سونے پر سہاگہ

سرفراز سخی

سونے پر سہاگہ

از، سرفراز سخی

وہ لوگ جو منظرِ عام پر آنے کے لیے شب و روز بے چین و مضطرب رہا کرتے تھے، اور کچھ جو اسی آس میں اپنی یاس کو رختِ سفر کی طرح باندھ کوچ کر گئے، فیس بُک کا سورج ان کی دعاؤں کے ثمر کی صورت دنیائے انٹرنیٹ پر طلوع ہوا۔

قبل از فیس بُک دو  بڑے اور ویب چیٹ انجنز ہو گزرے ہیں، جن سے چیدہ چیدہ لوگ ہی واقف ہوں گے, ترتیب کے مطابق سرِ فہرست میں اول Facepic اور دوم Orkut ہے، جس طرح فیس پک کا دُم دار ستارہ میرا مطلب ہے کہ چمک دار ستارا آرکٹ کی آمد کے باعث پھیکا پڑتے ہی انٹرنیٹی خلا میں کہیں کھو گیا، اسی طرح Facebook کے آنے کے بعد آرکٹ کا وجود ایک خلائی پتّھر (ہمارے نظام شمسی میں مریخ اور مشتری کے مدار کے درمیان چکر لگانے والے سیارچے جنہیں ‘‘asteroids” کہا جاتا ہے بعض اوقات زمین کی طرٖف آ جاتے ہیں اور زمین کی فضا سے رگڑ کھانے سے ان میں اتنی حرارت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ جل کر راکھ ہو جاتے ہیں) سا ہو گیا، اور جس کا فیس بک کی بنائی Ozone سے بچ نکلنا نا ممکن۔

چند ہی دنوں میں آرکٹی ایسٹروئِڈ فیس بک کی فضا سے گھس کھا کر شہابِ ثاقب بنا، جسے انگریزی میں فلک شناسی کی اصطلاح کے مطابق meteor اور عُرفِ عام میں ٹوٹا ہوا تارہ کہتے ہیں (جسے دیکھ کر دعا مانگی جاتی ہے، اس بات سے بے خبر کے یہ قد و قامت میں کبھی کبھار اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ اگر ہمارے گولے سے ٹکرا جائیں تو ہمارا گولا ہونے سے نہ ہونے کا سفر ایک ہی ٹکر کے ساتھ طے کر لے گا) بہ خیر انجام کو پہنچا۔

مدعا یہ کہ ایسی ویب سائٹس اور انٹرنیٹ کا استعمال اس وقت اتنا عام نہ تھا، جتنا کہ مارک زَکر برگ کی اختراع کردہ دنیا کے آنے کے بعد ہوا، جس کی کئی وجوہات ہیں۔

1- اس وقت لینڈ لائن کنیکشن سب کے پاس نہ تھا

2- کمپیوٹرز لیپ ٹاپس خاصے مہنگے تھے، اچھے اچھوں کی دسترس سے باہر

3- اگر کمپیوٹر کسی کے پاس تھا بھی تو  انٹرینٹ کی معلومات سے شناسائی نہ تھی، جس میں ویب براؤزر سے یاھو اور ایم ایس این مینجرز اور موڈیم سے لے کر اس کے ڈرائیورز اور ڈائل کنیکشن کی انسٹالیشن تک کے پھڈے، لفڑے، پنگے شامل تھے

4- پہلے پہل آپ کو پی ٹی سی ایل والوں کا اکاؤنٹ کُھلوانا پڑتا تھا اور انٹرنیٹ کے گھنٹے خریدنے پڑتے تھے، ابھی اسکریچ کارڈز وجود میں نہیں آئے تھے، اور دس  بیس روپے والے سُپر نیٹ، سائبر نیٹ کے اسکریچ کارڈز کا تو تصور بھی نہ تھا

5- ابتدائی دنوں (یہ بات سن دو ہزار سے دو ہزار تین تک کی ہے جو کہ ہمارے لیے آغاز تھا) میں انٹرنیٹ کی رفتار کچوے سے بھی سست تھی، کچھوے کی رفتار کا پھر بھی حاصل کچھ نہ کچھ تو یقینی ہوتا ہے مگر اس وقت انٹرنیٹ کی شتابی (speed) کا معاملہ ذرا ہٹ کے تھا,Yahoo ،Hotmail یا Google ۔ ان یا کسی بھی ویب سائٹس کو  ایڈرس بار میں ایک فارمولے کے تحت لکھتے، جس سے اب ہر چھوٹا بڑا واقف ہے جو کہ تین ڈبلیو کے بعد ڈاٹ وسط یعنی بیچ میں اس ویب سائٹ کا نام جو براؤز کرنی ہوتی اور اس کے اختتام پر پھر ڈاٹ کے ساتھ کام لکھا جاتا تھا، یقیناً اس طرح www.google.com  یوں لکھ کر انٹر کرنے کے پندرہ بیس منٹ بعد بھی ہم حسرتِ نا کام سے ہاتھ آنے والے کلمہِ آہ کو کہہ کر رہ جاتے، جب یہ سنہرا قول پڑھنے کو ملتا تھا کہ This page cannot be displayed اس سے اندازہ لگا لیں کہ ان دنوں رفتار کا کیا عالم تھا۔

نہ صرف یہ یعنی سن دو ہزار چار پانچ میں جب یہ سارے انواع و اقسام کے کارڈز وارد ہو چکے تھے اور نیٹ قدرے بہتر ہوئی تھی تو میں نے کوئی 47 ایم بی پر مشتمل مائیکل جیکسن کا وڈیو گانا بہ عنوان “Thriller” پورے ایک ہفتے کی مسلسل انٹرنیٹی تگ و دو سے ڈاؤن لوڈ کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، کیا ہی زمانہ تھا، پہلی بار اسے پلے کرنے کے وقت دل کی دھڑکنوں کی صورت 120 تا 160 کے ٹیمپو پر سیٹی مارے دھواں چھوڑے دھک دھک کرتے دوڑے جاتے اسٹیم انجن کی سی تھی، واہ مزہ آ گیا تھا یوں اسے سنگت کے ساتھ سننے کا، اور پھر کتنے ہی دنوں کتنی بار سنا تھا۔ ہاں مانا کہ تب انٹرنیٹ کی رفتار کم تھی مگر وقت بہت تھا۔

6- انٹرنیٹ کیفیز تھے، مگر یوزرز اتنے نہیں، پھر وہی بات کہ کسی کو علم نہ تھا تو کسی کو شوق

پھر جوں جوں سال کے عدد کی صورت بدلتی گئی زمانے کے انداز بدلنے لگے، اور انٹرنیٹ کیفیز کی شکل ہی بگڑ کر کچھ سے کچھ ہو گئی، فلاپی ڈسک سے سی ڈی کا سفر ٹیکنالوجی کو جہاں بہت آگے لے آیا وہیں اس کے منفی پہلو بہ کثرت سامنے آئے، اور پھر ساتھ ساتھ نیٹ کا رفتار پکڑنا جو کہ اچھا شگن ہونا تھا مگر افسوس کے ہمارے غلط استعمال کی وجہ سے ایک کثیر تعداد میں بد ہو کر رہ گیا، اور اسی دوران یو ایس بی اور میموری کارڈ ہمیں ملا یعنی اینٹ جتنا موبائل چھوٹا ہوا اور فلاپی غائب، اور پھر اس کی اسکرین نے رنگ اپنائے ریڈیو کے ساتھ وی جی اے کیمرا آیا، پھر میوزک پلیئر اور وڈیو پلیئر اور پھر یہ موبائل بڑے ہونا شروع ہوئے، ساؤنڈ سے لے کر گرافکس کو بہتر بنایا گیا، یوں کیمرا وی جی اے سے میگا پکسلز میں آیا اور سمبیئنز (Symbians) موبائل ونڈوز ہونے لگے, ایمز موبائل تو گویا آئے ہی نہیں تھے موبائل کنیکشن سم میں بدل گئے، اور سم ہزاروں سے کچھ سو کی ہوئی، بس اب کیا تھا ٹیکنالوجی نے دن بہ دن برق رفتاری سے ایڈوانس ہونا شروع کر دیا-

