بچوں کو خود کشیوں پر اُکسانے والی ویڈیو گیم بلیو وہیل سے ہوشیار

aik Rozan writer
حسین جاوید افروز ، صاحب مضمون

بچوں کو خود کشیوں پر اُکسانے والی ویڈیو گیم بلیو وہیل سے ہوشیار

حسین جاوید افروز

بلیو وہیل چیلنج انٹرنیٹ سے پھیلنے والی محض ایک گیم ہی نہیں بلکہ خودکشی کا بھیانک کھیل بن چکی ہے۔ اس خونی گیم نے دنیا کے کونے کونے میں اپنا زہر پھیلا دیا ہے۔ محض دو سال کے اندر دنیا میں سینکڑوں بچے اس کھیل کے سحر میں مبتلا ہوکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ پچاس روزہ گیم ہر روز بچوں کو ایک نیا ٹاسک دے کر دھیرے دھیرے ان کو موت کی دہلیز تک پہنچا دیتی ہے۔ اس کھیل میں ایسا خونی سحر اور چسکا موجود ہے کہ کھلاڑی اس گیم کو کھیلتے کھیلتے خود کشی کی جانب مائل ہونے لگتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق اس گیم کو کھیلنے والوں میں اکثریت تعداد ان لڑکیوں کی ہے جن کی زندگی کم توجہ اور پیار کی کمی کا شکار رہی ہوتی ہے۔

اب تک روسی لڑکیوں میں موت کا تناسب اس حوالے سے سب سے زیادہ دیکھا گیا ہے۔ روس میں ایجاد کیا گیا یہ گیم اب اسی کے لیے وبال جان بن چکا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ خونی گیم ہے کیا ؟ آئیے بلیو وہیل کے بارے میں جانکاری حاصل کرتے ہیں۔

اس گیم کا ماسٹر نامی کردار بہت سارے خطرناک کارنامے انجام دیتا ہے۔ یہ کردار گیم کھیلنے والے بچے سے منسلک ہوتا ہے۔ یعنی گیم کھیلنے والا بچہ ہی ماسٹر کو کنٹرول کر رہا ہوتا ہے۔ ماسٹر کئی کارنامے انجام دینے کے بعد کبھی کبھی بچوں سے مصنوعی خود کشی کرنے کی فرمائش بھی کرتا ہے۔ اور خودکشی سے انکار کرنے والے بچوں کو دھمکاتا بھی ہے کہ اگر انہوں نے یہ فعل انجام نہیں دیا تو ان کے والدین کو مار دیا جائے گا ۔اور اس طرح اکثر بچے اس کو سچ سمجھ کر جان لیوا اقدامات کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

جب اس گیم کو کھیلتے ہوئے بچہ ایک مرحلہ میں کامیاب ہوتا ہے تو وہ اگلے مرحلے کے لیے کوالیفائی کر جاتا ہے ۔اور اسے پہلے سے زیادہ خطرناک مشن دیے جاتے ہیں ۔جوں جوں گیم آگے بڑھتا ہے ماسٹر بچوں کو مزید خطرناک کام کرنے پر اکساتا ہے جس میں اپنی جلد کو کھرچ کر نیلی وہیل کی شکل بنانا بھی شامل ہوتا ہے ۔اس گیم میں بچوں کو خوفناک ٹاسک دیے جاتے ہیں جیسے ڈراؤنی فلمیں دیکھنا ،ساری ساری رات جاگنا اور خود پر تشدد کرنا، اپنی قابل اعتراض تصاویر پوسٹ کرنا شامل ہیں ۔اگلے مراحل اس سے بھی زیادہ سنگین ہوتے ہیں۔

