مذہبی تفریق کا جِن

Khizer Hayat aik Rozan
خضر حیات، صاحبِ مضمون

مذہبی تفریق کا جِن

خضرحیات

ایک وقت آیا کہ برصغیر میں انگریز کو اپنی فوجیں، گولہ بارود، بندوقیں، انتظام و انصرام، تجارت اور منصوبہ بندی سب کچھ غیر موثر جان پڑا کیونکہ اس سب کچھ کے باوجود انگریزوں کے خلاف مقامی لوگوں نے بغاوت کر دی تھی۔ یہ بغاوت تو کچل دی گئی لیکن ایسی ہی یا اس سے بھی بڑی کسی ممکنہ بغاوت کا خطرہ انگریز کے سر پر تلوار کی مانند لٹکتا رہا۔ بہت سوچا گیا کہ ایسا کیا کیا جائے کہ مقامی لوگ ہمیں آنکھیں دکھانا بھول کرغلامی کی زندگی کو ہی خدا، بھگوان اور ایشور کی مرضی اور اِچھا سمجھ کر بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکے جانے پہ کسی قسم کا اعتراض کرنا بھول جائیں اور کسی اپنے ہی بکھیڑے میں الجھے رہیں۔

انگریز سرکار جسے معلوم تھا کہ مقامی لوگ (مسلمان، ہندو، سکھ) مذہب کے حوالے سے بہت حساس ہیں اور کچھ حد تک سخت گیر نظریات کے حامل ہیں، نے اس کا حل یہ نکالا کہ اسی مذہب کو بطور آلہِ کار کیوں نہ آزمایا جائے۔ چنانچہ مذہبی تفریق کا کھیل شروع کیا گیا اور مقامی لوگوں کو اب اُن بنیادوں پر بھی ایک دوسرے میں فرق محسوس ہونے لگا جن کا احساس انہیں پچھلے 500 سال میں اکٹھے رہنے کے باوجود بھی نہ ہوا تھا۔

یہیں سے پھر دو الگ مذاہب، دو الگ تہذیبوں، دو الگ تاریخوں، دو الگ معاشرتوں اور دو الگ نظریوں کی داغ بیل پڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس تفریقی نظریے کا خوب پرچار شروع ہوا۔ مذہب کو انگریزوں نے محض تجرباتی طور پر ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ابتدا کی تھی اور جب انہیں جان پڑا کہ یہ ہتھیار تو گولے بارود اور توپخانوں سے بھی زیادہ موثر ثابت ہو رہا ہے تو ان کی مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔

یہی وہ بنیاد تھی جس پر چلتے ہوئے 1947ء میں کئی مسلمان، ہندو اور سکھ ایک دوسرے کے ہاتھوں سے ہی کاٹ دیے گئے۔ مردوں کی سیاست کا بدلہ خواتین کی آبرو ریزی سے لیا گیا۔ باہمی فرق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مسلمان، سکھ اور ہندو تقسیم کے وقت انسانیت کے درجے سے گر کر پھر ایک جیسے ہوگئے اور درندگی کے ایک ہی درجے پر کھڑے ہو کر ان کے مابین پایا جانے والا فرق مٹ کر رہ گیا۔

اس انقلابی ایجاد کے بعد انگریزوں کے اقتدار کو خاصا دوام حاصل ہوا۔ بغاوت (1857ء) کے بعد پورے 90 سال وہ الگ بیٹھ کر تماشہ دیکھتے رہے اور تجوریاں بھرتے رہے کیونکہ مقامی لوگ انگریز سے برسرپیکار ہونے کی بجائے اب آپس میں الجھنا شروع ہو گئے تھے۔ انگریز سرکار نے اس بکھیڑے میں ہمیں پھنسا کے اپنی جان چھڑوا لی تھی۔ یوں سمجھیں کہ انگریز اپنے منصوبے میں مکمل طور پر نہیں تو قریب قریب مکمل طور پر کامیاب ہو گیا تھا۔

