گلوبل مانیٹرنگ کا کڑا نظام؛ طاقت کی بَہ راہِ راست رسائی

Naeem Baig

گلوبل مانیٹرنگ کا کڑا نظام؛ طاقت کی بَہ راہِ راست رسائی: نیو کالونیلزم کا بھیانک چہرہ، حصۂِ دوئم

از، نعیم بیگ

چند دَھائیاں پہلے عالمی میڈیا اور سیاسی منظر نامہ پر عمرانیات کی ایک نئی اصطلاح سامنے آئی، جس میں امریکی اسٹیبلشمنٹ نے چند غیر ترقی یافتہ ممالک بَہ شمول لاطینی امریکین ریاستوں کو rogue nations کے القاب سے نوازا۔ بعد از نائن الیون مڈِل ایسٹ اور افریقہ کی کچھ ریاستوں کو بھی شامل کر دیا گیا۔ پھر سنہ 98’ء کے ایٹمی دھماکے بعد چنیدہ امریکی تھینک ٹینکس نے پاکستان کو بھی علی الاعلان rogue ریاست کہہ دیا؛ نہ صرف یہ، بل کہ اسے نا کام ریاست کا لقب بھی دے دیا۔

عالمی غیر جانب دار دانش وروں کے خیال میں ہندوستان کی آزادی پر برطانوی پارلیمنٹ میں دو دھڑے تھے۔ پہلا دھڑا ٹوری پارٹی جس کے سربراہ چرچل، جنگ کے دوران وزیر اعظم رہ چکے تھے، اور دوسرا دھڑا لیبر پارٹی جس کے سربراہ ایٹلی تھے۔

پاکستان، پہلے دن سے امریکا کے دو مقاصد کے لیے ہندوستان سے الگ کیا گیا۔ اس ضمن میں اجمالاً عرض ہے کہ امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں کے درمیان سنہ 46’ء میں  قرضوں کی ادائیگی کے ایک معاہدے کے تحت جنگ عظیم دوئم کے دوران دیے گئے امریکی قرضوں کی رِی سٹرَکچرنگ اور معافی کی ممکنہ شرائط (اس پر برطانیہ اور امریکی لائبریریاں خاموش ہیں (تاہم میڈیا میں اس کے تفاصیل موجود ہیں۔) پر سہولیات وصول کر کے برطانیہ نے یہ جغرافیائی ٹکڑا امریکا کی  ایماء پر الگ کر دیا۔ (اس پر ریسرچرز کو دعوتِ عام ہے کہ امریکی اور برطانوی لائبریروں کی چھان بین کریں تو شاید انھیں ممکنہ مواد مل جائے)  اِس انڈر سٹینڈنگ کے تحت ہندوستان کی جملہ سیاسی قیادت بَہ شمول گاندھی، نہرو اور جناح کو ماؤنٹ بیٹن کی سربراہی میں تقسیمِ ہند اور آزادی قائل کیا گیا، لیکن امریکی ایماء سے نا بلد رکھا گیا۔

ہندوستان کو شاہی ریاستوں کا لالچ دیا گیا، اور پاکستان کو آزادی کے نام پر للچایا گیا۔ اس مبینہ آزادی اور تقسیمِ ہند کے دو عالمی مقاصد تھے:

پہلا مقصد مشرقِ بعید، وسطی ایشیاء اور مڈل ایسٹ کے درمیان ایک بَفَر زون کو جنم دینا مقصود تھا تا کہ شمالی اور مغربی ممالک سے در آنے والے ممکنہ حملہ آوروں کو ایشیا اور بحرِ ہند میں داخل ہونے سے روک دیا جائے۔ سوشلسٹ انڈیا کے سیاسی پھیلاؤ کو روکنا بھی ایک مدعا تھا۔ (1) اور ایسا ہوا بھی جب کیمونسٹ سوویٹ یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس سے پہلے پاکستان میں بھٹو کے خلاف مذہبی تحریک چلا کر مارشل لاء لگایا گیا اور بعد ازاں سوویٹ حملے پر امریکی امداد اور ایماء پر جہاد اور مجاہدین کا غلغلہ پیدا کیا گیا اور جنگ کے ذریعے ریجن کو نئی طرز پر کالونی کے لیے استوار کر کے مقررہ مقاصد حاصل کر لیے گئے۔

اِس مقصد کے حصول کے لیے پہلے دن سے ہی پلاننگ شروع کر دی گئی۔ ایک وزیر اعظم قتل کیا گیا۔ پاکستان کا جمہوی آئین بننے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور پھر ایوب کا مارشل لاء لگا کر بائیں بازو کی انقلابی مزاحمتی قوتوں کو ختم اور دائیں بازو کی جمہوری لبرلز کو محدود کر دیا گیا اور رجعت پسندوں کو ریاستی سرپرستی میں لے لیا گیا۔

دوسرا مقصد اس ملک کو ایک جغرافیائی سرحدی چار دیواری میں محصور کر کے صرف زندہ رہنے کے لیے ضروری بنیادی حقوق اور سہولتیں مہیا کی گئیں اور بڑی تعداد کو جاہل، ان پڑھ غیر تعلیم یافتہ رکھ کر عملاً ایسی آبادی کا جمِ غفیر پیدا کیا گیا جسے عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت دینے کے لیے انسانی فورس کے طور پر استعمال کیا جانا مقصود تھا۔

تین کروڑ سے اوپر بچے آج بھی پاکستان میں دانستہ کوشش کے تحت بنیادی تعلیم سے محروم ہیں اور ان میں سے حسبِ ضرورت بڑے ہو کر کچھ مزدور، کچھ مذہبی عساکر، کچھ مقامی اور کچھ غیر ملکی ممالک کے لیے ایندھن اور بقیہ مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے عذابِ جان بنیں گے۔