کے بیز کے بادل چھنٹے  اور یو ایس بیز, میموری کارڈز ایم بیز کے موسم سے جی بیز کی رُت کو پہنچے، اور ہارڈ ڈسکس کا طوفان جی بیز سے ٹیرا بائیٹس کو (ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب لانے والے ممالک میں سن دو ہزار نو تک ٹیرا بائیٹس کی ہارڈ ڈکس عام تھی)، موبائلز Windows سے Androids, iOS اور بٹنز  کمزور پڑ کے دانت کی صورت گر جانے سے بچانے کے لیے، ٹچ اسکرین ہونے کے ساتھ اپنی جسمات میں ایک صنفِ نازک کی مانند ہوکر جو ہاتھوں میں آئے ہیں، تو دکھاوے کا چڑھاوا چڑھانے والوں کی عید ہوگئی ہے، اور انٹرنیٹ ایک اکاؤنٹ سے ہوتا، اسکریچ کارڈز کی کھجلن سے ملتا ہوا لا تعداد پیکیجز کی صورت میں رُو نما ہو کر چھوٹی سی سم میں آ بسا، وہ بھی بھرپور رفتار کے ساتھ جس کی بدولت دنوں پر مشتمل سفر اب منٹوں میں کر لیا جاتا ہے۔

اب سیل فونز کا جنگل ہے، ایپس کا سمندر ہے اور فور جی کی دوڑ، اور ان ایپس میں سے چند قطبی تارے کی طرح ہیں، جس میں واٹس اپ، ٹوئیٹر، انسٹا، اسکائپ، اور فیس بُک ہیں، مگر فیس بُک اس دنیائے انٹرنیٹ اور گلوبل ولیج میں وہ واحد قطبی ستارا ہے جو دوسرے ستاروں کے مقابلے میں اپنے یوزرز کے استعمال کی وجہ سے دن رات پھل پھول رہا ہے، اور اسی ستارے کے باعث 6 مارچ، یکم مئی، 25 دسمبر اور دن بھی فیس بُک پر  زور و شور اور جوش و خروش سے منائے جانے لگے ہیں، کبھی کبھار تو یہ گماں گزرتا ہے کہ پاکستان آزاد بھی فیس بک پر ہی ہوا تھا۔ اور آنے والی تبدیلی کے سارے اثرات بھی فیس بُک ہی پر بہت واضح دیکھنے کو ملتے ہیں، لوگ کیمرا کی آنکھ کے سامنے آ کر خیر کے کام بھی اس لیے کرتے ہیں، کہ فیس بُک پر اسٹیٹس دینے سے اسٹیٹس بھرپور بنے گا، کیوں کہ لوگ وہی دیکھتے ہیں جو ہم انہیں دکھاتے ہیں مگر

گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ

ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ

جیسے سخن ہم سن کر پڑھ کر لکھ کر رہ جاتے ہیں۔


مزید دیکھیے: اُردو، مغلیہ دربار سے سائبر بستیوں تک

ہم اتنے فریجائل کیوں ہیں؟ از نعیم بیگ


اب جو صورتِ جدید اس فیس بُک کے سبب ہمارے رو برو ہے، وہ فیس پک اور آرکٹ سے بہت الگ ہے، اور نہ ہی وہ mirc کے مزے اور نہ ہی وہ asl کے میسج کرنے کے بعد جواب کا انتظار ہے۔ اب انٹرنیٹ کا استعمال عام ہے اور اس میں صاحبِ علم سے بے علم برتری لیے ہے۔ اس میں متشاعر شاعر کو مات دیے ہے، اس میں فن کار سے بے کار آگے ہے۔ اس میں فوٹو گرافر سے آٹو گرافر کو فضیلت حاصل ہے، اس میں شلپا ہی ملکھا ہے (یہ مختلف جنس کی فیس بکی شناخت رکھنے والے بخوبی و بہ آسانی سمجھ جائیں گے) اور اس میں ٹام کروز کی بجائے عام کروز، خام کروز اور “جام” کروز چھائے ہوئے نظر آتے ہیں (یہاں جام کا استعمال سندھی کی معنیٰ میں کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے بہت۔)

در حقیقت یہ صورت بُری نہیں ہے۔ اول تو اس کی کوئی صورت ہی نہیں یہ تو ایک پتھر ہے، جسے ہم جیسا تراشیں گے یہ اسی صورت ہمیں نظر آئے گا۔ سنگ تراش تو ہم ہیں۔ لیکن صد حیف کے لوگ ہر وہ کام جس میں اپنا ہی اپنا فائدہ ہو بڑھ چڑھ کے کرتے ہیں، اور فیس بُک ایسے لوگوں کے لیے سونے پر سہاگہ ہے.