ہم تھے کیا؟ ہم ہیں کیا؟ گَرد، گَرد کی گَردی

Yasser Chattha

ہم تھے کیا؟ ہم ہیں کیا؟ گَرد، گَرد کی گَردی

از، یاسر چٹھہ 

آپ کو یاد ہو گا (شاید؟) ہر خود کش حملے کے بعد ایک قسم کا مالِ غنیمَت ملنے کا اعلان کیا جاتا تھا؟

  1. خود کش حملہ آور کا سَر مل گیا ہے۔
  2. علاقے کو cordon off کر دیا گیا ہے۔

اگر آپ صرف وجودی نظمیں، اور خود میں لپٹی غزلیں ہی نہیں پڑھتے رہتے تو (شاید) جانتے، محسوس کرتے ہی ہوں گے کہ وکیلوں پر ہوئے مقدمات کی مثال بھی خود کش حملہ آور کے ملے سَر جیسے ہی ہوتی ہے۔ کسے وکیل کریں گے، کس سے منصفی مانگیں گے؛ سب مافیا شناس اور مافیا محمود و ایاز کی طرح ایک ہی صف ہوں گے۔

اور جو دوست لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر ہوئے حرکت کے تناظر سے یاسیت کا تازہ کوڑا کھانے کے بعد یہ بات کرتے ہیں کہ ریاست بکھر رہی ہے، ریاست کا یہ ہو جائے گا، ریاست کا وہ ہو جائے گا…! ان جیسی باتیں کہنے والے میرے دل کے عزیز لوگوں میں سے ہیں۔ لیکن جانے کیوں لگ رہا ہے کہ ان کا فہم کسی عجیب سی consciousness کے لمحے میں کیوں ہیں؟

انتہائی قابلِ احترام احباب، ہم کوئی مناسب اور قریب قریب نارمل ریاست و ملک کب تھے؟ مجھے اس لمحے کی کوئی منجمند تصویر دکھا دیجیے، جب یہ خواب ناک لمحہ تھا؟ ہم گروہی انداز کی قبائلی نفسیات کی نسبتاً نئے لباسوں میں نظر آنے والی کوئی توسیع ہیں۔

کیا ہم نے استری شدہ پتلون قمیص، میچنگ نیکٹائی، اور کوٹ پہننا شروع کر لیا تو ہمارے اندر خنّاسی دماغوں کی قبائلیت ختم ہو گئی؟

اداروں کے باہم تعلقات و کار و بار کی قبائلیت، اداروں کے اندر اختیارات کو برتنے کی قبائلیت، رولز آف بزنس کو کار و بارِ ادارہ و دفتر اور عوامی و ملکی فرد کی خدمت کے لیے معاون اور معیار بندی کے انتظام کے طور پر دیکھنے کی بَہ جائے انہیں کسی بارش جیسی برستی طاقت کا قائم مقام سمجھ لینے کی خبطی نفسیات …

 ‘میری پاورز…’

‘میرا استحقاق …’

‘میرے کام میں در اندازی…’

یہ جملوں کے ٹوٹے پھوٹے بخرے سرکاری دفاتر اور نجی کار گاہوں میں کبھی گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا، اور کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑے کے شاہ نامے پاکستان ہیں۔

نہیں یقین تو کبھی دیکھ لیجیے کسی دفتر جا کر، آپ کو کہیں ٹانواں ٹانواں ہی ظرف و عزت والا فرد ملے گا، کام کو کام سمجھنے والا، فرض ماننے والا ملے گا۔

باقی مولا خوش رکھے اپنے ضعفِ ظرف و کسرِ (عزتِ) نفسی کو کسی طاقت خواہی، اختیار باشی کی دُھول میں دُھولو دُھول ملیں گے، ملتے تھے، مل رہے ہیں۔ جیسا کہ اوپر کہا، کبھی یہ بین الادارتی جتھے ہوتے ہیں، کبھی ادارے اور تنظیمی سطحوں کے اندر چھوٹی اکائیوں میں اسی چھوٹے پن اور چھوٹے حلقۂِ مفاد کے گرد کِکلی کلِھیر دی، پَگ میرے وِیر دی کھیل رہے ہیں۔

وکیلوں کے گروہ بھی اسی گروہی نفسیات کا ضمنی حوالہ ہیں۔ ایک خوش تخیل دوست کہہ رہے تھے ان وکیلوں کی تعلیم میں jurisprudence کو زیادہ دخیل کیا جائے، شاید اس سے بہتری کی توقع ہو سکے۔