گرم اور مرطوب زرعی علاقوں کے لوگ عمومی طور پر جذباتی، ذہین اور محنت کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک اضافی خصوصیت یہ بھی رہی کہ دو سو برس سے زائد امپیرئیلسٹ کالونیلزم نے ملک کی عمومی ذہنیت کو غلامانہ طرز زندگی کی تربیت بھی مہیا کر دی تھی۔ سو چہار طرفی خصوصیات کے حامل پاکستانی آبادی کے بلیو کالرز غیر تعلیم یافتہ ورکز کو ترقی پذیر ممالک میں ایکسپورٹ کرنے کی ترغیب دی گئی۔ بقیہ جو تعلیم یافتہ ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آیا، اسے مائیگریشن کے رستے ترقی یافتہ ممالک میں بطور کنٹری بیوٹر سیٹل کر کے سرمایہ دارانہ نظام کا لازمی حصہ بنا دیا گیا۔

گزشتہ تین چار دھائیوں سے ترقی یافتہ ممالک میں جانے والے وائٹ کالر ڈاکٹرز، انجئنئیرز اور سائنس دان جنھیں ہم برین ڈرین کہتے رہے ہیں، ان کی واضح مثال ہیں۔

ان مقاصد کو حاصل کر لینے کے بعد کالونی میں ایک نئے مسئلہ کا آغاز ہو گیا۔ (گو مقامی طور پر ملکی آبادی انفرادی/ خاندانی رجسٹریشن قانون کے تحت رجسٹرڈ ہو گئی ہے، تاہم ایک حصہ ابھی تک اَن رجسٹرڈ ہے) جس میں پرائیویٹ عسکری فیکشن سیاسی گروہ بندیوں کے تحت پنپنے لگا۔

کچھ کو اولاً حکومتی سطح پر آنکھیں موند لینے پر امداد ملتی رہی، کچھ کو خود حکومت نے 80’ء کی دھائی کی طرز پر مدد دی۔ جس پر دنیا بھر میں شور مچا اور آخرِ کار یہ سب کچھ گزشتہ ایک دھائی میں ختم کر دینا پڑا۔

اب یہ عساکر ٹکڑوں میں بَٹ گئے ہیں، کچھ زیرِ زمین ہو گئے ہیں، کچھ کو حکومت نے اسیر کر دیا ہے؛ لیکن پاکستان کے بیانات پر اب عالمی اداروں کا اعتماد نہیں رہا جس وجہ سے حکومتی اقدامات کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ یوں نئی حکومت کا اہتمام کیا گیا اور اس کے قیام کے بعد عالمی اسٹیبلشمنٹ نے ملک کو نیو کالونیلزم کے تحت از خود مکمل مانیٹرینگ کا نظام وجود میں لانے کا تہیہ کر لیا۔

اس نظام کے تحت ایف اے ٹی ایف جیسی عالمی ایجنسی کو یہ سرگرمی سونپ دی گئی کہ وہ یہاں بَہ راہِ راست مانیٹرنگ کرے۔ انھیں پاکستان میں دفاتر مہیا کر دیے گئے ہیں، جس نے تین برس سے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا ہوا ہے۔

اس کے ساتھ ہی نیو کالونیلزم کے وسیع تر ایجنڈے کے تحت کالونائزر نے  کرپشن کے ریاستی شور تلے معیشت کا نظام عالمی اداروں کے سپرد کر دیا ہے۔ سٹیٹ بینک کے گورنر کی تعیناتی اور وزارت میں آئی ایم ایف کے دفاتر کا قیام اس کی کڑی ہے

میڈیا، چینلز اور اخبارات پر آزادیِ اظہار پر مخصوص مانیٹرنگ کر دی گئی تا کہ سیاسی، سماجی اور علمی سطح پر ہونے والے مکالمے اور مواد کو ایک مخصوص حد سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔

یوں پورے ملک کو ڈیجیٹلائز کرنے کے لیے ڈیجیٹل پاکستان کے بَہ ظاہر قومی نعرے تلے نئے ایکسپرٹس کو مقامی سطح پر تعینات کر دیا ہے، جو رفتہ رفتہ پوری آبادی کو معاشی، تعلیمی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی سطح پر ایک ہَمہ گیر نیٹ ورک اور گروپنگ کے تحت ملک کے ڈیٹا کو مربوط کردے گا اور گلوبل مانیٹرنگ کا کڑا نظام لاگو ہو جائے گا۔

اسی ضمن میں حکومتی اقدامات کے تحت مڈل ایسٹ اور دیگر ریاستوں کو پاکستانیوں کے اقامہ بارے معلومات فراہم کرنے کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے تا کہ اوورسیسیز پاکستانیوں کی مانیٹرنگ بھی ممکنہ حد تک ہو۔ یوں کالونی پر مکمل کنٹرول کے پہلے مرحلے پر غلامی کی ایک نئی زنجیر آپس میں کڑیوں کی مانند قیدیوں کو اسیر رکھے گی اور رہائی کالونائزر کے ہاتھ میں ہو گی۔

مجھے اس ضمن میں پیزا شاپ سے پیزا خریدنے کے عمل پر پیزا سیلز گرل اور خریدار کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو پر مبنی برسوں پہلے ایک تخیلاتی لطیفہ یاد آ گیا ہے۔ آپ میں سے بیش تر نے یہ لطیفہ سن رکھا ہو گا، لہٰذا اسے دو بارہ ضبطِ تحریر میں لانا بے کار ہی ہو گا۔

حواشی

 1- ایلکس وان تُنزلمان (42) برطانوی تاریخ دان/ ریسرچرز، برطانیہ

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