نعت گوئی میں غیر مسلم شعرا کا حصہ

(ڈاکٹر کے وی نکولن)
 
اردو شاعری خصوصاً اردو غزل میں اگرچہ مسلم شعراء کا حصّہ تعداد شعراء و مقدار کلام دونوں اعتبار سے غیر مسلم شعراء کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔ مگر ان غیر مسلم شعراء نے اردو شاعری کے ہر دور اور ہر موڑ پر جو کچھ کہا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اردوشاعری میں نعت گوئی ایک ایسی شیریں اور دل نشیں صنف بن گئی ہے جس کی مثال دوسری زبانوں میں کم ملتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اردو نعت کے سرمائے میں توسیع کا اعزاز ان شعراء کو بھی حاصل ہوا جنہیں معروف ایمانی مفہوم کے مطابق وابستگان رسول میں کبھی شمار نہیں کیا گیا، لیکن ان شعراء نے رسول اکرم حضرت محمد ﷺ سے اپنی والہانہ وابستگی اور پر خلوص عقیدت کو ایسے اشعار میں پرویا ہے کہ جنہیں کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
غیرمسلم نعت گو شعراء کے تعارف،تذکرے اور جائزے پر مشتمل کئی مضامین اور کتابیں اس وقت ہمارے سامنے ہیں خصوصاً جناب نور احمد میرٹھی کی ۰۵۶ صفحات پر مشتمل کتاب’’بہر زماں بہر زباں‘‘بڑی اہمیت کی حامل ہے جس میں تین سو سے زائد غیر مسلم شعراء کی نعتیہ شاعری کاتعارف وتذکرہ پیش کیا گیا ہے جن میں سے چند شعراء کے صرف نام لکھے جائیں تو ایک طویل مضمون تیار ہو جائے گا۔اس وقت ہمارے پیش نظر ان غیر مسلم نعت گو شعراء کے حوالے سے مختلف محققین ،ناقدینِ فن اور دانشوران ادب نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے،انہیں یہاں پیش کردیا جائے تاکہ ان کی قدر و قیمت اور اہمیت ہمارے سامنے اجاگر ہو جائے۔
سب سے پہلے مذکورہ کتاب کے مقدمہ میں پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے کراچی کے ایک نعتیہ مشاعرے میں اپنی شرکت اور وہاں کے صدر مشاعرہ کی تقریر کے حوالے سے لکھا ہے۔’’ایک ہندو شاعریا کوئی غیر مسلم شاعر حضور اکرم ﷺکی شان میں نعت کہتا ہے تو اپنا کوئی بندھا ٹکا مذہبی فریضہ ادا نہیں کرتا،ہاں اس بات کا اظہار اس سے ضرور ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے مذہب کا پابند ہوتے ہوئے بھی پیغمبر اسلام کی شان میں نعت کہہ رہا ہے تو گویا وہ اس نکتے کی وضاحت کر رہا ہے کہ اپنے مذہب کے ساتھ ہی ساتھ دوسروں کے مذاہب اور بانیانِ مذاہب کا احترام بھی ضروری ہے اور آج دنیا کو اسی ضابطۂ اخلاق کی ضرورت ہے۔دنیا اس وقت تنگ نظری ،تنگ خیالی اور تعصب کے پھندے میں گرفتار ہے۔ عملی طور پر لوگ مذہب سے بیگانہ ہورہے ہیں اور مذہب کے نام پرفتنہ و فساد برپا کرنے کے لئے ہر لمحہ تیار رہتے ہیں اس لئے اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ شعراء اور دوسرے حضرات سامنے آئیں اور دوسرے مذاہب کے بارے میں اور ان کے بانیوں کے بارے میں وسیع المشربی کے ساتھ نظم و نثر میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔”
نعت ایک ایسی صنف سخن بھی ہے جس کو نازک ترین فن کہا گیا ہے۔ مسلمان شعراء بھی کہیں کہیں ان حدود کا خیال نہیں رکھتے لیکن بقول پروفیسر سید یونس شاہ ’’یہ امر خاص طور پرقابل لحاظ ہے کہ غیر مسلم شعراء کے نعتیہ کلام میں حفظ مراتب کا خیال بدرجۂ اتم موجودہے۔‘‘ممتاز محقق شکیل احمد ضیاء نے غیر مسلموں کی نعتیہ شاعری کے ضمن میں اس خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے’’ان نعتوں کے ایک شعر میں بھی مسلمانوں کی مشکوک و مجہول روائتوں کا سہارا نہیں لیا گیا ہے جن سے بعض مسلمان شعراء اپنے کلام کو مزین یا ملوث کرتے ہیں۔‘‘
