں کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔

صحافت کو انڈسٹری بنانے کا معاشرے کو بہت نقصان ہوا۔ انٹرٹینمنٹ کو پیچھے دھکیل کر خبر کو ہی سب سے بڑی جنس کے طور پر بازار میں چھوڑا گیا۔ دیکھنے سننے والوں کی تربیت اس طرح سے کی گئی کہ انسانی معاملات میں سب سے اہم موضوع سیاست ہی ہے۔ بہتر ہے کہ ہر لمحہ سیاست سنیں، سیاست بولیں، سیاست سوچیں، سیاست دیکھیں، سیاست پہنیں، سیاست کھائیں، سیاست پئیں، سیاست نگلیں اور سیاست ہی اُگلتے پھریں۔


متعلقہ:  گیبریل گارشیا مارکیز کی نظر میں آج کی صحافت  ترجمہ، یاسر چٹھہ


اب خبر ایک ہے مگر اسے رپورٹ کرنے والے منہ 100 سے زائد۔ اور پھر ایک ہی خبر کے درجن بھر ورشنز دستیاب ہیں۔ معلومات دینے سے زیادہ سننے اور دیکھنے والوں کو کنفیوژ کرنا نیا ایجنڈا بنا ہوا ہے۔ اب کسی ایک ہی ذریعے (ٹی وی چینل یا اخبار) سے پوری خبر ملنا مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہوتا جا رہا ہے۔

شروع میں دیکھنے سننے والوں کو یہ نیا طریقہ بہت بے ہودہ، فضول اور بھونڈا لگا۔ ان میں سے اکثر لوگ خبروں کی دنیا سے ہجرت کر گئے مگر جو بچ رہے اور جو نئے اذہان خبروں کے اس دیس میں آئے، خبروں سے متعلق ان کی ٹیوننگ ہی ایسی ہوئی کہ انہیں اب وہی خبر لگتی ہے جو دن رات چیختی چنگھاڑتی ہلڑ مچاتی نظر آتی ہے۔

خبر دینے والے کی سینس بدل گئی یا یوں کہیے کہ بدل دی گئی تو دیکھنے والے کی سینس بھی بدل چکی ہے۔ اب دیکھنے والا یہ فرق شاذونادر ہی سمجھتا ہے کہ خبر کے پیکٹ میں اسے خبر ہی ڈال کے دی جا رہی ہے یا تبصرہ، تجزیہ، تاثر، ذاتی عناد اور ردعمل بھی ساتھ ہی چپکایا جا رہا ہے۔

پھر خبر دینے والے اس سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے۔ عوام کی ایک خاص طرح کی تربیت کے بعد اب وہ کھلم کھلا من مرضی کرنے لگے۔

اب کسی اخبار یا ٹیلی ویژن چینل کیلئے یہ بات بالکل باعث شرم نہیں رہ گئی کہ وہ ایک خاص سیاسی یا مذہبی جماعت کا مائوتھ آرگن بن گیا ہے۔ اب خبر معروضی طور پر دینے کا رواج متروک ہو چکا ہے اور خبر ایک خاص نقطہء نظر سے دی جاتی ہے۔ دیکھنے اور سننے والے بھی اس تقسیم پر راضی نظر آتے ہیں۔ انہیں آسانی ہو گئی ہے کہ وہ جس بھی طرف والے ہیں انہیں اس طرف والی خبریں، تجزیئے، تبصرے، مزاح، ایشوز، نان ایشوز، دلائل وغیرہ بہم پہنچانے کیلئے پورے کا پورا ادارہ قائم ہو گیا ہے۔ اسے خبر کے معروضی ابلاغ میں سے اپنی پسند کا اینگل ڈھونڈنے کی کھکھیڑ میں اب پڑنے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ کام اب صحافتی اداروں کے مالکان نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔

کیسا سنہری دور تھا کہ جب جج میڈیا پر آنے سے کتراتے تھے، فوج کے پاس آئی ایس پی آر والا بھونپو نہیں تھا یا چھوٹے سائز میں تھا، صحافی یا صحافتی ادارے کے مالک کا حکومتی نمائندگان کے ساتھ پیشہ وارانہ سے زیادہ تعلق معیوب سمجھا جاتا تھا اور صحافی خود بھی ایسی باتوں پہ شرمندہ ہوتے تھے کہ جن سے متعلق خبریں لکھنی ہیں انہی کے ساتھ یاریاں کیسے گانٹھ سکتے ہیں اور اب کہ ایسی کایا پلٹی ہے کہ پنجابی مثل کے مصداق ‘کُتّی چوراں نال رل گئی اے’۔ ججز پریس کانفرنسز کر رہے ہیں، آئی ایس پی آر ہر ملکی و غیر ملکی ایشو و نان ایشو پر اظہار خیال کی لائٹ پکڑ کے کھڑا ہے اور خبر کو سب سے پہلے بریک کرنے کی دوڑ میں بازی لے جانے پر کمربستہ ہے۔

اب آنے والا دور اس سے بھی مختلف ہے۔ صحافتی اداروں کے مالکان کہ جو سرمایہ کار بھی ہیں اور حکومتی و غیر حکومتی اہلکاروں و دیگر کرداروں (جنہیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کہا جاتا ہے) سے جن کی گاڑھی چھننے لگی ہے اور خبر ہی جن کے پاس جنس کے طور پر موجود ہے، وہ اس جنس کو طوائف بنا دیں گے اور صحافی کو دلاّل۔ اب بھلے طوائف جیسی بھی ہے، دلال کی تو یہی ذمہ داری ہو گی کہ وہ طوائف کی عزت کو زیادہ سے زیادہ غیر محفوظ بنا کر زیادہ سے زیادہ بزنس اپنے آقائوں کی جھولی میں ڈال سکے۔

دوسرا کام یہ ہوگا کہ خبر کا تنور ہمہ وقت گرم رکھنے کیلئے مالکان اب بااثر شخصیات کے ساتھ مل کر خبریں پیدا کرواتے رہیں گے۔ خبر نہ ہونے کا مطلب ہے دھندے کا ماند پڑنا تو جہاں ایسا خطرہ ہوگا وہاں کاروبار تو ایسے ہی چلے گا کہ خبریں بنتی بنائی جاتی رہیں۔ میڈیا مالکان اتنے مضبوط ہو جائیں گے کہ کسی بھی ایشو کو کھڑا کر سکیں اور کسی دوسرے غیر ضروری ایشو کو نظر انداز کر سکیں۔

عالمی میڈیا عالمی رہنماؤں کو کہیں نہ کہیں جنگ جاری رکھنے پہ اکساتا رہے گا تا کہ ٹی وی اسکرین کی بھٹی متواتر جلتی رہے۔

یمن، شام، افغانستان، فلسطین، اسرائیل وغیرہ میں حالات پرامن ہوگئے تو قطر جیسے کسی نئے ملک کو کھدیڑنے کی ضرورت کو اجاگر کیا جائے گا۔ ایسی جنگوں کے اسٹریٹجک پہلو کے ساتھ ساتھ صحافتی پہلو کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔

پھر اگر میڈیا کہیں محسوس کرے گا تو پناہ گزینوں والا ایشو پیدا کرنے کیلئے دو چار ملکوں کے سربراہان پر زور ڈالے گا۔

بہت دن ہو گئے اور کہیں کوئی توڑ پھوڑ نہیں دکھائی گئی تو یہ کام بھی صحافتی ادارے خود سے کرنے لگیں گے۔ اپنے ہی لوگوں کو کسی جگہ پہنچ کے مظاہرہ کرنے کا کہیں گے اور توڑپھوڑ کروا کے اس خبر کو ریٹنگ کے فیتے پہ چڑھا دیں گے۔

نیا صحافتی اصول یہ ٹھہرے گا کہ جب خبر ہی ایک جنس ہے تو کیوں نہ اس کی پیدا وار میں بھی صحافتی ادارے خود کفیل ہو جائیں تا کہ خبر کیلئے باقی اداروں پر میڈیا کے انحصار کو کم سے کم کیا جا سکے۔ ‘خود بنائیں، پیش کریں اور بیچیں’ کے زریں اصول کے تحت جب کاروبار چلے گا تو اس انڈسٹری سے جڑے لوگوں کے اور بھی وارے نیارے ہو جائیں گے۔

1 Trackback / Pingback

  1. ذہنی تجاوزات — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.