رشی کپور کی سوانح عمری کُھلّم کُھلاّ کی یادیں

Rishi Kapoor Autobiography رشی کپور
Rishi Kapoor via The Hindu.com

رشی کپور کی سوانح عمری کُھلّم کُھلاّ کی یادیں

رشی کپور نے اپنی کتاب میں امتیابھ بچن پر بھی تنقید کی ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امتیابھ نے اپنے اینگری ینگ مین امیج کے ذریعے ستّر اور اسّی کی دھائی میں دھرمیندر، جتندر، ونود کھنہ، شترو گھن سنہا اور ششی کپور کو بہت tough time دیا؛ اور امتیابھ بچن کی طوفانی کام یابیوں اور بھر پُور public craze نے بَہ طور رومانوی ہیرو مجھے بھی اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ہلا کر رکھ دیا تھا۔

از، حسین جاوید افروز

ہندوستان کی فلمی صنعت ہر دور میں با کمال ادا کاروں کا مسکن رہی ہے۔ جن کی بے مثال ادا کاری نے ہر دور میں ایک عالَم کو اپنے حصار میں لیے رکھا ہے۔ ایسے میں کپور خاندان کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے جو کہ گزشتہ 87 برس سے اپنی چوتھی نسل کے ذریعے فلم انڈسڑی کی خدمت انجام دے رہا ہے۔

پشاور کے مردم خیز خطے سے تعلق رکھنے والے عظیم پرتھوی راج، ان کے ہونہار بیٹوں میں جن میں ہندی سِنِیما کے shie man راج کپور، شمی کپور، ششی کپور نے اپنی منفرد اور لا زوال فن کارانہ صلاحتیوں کے ذریعے فلم بینوں کی تشنگی کو بھر پُور انداز میں سیراب کیا۔ لیکن اس وقت ہم راج کپور کے دوسرے بیٹے اور اپنے دور کے بے مثال رومانوی ہیرو رشی کپور کی سوانِح عمری کھلم کھلا پر بات کریں گے جس میں رشی کپور نے اپنی فلمی اور ذاتی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی۔

حال ہی میں رشی کپور کینسر کے ہاتھوں زندگی کی جنگ ہار گئے۔ بَہ طور رومانوی ہیرو انہوں نے طویل اننگز کھیلی اور قابلِ تعریف بات یہ رہی ہے کہ وہ اپنی سوانِح عمری کی شکل میں مداحوں کے لیے ایک انمول خزانہ چھوڑ گئے ہیں۔

نام سے ہی ظاہر ہے کہ رشی کپور نے اپنی اس کتاب میں سب کچھ کُھلم کُھلے انداز سے بیان کیا ہے اور اپنے پرستاروں کے سامنے قطعی بے تکلفی سے خود کو پیش کیا ہے۔

رشی کپور نے بَہ طور رومانوی ہیرو پچیس سال تک نہایت ہی کام یابی سے شائقین کو محظُوظ کرایا۔ فلم میرا نام جوکر سے چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر اپنا فلمی سفر شروع کرنے والے رشی کپور نے فلم بوبی سے ہی ثابت کر دیا کہ وہ کپور خاندان کی عظیم فلمی وراثت کو آگے لے کر چل سکتے ہیں۔

رشی کپور کے مطابق:

شروع سے ہی میں نے اپنے گھر میں فلمی ماحول دیکھا۔ میرے دادا پرتھوی راج کپور پشاور سے کلکتہ منتقل ہو گئے اور تِھیٹر کو بنیاد بنا کر ہندوستان کے چوٹی کے فلمی ادا کار بنے۔

میرے والد راج کپور میرے باپ ہی نہیں، بل کہ میرے گرو بھی تھے۔ ایک بار انھوں نے مجھے ترغیب دی کہ تم خود اپنی امیج بناؤ۔ امیج خود بنائی جاتی ہے کسی سے سیکھی نہیں جاتی۔ بعد ازاں والد کی ڈائریکٹ کردہ فلم پریم روگ نے بھی مجھے بَہ طور ادا کار مزید پالش کیا۔

مجھے شروع سے ہی ادا کاری سے رغبت رہی اور یہی وجہ ہے کہ میں پندرہ برس کی عمر میں ہی آٹو گراف دینے کی مشق شروع کر دی تھی۔

