ذہنی تجاوزات

معصوم رضوی

ذہنی تجاوزات

از، معصوم رضوی

ملک بھر میں تجاوزات کے خلاف مہم جاری ہے، کراچی میں تو کچھ زیادہ زور و شور سے غیر قانونی قبضہ جات، عمارات، پتھارے گرائے جا رہے ہیں۔ پچاس سال تجاوزات بنا روک ٹوک جنگل کی طرح پھیلتے گئے، ادارے این او سی دیتے رہے، گیس پانی اور بجلی فراہم کی جاتی رہی، پگڑی، لیز اور کرائے بھی لیئے جاتے رہے، حکومتیں آنکھ بند کیے ووٹ بینک بڑھاتی رہیں۔ بھئی تجاوزات خود تو قائم نہیں ہوتے تحفظ اداروں میں بیٹھے حکام دیتے ہیں، مگر اصل ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کب ہو گی کسی کو پتہ نہیں؟ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ خرابی کو جڑ سے اکھاڑنے کے بجائے شاخیں کاٹ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ تجاوزات کا خاتمہ یقینی طور پر درست قدم ہے مگر نقصان صرف غریب کو ہو رہا ہے، تجاوزات کو قانونی شکل دینے والی مافیا مکمل طور پر محفوظ ہے اور جیسے ہی موقعہ ملا پھر پنجے گاڑے گی۔ دیرینہ عادت کے تحت اس مسئلے کو بھی سیاسی بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی مگر سپریم کورٹ آڑے آ گیا ورنہ تجاوزات کے خلاف مہم جانے کب کی ملبے تلے دب گئی ہوتی۔

تجاوزات سے پاک شہر دیکھ کر اچھا لگا، ایمپریس مارکیٹ جہاں پیدل چلنا محال تھا نہ صرف گاڑی پر گیا بلکہ پارکنگ بھی وہیں کی، خواب سا لگتا ہے۔ سوچتا ہوں شہروں میں تجاوزات کا خاتمہ تو بہرحال مشکل صحیح مگر ممکن تو ہے مگر ہماری قوم عظیم الشان ذھنی تجاوزات سے مالا مال ہے، کیا ذھنی تجاوزات کا خاتمہ بھی ممکن ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ذھنی تجاوزات معاشرے کے لیے کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ مذھبی، مسلکی اور فقہی اختلافات کی فرقہ وارانہ تجاوزات تو پورے عروج پر ہیں۔


مزید دیکھیے:  اکیسویں صدی کے صحافتی اصول  از، خضر حیات


دیکھتے ہی دیکھتے حلال اور حرام کے فتوے کفر اور شرک تک جا پہنچے، جزوی اور فروعی مسائل قتال پر منتج ہوئے۔ منبر، مسجد اور مذھب جو دلوں کو جوڑتا ہے اسی کے نام پر دہشتگردی، خونریزی اور خودکش حملے کس قدر ہولناک ہیں۔ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی، درست ہی ہو گا مگر جناب سیاست میں مذھب کا کردار اس وقت خوفناک بن جاتا ہے جب مخالفین کو زیر کرنے کے لیے اسکا بے دریغ استعمال کیا جائے۔ یہاں تو یہ صورتحال ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کی خاطر جس دھڑلے سے مذھب کا استعمال کرتی ہیں کہ مجھ جیسے گناہگاروں کا خدا کی رحمت پر یقین راسخ ہو جاتا ہے۔

خیر پاکستان میں اداروں کی تجاوزات کمال بھی کی ہیں، آئین کے اعتبار سے تو پارلیمان بالادست ہے مگر سیاستدان اس بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے جان کی بازی لگانے سےبھی دریغ نہیں کرتے۔ سیاسی جماعتوں کو جب جب موقعہ ملتا ہے الزامات کا ایسا ڈھول پیٹا جاتا ہے جو صرف بوٹوں کی چاپ پر ہی خاموش ہوتا ہے۔ تاریخ کا آئینہ دیکھیں تو ملک عزیر میں سیاسی حکومتیں جمہوریت اور فوجی حکومت حقیقی جمہوریت کا درس دیتی نظر آتی ہے۔ ستر سالوں سے آمریت اور جمہوریت کے درمیان سانپ اور سیڑھی کا کھیل جاری ہے جس میں عوام کا کردار پانسے جیسا ہے۔  بہرحال جناب حکومت جمہوری ہو یا فوجی، احتساب سب کا من پسند نعرہ ہے، ایوب خان کے ایبڈو سے لیکر آج کی نیب تک ایسا شفاف احتساب ہوا ہے جس میں حکومت ہمیشہ ہیرو اور اپوزیشن ولن ہوتی ہے۔ ماشااللہ نیب تو ایسی مادر پدر آزاد نکلی کے سپریم کورٹ ٹوک ٹوک کر تھک گیا مگر نیب کی شفافیت نے انصاف کی آنکھیں چکاچوند کر ڈالیں۔

