
غالب اور تصور عشق
از، ڈاکٹر ارسلان راٹھور
کیا غالب کا مقبول زمانہ شعر واقعی عشق کے مشرقی تصور کے زوال کا نمائندہ ہے؟
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
اس سے ملتی جلتی باتیں بہت سے لوگوں نے کی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور کے ایک معروف و مؤقر اور بزرگ نقاد نے بھی اپنی ایک گفت گو میں اس شعر کو ہدف بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غالب ہمارے کلاسیکی شعَراء کی فہرست میں غالباََ پہلے اور اہم شاعر ہیں جن کے کلام میں عشق جیسا توانا عامل کائناتی سطح پر تخلیقی عُنصر کے طور پر استعمال نہیں ہوا۔ اس بات کے ثبوت میں موصوف نے یہ شعر پیش کیا اور تأسف بھرے لہجے میں کہا:
وہ عشق جو میر کے مُتَکَلِّم اور عاشق سے پہاڑ کو کٹواتا تھا اور معشوق کی راہ پر اپنی خاک کے اڑنے سے بھی محتاط تھا، غالب کے ہاں ایسا بگڑا کہ بات نکما ہونے تک پہنچ گئی۔
حیرت ہے کہ تمام تر فلسفہ و منطق کے باوجود میر و غالب کے شعری حربوں میں محاورے کی اہمیت اور اس کی تقلیب کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ہمارے بڑے کلاسیکی شاعروں کا عالَم یہ ہے کہ شعر میں نئی سے نئی بات پیدا کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے اختیار کرتے ہیں۔ ان کے شعر سمجھنے کے لیے پوری طرح کان کھڑے رکھنے چاہیں۔ آپ کا دماغ باریک بِین نہ ہو تو معنی کا پرندہ ادراک کے آسمان سے پھر کر کے اڑ جاتا ہے۔ کلاسیکی شعر میں اس سارے عمل کے لیے طرح طرح کی تکنیکیں استعمال کی جاتی ہیں: محاورے میں تصرّف، روز مرہ کا الٹ پھیر، لفظ کی تقلیب، مروّجہ تراکیب کو توڑنا، سامنے کی چیزوں کی تخصیص، دور کی چیزوں کی ترمیم اور جانے کیا کیا۔
مجھے یاد ہے کہ اپنے ایک دوست کے ہاں موجود تھا، میر کے ایک شعر پر گفت گو کے دوران اختلاف اس حد تک جا پہنچا کہ ہمیں گرجا گھر کے متولّی سے تاریخی و معیاری صلیب کی لمبائی اور چوڑائی معلوم کرنا پڑی۔ اسی تفصیل سے میر کے شعر کی باریکی کا علم ہوا، جو ظاہر ہے میر کا مقصود تھا (یا کم سے کم مقصود کی راہ میں وسیلے کا کام کر رہا تھا)۔ میر کے اس شعر پر گفت گو کسی اور وقت سہی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے شعراء آس پاس کی نامیاتی دنیا اور لفظوں کی وضعی حالتوں سے ایسے آگاہ تھے کہ معنی یابی کا کوئی موقع خالی نہیں جانے دیتے تھے۔
اس بحث کے بعد لوٹیے غالب کے شعر کی طرف!
اتنا تو ہم سب جانتے ہیں کہ انگریزی میں کسی بھی لفظ سے پہلے a کا سابقہ بعض اوقات اس شے کی حالت کی تعدیل پر دلالت کرتا ہے۔ مثلاً جب ہم moral کے مقابلے میں immoral کہنے کی بجائے amoral کا استعمال کرتے ہیں تو وہ “اخلاقی” کی اضدادی حالت کی بجائے تعدیلی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح کی مثالیں انگریزی زبان و اصطلاحات میں کثرت سے ملتی ہیں۔ apathetic, asocial, atheist وغیرہ۔
ہمارے ایک پڑھے لکھے دوست نے کچھ عرصہ پہلے جدید امریکی شاعری کا ٹھٹھا اڑاتے ہوئے ایک نظم سنائی تھی، جس کا عنوان تھا۔
Cardiac arrhythmias:
Thinking about him:
palpatations
Being around him:
flutter
Talking to him:
fibrillation
All that’s left is
cardiac arrest۔
بہ عینہٖ انگریزی میں نا کے معنی کے لیے un کا سابقہ بھی بہت عام ہے جیسے، untie, uncomfortable, unfair, unhappy وغیرہ۔
