افسانے کے محاسن

Farheen Jamal aik Rozan
فرحین جمال، لکھاری

افسانے کے محاسن

از، فرحین جمال

“آواز، احساس اور الفاظ کا آہنگ”

یہ کائنات آواز اور احساس کے آہنگ سے مل کر بنی ہے _ یہ نیلا آسمان ،پیروں کے نیچے نرم ملائم گھاس ،زرخیز مٹی ، سرسز وادیاں ، جنگل ،صحرا ،بیابان ،بہتے چشمے ،جھرنے ،دریا اور سمندر _ مظاہر قدرت ہیں اور پکار پکار کہہ رہے ہیں کہ ہمیں دیکھو ، جستجو کرو، ڈھونڈو _

یہ آگ برساتا سورج ،نیلی ٹھنڈی روشنی والا چاند اور ٹمٹماتے ستارے _ پھولوں کا کھلانا اور شوخ رنگوں کے لبادے میں مسکرانا ؟ درختوں کا پھلوں سے لد کر جھک جانا ، بارش کی رم جھم ،ندی کا اٹھلا کر قل قل کر کے بہنا ، آبشار کا اونچائی سے جھاگ اڑاتے ہو ے گرنا ، جھرنے کا مدھم سروں میں سرگوشی کرتے ہوئے پتھروں سے باتیں کرنا ، دریا کا شور ،سمندر کا سکوت ،ہوا کا پتوں میں سرسرانا ،طوفان کی صورت میں چنگاڑنا ، پپہے کی کو کو اور کوئل کی کوک _ رات کی خاموشی میں حشرات الارض کا راگ ، پرندوں کی پکار اور جانوروں کی مختلف بولیاں ، بچے کی قلقاری ، ہنسی ،لہجوں کے اتار چڑھاؤ ، چہروں کے تاثرات ایک مکمل زبان بن کر سامنے آتے ہیں _ یہ سب اظہار کے مختلف انداز اور ذارئع ہیں _ اسی احساس اور صوتی آہنگ نے انسان میں تجسس کی حس پیدا کی _ آغاز سے ہی اس نے خود کو ان آوازوں کے جھرمٹ میں پایا_

یہ آوازیں اس کے تجسس کو مہمیز کرتی تھیں ،اسے ان کے ماخذ کو جاننے پر مجبور کرتی تھیں _ پھر رفتہ رفتہ انسان اپنے ماحول کا عادی ہوتا گیا ،ان کی کھوج کرتا گیا، اس کی جستجو اسے جنگلوں ،صحراؤں ،بیابانوں اور وادیوں میں لے گئی – وہ ان کی بولی کو سمجھنے لگا_ اپنے مقصد کے  لیے ان مواصلاتی رابطوں کو استعمال کرنے لگا_

جیسے جیسے وہ ان صوتی لہروں کو پہنچاننے لگا ویسے ویسے اس کا احساس زور پکڑتا گیا اور پھر تخیل میں اس آواز سے تصویریں بنانے لگا ، ان میں شوخ رنگ بھرنے لگا _ آواز اور ہوا کے رخ سے راستوں کا تعین کرنے لگا _ پھولوں سے رنگ کشید کر کے چٹانوں پر اپنے تخیل کو تصویری شکل دینے لگا _ یہ اظہار کی پہلی کوشش تھی _ تصویری زبان نہ صرف سمجھی جانے لگی بلکہ آپس میں رابطے کا ایک ذریعہ بھی بن گی _

رنگ آمیزی نے ایک اور کروٹ لی اور سورماؤں کی داستانیں ،غاروں کی دیواروں پر آویزاں ہونے لگیں ،رفتہ رفتہ ،اشاروں کی زبان نے آواز کا چولا پہن لیا_ چھوٹے چھوٹے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں زبان نے جنم لیا _انسانی ارتقا صدیوں کی مسافت سے گزر کر اس قابل ہوا کہ وہ اپنے مافی الضمیر کو دوسرے پر واضح کر سکے _ اپنے احساس کو لفظوں میں بیان کر سکے _ اور یہاں سے ہی قصہ ،کہانی اور داستان نے جنم لیا _