ویسے تو تجاوزات ہوتی ہی غیر قانونی ہیں مگر ہمارے یہاں قانونی تجاوزات کی بھی بھرمار ہے،  سیکڑوں اور ہزاروں خوبصورت بستیاں، ہاؤسنگ اسکیمز، بلند وبالا فلیٹس اور شاپنگ سینٹرز، کنکریٹ کے خوررو جنگل کی طرح، مگر کیا سب قانون اور قاعدے کے مطابق ہیں۔ پانی ہو نہ ہو، پارکنگ کے لیے عمارتوں میں انتظام نہیں سڑک پر گاڑی کھڑی کریں، غیر مناسب حفاظتی انتظامات، ٹاؤن پلاننگ کی سنگین خلاف ورزیاں، اسکے باوجود جنگل، بیابانوں کی کوڑیوں کی زمین سونے کی قیمت پر بیچی جاتی ہے۔ کراچی سے حیدرآباد جائیں تو اطراف میں بیشمار ہاؤسنگ پروجیکٹس نظر آتے ہیں جو نجی اور سرکاری اداروں کی رہین منت ہیں۔ زمین اور عمارتیں بیچنے کے چکر میں شہروں کو غیر معمولی طور پر پھیلا دیا گیا، کیا وسائل اور انتظامی اعتبار ہم اسکے متحمل ہو سکتے ہیں؟  

ارے صاحب اب تو شاید ہی کوئی سرکاری ادارہ بچا ہو جو ہاؤسنگ کے دھندے میں نہ ہو، وفاقی اور صوبائی ادارے بھی بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ دھو رہے ہیں۔ کراچی میں تو ندی، نالوں اور ریلوے ٹریک کو بھی نہ بخشا گیا، آسمان کو چھوتے پلازہ، سڑکیں، کیا یہ سب قانونی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے قیوم آباد پر ندی بہا کرتی تھی، اب اسے آٹھ، دس میٹر نالے میں قید کر کے ڈی ایچ اے فیز ٹو بسا دیا گیا، سمندر شرما کر پیچھے خود ہٹا یا ہٹایا گیا تو طبقہ اشرافیہ کو فیز ایٹ بیچ دیا گیا جہاں شاید 500 گز کا پلاٹ چھ یا سات کروڑ کا ہے مگر پانی دستیاب نہیں، ٹینکر لینا پڑتا ہے۔ حضور قانون تو سب کے لیے یکساں ہوتا ہے، تجاوزات کے نام پر صرف غریبوں کا استحصال کیوں؟ کیا یہ پوش بستیاں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں نہیں کر رہیں۔ عوام سہولیات سے محروم بستیوں پر ٹوٹے پرتے ہیں۔ ایسی تجاوزات کا خاتمہ کون کریگا؟

سیاسی تجاوزات تو ہمیشہ سے ہماری زندگیوں میں شامل رہے ہیں، ماشااللہ سے سیکڑوں سیاستدان بھی ہاؤسنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں اور اگر نہیں بھی تو بقول شخصے دیکھتے ہی دیکھتے موٹر سائیکلوں سے کاروباری سلطنت تک جا پہنچے۔ کراچی میں چائنا کٹنگ نے کیا کیا گل نہیں کھلائے، پارک اور رفاعی مقاصد کے پلاٹس تک نہ چھوڑے گئے۔ خاندانی اور موروثی قائدین کی پرداخت، اقربا پروری، سیاسی اثر و نفوذ، کرپشن سمیت جانے کتنے سیاسی تجاوزات کو قوم عرصے سے جھیل رہی ہے۔ سیاسی تجاوزات کے بطن سے لسانی تجاوزات بھی وجود میں لائے جاتے ہیں جو معاشرے کا زبان کی بنیاد پر بٹوارہ کرتے ہیں۔ تجارتی تجاوزات کا تو کوئی توڑ ہی نہیں ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے کہ عام انسان کا کھانا پینا مشکل ہے۔

حکومتی ادارے قیمتوں پر کنٹرول کیا کریں ڈالر اوقات سے باہر نکلے تو کسی کے پاس جواب نہیں ہوتا۔ گوشت، دودھ، آٹا، دال، چینی، گھی، تیل، ٹرانسپورٹ، اسکول فیسیں، جس کو پکڑنے کی کوشش کریں ہڑتال ہو جاتی ہے گویا پورا ملک منافع خوروں کے ہاتھوں یرغمال ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، آپ اسے گڈ گورننس کہیں یا بیڈ، عوام ایسی من مانی تجاوزات کو جانے کب سے جھیل رہے ہیں۔ ذھنی تجاوزات کی ایک شکل ازلی منافقت بھی تو ہے، ہم مہذب ہیں نہیں مگر خود کو مہذب پیش کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس کو جتنا موقعہ ملے قانون توڑے، دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالے، خود غرضی میں سفاکانہ حدود سے گزر جائے، بازاروں میں مضر صحت اشیا، تعلیم اور صحت تک کو نہ بخشا، تمامتر مکر، فریب، جھوٹ، دریدہ دہنی، عصبیت اور سفاکیت کے باوجود مذھب، ملت اور قوم کے خدمتگار ہیں۔

حضور ہماری جنگ خود آپ سے ہے جس دن یہ جنگ جیت گئے تو قوم بن جائینگے جسے کوئی ہرانے کی جرات نہیں کر سکتا، بس اپنی اپنی ذھنی تجاوزات مسمار کرنا ہوں گی۔ بقول سودا

دل کے ٹکڑوں کو بغل گیر لیے پھرتا ہوں

کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں