کرونا وبا اور تُف ہو ہماری golden means کی سُولی پر

Yasser Chattha
یاسر چٹھہ

کرونا وبا اور تُف ہو ہماری golden means کی سُولی پر

از، یاسر چٹھہ 

کرونا مذہبی جذبات کا مسئلہ نہیں، زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ (یہ کیا یاوہ گوئی کر رہا ہوں… ہاں کر رہا ہوں… اور کیا کروں… ارد گرد سمجھ داروں کے حصار میں جو ہوں…)

اس لیے جذبات کے ساتھ فرض، سنت، مستحب اور ثقافتی روایت پر دماغ لڑانے کی کاہے کی ضرورت ہے۔

پتا نہیں کیسی نسلیں ہیں جو جلالپوری، اور ان کے انگریزی میڈیم ورژن، یوول نوحا حراری کے اینتھروپالوجی کے آسان ترجموں اور مضامین کو فلسفہ بھی مانتے ہیں، اور اپنے کسی مخالف کے خلاف شہادتی مواد بھی قرار دیتے ہیں، لیکن کرتے وہی ہیں جو زندگی سے ہٹ کر ہے۔ (یہ کس امید اور آس پر پر بات کرتا ہوں؟)

اب تو اُن اہالیانِ الحاد کا دعویٰ مضبوط تر ہوتا جاتا ہے کہ صرف وہی زندگی افروز پیام رکھتے ہیں، ورنہ باقی سب مرنے کے ترانے موزوں کرنے میں جُتے ہیں، موت سے ہم آغوش ہونے کے مشتاق بنے بیٹھے ہیں… زندگی گئی بھاڑ میں۔

لیکن (کم از اپنے شک پر) کہوں گا کہ ہمارے سامنے کی گلی میں، جن دنوں مسجدیں بند تھیں، تو اس مسجد کی بغل میں کارنر والے بڑے پلاٹ والے سفید چمک دار گھر میں شام کو کافی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ابھی رمضان شروع نہیں ہوا تھا، افطاری کے لیے شاید اکٹھے نہیں ہوئے ہوں گے۔ جانے کس لیے اکٹھے ہوئے تھے، اور جانے کس لیے اکٹھے ہوتے ہیں؟

تو انسان اگر روحانی قربان گاہ کا متولِّی ہے اور اسی کی بھیڑ بکری ہے تو سماجی طور پر حیوان بھی تو ہے، بھلے وہ مذہبی نا ہو۔

ہیں تو یہ سب، ہم سب، وہ سب انسان ہی ناں!

(اب ظاہر ہے انسان کی کوئی نئی تعریف وضع کرنے کا ہم ایسے لا انسانوں کو کاہے کا حق… جو جانے کیا ہیں، کچھ اور ہی ہیں، اگر چِہ کہتے اپنے آپ کو وہ سب بھی انسان ہی ہیں۔)


مزید دیکھیے:

کرونا وائرس اور پاکستان: اس وقت تو دوریاں ، social distancing ہی حل ہے تجزیہ نگار، محمد سالار خان، فرح لطیف


چلیے پھر پڑھیے جمعہ ادا کیجیے، تراویح کا اجر کمائیے، منائیے یومِ علیؑ، اور عید کی نماز بھی تو کافی ضروری ہے۔ اور ہاں پارٹی وارٹءی بھی کیا کیجیے کیا پتا کرونا کے بعد کی دنیا ہے بھی یا نہیں اور جو دَم غافل سو دَم سماجی حیوانیت کا نہیں ہو گا، بَل کہ انسانی انسانیت کا ہو گا۔

ہم ایسے جو نہ تو تین میں ہیں نہ ہی تیرہ میں،

آدھے سے بھی کم  تیتر آدھے سے بھی تھوڑے بٹیر،

نہ مؤمن وچ مسِیتاں نہ وچ کفر دیا رِیتاں…

نہ مَیں جَٹ نہ مَیں کَمّی …

ہم زندگی میں جیتے جی مُردنی کو جھیلنے کے با مشقت سزا یافت…

 ہم آپ سمجھ داروں کی سمجھ،

خوش عقیدگی، روشن دماغی، رجوع الالٰہیَّت کو بِٹّر بِٹّر دیکھنے والے،

اجڑے ذہنی گھونسلے کے وہ پرندے،

جن کے پَر حالات نے گیلے کر دیے ہوں

 اور آس پاس پَتّے بھی گرتے جاتے ہوں۔

بر طرف کیجیے ہم ایسوں کی ذہنی خلجانیاں اور واہیاتیاں

جنھیں ہم اپنے زُعم میں واہ حیاتیاں سمجھنے کی نرگسیت میں ہیں۔

 (تُف ہو، لعنت ہو، عذابِ الیم ہو، ہم ایسوں پر، ہم ایسے golden means کی سُولی پر جھولنے والوں کی سوچ پر…)

باقی جس اللہ نے پیدا کیا، وہ بچا بھی لیں گے۔ وہ جسے رکھے، اُسے کون چکھے۔ (عقل مَت شیطانی کام ہوتے ہیں، ان سے بچنا چاہیے۔)

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