راج کپور کے نرگس اور وجنتی مالا سے افیئرز کے حوالے سے رشی کپور کہتے ہیں کہ میرے والد اور نرگس کے درمیان ایک تعلق تھا جو کہ ساتھ کام کرتے کرتے پیدا ہونا فطری امر تھا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو چاہا؛ اور سچی بات تو یہ ہے کہ نرگس ہمارے ادارے آر کے بینرز کا نہایت اہم حصہ رہیں۔ البتہ وجنتی مالا کے ساتھ میرے والد کے تعلقات سے نالاں ہو کر میری والدہ کرشنا ہمیں لے کر دو ماہ تک بمبئی کے چتراکوٹ کے فلیٹ میں مقیم رہیں۔ یہ بہت نازک وقت تھا۔ آخرِ کار دونوں دو بارہ یک جا ہو گئے جب میرے والد نے وجنتی مالا سے تعلق کو خیر آباد کہا۔

مجھے وجنتی مالا کی اس بات پر بہت غصہ آیا جب انھوں نے بیان دیا کہ راج کپور نے سستی شہرت کی خاطر مجھ سے تعلق جوڑا۔ کاش یہ فضول بیان وجنتی مالا میرے والد کی زندگی میں دینے کی جرات کرتیں۔

رشی کپور اپنی کتاب میں دلیری سے اعتراف کرتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ میری نیتو سنگھ سے شادی محبت کی تھی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ نیتو سے پہلے میری پہلی محبت ایک پارسی لڑکی یاسمین مہتا تھی۔ میں اسے دیوانوں کی طرح چاہتا تھا مگر بابی فلم کی ریلیز کے بعد فلمی رسالوں میں میرے اور ڈمپل کپاڈیہ کے درمیان مَن گھڑت معاشقوں کی خبروں سے تنگ آ کر وہ مجھے چھوڑ گئیں۔

نیتو سنگھ میری کو-سٹار ہونے ساتھ میرے گہری دوست بھی تھیں۔ انھیں میرے سارے راز پتا ہوتے تھے۔ لیکن ہم دھیرے دھیرے ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہو گئے اور جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ کر لیا۔

ہم نے چودہ فلموں میں ایک ساتھ کام کیا ہے۔ میں نے نیتو کو فلموں میں کام سے کبھی نہیں روکا، مگر شاید اس بات کے لیے تیار بھی نہیں تھا کہ شادی کے بعد بھی وہ ایکٹنگ جاری رکھیں۔


مزید ملاحظہ کیجیے:

ششی کپور: ایک راستہ ہے زندگی جو تھم گئے تو کچھ نہیں  از، حسین جاوید افروز

گلزار صاحب کی باتیں سنیے اور سنتے جائیے   انٹرویو از، زمرد مغل


مزے کی بات یہ ہے کہ فلم کبھی کبھی میں میں نے یش چوپڑہ کو کہہ دیا تھا کہ فلم میں نیتو کا کردار میرے کردار سے مستحکم ہے، لہٰذا میں یہ فلم نہیں کر رہا۔ یش جی بہت حیران ہوئے مگر بعد ازاں اپنے چچا ششی کپور کے کہنے پر میں فلم کا حصہ بن گیا۔ بَہ قول نیتو سنگھ رشی کپور بہت ہی قابض فطرت انسان ہیں حتیٰ کہ مجھے اپنے بچوں کے ساتھ بھی دیکھ کر جلتے ہیں کہ آپ مجھے وقت نہیں دے پاتیں۔

شادی کے اتنے سال گزرنے کے بعد کئی بار مجھے خیال آتا ہے کہ میں اتنے ضدی، اور بات بات میں کیڑے نکالنے والے شخص کے ساتھ کیسے چل پاؤں گی؟ لیکن یہ پھر رشی کی اپنی فیملی کے ساتھ گہری محبت ہی ہے کہ ہم ساتھ ساتھ اتنا سفر طے کر چکے ہیں۔

رشی کپور نے اپنی کتاب میں امتیابھ بچن پر بھی تنقید کی ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امتیابھ نے اپنے اینگری ینگ مین امیج کے ذریعے ستّر اور اسّی کی دھائی میں دھرمیندر، جتندر، ونود کھنہ، شترو گھن سنہا اور ششی کپور کو بہت tough time دیا؛ اور امتیابھ بچن کی طوفانی کام یابیوں اور بھر پُور public craze نے بَہ طور رومانوی ہیرو مجھے بھی اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ہلا کر رکھ دیا تھا۔