دوسری عالمی جنگ نہ ہوتی تو شاید برصغیر کی تقدیر اس وقت کسی اور ہی ڈگر پر چل رہی ہوتی۔ مگر اس جنگ نے برطانیہ سرکار کی کمر توڑ کے رکھ دی اور انہیں اب دور پار کی سلطنتوں کو قدموں تلے دبائے رکھنا بھاری پڑنے لگا۔ انگریزوں نے عجلت میں برصغیر چھوڑا اور مذہبی تفریق والا جن جسے انہوں نے 90 سال پہلے بوتل سے نکال کر کھلا چھوڑا تھا، اس جن کو واپس بوتل میں بند کرنے کا نہ وقت تھا اور نہ موقع لہٰذا اس جن کو انتقام کے طور پر ہمیں ورثے میں دے دلا کر انگریز یہاں سے رفو چکر ہو گیا۔

اس جن نے ابتدائی طور پر ہزاروں کی جان لی، لاکھوں کو بے گھر کیا، کئی آنگن اجاڑے، بے شمار کنویں لاشوں سے بھردیے اور انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کو ممکن بنایا۔ انگریز سرکار کی تربیت یافتہ بیوروکریسی کی زیرنگرانی لوگ لٹتے اور کٹتے رہے مگر انہیں بچانے والا بجائے خود پولیس کی صورت میں خود بھی لوٹنے اور کاٹنے میں شامل ہو گیا۔

خیر انگریز نے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا جو فیشن شروع کیا تھا وہ فیشن مساوی طور پر پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں تقسیم ہوا اور اس کے اثرات ہمیں گاہے بگاہے نظر آتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی بات کی جائے تو ‘مردِ مومن مردِ حق’ کا دور اس فیشن کو بامِ عروج تک پہنچانے میں چیمپئن بنا۔ ندیم فاروق پراچہ نے مشتعل ہجوم کی نفسیات پر لکھے گئے اپنے مضمون مشتعل ہجوم میں بتایا ہے کہ پاکستان میں ہجوم کی جانب سے تشدد کے واقعات میں 1980ء کے بعد نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ ہجوم اکثر صورتوں میں مذہبی طور پر مشتعل ہجوم تھا۔ بھارت میں 2014ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی بی جے پی کی حکومت کے دور میں اس فیشن نے جس بڑے پیمانے پر فضاء کو رنگریز کیا ہے۔

اس کی مثال سیکولر بھارت کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ بنگلہ دیش بھی اگرچہ خود کو سیکولر ملک قرار دے چکا ہے مگر انگریز سرکار کے فیشن کو وہ بھی نہیں نظرانداز کر سکا اور مذہبی بنیادوں پر انتقامی کاروائیوں کی تاریخ میں ایک تاریک باب کا اضافہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے بھی کیا ہے۔

مذہبی تفریق کے نتیجے میں آنے والا یہ طوفان اصولی طور پر 1947ء کے بعد تھم جانا چاہیے تھا کیونکہ انگریز یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جا چکا تھا، مسلمانوں کے لیے الگ ملک وجود میں آ چکا تھا اور ہندوؤں کو بھارت کی صورت میں اپنا دیش مل گیا تھا۔ ظاہری طور پر تو اب ہندو الگ ہو چکے تھے اور مسلمان الگ اور یہ امید رکھنا بے وقوفی کی بات ہرگز نہ تھی کہ اب آگے چل کر راوی چین لکھے گا۔ ہندو اور مسلمان اپنے وطن اور دیش میں سکون سے رہیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ ہندو اور مسلم کی تفریق کے بعد اب اس گیم کا دوسرا لیول شروع ہوگیا جس کے مطابق پاکستان میں اس بات کی جانچ شروع ہوگئی کہ کون اصل مسلمان ہے اور کسے مسلمانی کے سرٹیفکیٹ سے دستبردار کر دینا چاہیے۔

