عاقل جس کا نام ہے

عاقل جس کا نام ہے
زیتون کے باغ اور قریب چاول کے فصل کی تیاری

عاقل جس کا نام ہے

از، عبدالفتاح سومرو

عاقل گاؤں تحصیل و ضلع لاڑکانہ کا ایک اہم گاؤں ہے، جس نے  بڑے سیاستدان، علماء، ادیب، استادوں اور شعراء کو جنم دیا ہے۔ عاقل گاؤں  کے بارے  میں کہا جاتا ہے کہ یہ تقریبا 2 صدیاں قدیم گاؤں ہے، جو  شیر دریا دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر واقع  ہے۔ عاقل کے بارے میں  یہ  بھی روایت موجود ہے کہ یہ گاؤں  ساتواں  عاقل ہے، اس سے پہلے چھ  عاقل دریائے سندھ کی  بے لاگ طغیانی کے باعث مسمار ہوچکے ہیں۔ موجودہ عاقل لاڑکانہ شہر سے 7 کلو میٹر کے فاصلے پر مشرق کی طرف واقع ہے۔ جو  سن 34/ 1933ع میں  آباد ہوا، جسے ایک منصوبہ بندی  کے تحت ترتیب دیا گیا۔

موجودہ گاؤں کے تین اطراف میں امرود کے باغات ہیں، جب  کہ مشرق کی طرف میں دریا  کا بچاء بند ہے جس کے ساتھ شیر دریا دریائے سندھ اپنی بے لاگ موجوں کے ساتھ موجود ہے۔ عاقل کی طرف جاتے ہوئے دادو کینال کا پل پار کرنے پر  ایسا محسوس ہوگا جیسے ھم   وادی کشمیر  میں  داخل ہو گئے ہوں۔ گاؤں ایک بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے،  جس کو منصوبہ بندی سے بنایا گیا تھا، ہر گلی میں ایک چوراہا  موجودہے، کشادہ گلیاں، نکاسی آب کا انتظام  اور گلیوں میں سی سی بلاک کا  روڈ  بنا ہوا ہے۔ گاؤں  تقریبن ایک ہزار  گھروں  پر مشتمل ہے۔ زمانہ گذرنے کے ساتھ گاؤں کی آدمشماری بڑھتی جارہی ہے۔ لاڑکانہ سے عاقل تک  ایک  سنگل روڈ  اور  ایک بڑا سرکیولر   روڈ جاتا ہے  جو پیپلز پارٹی کے گذشتہ  دور میں   سکہھر  روڈ سے ایک بائی پاس  کی شکل میں عاقل روڈ   سے گذرتا  ہوا کر  لاڑکانہ کے ایئر پورٹ روڈ  اور موھن جو دڑو  روڈ  سے جاکر ملتا  ہے۔

عاقل  قدیم دور سے علم وادب کا مرکز رہا ہے  جس کے مصدقہ شواھد ملتے ھیں۔  جب انگریزوں نے ٹالپور حکمرانوں سے حکومت چھینی تو سندھ میں انہوں نے سرکاری تعلیمی ادارے قائم کرنے شروع کردیے اور انگریزوں نے عاقل گوٹھ کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں ایک ورنیکیولر  اسکول سن 1895ع میں قائم کیا  اور  موجودہ گاؤں میں سن 1939ع میں چار کمروں پر مشتمل ایک پرائمری اسکول کی عمارت بنائی گئی،۔ اسی زمانے میں تعلیمی نظام کو ڈسٹرکٹ کاؤنسل چلاتی تھی۔   اسکول کی اس پرانی  عمارت کو زبون  حالی کی وجھ سے 2012ع ‏میں مسمار کرکے ایک نئی عمارت تعمیر کی گئی ہے۔

سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور حکومت میں پانچ نکاتی پروگرام کے تحت  عاقل گاؤں میں مڈل اسکول یا اے پی کاسز اسکول کو اپ گریڈ کرکے سن 1988ع میں ہائی اسکول کا درجہ دیا گیا اور ساتھ ہی بیسک ہیلتھ یونٹ قائم کیا گیا، واضح رہے کہ اس دور میں شاہ محمد پاشا کھوڑو  وفاقی وزیر تھے اور انہوں نے ہائی اسکول ، اسپتال اور  کالونی کے لیے  اپنی زرعی زمین وقف کردی۔

اب عاقل گاؤں میں  کچھ سالوں سے ایک گرلز پرائمری اسکول اور گرلس ہائی اسکول  بھی قائم کیے جا چکے ہیں۔  گذشتہ دور حکومت میں جب میڈم حمیدہ کھوڑو صاحبہ  سندھ   کی وزیر تعلیم تھی تو انہوں نے ایک ٹیکنیکل اسکول  بھی قائم کروایا تھا۔ عاقل گاؤں کو بجلی  سن 1973ع میں  دی گئی اور ایک لمبے انتظار کے بعد 2010ع میں گئس  کی سھولت بھی دی گئی ۔اس گاؤں میں  پانچ مساجد ہیں، جن میں تین دیوبند مسلک، ایک بریلوی مسلک اور ایک اہل حدیث مسلک کی ہے۔ عاقل گاؤں میں ایک تعلیم القرآن کا مدرسہ بھی ہے، جس میں قاری مولوی امیر محمد کوریجو صاحب گذشتہ تیس برس سے خدمت سرانجام دے  رہے ہیں  اور جامعہ مسجد محمدیہ عاقل  اور عید نمازوں  کی خطابت اور امامت کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں جو جامعہ اسلامیہ اشاعت القرآن والحدیث دودائی روڈ لاڑکانہ کا فارغ التحصیل ہے اور ہر سال کافی تعداد میں حفظہ کرام اس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔

عاقل جس کا نام ہے
عبدالفتاح سومرو، صاحبِ مضمون

عاقل گاؤں نے مختلف ادوار میں بڑے بڑے سیاستدان، علماء، ادیب، شعراءکو  جنم دیا ہے۔ کھوڑو خاندان   اس گاؤں کے وڈیروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔  خان بہادر محمد ایوب کھوڑو  جس کا تعلق  بھی اسی گاؤں سے ہے، جو پاکستان بننے کے بعد  صوبہ سندھ کے  ابتدائی  وزیر اعلیٰ تھے،  اور پچاس سال تک ملک کے سیاسی افک پر چھائے  رہے۔ جبکہ ان کی صاحبزادی  ڈاکٹر حمیدہ کھڑو  ایک بڑی  مدبر،تاریخدان ، محقق اور سیاسی شخصیت رہی ہیں۔ محترم نثار احمد کھڑو جو سندھ کی حالیہ حکومت میں وزیر ہیں، ان  کا تعلق بھی اسی  گاؤں سے ہے۔ عاقل گاؤں کے سومرو خاندان جن کا علم اور ادب میں ایک بڑا نام ہے، ان کا بھی تعلق اسی زرخیز خطے سے  ہے۔جیساکہ مولانا محمد عاقل عاقلی جو ایک بڑے  عالم دین  اور شاعر تھے، اور ان کے صاحبزادے اپنے وقت کے بڑے شعراء اور ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں جن میں مشہور عامہ عبدالفتاح عبد عاقلی، عبدالحق زیب عاقلی، غلام سرور تخلص سرور عاقلی شامل  ہیں۔   عصر حاضر  کے سندھی زبان کے نمائندہ  شاعر  مرحوم سعید میمن، ادیب، تعلیمدان اور کہانی نویس یامین بلوچ، نقاد، تاریخ اور فلسفے کے طالب علم اور ادب دوست شخصیت احسان سومر و   اور فنون لطیفہ کے  قابل ذکر  دلدادہ، ادب دوست، کالم نگار  اور براڈکاسٹر  قاسم کیہر بھی  اسی عاقل سے تعلق رکھتے  ہیں۔