لیکن مجھے کہنے دیں کہ امتیابھ نے اپنے معاون ادا کاروں، رائٹرز اور ہدایت کاروں کو اس طرح سے نہیں سراہا کہ جتنا ان کا حق بنتا تھا۔ اسی لیے میں فلم کبھی کبھی میں امتیابھ کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے بہت ہچکچاہٹ کا شکار تھا کہ فلم میں سارا کریڈٹ تو بچن صاحب لے جائیں گے۔

ٹھیک ہے ہم امتیابھ کے سامنے جدوجہد کر رہے تھے لیکن ہم سب بھی کچھ کم بہتر ادا کار نہیں تھے۔ رشی کپور اپنی ایک حرکت پر نادم بھی دکھائی دیتے ہیں جب وہ اعتراف کرتے ہیں کہ کیسے انھوں نے 1973 میں فلم بوبی کے کے لیے بہترین ادا کار کا ایوارڈ چالیس ہزار کی رقم دے کر خریدا اور یوں امتیابھ کی فلم زنجیر سے بہترین ادا کار کا ایوارڈ ملنے کی امیدوں کو چکنا چُور کر دیا۔ تاہم امر، اکبر، انتھونی، نصیب اور قلی جیسی فلموں میں ساتھ کام کر کے میرے اور امتیابھ کے درمیان دوستی کا گہرا رشتہ بن گیا۔

راجیش کھنہ کے ساتھ بھی رشی کے تعلقات خراب رہے جب راج کپور کی فلم کے لیے ستم شیوم سندرم کے لیے انھوں نے لابنگ کر کے ہیرو کا کردار اپنے چچا ششی کپور کو دلادیا اور کھنہ کو فلم سے آؤٹ کر دیا۔ اور کئی سالوں بعد رشی نے راجیش کھنہ سے اس واقعہ کے حوالے سے معافی بھی مانگی۔

فلم قرض کے بعد رشی کی کئی فلمیں نا کام رہیں۔ یہ وہ دور تھا جب رشی شدید ڈپریشن کا شکار ہو گئے اور اپنی بیوی نیتو سنگھ کو کوسنا شروع ہو گئے کہ تم سے شادی کرنے کی پاداش میرے رومانوی امیج کو دھچکا پہنچا ہے۔ آج رشی اعتراف کرتے ہیں کہ مجھے اپنی نا کامی کا ملبہ اپنی بیوی پر نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔

یہاں رشی یہ دل چسپ بات بھی بتاتے ہیں ہیں کہ جب فلم ساگر میں ڈمپل کے ساتھ بارہ برس بعد کام کرنے کے حوالے سے نیتو شدید پریشان ہو گئیں اور رشی کو کہنے لگیں کہ مجھے ڈر ہے آپ ڈمپل کے لیے مجھے چھوڑ نہ دو، اور مجھے انھیں دلاسا دینا پڑا کہ میں اور ڈمپل دونوں اب صاحبِ اولاد ہیں آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

اپنے بیٹے رنبیر کپور کے حوالے سے رشی کپور نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کو وہ وقت نہیں دے سکا جو اسے مجھ سے ملنا چاہیے تھا۔ رنبیر اور میرے درمیان ہمیشہ سے ایک دیوار رہی ہے۔ میں ایسا باپ نہیں بن سکا جو کہ اپنی اولاد سے بے تکلفی روا رکھتا ہو؛ لیکن آج میرا بیٹا ایک کام یاب ادا کار بن چکا ہے اور میں نے تمام ڈائریکٹرز کو کہہ دیا ہے کہ میں رنبیر کا سیکرٹری نہیں ہوں، وہ فلمیں سائن کرنے میں آزاد ہیں۔ لہٰذا میں اپنے بیٹے کو کسی کی فلم میں کام کرنے پر مجبور ہر گز نہیں کروں گا۔

رشی کپور کے مطابق ان کے لیے سب سے زیادہ فخریہ لمحہ وہ تھا جب ان کو میرا نام جوکر کے لیے نیشنل ایوارڈ ملا اور پرتھوی راج نے مجھے گلے لگا کر کہا کہ آج راج کپور نے میرا قرض اتار دیا ہے۔