اردو نعت کے تمام محققین نے اپنی تصانیف میں غیر مسلم شعراء کے نعتیہ کلام کے محاسن اور رسول اکرم ﷺ سے ان کی شیفتگی کا ذکر کیا ہے۔ڈاکٹر ریاض مجید نے اپنے تحقیقی مقالہ’’ اردو میں نعت گوئی‘‘ میں تحریر کیا ہے’’غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی کا آغاز جنوبی ہند سے ہو چکا تھا اور مسلمان شاعروں کی طرح ہندو شاعروں نے عقیدت و محبت کے اظہار کے لئے حضور اکرم ﷺ کی سیرت و نعت کو بھی اپنی تخلیقات کا موضوع بنا یا ہے۔ لچھمن نرائن شفیقؔ کا معراج نامہ اور راجہ مکھن لال مکھنؔ کا نعتیہ کلام اس اظہار عقیدت کے نمونے ہیں۔‘‘ غیر مسلموں کی نعت سے دلچسپی کی وجوہات بھی ڈاکٹر ریاض مجید نے یوں بیان کی ہے’’ ہندو شاعروں کی نعت گوئی کا حقیقی دور ۷۵۸۱ کی جنگ آزادی کے بعد ہوا ۔عصر جدید میں ہمیں متعدد ایسے غیر مسلم شاعر ملتے ہیں جنہوں نے مقدار اور معیار ہر اعتبار سے اس روایت کو آگے بڑھایا ہے۔اس کے بہت سے سیاسی اور معاشرتی عوامل ہیں۔ایک بڑی وجہ وہ رواداری کی فضا ہے جو جنگ آزادی کے بعد ہندو مسلم قوموں میں پہلے کی نسبت کچھ نمایاں ہوگئی تھی۔ انگریز کے خلاف جنگ آزادی میں مقصدو منزل کی ہم آہنگی بھی دونوں میں قدر مشترک رکھتی ہے۔ مخلوط معاشرے میں اگرچہ ہندو مسلم تعلقات میں ایک کشیدگی ہمیشہ رہی اور دونوں قوموں کے تہذیب و تمدن میں واضح اختلاف رہا، اس کے باوجود اہل فکر و قلم کے حلقوں میں ایک رواداری کی فضا ملتی ہے۔”
اب چند دوسرے ادیبو ں کی آراء بھی ملاحظہ فرمائیے۔پونا کے انیس چشتی اپنے مقالے ’’اردو کے ہندو نعت گو شعراء‘‘ میں ہندووں کی نعت گوئی کا پس منظر بتاتے ہوئے لکھتے ہیں’’ہندوستان کی سرزمین کو یہ فخر حاصل ہے کہ اسلامی روایات کا پاس رکھنے والے افراد نے یہاں صرف مذہب اسلام کی آبیاری نہیں کی بلکہ یہاں کے دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں اسلام کے روح رواں رسول اکرم ﷺ کے بارے میں ایسا تاثر دیاکہ اس ملک میں بسنے والے دیگر طبقات سے متعلق افراد نے بھی ایک سچّے محسن انسانیت کی طرز زندگی اور اخلاق و عادات کو اپنی زندگی کا خاصّہ بنایا اور جب شعر گوئی کی طرف رغبت اختیار کی تو مدح رسول ﷺ کے ایسے جوہر دکھائے کہ بے ساختہ ان وابستگی اور نسبت پر داد دینے کو جی چاہتا ہے۔‘‘اکثر محققین اور مصنفین نے بعض غیر مسلم شعراء کے نعتیہ کلام پرتبصرے کئے ہیں اور ان کی نعت نگاری کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ مولانا عبد الماجد دریا آبادی ‘ مشہور شاعر بال مکند عرش ملسیانی کی نعتیہ شاعری کے ضمن میں ہندو مسلم مخلوط معاشرے میں اس انداز کی شاعری سے نمایاں ہونے والی باہمی محبت و یگانگت کی فضا کے بارے میں فرماتے ہیں’’قومی اور اجتماعی حیثیت سے وہ اس وقت بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں، ایک پل،اور ایک ربط کا کام دے رہے ہیں ،ملک کی دو بڑی قوتوں ،دو بڑی تہذیبوں ،دو بڑے مذہبوں کے درمیان ‘وہی خدمت جو ماضی قریب میں اس ملک کی دو محترم ہستیاں انجام دے چکی ہیں، ایک مسز سروجنی نائیڈو اور دوسرے سرکشن پرشاد شاد ؔ حیدر آبادی۔‘‘
ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق نے اپنے تحقیقی مقالے میں منشی شنکر لال ساقیؔ کی نعتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے’’ساقی کی نعتوں سے کہیں یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ ایک غیر مسلم کا اظہار عقیدت ہے۔شاعر جا بجا شرک اور کفر کی برائی اور توحید کے مضامین کو بلا تکلف باندھتے ہیں۔اس جگہ نہ تو ابہام کو دخل ہے اور نہ کسی تاویل کی گنجائش۔‘‘ اسی طرح انہوں نے راجہ مکھن لال مکھنؔ کی نعتیہ شاعری کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ’جہاں مکھن نے حضور ﷺ کی محبت میں اپنے داخلی جذبات کا اظہار کیا وہاں آپ ﷺ کے محاسن کا بیان بھی ان کے کلام میں پایا جاتا ہے۔ ان محاسن میں داخلی اور خارجی دونوں ہیں۔‘‘
چودھری دلّو رام کوثری کی نعتیہ شاعری کو تقریباً تمام ناقدینِ فن نے سراہا ہے ان کے جذبات کی صداقت کا ہر صاحبِ ایمان معترف ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری فرماتے ہیں ’’ انہوں نے نعت گوئی میں زبان و بیان کوبڑی ہنر مندیاں دکھائی ہیں۔ ان کا کلام ظاہر کرتا ہے کہ نعت گوئی ان کی ذہنی کاوش یا محض محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ان کے دل کی آواز اور ان کی طبع شاعرانہ کی فطری جولان گاہ تھی اسی لئے ہر جگہ ان کی سادگی ایک طرح کی پر کاری لئے رہتی ہے ۔‘‘ڈاکٹر طلحہ رضوی برقؔ کی کتاب’’ اردو کی نعتیہ شاعری ‘‘جو نعتیہ ادب کی پہلی تحقیقی کتاب ہے ‘میں رگھو بندر راؤ جذبؔ اور مصرؔ کے نعتیہ کلام کی خصوصیات کے بارے میں لکھتے ہیں’’جذب ؔ اور مصرؔ کی نعتیں اردو کی فنکارانہ اور عمقِ دل سے کہی گئی نعتوں کی نمائندہ ہیں۔ ایک سرشاری ،ایک بے خودی، ایک جذب، ایک کیفیت اور ایک مستی کا عالم ہے جو ایک ایک شعر سے مترشح ہے۔ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ اشعار کسی غیرمسلم کے ہیں۔‘‘ اردو ادب کی بیشتر اہم شخصیات نے نعتیہ شاعری کے محاسن کو تو نمایاں کیا ہی ہے مگر بعض اہم دانشوروں نے غیر مسلموں کی نعتیہ شاعری کو تنقیدی رخ سے بھی دیکھا ہے ۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر فرمان فتح پوری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں’’نعت گوئی سے دلچسپی کا اظہار صرف مسلمانوں نے ہی نہیں غیر مسلم شعراء نے بھی کیا ہے ۔مطالعہ سے پتہ چلتا ہے مسلمان شعراء کی طرح غیر مسلم شعراء کی نعتوں کا بیشتر حصّہ یکسر رسمی ہے۔‘‘ اسی طرح ایک دوسری جگہ راجہ رشید محمود لکھتے ہیں’’ کئی غیر مسلموں کی نعتوں میں بھی ایسے مضامین پائے جاتے ہیں جن میں حمدو نعت کے فرق کو اور ان کے آپس میں تعلق کی نزاکت کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔‘‘ان آراء سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بعض غیر مسلموں نے بھی بعض مسلمانوں کی پیروی کی ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی اپنی کتاب’’ اردو شاعری میں نعت گوئی ‘‘ میں غیر مسلم شعراء کی نعت نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں’’سچّی بات تو یہ ہے کہ ان شعراء نے نبی رحمت ﷺ سے اپنی والہانہ وابستگی اور پر خلوص عقیدت کو ایسے اشعار میں پرو دیا ہے کہ ان نعتوں پر امّتِ محمدی ﷺ سے وابستہ افراد بھی انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔‘‘
مختصر یہ کہ اردو ادب کے بیشتر محققین اور ناقدین نے غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں بہترین خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور خاص طور سے اس سلسلہ میں نور احمد میرٹھی نے جو تحقیقی کارنامہ انجام دیا ہے وہ بلا شبہ ناقابل فراموش ہے۔اور اس لحاظ سے اردو کے تمام غیر مسلم شعراء اور قارئین ‘نہ صرف انہیں داد و تحسین سے نوازیں گے بلکہ ان کی اس ادبی خدمت کے لئے