حکومتی اور عوامی دانش وروں کی کرونا وائرس دانش وری

ایک روزن لکھاری
ایچ بی بلوچ، صاحب نگارش

حکومتی اور عوامی دانش وروں کی کرونا وائرس دانش وری 

جب صحافی نے استفسار کیا یعنی جو کرونا وائرس کے متعلق اس بیس نکاتی معاہدے کے خلاف ورزی کرے گا وہ جرم کا مرتکب نہیں، بَل کہ گناہ کا مرتکب ہو گا تو اس کو سزا اللہ پاک دیں گے، یا ریاست؟ تو صدر صاحب نے جواب دیا کہ ظاہر ہے اس کو اللہ پاک ہی دیکھیں گے۔

از، ایچ بی بلوچ

جب کبھی نئی حقیقت رو نُما ہوتی ہے تو اس سے وابستہ ہم ایک نئی myths بھی بنا لیتے ہیں۔ یہ ہمارے پاگل پن کی ابتدا ہوتی ہے جس کو اشرافیہ انتہا تک لے جاتی ہے؛ اور مارکیٹیں دھندہوڑی قسم کے لوگوں کے کام چور منصوبوں سے بھر جاتی ہیں۔

موجودہ عالمی وبا کرونا کے پیشِ نظر عالم گیریت کا دھڑام، جس نے سرمایہ دار کی پٹاری سے جنم لیا تھا، معروف تعلیمی اداروں سے پڑھے لکھے لوگوں کی سوچوں مذہبی ہٹھ دھرمی، ریاستی دفاعی پالیسیوں، تاجر طبقے کی دھمکیوں اور سیاسی رہ نماؤں کی بوکھلاہٹ سے ظاہر ہو گئی ہے۔

کرونا وائرس کے حوالے سے کسی فرد کے پاس جو بھی انفرادی دلائل اور نتائج ہوں حکومتِ پاکستان کے پاس سارے دلائل معاشی پہیے کو فعال رکھنے کی ایک کوشش ہیں: ٹُونے ٹوٹکوں جیسے مشوروں سے شروع ہونے والی آگاہی مہم سے سیاسی رہ نماؤں کے مُضحکہ خیز بیانات تک… ۔وفاقی وزیر اسد عمر کے مطابق وائرس زدگی کی اموات سے زیادہ تو لوگ ٹریفک حادثات میں مر جاتے ہیں۔


مزید دیکھیے:

تعلیم، سماج، ادب و تنقید کرونا وبا سے بچ نکلنے کے بعد   از، فرحت اللہ کشیب

کرونا وائرس اور پاکستان: اس وقت تو دوریاں ، social distancing ہی حل ہے  تجزیہ نگار، محمد سالار خان، فرح لطیف

جارحیت، دروغ، بناوٹیں اور وبائیں   از، نصیر احمد


اجتماعی حوالے سے یہ ایک انتہائی مہلک وبا ہے؛ اور اس کے مہلک نقصان جن کے اندازے کا اب تک کوئی تعین نہیں کیا جا سکا، اس میں زندگی کے معمولات کا جانی نقصان شامل کر کے حلال کر دینا عقل کے ساتھ زیادتی کے سوا اور کچھ نہیں۔

اس سلسلۂِ طویل کی ایک مضحکہ خیز بات تب سامنے آئی جب مساجد میں عبادات کے حوالے سے عُلَمائے کرام کے ساتھ ہونے والے بیس نکاتی معاہدہ پر صدر صاحب نے ایک انٹرویو کے دوران یہ فرما دیا کہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والا گناہ گار ہو گا۔

جب صحافی نے استفسار کیا یعنی جو اس معاہدے کے خلاف ورزی کرے گا وہ جرم کا مرتکب نہیں، بَل کہ گناہ کا مرتکب ہو گا تو اس کو سزا اللہ پاک دیں گے، یا ریاست؟ تو صدر صاحب نے جواب دیا کہ ظاہر ہے اس کو اللہ پاک ہی دیکھیں گے۔

یاد رہے کہ اسی طرح ٹرمپ صاحب نے بھی منصبی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا: کیا کرونا زدہ لوگوں کو بیرونی طور پر استعمال ہونے والی جراثیم کش ادویات داخلی طور پر استعمال نہیں ہو سکتیں۔

اب جب کہ نو سے پندرہ مئی کے بعد مختلف کاروباری مراکز اور مختلف ٹرین سروسز کو محدود طریقے سے فعال کرنے، صنعتی شعبہ جات کھولنے کی پیش رفت سامنے آ رہی ہے؛ یہ وہی بھوک سے مر جانے والے عوام ہیں جن کی شاپنگ کے لیے تجارتی مراکز کھولے جا رہے ہیں؛ اور جن کی سفری سہولتوں کے لیے ٹرینوں کو چلایا جا رہا ہے۔

