کرونا وائرس اور مستقبل کی سماجی و معاشی ماحولیات

Ashraf Javed Malik اشرف جاوید ملک

کرونا وائرس اور مستقبل کی سماجی و معاشی ماحولیات

از، اشرف جاوید ملک

جی کسی حد تک ضرور ایسا ہونے کو ہے۔ ہم میں سے بہت سے صاحبانِ عقل نےگزشتہ ایک ماہ سی جاری لاک ڈاؤن سے یہی سیکھا ہو گا کہ وہ اس زندہ جہان میں اپنی روح و اجسام کے ساتھ ایک عارضی عالمِ برزخ میں ہیں، جہاں ان کی زندگی کو عارضی طور پر تج دیا گیا ہے۔ یہ ایک موقع ہے اپنی زندگی کا بَہ غور جائزہ لینے کا۔ اپنی پچھلی زندگی کا از سرِ نو تجزیہ کرنے اور سابقہ تحربات سے سیکھ کر نئے اور قدرے مَثبت تجربات کرنے کا کہ انہوں نے کیسی زندگی بسر کی، اور اب اگر وہ دو بارہ اس کائنات کے وسیع و عریض نظام کا حصہ بننے جا رہے ہیں تو انہیں نئی زندگی کو کس طرح سے گزارنا ہو گا۔

یہ دور عبوری دور تھا۔ اعادہ کا دور تھا۔ ایک عارضی عالمِ برزخ کہ جس سے صرف صاحبانِ شعور سبق سیکھتے ہیں۔ صاحبانِ دانش سیکھیں گے، سائنس دان سیکھیں گے، صاحبانِ علوم و فنون سیکھیں گے۔ معیشت دان، مزدور طبقہ، ملازمت پیشہ افراد، کاروباری اور دیہاڑی دار لوگ سب اس عمل سے سیکھیں گے۔ اپنے آپ کو دو بارہ آنے والے وقت کے چیلنجز کے لیے تیار کر لیں گے۔ مگر تشویش رہے گی ان لوگوں کے لیے کہ جو بڑے سرمایہ دار و سرمایہ کار ہیں۔ صنعت کار ہیں، حکم ران ہیں، بڑے سیاست دان ہیں اور منصوبہ ساز ہیں۔ ایسے لوگ منافع خور ہوتے ہیں، شخصی اور مالی منافع حاصل کرنے کی تگ و دو کرنا اور اوپر کی صف میں کھڑے ہوئے بہ غیر ان کے پھیپھڑے درست طور پر آکسیجن حاصل نہیں کر پاتے۔

اور یہ جائز و نا جائز سے ہٹ کر صرف کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں سیاہ دَھن کو سفید کرنا ان کی مجبوری ہوا کرتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وباء کے دنوں کے بعد سیاست دان حکم ران اور سرمایہ دار طبقہ جائز اور حلال کمانے کو ہی اپنا فریضہ اور فخر سمجھے۔ سچائی، راست بازی اور انسان دوستی کو اپنا منشور قرار دے اور نچلے طبقے کے کم زور افراد کی چھتری بنے سایہ کناں رہے تو حالات تیز تر ترقی کی طرف جا سکتے ہیں۔ معیشت sustainability پر توجہ مرکوز کرنے کی کسوٹی پر اپنی منصوبہ سازی کرتے ہوئے جب حال پر توجہ دے گی تو مستقبل خود بَہ خود ہی سدھر جائے گا۔

 1865 ء میں ولیم جونز نے Coal Question کے نام سے ایک کتاب تحریر کی تھی جس کا text  یہ تھا کہ صنعتی اور سرمایہ دارانہ نظام مشینی سوچ کا حامل ہے۔ یہ نظام پروڈکشن پر زور دیتا ہے۔ اور پروڈکشن کا کام منافع کی غرض کے تحت تیز ہوتا ہے تو نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ اشیاء نہ بھی خریدیں تو پروڈکشن فریم ورک کے تحت ان کی طلب کو مصنوعی طریقے سے پیدا کیا جاتا ہے۔


متعلقہ تحاریر:

کرونا سپیشل: سائنسی سماج و سائنس دان، سازش کے نظریے اور دنیا جہاں کے لاڈلے  از، نصیر احمد 

جب ماں غضب ناک ہوتی ہے  تخلیقی نان فکشن از، محمد عاطف علیم


میں اس گفتگو میں اضافہ کرتے ہوئے یہ کہوں گا کہ موجودہ دور میں اس مصنوعی طلب کو ہمارا میڈیا پیدا کرتا ہے اور اشتہاری مہم جس کے ذریعے اسے بڑھاوا بھی دیتا ہے، جس کی وجہ سے زندگی مشینی اقدار پر تیزتر رفتار کے ساتھ آگے سفر کرنے لگ جاتی ہے۔

جس کا نتیجہ سٹیرائیڈز کے استعمالی طرز پر سامنے آتا ہے کہ جب ہم سٹیرائیڈز کا استعمال کریں گے تو خوراک جلد ہضم ہو گی اور جو خوراک ہم نے ایک سال میں جسم کے سپرد کرنا تھی ہمارا جسم اسے تین ماہ میں استعمال کرے گا اور آنے والی زندگی کی رفتار بَہ ظاہر بڑھے گی۔

