کہے کنفیوشیئس فقیر نُماناں … چل ملک ریاض، ریاض کر 

Yasser Chattha, the writer

کہے کنفیوشیئس فقیر نُماناں … چل ملک ریاض، ریاض کر 

از، یاسر چٹھہ

ایک بھائی دوست حیدر سید کی بِیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ انہیں، ہسٹری اینڈ کانسیپٹ آف لاء اینڈ سٹیٹ پر ڈیجٹل ورق گردانی کرتے ہوئے  کنفیوشیئس سے منسلک ایک دل چسپ مکالمہ دیکھنے پڑھنے کو ملا۔

قول کی صحت سے قطعِ نظر، دل چسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ہی نہیں، بَل کہ، چین کے موجودہ ریاستی ڈھانچے میں بھی اس  قول کی معکوس جھلک نظر آتی ہے۔

عظیم چینی فلسفی کنفیوشس سے کسی نے پوچھا:

گر ایک قوم کے پاس تین چیزیں ہوں: انصاف، معیشت اور دفاع، اور بَہ وجہِ مجبوری کسی چیز کو ترک کرنا مقصود ہو تو کس چیز کو ترک کیا جائے؟

 کنفیوشیئس نے جواباً بولے:

دفاع کو ترک کر دو۔

سوال کرنے والے نے پھر دریافت کیا:

اگَر باقی ماندہ دو چیزوں، انصاف اور معیشت میں سے ایک کو ترک کرنا ضروی ہو تو کیا کیا جائے؟

 کنفیوشیئس بولے:

معیشت کو چھوڑو!

اس جواب پر سوال کرنے والے نے حیرت سے کہا: معیشت اور دفاع کو ترک کیا تو قوم بھوکوں مر جائے گی اور دشمن حملہ کر دیں گے؟

Confucius

تب کنفیوشیئس نے جواب دیا:

نہیں! ایسا نہیں ہو گا، بَل کہ، انصاف کی وجہ سے اُس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہو گا، اور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اِس طرح کریں گے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی دشمن کا راستہ روک لیں گے۔

… 

جمعرات کی رات تھی جب یہ بات چیت ہو رہی تھی۔ پاس آرنلڈ ٹوائن بی کی روح بھی آ گئی۔ اس علمی روح نے بھی یہ مکالمہ سن لیا۔ روح کی آنکھیں ہوتی ہیں یا نہیں، ان میں نمک والا پانی ہوتا ہے، یا نہیں، اس پر تو تحقیق کر کے ہمیں فواد چودھری، بَہ طور وزیرِ سائنس اور ٹیکنالوجی، اور آغا وقار ملک کے ممتاز انجینئری کار گزار عامل ہی بہتر انداز سے اور با وثوق طور پر بتا سکتے ہیں؛ یا پھر اس بات کو وقتی طور پر بر طرف کرتے ہیں۔

اس جمعرات کو جب کنفوشیئس اور چینی نو جوان کا انصاف، معیشت اور دفاع کی تثلیث کا روحانی مکالمہ آرنلڈ ٹوائن بی نے سن لیا تو ان صاحبِ درک و حکمت کی روح زار و قطار رونے لگی؛ رقّت کا یہ عالم تھا کہ ہچکی بندھ گئی۔ صاحبانِ نظر و مکاشفہ کے بَہ قول تو سونامی آنے کا خطرہ پیدا ہونے لگا۔ ٹوائن بی کے سینے میں بہت بڑا راز تھا، جو انہیں زبان پر لانے  میں انتہائی دشواری تھی۔

 [جی بھائی، آپ کی مثال بالکل درست ہے، جی تُسی وی ٹھیک آخ رہے او… جی، آ… بالکل…]

Malik Riaz
ملک ریاض

ٹوائن بی کا وہی حال تھا جیسے ہمارا خوابوں میں ہوتا ہے۔ پھر کوشش بِسیار کے بعد اس مردِ علم و آہنگ و فہم کی روح نے زور کی چیخ ماری اور کہا:

نا معیشت، نا دفاع، نا انصاف … سب کُجھ  دی خیر ایہہ، کَم نکل ای جاندا ایہہ… پر کسی قوم کو 92 کا ورلڈ کپ نا جتنے دینا۔ رومی سلطنت بھی 92 کا ورلڈ کپ جیت گئی تھی۔

اس کے بعد کنفیوشیئس، سوال در سوال داغنے والا چینی ایچ ای سی جیسے ادارے کا فارن سکالر، اور آرنلڈ ٹوائن بی وضو کرنے کے بعد ذکر میں مشغول ہو گئے:

سب ملک ریاض، ریاض کرو … سب ملک ریاض، ریاض کرو

انہوں نے جس مسجد کے وضو خانے سے وضو کیا، بلا وثوق ذرائع نے بتایا کہ وہ مسجد بھی ملک ریاض نے تعمیر کروائی تھی۔ اور دنیائے پاکستان پر 92 کے ورلڈ کپ کا گہرا گھاؤ لگانے والے صاحب بھی شاید پہلے ہی ذکر اذکار سے فراغت پا کر، کسی ماحول دوست خاکی رنگ کے اس صفحے پر نظر گاڑے اب حالتِ فکر میں تھے، جس پر same page لکھا تھا۔

و ما علینا الا البلاغ…

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