افسانہ ہے کیا؟

مختصر نثر پارہ جو ناول سے کم ہو اور جس میں معاملہ چند کردار وں کے درمیان ہو. ایک ایسی صنف ہے جس میں اہم پُر معنی مفہُوم میں بات کرنا مقصود ہو _ اس طرز تحریر میں اس بات کو فوقیت دی جاتی ہے کہ کفایت شعاری سے ماحول اور جامع کہانی کو قابو میں رکھا جائے اور الجھے ہو ے پلاٹ سے اجتناب کیا جائے _ کردار کو ڈرامائی کاروائی اور عمل کے دوران کھولنا – افسانہ کی اساس کہانی اور کردار کی بہترین ٹریٹمنٹ کی صلاحیت پر منحصر ہے _

انیسویں صدی سے پہلے افسانہ یا شارٹ سٹور ی کو ادب میں کوئی خاص مقام حاصل نہیں تھا حالانکہ یہ تکنیک اور موضوع کے لِحاظ سے ،جدید اور منفرد انداز تحریر تھا _ جبکہ مختصر نثر کے باب میں تخیل یا خیالی کہانی ،من گھڑت قصہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ زبان _

تاریخ میں انسان صدیوں سے مختلف قسم کے قصے ،کہانیوں ،حکا یات ، رومانوی تمثیلی قصے ، نصیت آموز پریوں کی داستان، اساطیری قصے ، تاریخی داستانوں سے لطف اندوز ہوتا رہا ہے _ لیکن ان میں سے کوئی بھی شارٹ سٹوری (افسانہ) کی تشکیل کو اس طرح واضح نہیں کرتا جیسا کہ انیسویں صدی میں اس کی مکمل تعریف و تشکیل کی گئی _ لیکن یہ تمام اس ماحول کو بنانے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں جس سے گزرنے کے بعد جدید افسانے کی بنیاد رکھی گئی _

میرے نزدیک افسانے میں یہ آواز اور احساس کا آہنگ ہی ہمیں جذبوں کی شدت ،لہجے کے اتار چڑھاؤ اور چہرے کے تاثرات کو کردار میں ڈھالنے میں مددگار ہوتا ہے _تخیل کے بنا لکھنا ایسے ہی ہے جیسے آپ میتھ کی تھوری حل کر رہے ہوں _ آپ کے تخیل کی پرواز، آسمانوں ، پہاڑوں ،کائنات سے پرے ہونی چاہیے ، دیوار کے اس پار دیکھنے کی صلاحیت ، ہواؤں میں پرواز ، دریاؤں کے اس پار بسی دنیا کی خبر، پانی کی روانی ،سمندر کا تلاطم۔

افسانے کا آغاز _ افسانہ ہمیشہ وہاں سے شروع کرنا چاہیے جہاں کوئی عمل ہو رہا ہو ” وہ حلق پھاڑ کر چلا رہا تھا ” اب اس جملے کو لکھنے کے بعد پوری کہانی کو بیان کیا جائے گا کہ وہ کون ہے ؟ اور کیوں چلا رہا ہے ؟ اصل میں واقعہ کیا ہے ؟

تصادم ،تنازعہ _ !

ہر کہانی کا لازمی جزو ہے (جو تصادم یا تنازعہ کہانی میں ہونے والی جدوجہدکو ظاھر کرتا ہے )

١) . انسان بمقابل انسان

٢). انسان بمقابل معاشرہ

٣).انسان بمقابل ماحول ، فطرت

٤). انسان بمقابل خود،اپنے تئیں ( جو جسمانی ،نفسیاتی ، خیالی ہو ،لیکن تصادم کہانی کو اس کے منطقی انجام تک لے جاتا ہے ).

