حملہ آور، نو آبادیات اور جدیدیت کا قومی سوال

ایک روزن لکھاری
ایچ بی بلوچ، صاحب نگارش

حملہ آور، نو آبادیات اور جدیدیت کا قومی سوال

ہر دفعہ نو آبادیات کے نتائج ایک جیسے نہیں ہوتے۔ حملہ آور اپنی قومی وحشت آور جہالت کو بھی مفتوح لوگوں پر تھوپ سکتا ہے۔ جیسے مقامی چینیوں کو جبراً افیون کھانے پر مجبور کیا گیا، جیسے محمد بن قاسم کی ارطغرل قسم کی مہم جوئی کا ذکر چل رہا ہے، اور اسلامی اور قومی آدرش (ہیروز) ہر لکھے گئے ادب کو کچھ کہنے کا موقع ملا ہے۔  یہ وہی مواد تھا، جو موقع کی تلاش میں ہوتا ہے اور سماجی جڑت میں نفاق ڈالتا ہے۔

از، ایچ بی بلوچ

کیا نو آبادیاتی، جدیدیت اور آدرش (heroism) کا واقعاتی، جذباتی، مغالطہ آمیز اور جیسا تیسا تجزیہ جدیدیت کی رومانوی غلامی ہے؟ آئیں اس کو نئے سرے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم سندھی بہ طور قوم، مہمان نواز ہیں۔ آؤ بھگت ہماری بنیادی ثقافتی علامت ہے، جس کے پاؤں کے نشان ہماری قدیم اور خوش حال تاریخ میں پیوست ہیں؛ ہمیں کھلے دل، اعلیٰ ظرف، اور ایک مثالی معاشرے کی دلیل فراہم کرتی ہیں۔ اس کی گواہی موہن جو داڑو کے لوگوں کے شعور کا وہ پیمانہ ہے، جو معاشی سیاسی اور ثقافتی غلامی کا شکار نہیں تھا؛ وہ محکوم نہ تھا، نہ ہی ان کے سِکّوں اور مُہروں ہر بادشاہی تسلط کی تصویر کندہ نہیں تھی۔ ان کے آدرش (heroism) کے کردار حیاتیاتی عقیدت اور محبت کے بنیاد پر تھے۔ ان کا خدا ان کے ساتھ چلتا تھا۔ ان کے فیصلے نہیں کرتا تھا۔

ان کا لباس علاقائی آب و ہوا اور مالی ضروریات کا عکاس تھا۔ اس حوالے سے اگر کوئی، گلے لگا کر ملنے ہاتھ جوڑنے، لوئی، لاج، پَٹکے کو کسی غیر مناسب معنی میں استعمال کرنے لگا ہے، تو اس میں جرم ہماری موجودہ سماجی قدروں کا ہے۔  جو تاریخی طور پر معاش بحران کی آئینہ دار ہیں۔ اس پر ثقافت کا کوئی گناہ ثابت نہیں ہوتا۔

جیسا کہ اس مضمون کا موضوع نو آبادیاتی، جدیدیت اور آدرش (heroism) ہے، اس لیے زبان کی ہیئت کے متاثر ہونے کا ذکر  بھی کرنا چاہیے۔ مبادا یہ اصطلاحات وقت کے ساتھ زبان کا حصہ بن جائیں۔

جیسے کہ ہم مہمان نواز ہیں، اور تاریخی حوالے سے ہمیں اس پر فخر بھی کرنا چاہیے۔

مہمان نوازی سے مجھے گلاس کی یاد آ گئی۔ گلاس ایک نو آبادیاتی لفظ ہے۔ جس کا مناسب متبادل لفظ، ملک کی بہت ساری زبانوں میں نہیں ملتا۔ ایک دوست کے ساتھ ذکر نکلا تو وہ ہند سندھ میں گلاس کی موجودگی سے دست بردار ہو گیا۔ موہن جو داڑو کی تہذیب جو ہمیں اعلیٰ رہن سہن سے متعارف کرا سکتی ہے، ہمیں اپنے معاشی اظہار کے طور پر پہیے سے متعارف کرا سکتی ہے، تو ان کے لیے پانی کا برتن کا بنانا کوئی بڑا مسئلہ تھا؟

آج ہمارا طبقہ جدیدیت پر بات کرتے modernism کا لفظ استعمال کرتا ہے، اور نو آبادیات پر colonialism کا لفظ استعمال کرتے زبان کے مسئلے پر بات کرتا ہے۔

 آج ہماری زبان، ثقافت، اور آدرش heroism کو اس مغالطہ آمیز مہمان نوازی سے ڈر ہے۔ ہمیں اس جدید اور ما بعد جدیدیت کے دور میں کسی بیرونی حملہ آور کا ڈر نہیں کہ بیٹھ کر سندھ کی واقعاتی تاریخ پر بات کی جائے۔

اس وقت ہمارے رویے قدیم ہیں اور حملہ آور جدید ہے۔ وہ ہماری رضا سے ہمارا معاشی، سماجی، اور ثقافتی قتل کرتا ہے۔ ہماری پگڑی، لاج، لوئی، اور ہماری بیٹیوں کو ہماری مرضی سے بیچنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ تلوار، تیروں سے نہیں، ہمیں بھیک منگوا منگوا کر مارتا ہے؛ اور اس کے لیے وہ حملے کے لیے چل کر آنے کی توفیق بھی کرتا۔

