ابو جی ، از سید کاشف رضا

ابو جی ، از سید کاشف رضا

پندرہ نومبر 1948ء کو انگلستان میں جشن کا سماں تھا۔ ایک روز پہلے چودہ نومبر کو شہزادہ چارلس پیدا ہوا تھا۔ پندرہ نومبر کو ہی منڈی بہاؤالدین کے ایک کانسٹیبل کے گھر ایک اور بچہ پیدا ہوا۔ یہ میرے والد تھے جن کا نام سید زوار حسین رکھا گیا۔

وہ پرنس چارلس سے زیادہ خوش مزاج اور رومانی تھے لیکن ایک غریب گھرانے میں پیدائش نے ان کی قسمت پرنس چارلس سے یک سر مختلف کر دی تھی۔ کانسٹیبل رمضان علی شاہ کو رشوت کا ایک دھیلا بھی گوارا نہ تھا۔

ابو میٹرک کر کے بس کنڈکٹر لگ گئے اور پھر کمپاؤنڈر بنے۔ بچپن میں ہم سب کو ٹیکے وہی لگاتے۔ اکیس سال کی عمر میں بھاگ کر کوئٹہ چلے گئے۔ وہاں ایئر فورس کے ایک افسر کو ٹیکے لگاتے تھے جس نے انھیں ایئر فورس میں ائر مین بھرتی کرا دیا۔

دور کی رشتہ دار ایک سنی لڑکی کے لیے انھوں نے رشتہ بھجوایا جو قبول ہوا۔ پہلے سنی نکاح ہوا پھر شیعہ نکاح۔ امی تمام عمر سنی نماز پڑھتی رہیں۔ کسی نے دھیان ہی نہ دیا کہ ان کا فرقہ ہی بدلنے کی کوشش کرتے۔

ابو چھیالیس سال کی عمر میں ریٹائر ہوئے تو مزید کوئی نوکری نہ ملی۔ ریٹائر منٹ کے وقت وہ اتنے جوان تھے کہ ایک صاحب نے مجھے ان کا چھوٹا بھائی سمجھا۔ محمد رفیع انھیں پسند تھے اور لتا میری امی کو۔ گھر میں ان دونوں کے کیسیٹ بجا کرتے۔

امی نے اکیاون برس عمر پائی اور ابو انہتر برس جی کر پچیس جنوری دو ہزار اٹھارہ کو ہمیں چھوڑ گئے۔ رنج یہ رہ گیا کہ ابو جیسی زندگی جی سکتے تھے ویسی نہ جی پائے۔

About سیّد کاشف رضا 26 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