نقطہ نظر _

کہانی کو فرسٹ پرسن میں لکھنا ہے یا تھرڈ پرسن میں _ فرسٹ پرسن میں کردار اپنی کہانی خود سنا رہا ہوتا ہے _ جبکہ تھرڈ پرسن میں کہانی روانی سے آگے بڑھتی ہے_ اس طرح پتا چلتا ہے کہ کرداروں کے ذھن میں کیا چل رہا ہے _

تَرتیب _ اس واقعہ کا کہانی میںشامل ہونے کا وقت اور جگہ کا تعین کرتی ہے ، مقام ،معاشرتی ماحول ، تاریخ اور دور کہانی کے لازمی عنصر ہوتے ہیں _ اسی ترتیب میں کردار حرکت کرتے ہیں اور اصل عبارت میں کسی بھی عمل کا نقطہ آغاز ہوتا ہے _ اس کے علاوہ “ترتیب ” قاری کے ذھن میں وقت ، مقام کردار اور واقعہ کے متعلق جذباتی تعلق استوار کرتی ہے _

١) .کہاں ؟ ( خاص مقام ، عام جگہ )

٢)..کب ؟ ( مخصوص وقت ، کوئی دور ،صدی )

٣) کون؟ (کردار کا تعارف ).

٤) . کیا؟ ) کوئی ایسا معین کردہ عمل جو اصل عبارت کو سمت مہیا کرے _)

٥). فضا ،ماحول _ ( ایسی ذہنی کیفیت یا عارضی حالت تخلیق کرنا جو قاری میں جذباتی احساس کو جنم دے ) _

٦). جذباتی مناظر _ ( کہانی کے ماحول میں جذباتی مناظر کردار کی اندرونی جذبات کیفیت کو منعکس کرتے ہیں ،یا یوں کہہ لیں کہ وہ کردار کی جذباتی کیفیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں ).

لہٰذا واقعہ یا سانحہ کی ترتیب افسانے میں فعال کردار ادا کرتی ہے _یہ وقت ،مقام اور کردار کے تعین میں مدد گار ہوتی ہے _ کردار کے جذبات ،خیالات ،اِرادی عمَل اور اثر پذیری کو منعکس کرتی ہے _ایسی کیفیت اور ماحول بناتی ہے جو کہانی میں کلیدی حیثیت کا حامل ہوتا ہے _

مضبوط کردار نگاری _

کوئی بھی کردار زمان و مکان سے ماورا نہیں ہوتا _ اس کے ہر ہر انگ سے لکھنے والے کا قلم بول رہا ہوتا ہے ، _ کردار کی عمر ،ظاہری حلیہ ، جنس ، سکونت ،علاقہ ، رهن سہن ، بولی ،شخصیت _

خود کو آیئنے میں دیکھ کر وہ کیا محسوس کرتا/ کرتی ہے _ اس کی خوبیاں اور خامیاں _ اس میں سے بہت سی باتیں افسانے لکھتے ہوئے لکھی نہیں جاتیں لیکن ان باتوں کا علم ہونے سے کردار کو مکمل کیا جاتا ہے _ چند سطروں میں اس کی اصل تصویر پڑھنے والے کے ذھن پر نقش ہو جاتی ہے۔

اس کردار کا کیا مقصد ہے ؟ وہ کیا چاہتا ہے ؟ ” دو بیل چاہئیں کھیت میں چلانے کے  لیے ” ،آفس میں ترقی کا خواہاں ، دولت کا حصول، ملک سے باہر جینے کی تگ و دو _ اگر کردار کا کوئی مقصد نہیں تو کہانی نا کام _

راہ کی رکاوٹ _ یعنی وہ کیا وجہ ہے جس کہ وجہ سے وہ اپنا مقصد پورا نہیں کر پاتا ” جسمانی ،معاشرتی اقدار ،دوسروں کے عمل ،یا اس کی اپنی خَصلَت ۔ خاصیّت _

رکاوٹ کو دور کرنے کا حل _ کم از کم تین حل ایسے ہوں جو دلچسپ ، غیر معمولی ، حیران کن ہوں _

کیفیت = کسی بھی کردار کو اس کے مکمل قالب میں ڈھالنے کے  لیے اسے جینا پڑتا ہے – اور جب تک آپ اس شخص کو جانیں گے نہیں ،اس کے اندر اتریں گے نہیں تو کیسے اس کے جذبوں کو صفحہ قرطاس پر اتاریں گے _ ایک ذرا سی ماتھے کی شکن ،ہونٹوں کا سکیڑ لینا ، لبوں کو بھینچ لینا ،اندورنی کیفیت کو عیاں کرتا ہے_

لہجہ = لہجے داخلی کیفیت کی چغلی کھاتے ہیں _ غصے کی حالت میں چہرے کا تناؤ اور آواز کا اتار چڑھاؤ ،لہجے میں تلخی ،غضب اور غیظ پیدا کرتا ہے _ اس کو اداکار تو اپنے چہرے اور آواز سے ایکٹ کر کے دیکھا سکتا ہے لیکن کاغذ پر یہ سب دیکھانا ،افسانہ نگار کا کمال ہے _

“ابے او تیری ایسی کی تیسی ، نکال میرے پیسے “‘ کہتے ہوئے لہجہ تلخ ہو گا ، چہرے پر تناؤ یا غصہ اس لہجے کو تقویت دے گا _

”او بابو ، کہاں جاتا ہے ؟ذرا ایک نظر تو ڈال میرے مٹی کے کھلونوں پر ” لہجے میں لوچ اور آوازمیں گندھی ہوئی مٹی کی نرمی _

افسانے کے اہم اجزا ..!

١).افسانہ ایک مربوط تاثر پیدا کرے –

٢).جس میں ہر لفظ ،مکالمہ ،کردار ،بیانیہ ،تفصيل کفایت شعاری سے ایسا نقشہ کھینچے کہ انفرادی طور پرپہلے سے ڈیزائن کیا گیا انجام۔ آشکارا ہو _

٣). افسانہ عموما ایک اکیلے کردار ،واقعہ اور دور کے گرد گھومتا ہے _

٤).ایک ہی نشت میں اس کی قرات ہو سکے _

٥) . پہلا جملہ ہی ترتیب دئیے گئے واقعہ کے آغاز کو اس کے منطقی انجام تک لے جائے _

٦) جب کہانی اپنے نقطہ عروج پر ہو تو اسے کا منطقی اختتا م ہو _

٧) .کردار کی کہانی کی ضرورت کے مطابق نشو و نما کی جائے _

کہانی کو افسانے کے سانچے میں ڈھالنا _

١)..ایک پلاٹ میں کرداروں کو موزوں کرنا –

٢) . کردار کا انتخاب کرنے کے بعد کسی بھی واقعہ کو اس کے گرد بننا _

٤). خیال یا تخیل کی پیش رفت کرداروں کے عمل اور رد عمل کے ذریعہ ہونا _

افسانے کا بیانیہ _

١) .تعینِ رُخ ( تَشرِيح ۔)

٢) . پیچیدگی( اٹھان ،بحران ،تنازعہ ،تصادم)

٣ ) . منطقی انجام ( کلائمکس ،خطا ،قصور ، اختتام )

افسانے کے امکانی مقاصد _

١) . تفریح فراہم کرنا (سسپنس ، تصادم ،اسرار ،راز )

٢) جذباتی اثر پذیری

٣) .کردار کا کارروائی میں عمل دخل _

بصیرت، پرکھ فراہم کرنا _ ( کردار کا اندرونی خوف ،تحریک، عقیدہ ،اعتقاد)

دنیا ، سچائی ، زندگی ، انصاف ،حقیقت _

پلاٹ اور بیانیے کا ڈھانچہ _

پلاٹ راہ ہموار کرتا ہے کہ احوال کو کس طرح کہانی میں شامل کیا جائے یعنی حالات اور واقعہ کا انتخاب کرنا ، ان کا تسلسل اور شناخت _کسی بھی افسانے میں صرف ایک پلاٹ کی گنجائش ہوتی ہے جو بہت واضح اور شفاف ہو _اساسی طور پر کہانی کی اصل وجہ پلاٹ ہے _ایک اچھا پلاٹ افسانے کے  لیے انمول ہوتا ہے لیکن وہ بناوٹی کردار نگاری اور مکالمے کا ذمہ دار نہیں _

مکالمہ _

افسانے میں مکالمہ کا بنیادی مقصد کہانی کو آگے بڑھانا ہے _ لیکن کہانی کو اس کی پیش رفت اور مقصد سے جدا کرنا نہیں _

مکالمے کے بنیادی اصول _

١)کہانی کو کامیابی سے آگے بڑھانا –

٢)کردار کو واضح کرنا،کھولنا _

٣). پلاٹ میں تحریک پیدا کرنا _

٤). موضوع اور معنی پر روشنی ڈالنا _

٥). پُر اسرار انداز میں وقت کے تغیر کو پیش کرنا _

٦). پلاٹ کی سمت کو تصادم کے ذریعے تبدیل کرنا _

٧). کہانی اور کردار کے لیے آواز مہیا کرنا _

٩). کردار کی اندرونی کیفیت پر روشنی ڈالنا _

١٠). خواہشات اور مقاصد کو واضح کرنا _

عظیم فکشن میں مکالمہ وجدانی نہیں ہوتا اور نہ ہی از خود تخلیق کار کے ذھن میں وارد ہوتا ہے _ اہم بات یہ ہے کہ موثر مکالمہ لکھنے کے  لیے تخیلق کار کبھی بھی اپنے حقیقی تجربے یا خیالی سین سے خاکہ نہیں کھینچتا _بنیادی طور پر مکالمہ ہمیشہ کہانی کو آگے بڑھنے کے  لیے لکھا جاتا ہے اس  لیے اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا _ مکالمے کو منطقی ہونا چاہیے اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کردار کی خواہش اور مقصد پر صحیح بیٹھتا ہو _

” اگر میں جنّت میں ہوتا تو بہت ہی شکستہ حال ہوتا “

” تم وہاں رہنے کے اہل نہیں ہو ” میں نے جواب دیا _

“تمام گناہ گار جنت میں شکستہ حال ہی ہوں گے “

” لیکن یہ وجہ نہیں ‘ میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا تھا کہ میں وہاں ہوں “

“میں تمہارے خواب سننے کے  لیے نہیں بیٹھا ہوں “

” اب میں سوؤں گا _ میں نے اس کی بات کاٹی “

“اس نے ایک قہقہہ لگایا اور مجھے کرسی پر بیٹھنے پر مجبور کر دیا – “

”یہ تو کچھ بھی نہیں .! وہ چلائی ” مجھے بس یہ کہنا تھا کہ جنت مجھے اپنے گھر جیسی نہیں لگتی ”

” میرا دل ٹوٹ گیا تھا اور میں بے تحاشا روئی تھی جب مجھے جنت چھوڑ کر زمین پر آنا پڑا “

اسلوب

اسلوب ہے کیا ؟

اسلوب وہ طریقہ کار ہے جس کے تحت الفاظ اور جملوں کو استعمال کیا جاتا ہے _اسلوب کو قدرتی انداز میں نشوونما پانے دینا چاہیے ،مصنوعی اور زبردستی سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے انداز اسی وقت جنم لیتا ہے جب کوئی تخلیق کار اپنی تحریر کو صفحہ قرطاس پر اتارتا ہے _ اب یہ بہتر سے بہترین کب ہوتا ہے ؟ یہ وقت اور ملسل کوشش پر منحصر ہے _ سادہ زبان میں پرکاری اور اپنے خیال کی ترسیل بہترین انداز ہے _ ثقیل و دقیق الفاظ و جملے،تشبیہات ،استعارے تحریر کو خوبصورت تو بنا دیتے ہیں لیکن اصل تحریر اس گنجلگ طریقہ کار میں کہیں کھو سی جاتی ہے اور قاری کہانی کو تلاش کرتا رہتا ہے _

منظر نگاری

افسانے میں منظر نگاری صُورت حال کو سہارا دیتی ہے ،لیکن ضرورت سے زیادہ منظر کشی کہانی کی اہمیت اور افادیت پر اثر انداز بھی ہو سکتی ہے اور قاری،پہاڑوں ،ندیوں ،وادیوں ،سبزہ زاروں میں منہمک ہو کر افسانے کے اصل متن سے دو ہو جاتا ہے _ اگر متن اس بات کا متقاضی ہے کہ آس پاس کے ماحول کی منظر کشی کریں تو کوئی مضائقہ نہیں _” اندھیری رات کی خاموشی میں جھینگروں کی آواز ،” کسی کے دبے پاؤں سیڑھی سے اترنے کی مہین آواز ” _ آسمان پر تاروں کی جھلملاتی چارد نے ااندھیرے کی سیاہی کو ڈھانپ لیا “_

جزیات نگاری

جزیات نگاری بھی افسانے میں پلاٹ ،کہانی اور کردار کی ضرورت کے مطابق ہونا چاہیے ،ضرورت سے زیادہ وضاحَت کہانی کی روانی میں رکاوٹ بنتی ہے ،یہاں پر تخلقکار کو توازن رکھنا پڑتا ہے _

اختتام _ افسانے کو لکھنے سے پہلے ذھن میں آغاز _ پلاٹ _ کہانی _اور اختتام ذھن میں ہونا چاہیے _ یہ نہیں کہ افسانہ لکھنا شروع کر دیا ،کردار وں سے کا تعارف بھی ہو گیا ،کہانی بھی بیان کر دی لیکن اختتام کا کچھ علم نہیں _ بہتر یہ ہے کہ مختلف انداز میں اختتام کا پہلے سے سوچ رکھیں –

” پر امید ،مایوس کن ، تشویش مند ،حیران کن _

کردار کے اصل مقصد کو اختتام پر بے نقاب کیا جائے ،ورنہ افسانہ آغاز یا درمیان میں کھل جائے گا _

افسانہ ایک ایسی حکایت یا روایت ہے جس میں ایک کڑی میں پروے گئے واقعہ کا تصادم اور منطقی انجام پیش کیا جاتا ہے _

افسانہ لکھنے کی کوئی خاص اور مکمل تشریح کہیں بھی نہیں ملتی _افسانے کی تکمیل میں  بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں   _ اس سے پہلے کہ تخلیق کار اپنے تخیل کو صفحہ قرطاس پر اتارے  _ جب تک تخلیق کار احساس ،آواز اور الفاظ کے آہنگ کو سمجھ نہیں جاتا ،تحریر صفحے پر کھینچی آڑی ترچھی لکیر ہی رہتی ہے اور اس میں رنگ بھرنا آہستہ آہستہ آتا ہے _ ایک دم سے تصویر مکمل نہیں ہوتی ،تصور کو سو زاویوں سے پرکھنے کے بعد ہی شاہکار وجود میں آتا ہے _

یہ میری رائے ہے ( آپ اس سے اختلاف کا مکمل حق رکھتے ہیں ) کہ ایک لکھنے والے کو کن رس ہونا چاہیے ، سروں کی تال پر اس کے وجود کو تھرکنا نہ آیا تو وہ قاری کو وجد میں کیسے لا سکتا ہے _تحریر بھی موسیقی کے سروں جیسے ہوتی ہے جو جذبات کی دھن پر رقص کرتی ہے _ اور اس رقص کو الفاظ کا لبادہ دینا تخلیق کار کا کام ہے _

ہر تحریر اساتذہ اور نقاد کے معیار پر پوری نہیں اترتی لیکن وہ ہمیشہ لکھنے والے کے دل کی آواز ہوتی ہے، بہتے پانیوں کی روانی، بارش کی رم جھم ، پرندوں کی پرواز ، احساس و جذبات کی سرگوشی ، ستاروں کی چمک ،پھولوں کے رنگ،ہجر کے دکھ اور محبت کی دھیمی دھیمی آنچ کو سمو کر ہی لکھی جا سکتی ہے۔