یہ بات سُن کر ہمیں میاں رضا ربانی کی بات یاد آئی جب انہوں نے کاکول اکیڈمی میں ملکی آئین کو نصابِ تربیت میں شامل کرنے کی بات کی تھی۔ ہمیں تو کاکول اکیڈمی کے حلف نامے کے لفظ بھی یاد آئے تھے، اور ساتھ ہی کالے رنگ کا قہقہہ جس کے بعد آنسو نکلتے ہیں جنہیں ہم خوشی کے آنسو کہہ کر اپنا بھرم رکھتے ہیں۔

تو jurisprudence، یا فلسفۂِ قانون، تو قانون کی ڈگریوں کی پرورش کے دوران پڑھایا جاتا ہے؛ پر پڑھایا کیسے جاتا ہے، پڑھا کیسے جاتا ہے،کون پڑھاتا ہے، اور کون پڑھتا ہے،… اس تعلیم پر وہی فارمولے چلتے ہیں جو ہمارے یہاں باقی تعلیمی پروگراموں میں چلتے دوڑتے ہیں۔ اس کی summary یہ ہوتی ہے:

مشہور، مشہور اور چوہندے چوہندے سوال اور جواب تیار کر لو … اللہ اللہ، خیر سلا

تو لفظ کیسے اترے کسی ذہنی زمین پر، اس سے کسی کے معنیٰ بنانے کی جستجو کے سَوتے کہاں سے پھوٹیں، پھر ان سے کیسے سوچ جنم لے، پھر وہ سوچ کیسے عمل میں ڈھلے۔

پنجاب میں اکثر وہ جٹ، گجر اور راجپوت بچے جو مویشیوں کے لیے چارہ کاٹنے، انہیں پانی پلانے، اور فصلوں کو پانی دینے جوگے بھی نہیں ہوتے وہ وکالت کی طرف عُود آتے ہیں۔ فلسفۂِ قانون، پیشہ ورانہ رکھ رکھاؤ، اخلاقیات، اداروں کی عظمت، انصاف کا نامیاتی تصور ایسی دھیرجتا اور موسیقی ہے جس کی قدر کسی بھی شوقین مزاج بھینس کی بِین کی قدر سے کیوں کر زیادہ ہو سکتی ہے؟

ڈاکٹروں اور ینگ ڈاکٹروں کے متعلق کیا رائے ہو سکتی ہے، وہ بھی اسی معاشرت، اسی ریاست کے نام پر جمع شدہ قبائلی گروہوں کے احساسات سے کیسے مختلف ہو سکتی ہے، اس پر لکھنے کو، مزید لفظوں کو حرف گیر بنانے کو اب جی نہیں چاہ رہا۔ اشاروں سے بات کو جوڑا جا سکتا ہے۔ یار، کچھ سوچو، نہیں سوچا جا رہا تو کوشش کرو۔

پسِ تحریر

ہلکا پن، ہولا پن … چھوٹا پن، الملکُ ڈنڈا، الملکُ ڈنگراں

بھئی حیران ہونے کی کیا بات ہے، اگر آپ کسی دن highlight  ہو جانے والے کسی منظر پر حیران ہوتے دکھائی دیں، تو ہم جانیں گے آپ ہمارے معاشرے کو جانتے ہی نہیں …!

ہاں، پر لوگوں کو انسان کا بچہ بننے میں اعتماد اور فخر دلانے میں اپنا کردار جیسے بھی ہو، جس قدر بھی ہو، جتنا بھی ہو پورا کیجیے۔

لاہور میں آج ہوتے تسلسل کو، (واقعہ پھر نہیں کہہ سکوں گا، کم اَز کم اپنے لفظ کی حرمت کو کیوں ہارنے دوں)؛ تو لاہور میں آج ہوتے تسلسل کو، جسے ہم پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی، پنجاب ادارۂِ امراضِ قلب، کے اندر اور باہر ہونے والے مناظر کہیں گے، ہمیں یش پال کے تقسیمِ ہند کے سلسلے میں ناول، جھوٹا سچ، کے بُلوے جیسے لگ رہے تھے: نا کم، نا زیادہ، برابر کا چھوٹا پن، غیر انسانی پن۔

شوہدا پن ہے، شوہدے پن کے شکار زدگان کو انسان کے پُتّر بنانے کے لیے لوگوں کے اندر شرم، حیا، اپنی عزت، کسی دوسرے تیسرے، چوتھے کی عزت کے تخم بیجنے کی اشد ضرورت ہے۔ courtesy کو جاگیر دارانہ مزاج کا غیر اہم آئیڈیا سمجھنے سے انکار کرنا ہو گا، بندے کا پُتّر بننے کو اعزاز سمجھنا ہو گا۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