موٹاپا اور خو ب صورتی میں اضافہ ہو گا، مگر کھپت مصنوعی ہو گی جو اندر کے جسمانی نظام کو کم زور تر کر دے گی۔ جہاں اس جسم نے سو سال تک زندہ رہنا تھا وہ بَہ مشکل چالیس سال زندہ رہے گا۔ ہماری زمین اور ہمارے سماجی و معاشی نظام کے ساتھ بھی جدیدیت اور مشینیت یہی سلوک کر رہی ہے۔

انسانی نظام عقل و جذبات کے طابع ہے جو سماجی اور خیالی نظام سے جدا نہیں رہ سکتا جب کہ صنعتی اور سرمایہ دارانہ نظام مشینی ہے۔ اس لیے یہ مشینی نظامِ رسد کو بڑھا کر زیادہ منافع کمانے کے لیے مصنوعی طلب پیدا کرتا ہے تو زندگی کا نظام تیز ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سماجی نظام ہانپنے لگ جاتا ہے، یا پھر اس کے گردے فیل ہو جاتے ہیں۔

قدرت کا نظام اسے دو بارہ بَہ حال کرنے کی طرف آتا ہے تو ہر طرف زمینی و آبی حیات مرنے لگتی ہے۔ سیلاب اور زلزلے آتے ہیں اور دریاؤں کا پانی گدلا ہو جاتا ہے۔ یک لمحاتی یا کچھ عرصہ پر محیط قیامت دھرتی پر ہمارے رب کی طرف سے اتاری جاتی ہے تا کہ زندگی کا جو گھوڑا انسانی چالوں اور مصنوعی خوف ناکیوں کے چابک کھاتے ہوئے اپنی سکت سے زیادہ تھکا ہوا ہے اسے فنا ہونے سے پہلے اس کے لیے ہنگامی آرام و سکون کا اہتمام کر دیا جائے تا کہ یہ بقاء کے نظام کو بَہ حال رکھتے ہوئے مزید دوڑ سکے۔

اس لیے دنیا تباہی کا شکار ہونے لگتی ہے تو پھر لاک ڈاؤن کا حکم جاری کیا جاتا ہے تا کہ دنیا کا نظام کچھ عرصہ کے لیے تھم جائے۔ اور یہی عمل اب جاری ہے۔ ہم سب ٹھہراؤ کے عالم میں ہیں۔ ecosystem ہمیں خوراک اور پانی قدرتی طور پر فراہم کرتا ہے۔ یہ بیماریوں کی روک تھام میں مدد دیتا ہے۔ خشک سالی سے بچاؤ میں بارشوں اور نئی قدرتی اجناس کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے تا کہ ہم خوش حال رہ سکیں۔ یہ نیوٹرینٹ سائیکلنگ کے نظام کو بہتر بناتے ہوئے روحانی مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی کو بھی بَہ حال رکھتا ہے۔ اگر sustainability کا نظام درست نہ ہو تو ecosystem بری طرح متاثر ہوتا ہے۔

آنے والے ادوار میں ہمیں عوام کو sustainability یعنی موجودہ دور کی عوامی ضروریات و خدمات کی آسان فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔ sustainability معاشی سماجی اور ماحولیاتی، تین اہم ستونوں پر مشتمل ہوا کرتی ہے۔ جن میں سستی یا مفت صحت اور تعلیم کی سہولت پہلی ترجیح کے طور پر ہے۔ اس کے بعد اگلی ترجیح سستا یا مفت انصاف ہے جو خالص ہو اور فوری طور پر فراہم ہو پائے، تا کہ اشیاء  و خدمات کی بہتر ممکن اور آسان ترسیل سے انسانی ماحولیاتی نظام بہتر سے بہتر ہو سکے۔

اور یہ موجود اور آنے والی انسانی نسلوں کا تحفظ بھی کرے۔ میں یہاں اس امر پر زور دوں گا کہ صرف واحد انسان ہی اہم نہیں۔ دھرتی سب کی ہے۔ پودوں، پرندوں، جانوروں، آبی وسائل، فضائی و سائل، آبی حیات اور قدرتی ماحول کو بھی اسی تحفظ کے قانون کے تحت بچاؤ کا راستہ فراہم کرنا ہو گا تا کہ آنے والے دور میں ہم ایک بہتر فطری اور قدرتی ماحول میں سانس لے سکیں۔ ورنہ مستقبل قریب میں ایک بار پھر ہمیں موجودہ Covid-19 سے زیادہ سنگین صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔

week sustainability نہ ہو ورنہ متوازن ترقی کا عمل چند مخصوص کنبوں اور علاقوں تک محدود ہو جائے گا اور دو بارہ وی آئی پی پروٹوکول مضبوط ہونے لگے گا۔ موجودہ لاک ڈاؤن سے قدرت کے نظام نے بڑی طاقتوں کو یہ سبق بھی دیا ہے کہ جی ایٹ یا جی ٹوینٹی کی طاقت اہم نہیں ہوتی۔ نیٹو کا ادارہ جتنا بھی طاقت ور ہو، زندگی کی بَہ حالی اور قدرت کی طرف سے آنے والی موت کے حوالے سے وہ کوئی بھی مَثبت فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اس لیے نئی دنیا کا منشور وہی ہونا چاہیے جس میں ہر ملک اور ہر خطہ آزاد ہو۔