کسی وقت یہ بھی خیال آتا ہے کہ جو حکومت لاک ڈاؤن پر عمل در آمد نہ کروا سکی، وہ حکومت تجارتی مراکز، پبلک پارکس، عبادت کے اجتماعات  پر ایس او پیز یعنی کہ حفاظتی شرائط پر عمل کروائے گی؟

وزیرِ اعظم کا حالیہ بیان ہے کہ حالات خراب ہونے پر دوبارہ سب کچھ بند بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ حکومت کو حالات کی خرابی کا ڈر نہ پہلے تھا نہ اب ہے؛ ڈرنے کے لیے بھی نیت کی صفائی کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔

عام بندہ ویسے بھی کسی نہ کسی طریقے سے بات مان لیتا ہے، مگر بہت سے اچھے عہدوں پر فائز حضرات اور ایسا کاروباری طبقہ جو مذہبی جماعت بندی اور ہمارے ساتھ کسی رشتے میں ملوُّث ہوتا ہے، ایسی صورتِ حال میں لکیر کا فقیر قسم کا دانش ور بن جاتا ہے۔ اور ان کے سماجی رتبے کو عزت دیتے ہوئے ان کی انا کے سامنے ہر با شعور بندے کو مصلحت آمیز احتراماً ہارنا پڑ جاتا ہے؛ یا قبل از وقت بات کرتے ہوئے کچھ سائنسی لچک رکھتا ہے، کیوں کہ آنے والے دنوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

مگر یہ عقل کل کی فتویٰ داغ دیں گے، اور جب غلط ثابت ہو گئے تو بھی مانیں گے نہیں؛ کیوں کہ جہالت ہمیشہ انا کے ساتھ حملہ آور ہوتی ہے۔

لیکن یہ سچ ہے تقریباً اکثریتی آبادی مسلسل لاک ڈاؤن مخالف تشہیر، وبا پر غیر سنجیدگی پر، اور کچھ حکومتی افعال کو دیکھتے ہوئے اس ضد پر اَڑی ہوئی ہے کہ کرونا ورونہ کچھ نہیں؛ یہ امداد مانگنے کے لیے ایک افواہ پھیلائی گئی ہے۔

جو اس وائرس سے ہلاک ہو جاتے ہیں، ان کے لیے بھی لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ وہ وائرس سے بیمار نہیں تھا؛ حکومت ہر مرنے والے کو کرونا کا مریض ظاہر کر رہی ہے کیوں کہ اسے امداد جو چاہیے۔

مجھے ذاتی تجربہ تب ہوا جب دو دن قبل علاقے کے مشہور ڈاکٹر کرونا وائرس سے موت سے دوچار ہوئے۔ بہت تکلیف سے کہنا پڑتا ہے کہ لوگوں سے یہ بھی سنا:

 وہ کرونا کی وجہ سے ہلاک نہیں ہوا؛ وہ ویسے بھی ختم تھا۔ ستر سال کا تھا، اوپر سے شوگر کا مریض۔

یہ ایک انسانی جان تھی۔ چلو مان لیا۔ ایک منٹ کے لیے ان کی پیشہ وارانہ خدمات، اور وہ ایک انسان تھے، اس بات کو بھول جاتے ہیں؛ مگر اس کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم موت کی اہمیت کا حساب عمر سے صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ وفات پانے والا کرونا وائرس سے متاثر تھا؟

مگر اس بات بھی کو بھولنا نہیں چاہیے کہ جب وہ متاثر ہوا تو اس نے ممکنہ طور پر دوسرے افراد کو بھی متاثر کیا ہوگا۔ کچی آبادی میں علاقائی طور پہلی موت سے ثابت ہے کہ حتمی طور پر کیس موجود ہیں جو وقت کے ساتھ ظاہر ہوں گے۔

آنے والے دو ہفتوں کے اندر اندازہ ہے کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق کیس پچاس ہزار سے بہت اوپر چلے جائیں گے۔ اور خدا نخواستہ اموات بھی موجودہ شمار سے  چار گنا بڑھ جائیں گی۔

 اور میرے مُنھ میں خاک!

آنے والے دو مہینوں میں وائرس ہسپتالوں، ڈاکٹروں اور حفاظتی سامان کے حوالے سے بہت سے سبق سکھانے والا ہے اور خدشہ ہے کہ بہت سے حکومتی اور عوامی دانش ور بے روزگار ہو جائیں گے!