رشی کپور آج کے ادا کاروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ صرف muscles بنانے سے کوئی سٹار نہیں بن جاتا ادا کاری کے جراثیم بھی موجود ہونے چاہیے۔ امتیابھ بچن کے muscles نہیں تھے لیکن ان جیسا بڑا ایکشن ہیرو بھی آج تک نہیں آ سکا۔

زمانے کو دکھانا ہے، لیلیٰ مجنوں، چاندنی، قرض، دنیا، ایک چادر میلی سی، یہ وعدہ رہا اور دامنی جیسی رومانوی فلمیں دینے والے رشی کپور کے مطابق وہ کیریکٹر رول کر کے بہت ہی لطف اندوز ہوئے۔ فلم اگنی پتھ اور ڈی ڈے کے منفی کردار، دو دُونی چار، پٹیالہ ہاؤس اور کپور اینڈ سنز میں 90 سالہ بوڑھے کا کردار میں انھوں نے بھر پُور داد سمیٹی۔

اُن کے بَہ قول میں پچیس سال مسلسل رومانوی ہیرو کا رول کر کر کے تھک چکا تھا اور 23 مختلف ہیروئنوں کے ساتھ وادیوں میں گانا گانے کی بَہ جائے ادا کاری میں مختلف تجربات چاہتا تھا جس کا اب مجھے بھر پُور موقع اور لطف ملا۔ ہاں مجھے یہ کریڈٹ ضرور دیں کہ فلم بوبی کے ذریعے پہلی بار ایک نو جوان لڑکے اور لڑکی رومانس سکرین پر دکھایا گیا جس میں بیس سالہ لڑکا سولہ کی لڑکی کو بھگا کر لے جاتا ہے۔ اس فلم نے ہندی سِنِیما میں رومانس کی سَمت ہی بدل دی۔ اب میرا بس چلے تو میں گرمیت سنگھ بابا رام رحیم کا کردار نبھاؤں۔

اپنے بے باک ٹویٹس کے حوالے سے رشی کپور کا کہنا ہے کہ مجھے ٹوئٹر کی جانب انوشکا شرما اور ابھیشک بچن نے راغب کیا۔ لیکن میں اس فورم سے اپنے دل کی بات کہہ دیتا ہوں چاہے کسی کو اچھی لگے یا بری۔ میں مُنھ پھٹ انسان ہوں مجھ سے ڈپلومیسی نہیں ہوتی۔ مجھے سیاست میں جانے کا کوئی شوق نہیں۔ میں اپنے دائرے میں خوش ہوں۔ مجھے امید ہے کہ مودی جی بھارت کو بدل سکتے ہیں لیکن ان کو یہ کر دکھانا ہو گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ راہول گاندھی نے اب تک کوئی ایسا کام کیا ہے کہ میں ان کے بارے میں ٹوئٹ کروں۔ میرے خیال میں بھارت میں ہر جگہ ہسپتال، روڈ کا نام اب نہرو خاندان یا گاندھی جی پر نہیں رکھنا چاہیے۔ کیا ہندوستان میں اور کوئی بڑا آدمی پیدا نہیں ہوا ؟ صرف دلی میں 64 مقامات نہرو خاندان اور گاندھی جی سے منسوب ہیں۔

رشی کپور پاکستان کے ساتھ گرم جوش تعلقات کے پُر زور حامی رہے ہیں۔ رشی کپور کہتے ہیں کہ مجھے ہمیشہ پاکستانیوں سے بہت احترام اور پیار ملا۔ میں نے حنا فلم کے سلسلے میں لاہور اور اسلام آباد کے دورے کیے اور پہلی بار مرغ چھولے نامی ڈش کا نام سنا۔ دونوں ممالک کو اب تقسیمِ ہند کی تلخیوں کو فراموش کر کے دوستی کے سفر پر گام زن ہو جانا چاہیے۔ میں سیاسی مسائل نہیں جانتا لیکن جب دیوارِ برلن گر سکتی ہے، جب سویت یونین بکھر سکتا ہے اور جب جنوبی افریقہ سے نسلی امتیاز مٹ سکتا ہے تو پاکستان اور بھارت مل کر دوستی کا نیا باب کیوں نہیں تحریر کر سکتے؟

رشی کپور نے اپنی سوانِح عمری کھلم کھلا میں نہایت ہی سچائی سے اپنی زندگی کا احاطہ کیا اور بولی وڈ خصوصاً کپور خاندان کے مداحوں کے لیے یہ کتاب کسی طور بھی سوغات سے کم نہیں ہے۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