بچوں کو احکامات دیے جاتے ہیں کہ کسی عمارت کی منڈیر پر چڑھو،اپنی رگیں کاٹ لو یا کسی جانور کو مار دو ۔یہ سب کام کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر اپنے سارے کام پوسٹ کرو تاکہ دوسرے بھی اس گیم کی طرف مائل ہوسکیں ۔اور بچے اس گیم سے احکامات لینے کے اتنے تابع ہوجاتے ہیں کہ وہ بغیر سوچے سمجھے یہ سب کچھ کرنے پر فوراٰ آمادہ ہوجاتے ہیں۔آخری سٹیج سے ذرا پہلے بچوں کو غمگین میوزک سنایا جاتا ہے تاکہ ان میں زندگی سے دوری کا احساس شدت سے جنم لے ۔اور اس طرح آخری سٹیج پر بچوں سے خودکشی کرنے کو کہا جاتا ہے ،اگر وہ انکار کریں تو ان کے خاندان کو مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور ساتھ ہی انہیں مزید بلیک میل کیا جاتا ہے کہ نہ کرنے کی صورت میں ان کی جانب سے پوسٹ کی گئی قابل اعتراض تصاویر کو عام کر دیا جائے گا ۔ یوں کئی بچے خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

اس گیم بلیو وہیل کو ایک اکیس سالہ روسی انجینئر فلپ نے 2013 میں ایجاد کیا۔ جو اس قبل بھی کئی لڑکیوں کو خود کشی پر آمادہ کرتا رہا ہے۔ فلپ نے دوران حراست بتایا کہ اس گیم کے تحت وہ معاشرے کی گندگی کودور کر رہا ہے۔ اس کھیل سے وہ بچے خودکشی کرتے ہیں جو اس معاشرے کے لیے بیکار ہیں۔ اور یہ بچے اپنے مرضی سے خود کشی جیسا انتہائی اقدام اٹھاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں انسان نے اپنی روزمرہ زندگی کے لیے ان گنت آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں بلیو وہیل جیسی خوفناک گیمز بھی آج درد سر بن چکی ہیں۔ اگرچہ کئی ممالک نے گوگل اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز سے اس خون آشام گیم کے لنکس ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

لیکن محض یہ ہی کافی نہیں ہوگا۔ کیونکہ محض لنکس ہٹانے سے وہ سماجی وجوہات ختم نہیں ہوں گی جو بچوں کو اس خونی گیم کی جانب مائل کرنے کا باعث بنی ۔جب تک بچوں کو والدین کی توجہ اور ستائش کی کمی رہے گی وہ ایسی خطرناک گیمز کی جانب با آسانی مائل ہوتے رہیں گے ۔ بلیو وہیل گیم کے خلاف اب امریکہ میں باقاعدہ مہم شروع ہوچکی ہے۔ جبکہ روس میں تو اس گیم کو کھیلنے پر باقاعدہ طور پر گرفتار بھی کر لیا جاتا ہے۔ جبکہ برازیل میں تو بلیو وہیل کے مقابلے میں ’’بیلیا روسا یعنی گلابی وہیل‘‘ نامی گیم لانچ کی گئی۔ جس میں مثبت ٹاسک کے ذریعے بچوں کو زندگی کی اہمیت کو جاننے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں حال ہی میں مردان کے دو لڑکوں نے خود اعتراف کیا کہ کیسے وہ اس خونی گیم کے اسیر ہوئے اور اب اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اب ان لڑکوں کا نفسیاتی علاج جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں ایسے اندوہناک اقدامات کی حوصلہ شکنی کی جائے اور بچوں کو زندگی کی شادمانیوں اور صحت مندانہ سرگرمیوں کی جانب راغب کیا جائے۔

آج کل والدین اپنے بچوں کو مناسب وقت دینے سے قاصر ہوچکے ہیں اور موبائل فون اور انٹر نیٹ ان کے ہاتھوں میں تھما کر خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ والدین کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کو ہر وقت ویڈیو گیمز اور انٹر نیٹ کے استعمال سے باز رکھیں اور ان کو کتاب بینی جیسے صحت مند رجحان کی جانب راغب کریں ۔حکومت پاکستان اس ضمن میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اور ایف آئی اے کے سائبر ونگ کو فعال کرے تاکہ ایسی گھناؤنی سرگرمیوں کو لگام دی جاسکے۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