اردو کے کلاسیکی شاعروں نے بھی اس طرح کے سابقوں کو قابلِ لحاظ تعداد میں استعمال کیا ہے۔ ڈھونڈنے سے بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں۔ سرِ دست میرے حافظے میں اس کی دو مثالیں موجود ہیں۔ ایک غالب سے بالکل تھوڑا پہلے کے شاعر مصحفی اور دوسرے غالب کے معاصر، دوست اور ممدوح ناسخ کی (جن سے کسی حد تک غالب اثر پذیر بھی ہوئے):
مصحفی:
مصحفی یار کے گھر کے آگے
کتنے مجھ سے نگھرے بیٹھے ہیں
ناسخ:
کیوں نہ باتیں چبا چبا کے کروں
ہم سخن بات ہے نبات نہیں
مصحفی اور ناسخ کے شعر میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ نگھرے اور نبات کو، گھر اور بات کی بالترتیب ضد کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ناسخ کے شعر میں نبات سے منشی طوطا رام شایاں یا شعر بھی یاد آتا ہے:
مصری کرے نبات ترے لب کے رُو بَہ رُو
کیا کہیے کس قدر ترا شیریں کلام ہے
غالب کے زیرِ بحث شعر میں یہی طور استعمال ہوا ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ غالب نے حسب معمول مصحفی اور ناسخ کی طرح سیدھی اور سامنے کی پکڑائی نہیں دی۔ غالب کے شعر میں نکما، دوسرے مصرعے کے لفظ (لفظ بھی ہندی نہ کہ فارسی) کی ضد کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ دل چسپ بات ہے کہ کام کا بندہ ہونا بَہ یک وقت مختلف معانی کا حامل ہے۔ ہمارے ہاں معروف ہو جانے والا محاورہ، کام کا بندہ ہونا (بہ معنی کار آمد انسان) زیادہ پرانا نہیں۔اس کا چلن بیسویں صدی میں زیادہ ہوا۔
کالی داس گپتا نے غالب کے کلام میں ہندی معاشرے کی رسمیات و صنمیات کا کھوج لگایا ہے اور بجا لگایا ہے۔ نہ صرف یہ کہ غالب کے کلام میں اس کی گنجائش ہے، بل کہ غالب کی سوانِح سے ان کی دیگر مذاہب سے علمی دل چسپی اور ہندوستانی تہذیب سے گہرے شغف کے ثبوت ملتے ہیں۔ ہر گوپال تفتہ کے نام خط میں انھوں نے ہندو صنمیات سے متعلق بصیرت افروز بحث کی ہے۔
اس شعر میں سمجھنے کی یہی دِقّت ہے کہ غالب نے کام کو ہندی معنی میں استعمال کیا ہے کہ فارسی۔ فارسی میں کام کا لفظ عام ہے، کام بہ معنی کار فارسی ہی ہے۔ کام داشتن، کام دادن، کام آوردن سامنے کے مصادر ہیں۔ ہندی میں کام کا سوتر سنسکرت ہے۔ شبدکوش کے مطابق، کام کسی بھی حِس سے حاصل ہونے والے حظ کو کہتے ہیں، خصوصاً جس میں جمالیات کا دخل ہو۔ چوں کہ ہندومت میں جنس کو جمالیات کا باقاعدہ حصہ مانا جاتا ہے، اس لیے جنس کے لیے کام دیوتا کا اسطورہ موجود ہے۔ اس ارتھ کو سامنے رکھیں تو کام کا بندہ کے معنی واضح ہیں، ایسا شخص جو اپنی نفسی و شہوانی خواہشات کا غلام ہو۔ ایک زمانے میں فضیل جعفری کی شب خون میں چھپنے والی ایک غزل کا بڑا چرچا تھا، اس میں ایک شعر تھا:
ہاں اس میں کام دیو کی کوئی خطا نہیں
رستے وفا کے سخت تھے دل بَر بدل گئے
غالب نے عشق کے ذریعے سے انسانی زندگی میں ہونے والے ترفُّع یعنی sublimation کو بیان کیا ہے۔ یعنی عشق وہ عامل اور actant ہے جس نے ہمیں حرص کی راہ سے بے ریائی کی راہ پر ڈالا۔ عشق نے ہمیں کام سے نکما {(=نہ+کما) ہوس کا آدمی)} بنایا۔ البتہ غالب نے اس لفظ کو ایسے استعمال کیا ہے کہ کام اور نکمے کے درمیان ہلکا اور خفیف تناؤ دور کا معلوم ہوتا ہے، یہ غالب کا مقصود بھی ہے۔ اس اُسلُوب کے بغیر غالب غالب نہیں کہلا سکتے۔ حاصل یہ ہوا کہ اگر عشق نہ ہوتا تو ہم کھانے پینے کو ہی زندگی سمجھے بیٹھے تھے۔ عشق نے ہمارے تصورِ کائنات کو یک سر بدل کے رکھ دیا۔ اب غالب و میر کے عشق میں نظری سطح پر کوئی اختلاف نہیں۔ ہمارے دور میں سلیم کوثر نے اپنے عہد کی زبان میں اس بات کو یوں باندھا ہے:
کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا
عالم ذات میں درویش بنا دیتا ہے
عشق انسان کو پاگل نہیں ہونے دیتا
سلیم کوثر کے پہلے شعر سے صائب کا ولولہ انگیز شعر یاد آتا ہے:
مستغنیام ز خلق که اِکسیر عشق ساخت
چون آفتاب چہره زرین خزانہ ام
یہ بھی ملحوظ رہے کہ انسانی سطح پر غالب کے عشق کے رنگ نہ صرف یہ کہ متنوُّع ہیں، بل کہ مستحسن بھی ہیں۔ جس بات کا تقاضا سلیم احمد نے سو برس بعد کیا، میر و غالب اس سے پہلے ہی آگاہ تھے۔ آج بھی غالب کے اس انسانی احساس و ارضیت سے لب ریز شعر کا کیا جواب ممکن ہے:
شخصش بہ خیالم نہ زند پائچہ بالا
ہر چند ز جوش ہوسم خون رود از دل
میر، جس کے عشق کو عموماً افلاطونی سمجھا گیا ہے، عملی سطح پر ہر گز ایسا نہیں۔ یہ درست ہے کہ ان کے ہاں عشق کائنات کے جوہر میں زبردست فاعل کے طور پر آیا ہے (اس میں ان کے والد کی نصیحت والا فقرہ شیطان کی حد تک معروف ہے) لیکن اس کے عملی مظاہر میں جو شوخ و شنگ پہلو ملتے ہیں، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
غالب کے سلسلے میں اوپر جس ویڈیو لیکچر کا ذکر ہوا، اس میں یہ بھی فرمایا گیا کہ غالب نے عشق کی ذیلی کیفیات، مثلاً ہجر و فراق اور وصال کے معاملات کو بھی انتہائی understated حالت میں برتا ہے ، ثبوت کے طور پر یہ شعر پیش کیا گیا:
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں
کہا گیا کہ آنکھوں سے خون کے ٹپکنے ایسی تشدیدی کیفیت کا مَصرَف کیا نکلا؟ دو شمعوں کا روشن ہونا، ہَیہات ایسی توہین سے تو عشق کو ڈوب مرنا چاہیے!
کیا جوئے خوں کی سرخ ندی کو شمعوں کی پگھلتی روشنی جاننا یا دیکھنا لرزہ خیز خیال نہیں؟ بالکل کسی بالا ذہین نفسی انتشار کے حامل انسان جیسا۔ غالب کے ہاں ایسی کیفیات بہت ہیں۔ خفقان کی کیفیت پر شاید ہی کسی نے ایسا عمدہ شعر کہا ہو جیسا غالب نے کہہ رکھا ہے:
باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
سایۂِ شاخ گل افعی نظر آتا ہے مجھے
آنکھوں سے عشق کے شدت کا ظاہر ہونا غالب کا بڑا پسندیدہ خیال ہے۔ انھوں نے پیرایہ بدل بدل کر اسے بیان کیا ہے:
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
اب رہا یہ معاملہ کہ غالب نے اس شدت کے نتیجے یا فہم کو ایسا سُبک یا understated کیوں بنایا ہے تو اس کا جواب غالب کی زبان میں یہ ہے: مشکلیں مجھ پر پڑی اتنی کہ آساں ہو گئیں۔
اوپر غالب کے شعروں میں نفسی واہموں اور توَہّمات کی بات ہوئی ہے۔جدید شاعری نے ایسی چیزوں سے نفسیانی استعارے کی نئی شکلوں کی گنجائش نکالی ہے۔ مجھے غالب کی جوئے خوں سے ہمیشہ خواب کی بے ترتیب اور وحشت انگیز صورت یاد آتی ہے۔ بہت پہلے ڈنمارک کے ایک شاعر کی نظم کا انگریزی ترجمہ پڑھا تھا۔ میرے پاس اس کی دو سطریں لکھی رہ گئیں۔ افسوس شاعر کا نام جاتا رہا۔
The black things I hid under flowers came out screaming
ایسی دہشت طاری کر دینے والی نظموں سے مجھے ہمیشہ ہمارے کلاسیکی شاعر یاد آئے ہیں۔ غالب تو غالب ہمارے تہذیب میں واجد علی شاہ اختر تک کے کلام میں رونگٹے کھڑے کر دینے والے شعر مل جاتے ہیں:
جب سے اڑی ہے خاک الم رشک ماہتاب
اک آسمان اور ہے میرے غبار میں
یہ کیفیات ہر بڑے شاعر کا لازمہ ہوتی ہیں۔عرصہ پہلے مثنوی میں رومی کا یہ مصرع پڑھا اور چونک اٹھا:
خاک بر باد است و بازی میکند
بات یہ ہے کہ ہمارے کلاسیکی شاعروں کے پاس شعر میں زندگی کو برتنے کی اتنی متنوُّع صورتیں ہیں کہ شاید ہی کوئی جدید شاعر ان کا تصور کر سکے۔ غالب کا یہ شعر پڑھ کر شاید صحیح اور شایانِ شان داد، ایڈگر ایلن پو دے پاتے یا پھر گوٹفریڈ بین۔