اگر علماء کا ذکر کریں تو یقینا حضرت مولانا علی محمد حقانی صاحب  اور ان کے صاحبزادے شہید علامہ ڈاکٹر خالد محمود سومرو  کا نام بھی  نمایاں طور پر مقدم صفوں میں شامل کرینگے، جن کا تعلق بھی اسی  مردم خیز دھرتی سے ہے۔ حضرت مولانا علی محمد حقانی  اپنے دور کے ایک جید عالم دین تھے،  جس نے ابتدائی تعلیم اسی گاؤں سے حاصل کی اور بعد میں مختلف جگہوں سے تعلیم حاصل کرکے مسلک علماء دیوبند کا ایک بڑا عالم  دین بن کر ابھرے  اور  اسی گاؤں میں دینی تعلیم کا  ایک مدرسہ بھی قائم کیا، جہاں سے شہید اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور وقت  اور ان کی   ھماگیر شخصیت نے انہیں سندہ اور پاکستان کا ایک بڑا خطیب، مبلغ اور مدبر  سیاستدان ثابت کیا۔ جنہوں  نے سندھ کے حقوق کے لیے ایک مضبوط موقف اختیار کیا اور سینیٹ کے فلور پر  سندھ اور سندھیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ۔ اس مرد قلندر کے تعلق کا  اعزاز بھی   اسی  گاؤں  عاقل کو حاصل ہے،  اور ان کی  29 نومبر 2014ع کو نماز کے دوران مسجد کے اندر جام شہادت نوش کرنا بھی یقینا اسی عاقل گاؤں کی  ایک سنہری تاریخ میں مرقوم ہوگا۔

عاقل گاؤں میں امرود کے باغ

عاقل گاؤں میں مختلف قبائل کے لوگ رہتے ہیں،  مثلاً  گاد، کھہڑا،  کلہوڑا، سومرا، بھٹا، میمن، دایا، بلوچ، چنہ، ابڑو، کھوکھر، میرانی، کھرل، کوکاری، کیھر، سید  وغیرہ ۔

لاڑکانہ آج کی طرح ہر دور میں  اپنے مختلف خاصیت کی وجھ سے مشہور رہا ہے۔ قابل ذکر بات ہے کہ جب ملک میں ریلوے نظام ابھی رائج نہیں ہوا تھا اور نہ ہی زمینی  سفر کے لیے  سلامتی اور سہولتیں تھیں، اس وقت  عاقل گاؤں کے قریب  دریائے سندھ کا مشہور عاقل  پتن موجود تھا۔  واضع رہے کہ پتن سندھی  زبان میں ا سی جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے کشتی کے ذریعے  دریا کے دوسرے کنارے جایا جائے۔ تاجر لوگ، سیاح اور سرکاری عملدار  جیساکہ وائسراء، گورنر، کمشنر اور کلکٹر وغیرہ  کشتیوں، لانچوں اور آگبوٹس کے ذریعے سندھو دریاکو عبور کرکے سرکاری  اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے میروں کی ریاست خیرپور سے لاڑکانہ روانا ہوتے تھے، جن کو  جت قوم کے افراد  سرکاری اجرت پر خدمت دیا کرتے تھے، اور ان  خدام کے نام ارباب جت، نور خان جت، جھنڈو خان جت، اور سہراب خان جت تھے، جن کا ذکر متعلقہ کتابوں میں بھی ملتا ہے۔

یہاں چھٹے عاقل میں سرکاری بنگلے بھی بنے ہوتے تھے، جس کی وجہ سے چھٹے عاقل کو بنگلوں والا عاقل کہا جاتا تھا۔ یا کچھ افراد کشتیوں میں سوار ہوکر  گھاڑ واہ کے ذریعے  لاڑکانہ پہنچتے تھے، اس وقت گھاڑ واہ  لاڑکانہ شہر کے بیچ میں سے بہتا تھا اور لاڑکانہ اس وقت ایک اہم تجارتی  شہر کہا جاتا تھا  اور گھاڑ واہ  اس کا  اھم تجارتی رسد کا  راستہ سمجھا جاتا تھا۔