چنانچہ پاکستان میں احمدی برادری کو شک کی نظر سے دیکھا گیا اور بھارت میں تو اب سبھی مسلمانوں کو ہی دیش دروہی سمجھا جا رہا ہے۔ ہم نے اگرچہ 1974ء میں احمدی فرقے کو دائرہ اسلام سے نکال باہر کیا تھا مگر ادھر پڑوسی ملک میں شری نریندر مودی جی اور یوگی آدتیا ناتھ ابھی تک محض بیان بازی ہی کر رہے ہیں کہ مسلمان بھارت کے ساتھ وفادار نہیں ہیں اور انہیں بھارت سے نکل جانا چاہیے۔ عملی طور پر بھارت اس معاملے میں ہم سے ابھی پیچھے ہے کیونکہ ہم نے تو ایسا کر کے دکھا بھی دیا ہے۔ ہندو مسلم کی تفریق کے بعد ہم اب صحیح مسلمان اور اصل ہندو کے جھگڑے میں پڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اب کبھی شیعہ برادری پر حملہ ہو رہا ہے اور کبھی ہزارہ برادری کا قتل عام دیکھنے میں آتا ہے۔ غیر مسلم اقلیتوں کے علاوہ مسلم اقلیتی فرقے بھی اس آگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔

پاکستان میں اب یوں جان پڑتا ہے کہ جینے کا حق محض مسلمان کے پاس ہی رہ گیا ہے۔ غیر مسلم اقلیتیں اور چند مسلم فرقے یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ بہتر تو یہی ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر کہیں چلے جائیں اور اگر وہ نہیں جائیں گے تو انہیں ایک ایک کرکے ختم کر دیا جائے گا۔ اسی مذہبی تفریق کے سلسلے کی تازہ قسط پارلیمنٹ میں فلمائی گئی جہاں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی کیپٹن (ر) صفدر نے احمدیوں کی ملک سے وفاداری کے متعلق سوال اٹھایا ہے۔ انہیں شاید ڈاکٹر عبدالسلام اور دیگر احمدی پاکستانی بھول گئے تھے جو انہوں نے یہ اعتراض جڑ دیا ہے۔ پاکستان میں احمدی برادری والا مسئلہ اس دیگ کی صورت اختیار کر چکا ہے جو ہمیشہ چولہے پر پڑی رہے گی مگر اسے پکا کر اتارا نہیں جائے گا۔

مقتدر حلقوں کو اس دیگ کے ہلکی آنچ پر پکتے رہنے میں ہی فائدہ نظر آتا ہے، جب ضرورت محسوس ہوئی آگ ذرا تیز کرکے ایک اُبال اور آنے دیا اور پھر اسے دھیمی آنچ پر پکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ چُھرا ہم نے جان بوجھ کر آستین میں چھپا رکھا ہے اور ضرورت پڑنے پر اس کی ہلکی سی جھلک دکھلا کر اسے واپس چھپا لیتے ہیں۔ مجھے پارلیمنٹ میں بیٹھے باقی لوگوں سے بھی شکایت ہے کہ وہ کیوں نہ کیپٹن صفدر کے بیان کے بعد اس پر اعتراض اٹھا سکے۔ پیپلزپارٹی کس بنیاد پر خود کو روشن خیال سیاسی جماعت سمجھتی ہے۔ اگر پارلیمنٹیرینز کو بھی اس پر اعتراض کرنے سے اپنی جان گنوانے کا ڈر ہے تو پھر اندازہ لگا لیں یہ مسئلہ کتنا حساس ہے اور پاکستان میں عام آدمی اس معاملے میں کتنا غیر محفوظ ہوگا۔ صرف اس مسئلے کی سنجیدگی کو ہی خاطر میں لایا جائے تو اس قسم کی زہرافشانی کی کوئی گنجائش ہی ںہیں بچتی۔ آپ کی لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے ہے تو اسے سیاسی طور پر لڑیں، مذہب کو آلہء کار بنا کر کئی لوگوں کی جان خطرے میں کیوں ڈالتے ہیں؟

کیپٹن صفدر اور ان کی طرح سوچنے والے لوگ کم تعداد میں نہیں ہیں مگر انہیں اس بات کی سمجھ کیوں نہیں آتی کہ احمدی غیر مسلم قراد دیے جاچکے ہیں اور آئین پاکستان غیر مسلموں کو بھی کچھ حقوق دیتا ہی ہے۔ یہ تو کہیں بھی نہیں لکھا گیا کہ غیر مسلم چونکہ ملک کے ساتھ وفادار نہیں ہو سکتے اس  لیے انہیں ملازمتوں پر بھرتی نہیں کیا جانا چاہیے یا انہیں اعلیٰ عہدوں پر ترقی نہیں دی جانی چاہیے۔ یہ ملک جس طرح سنّی مسلمانوں کا ہے اسی طرح باقی فرقے کے لوگوں کا بھی ہے۔ انہیں بھی یہاں پھلنے پھولنے کا پورا حق حاصل ہے۔

احمدی برادری تو غیر مسلم قرار دی جاچکی ہے تو اب کیا اسے اس ملک سے ہی نکالنا چاہتے ہیں۔ شاید کیپٹن صفدر ویژن میں قائداعظم سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ قائداعظم کو ناجانے کیوں پاکستان بنانے کے بعد یہ خیال نہ آیا کہ غیر مسلموں کو نکال باہر کریں اور نا جانے کس بے خبری یا دباؤ میں انہوں نے پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ بھی احمدی برادری سے ہی منتخب کرلیا۔ قائداعظم کے ذہن میں شاید پاکستان کا ویژن اتنا واضح نہیں تھا جتنا اب ‘کیپٹن صفدر اینڈ کمپنی’ کے ذہن میں واضح ہو گیا ہے ورنہ وہ چوہدری ظفراللہ خان کو وزیر خارجہ کیوں بناتے۔

ایک طرف یہ سننے میں آتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے احمدیوں کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کر دیا اور پھر دوسرے ہی سانس میں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ احمدی برادری ملک کے لیے خطرہ ہے۔ عام آدمی یہ ضرور سوچتا ہے کہ اگر احمدی برادری ملک کے لیے اس قدر سنگین مسئلہ ہے تو پھر بھٹو صاحب نے آخر کون سا مسئلہ حل کیا تھا۔ ہم ایک سانس میں یہ مسئلہ حل شدہ سمجھتے ہیں تو دوسری ہی سانس میں اسے حل طلب سمجھنے لگتے ہیں۔

خدارا اس دیگ کو اب اتار لیں۔ احمدی غیر مسلم اقلیت ہیں اور انہیں شہری حقوق حاصل ہونے کی وجہ سے ملازمتوں سے بھی نہیں روکا جا سکتا اور ترقیوں سے بھی نہیں۔ اس ملک کو اقلیتوں کے لیے محفوظ جگہ بننے دیں اور اشتعال اُگلنے والی زبان کو منہ کے اندر ہی باندھ کے رکھیں۔ ایک ایسے وقت میں جب عوام پارلیمنٹ کی طرف امیدیں لگا کے بیٹھی ہے کہ ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے کلیدی کردار اگر کوئی ادارہ ادا کر سکتا ہے تو وہ پارلیمنٹ ہے۔

اس دوران دوسری طرف دیکھیں پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر آپ کس طرح کا امن لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عوام آپ سے گزارش کرتی ہے کہ اس ملک میں امن قائم کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں اور مذہبی تفریق کے اس جن کو جسے اب ہم نے دیوتا کا سمّان دے کر پوجنا شروع کر دیا ہے، اسے مزید جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے باز رہیں۔ عین نوازش ہوگی۔