اس لیے ہم کسی واقعاتی تاریخ پر نظر ڈالے بَہ غیر بھی تاریخ کا ذکر کر سکتے ہیں۔

نو آبادیات پر بات کرتے ہوئے ہمارے کچھ دوست اس خوش فہمی میں نظر آتے ہیں کہ ہمیں نو آبادیات کے حوالے سے جدیدیت کی ترقی، اور فائدے ہوئے ہیں، اس کے مَثبت اثرات پڑے ہیں۔ مگر دوسرے رخ سے دیکھیں تو ان کے ان عوامی سہولیات کے اندر بھی ان کے معاشی مفادات تھے۔ انھوں نے وہ سہولت آمیز مشکلات پیدا کیں جو موجودہ ما بعد جدید دور میں اکثریتی طبقے کے لیے عذاب بنی ہوئی ہیں۔ اس سے بہتر زندگی کی سماجی ہیئت تو موہن جو داڑو کی تھی۔

مقصد یہ ہے کہ ہر دفعہ نو آبادیات کے نتائج ایک جیسے نہیں ہوتے۔ حملہ آور اپنی قومی وحشت آور جہالت کو بھی مفتوح لوگوں پر تھوپ سکتا ہے۔ جیسے مقامی چینیوں کو جبراً افیون کھانے پر مجبور کیا گیا، جیسے محمد بن قاسم کی ارطغرل قسم کی مہم جوئی کا ذکر چل رہا ہے، اور اسلامی اور قومی آدرش (ہیروز) ہر لکھے گئے ادب کو کچھ کہنے کا موقع ملا ہے۔

یہ وہی مواد تھا، جو موقع کی تلاش میں ہوتا ہے اور سماجی جڑت میں نفاق ڈالتا ہے۔

محمد بن قاسم بیرونی غاصب تھے، اور ان محرکات معاشی تھے، تو پھر راجا داہر کے عوام پر حکومت کرتے رہنے کے عوامل کیا تھے؟ انھوں نے کس مقامی حاکم سے وہ حکم رانی فتح کے عِوض حاصل کی؟ یا وہ راج موروثی تھا، تو ان کو کہاں سے منتقل ہوا؟

شاہ عنایت شہید نے ہاریوں کے مساوی عادلانہ حق کی بات کی اور جو بوئے وہی کاٹے کا نعرہ لگایا، اور ریاست کو بھتہ نہ دینے پر شہید کیے گئے۔ جدید ریاست نے ان کو روحانی مرشد بنا کر میلے لگا کر ان کے غیر منافع بخش نظریہ کو بکاؤ بنا دیا۔ ان کے قومی ہیرو ہونے کا کیس کون لڑے گا؟

یہ سوال جدید دور کے سندھی نو جوان کے عقلی اور علمی موضوعات ہونے چاہییں، اور کبھی بھی سندھ کی ثقافت کو نو آبادیاتی طور صرف ہند اور سندھ کی تاریخ اور جذباتی قوم پرستی کے مغالطہ آمیز رویوں سے دیکھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔

سندھو ماتھری کی تہذیب پورے خطے کی پہچان ہے۔ اس کی تاریخی اور علاقائی اور جذباتی محدودیت، ہماری محدودیت کی خطرناک دلیل ہو سکتی ہے۔ نو آبادیاتی ثمرات پر سوچنے سے پہلے یہ بھی سوچیں کہ ہمارے وسائل یونانیوں، عربوں، ترانوں، اور انگریزوں کے لیے باعثِ کشش تھے؛ اور ہم جدید ترقی نہ ہوتے ہوئے بھی مالی اور ثقافتی طور پر خود کفیل تھے۔

اس سے مستفید ہونے کے لیے کَشٹ کاٹے گئے، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جدت یا جدیدیت کسی امن پسند معاشرے کی ضامن ہوتی ہے۔

موجودہ دور کی عالم گیریت (گلوبلائیزیشن) ہمیں عالمی معاشی استحصال کے طرف لے جا رہی ہے۔ ہمارے خون کے قطرے سے مستفید ہوتے حملہ آور حصے کر کے کھاتے ہیں، اور ہمیں تہذیب کے دائرے کے اندر رہنے کے لیے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے، اور غیر مساوی طور پر ایک ثقافت کا وجود پڑتا ہے۔

قومی جذبات کا اصل مقام تاریخی طور اپنی پہچان ہے۔ اس کو دوسروں تک عام کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہونا، شاید وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔

ہم اپنی زبان، ثقافت اور آدرش کا دفاع ہر گز عقلی بنیادوں کے سوا نہیں کر سکتے۔ جذبات کے بنیاد پر عملی اور علمی کام اور روَیّے، خدا نہ کرے وہ برتاؤ  کریں جو  اوائلی دور کے مسلمان سائنس دانوں کے ساتھ دوسرے (مسلمانوں) نے کیا۔


لکھاری نے اپنے ہی سندھی زبان میں لکھے اس مضمون کے متن کو اردو قالب میں ڈھالا ہے۔