عاقل گاؤں میں امرود کے باغ
گورنمنٹ پرائمری اسکول عاقل

پاکستان بننے سے پہلے اور  بعد میں  گاؤں والوں میں علم کی  روشنی سے منور ھونے کے لیے بڑی بیداری پیدا ہوئی اور نتیجتا  گاؤں کے بچے لکھ پڑھ کر  محکمہ تعلیم  میں استاد مقرر ہوئے، جن میں مرحوم مولا بخش کھوڑو، مرحوم غلام حسین ابڑو، مرحوم قائم الدین کھوڑو، مرحوم جان محمد بلوچ، مرحوم گل محمد بلوچ، محمد ہارون بلوچ، مرحوم حمزہ علی کھوڑو، مرحوم نور محمد دایو، مرحوم شفیع محمد دایو، محمد ابراہیم کھوکھر،  مولوی بشیر احمد مرحوم، غلام مصطفی سومرو، سکندر علی میرانی، نذیر احمد سومرو ، الاہی بخش   گاد، اختیار علی بھٹو، محمد صالح کھوڑو، ارباب علی بھٹو، شکیل احمد میمن کے نام قابل ذکر ہیں۔ اور کچھ افراد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے  دوسرے محکموں میں نوکریاں بھی حاصل  کرلیں، جن میں پروفیسر انجنیئر بدر الحق بلوچ،  سابقہ پروفیسر مہران انجنیئرنگ یونیورسٹی جامشورو، انجنیئر اعجاز احمد گاد ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ انجنیئر  سیپکو لاڑکانہ، موجود ڈی ایچھ او لاڑکانہ ڈاکٹر عبدالرحمن بلوچ، کیپٹن ڈاکٹر محمد علی کھوکھر،  انجنیئر منظور احمد سومرو انجنیئرٹول فیکٹری کراچی، محمد ہارون دایو ہیڈ ماسٹر  گورنمینٹ ہائی اسکول گجن پور لاڑکانہ  اور  راقم الحروف عبدالفتاح سومرو اسسٹنٹ اکاؤنٹس آفیسر   ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیس لاڑکانہ، محمد یعقوب بھٹو  اینگرو فیکٹری  ڈھرکی، سہیل احمد سومرو  پرائیویٹ سیکریٹری سینیٹ آف پاکستان اسلام آباد وغیرہ بھی شامل ہیں۔

گاؤں کے 90 فیصد افراد غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اور کھیتی باڑی کرکے  اپنا اور اپنے بچوں کا گذر سفر کرتے ہیں، جبکہ کچھ افراد مختلف کاروبار بھی کرتے ہیں،  کچھ افراد سردی کی موسم میں امرود کے  باغوں میں مزدوری کرتے ہیں،  یہاں کے کافی افراد  سرکاری  و خانگی سروس کے سلسلے میں یہاں سے نقل مکانی کرکے  بڑے شہروں یعنی ملحقہ شھر لاڑکانہ، حیدرآباد اور کراچی میں منتقل ہوگئے ہیں اور  جبکہ دریائی کچے کے علائقے کے افراد نقل مکانی کرکے عاقل  گاؤں میں آباد ہوگئے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے یہاں قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے  ایک عرصے تک عاقل کی فضا پر خوف کے بادل منڈلاتے رہے اور دریں اثنا  بہت سے لوگوں نے  پھر نقل مکانی کرکے  شہر کا رخ بھی کیا۔ جس سےعاقل  گاؤں کی  شخصی خوبصورتی پر  لازما آنچ  ضرور آئی۔

ہندوستان اور پاکستان  کے علیحدگی  سے پہلے  اس گاؤں میں کئی بنیے یا ھندو بھی رہتے تھے،  جو سارے کے سارے  تجارت کی طرف  مائل تھے،  جن میں ویرو مل، مہرو مل، ڈھیرو مل، آرت مل، سیتل داس، ارجن مل اور پہلاج راء وغيره  کا ذکر بھی اسی عاقل گاؤں کے ذکر میں ضرور آتا ہے۔ اسی  وقت کسی کے ذہن میں ہندو مسلم اور سنی شیعہ جیسی تفرقے والی کوئی بات نہ تھی، سارے مل کے پیار، امن، آسودگی اور رواداری سے زندگی بسر کرتے تھے، جو پیار محبت اور امن  والی زندگی تھی۔

میں اللہ تعالیٰ کے  بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ میرا  گاؤں  جو سرسبز، شاداب اور مہک بھری ہواؤں والا ہے قیامت تک قائم ودائم رہے اور  بھائی چارے والی فضا قائم رہے۔ آمین

References

1:History of Education during Talpur and British period (Ph.D Thesis of Dr, Ghulam Ali Sangi)

(لاڑکانہ شاہ سیبھانہ سندھی)مرتب گل محمد گاد2:

(میرا لاڑکانہ  سندھی)  جیئل را٫ اوڈ 3: