والد صاحب کی وفات اور چند دینی سماجی پہلوؤں پر تبصرہ

Dr Irfan Shahzad

والد صاحب کی وفات اور چند دینی سماجی پہلوؤں پر تبصرہ

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

میرے لیےغم بڑی ذاتی قسم کی چیزہے، میں اسے عموماً اپنے علاوہ کسی سے بھی شئیر نہیں کرتا، کہ غم بانٹنے کی چیز نہیں ہے، یہ بانٹنے سے کم ہوتا ہے اور میں اسے کم کرنا نہیں چاہتا۔ خوشیاں البتہ شیئر کرتا ہوں، یہ بانٹنے سے بڑھتی ہیں اور ان کا بڑھتے رہنا ہی اچھا ہے۔ آپ کا غم کا احساس آپ کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔

موجودہ تحریر بھی اپنا غم شئیر کرنے کے لیے نہیں بل کہ اس موقع کی مناسبت سے سماجی حوالے سے چند گزارشات پیش کرنے کے لیے ہے۔ تاہم  احباب کی طرف سے ہمدردی کا اظہار تقویت کا باعث ہوتا ہے۔ بعض غم البتہ سماجی نوعیت کے ہوتے ہیں، جیسے فوتگی۔ میرے والد صاحب کی وفات پر مجھے والد صاحب کی مغفرت کے لیے دوستوں کی دعائیں بھی درکار تھیں اور اپنے لیے تسلی بھی۔ الحمد للہ دونوں ملیں۔ اور یہ مرحلہ گزارنےمیں مدد ملی۔

یہ ہمارے گھر میں پہلی وفات تھی۔ اس کے باوجود، میں نے اور بھائی نے فیصلہ کیا تھا کہ سارے فرائض خود انجام دیں گے۔ ہم نے والد صاحب کو غسل اور کفن بھی خود دیا اور نمازِ جنازہ پڑھانے کی سعادت بھی میں نے حاصل کی۔ میت کی اولاد کا یہ پہلا حق ہے کہ وہ نماز جنازہ خود پڑھائے۔ جس والد کے ہاتھوں کی  کمائی ساری عمر کھائی ہو اس کی تجہیز و تکفین بلا عذردوسرے کے حوالے کرنا بے قدری ہے۔

نماز جنازہ پڑھانے کے لیے شرعی حلیہ کی کوئی شرط نہیں، بل کہ ہمارے آفاقی دین نے کوئی مخصوص شرعی حلیہ بتایا ہی نہیں ہے۔ جو شرعی حلیہ ہمارے ہاں رائج ہے وہ عربی اور ہندوستا نی ثقافت  سےتشکیل پانے والا ایک مخلوط حلیہ ہے۔ کسی دوسرے نیک آدمی کے جنازہ پڑھنے سے بھی بہتر میت کے بیٹے یا قریبی رشتہ دار کا جنازہ پڑھانا زیادہ بہتر ہے کہ جنازہ، میت کی مغفرت کی دعا ہے اور یہ دعا ایک بیٹے سے  زیادہ دل کی گہرائی سے اور کون کر سکتا۔

نماز جنازہ کوئی مشکل چیز نہیں۔ یہ میت کے لیے دعاہے۔ اس کا موجودہ طریقہ کہ جس میں پہلے ثناء، پھر درود اور آخر میں دعا کی جاتی ہے، فقھاء کا طے کر دہ طریقہ ہے، اور اچھا طریقہ ہے۔ اس میں کسی خاص قسم کی ثناء، درود اور دعا کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ آپ کے لیے جو آسان ہو، اس کو اختیار کر سکتے ہیں۔


مزید دیکھیے: ابو جی، از سید کاشف رضا

ایک موت پر طویل خود کلامی

خوش کن موت، البرٹ کامیو کا ایک اہم ناول


دعا اپنی زبان میں بھی مانگ سکتے ہیں۔ بل کہ دعا اپنی زبان میں مانگنے میں جو دلی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ زبان غیر سے نہیں ہوتی۔ تاہم رسول اللہ ﷺ کی طرف سے منقول دعائیں اپنی جامعیت، اور کیفیت کے اعتبار سے بے مثال ہیں۔ ان کو بھی اپنا نا چاہیےا ور ان سے سیکھنا بھی چاہیے کہ اپنی زبان میں دعا کیسے کرنی چاہیے۔

والد صاحب  کی نماز جنازہ کے وقت دھوپ سخت شدید تھی اور زمین بھی تپ رہی تھی۔ کچھ لوگ حسب معمول جوتے اتار رہے تھے۔ میں نے مجمع سے عرض کیا کہ جوتے اتارنے کی ضرورت نہیں، نماز ان کے ساتھ بھی ہو جاتی ہے۔ حسب توقع چند بزرگوں نے اعتراض کر دیا اور فتوی دیا کہ جوتوں سمیت نماز نہیں ہوتی۔ حالاں کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے ہی نہیں۔ سب فقھاء اس پر متفق ہیں کہ جوتوں سمیت نماز ہو جاتی ہے۔

نماز جنازہ کے وقت جوتے اتارنے کی ریت محض عوامی غلط فہمی ہے۔ معلوم نہیں مولوی حضرات جب نماز جنازہ پڑھاتے ہیں اور اس موقع پر تقریر بھی ضرور کرتے ہیں تو وہ یہ مسئلہ لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے۔ بہرحال، جنازہ کے وقت کا موقع بحث یا اختلاف کا نہیں ہوتا، اس لیے کہہ دیا گیا کہ جو لوگ جوتے اتارنا چاہیں اتار دیں اور جو نہ اتارنا چاہیں نہ اتاریں۔ میں نے یہ سوچ کر نماز پڑھانے سے پہلے جوتے اتار دیے کہ جن کے نزدیک جوتے سمیت نماز نہیں ہوتی وہ بد مزہ ہوں گے، پیغام تو  بہرحال میں نے پہنچا دیا تھا۔

ایصال ثواب کا تصور دین نے ہمیں دیا ہے وہ مرنے والے کے وہ حسانات ہیں جن کا فیضان موت کے بعد بھی جاری رہے،  یا اس کی اولاد ہے جسے اس نے نیکی کی راہ دکھائی ہو اور اولاد کا عمل والد کے لیے بھی باعث ثواب بنتا رہتا ہے۔ قرآن مجید اور اوراد پڑھ کر ایصال ثواب کا تصور ہمارے ہاں کے لوگوں کا اپنی اختراع ہے۔

قرآن مجید کا مقصد اس کے پیغام کی ترسیل ہے، نہ کہ اس کے قیمتی الفاظ کی بے سمجھ دہرائی جس سے قرآن کی بے توقیری کا احساس ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی کو پیغام بھیجیں اور وہ اسے سمجھنے کی زحمت گوارا  کیے بغیر اسے کبھی کبھی پڑھ لیا کرے۔ یہ آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟ خدائے کائنات نے اتنے اہتمام سے قرآن مجید اس لیے ہم تک نہیں پہنچایا کہ اسے بے معنی جنتر منتر کی طرح پڑھ کر فرض کرلیں کہ اس کا کوئی ثواب مرتب ہو گیا ہوگا جسے آگے منتقل کرنا بھی ممکن ہے۔

یہ خود ساختہ ایصال ثواب کا نظام ہے۔ اس  کے باوجود میں نے اپنے عزیز و اقارب کوقرآن مجید پڑھ  پر ایصال ثواب سے منع نہیں کیا۔ والد صاحب میری پراپرٹی نہیں تھے۔ ہر ایک کا ان کے ساتھ ایک تعلق تھا۔ اب جس کو جو طریقہ مطمئن کر سکتا تھا کہ وہ ان کے لیے کچھ کر سکتا ہے تو اس کی تسلی کے لیے وہ کرے، بل کہ سیپاروں کا انتظام بھی میں نے خود کر کے دیا۔

ایسے مواقع ایسے مسائل کے لیےایجوکیٹ کرنے کے نہیں ہوتے۔ لٹھ لے کر پیچھے پڑ جانا  کا کوئی دینی حکم نہیں ہے۔ بات کو حکمت اور دانائی سے پہنچانا چاہیے۔ کوئی قائل ہو جائے تو اچھا ہے نہ ہو تو یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں کہ کفر و اسلام یا ایمان  اور نجات کا مسئلہ بنا دیا جائے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ والد صاحب کی مغفرت فرمائے، ان کی سئیات سے درگزر فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں اپنی آخرت کی فکر کی توفیق عطا فرمائے۔