براہِ مہربانی سے خبردار تک

Sheraz Basharat Khan aik Rozan
شیراز بشارت خان، صاحبِ مضمون

براہِ مہربانی سے خبردار تک

شیراز خان

وراثت کی بستی میں اک قلب نامی شخص کے گھر بہت عرصے بعد بچہ پیدا ہوا۔  دادی کی خوشی کسی مقام پر نہ ٹھہرنے والی تھی، گھر گھرجا کر مٹھائی بانٹی۔ چند لمحے بچے کی عادات دیکھنے کہ بعد دادی کہنے لگی “مبارک ہو قلب، تمہارے گھر سیانہ پیدا ہوا ہے”   قلب نے حیرت زدہ ہو کر دوہرایا “سیانہ؟” تو دادی نے کندھے پر ہلکا سا تھپڑ لگا کر کہا   ” پگلے! سیانہ مطلب سیانہ”۔ قلب نے جب رات مطمئن ہو کر اپنا سر سرہانے پر رکھتے ساتھ ہی بیگم کو سرگوشی کی “شعور” تو بیگم نے اپنا سر سرہانے سے اٹھا کر حیرت سے پوچھا “شعور؟”، قلب نے جواب دیا “چھوٹے کا نام شعور رکھیں گے”۔ بیگم یہ سن کر گھٹنوں کے بل بسترے پر آدھی کھڑی ہو کر زور سے چلانے لگی “شعور، مطلب؟” تو قلب نے  تھوڑا اٹھ کر بیگم کو کندھے پر ہلکا سا تھپڑ لگا کر کہا “پگلی، شعور مطلب شعور”۔ اور یہ کہہ کر پاسا پلٹ کر سو گیا۔

شعور وقت کے ساتھ اب بڑا ہو چکا تھا۔ اکثر شعور والدین سے الٹے سیدھے سوال کرتا تو جواب میں ہمیشہ کہا جاتا “براہِ مہربانی یہاں سوال پوچھنا منع ہے”۔ اب اس کے اندر پاکستان کا سفر کرنے کی خواہش نے جنم لیا تو ایک دن سیدھا والدین کے کمرے میں جا پہنچا، آگے کیا منظر دیکھتا ہے کہ ابو جھک کر امی سے کسی بات کی معافی مانگ رہے ہیں۔ شعور جھٹ سے بول پڑا” ابو آپ پہلے امی سے اجازت لے لیں پھر میں آپ سے اجازات لینا چاہوں گا”۔ ابو نے شرمندگی میں پوچھا “بولو بیٹا کس لیے آئے ہو؟”

شعور نے تفصیل کے ساتھ اپنا ارادہ بیان کیا اور یہ جواب لے کر گیا کہ اس پر کل جواب ملے گا۔ اگلی صبح شعور جواب لینے پہنچ گیا۔ قلب: “ہم دونوں کو کچھ خاص خوشی نہیں تیری اس جسارت پر لیکن تجھے روکنے کی حیثیت بھی نہیں رکھتے، لہٰذا تو آزاد ہے پر ایک شرط ہے کہ اس سفر پر تو اپنے ساتھ ایک دوست ضرور لے کر جائے گا”۔ شعور نے پہلے سے اس کی تیاری کر رکھی تھی، اس نے سیٹی ماری تو دوست بھاگ کر سامنے آن کھڑا ہوا۔ قلب نے خوشی سے کہا “ڈر! ارے واہ، شعور اس سے تو بہتر بات ہی نہیں کہ ڈر تمہارے ساتھ سفر پر جا رہا ہے”۔ یوں دونوں اپنا سامان باندھ کر شتابی سے اپنے سفر کو روانہ ہوئے۔  

دونوں لمبے سفر کے بعد ایک جگہ پہنچے جہاں بمقام تختی لگی ہوئی تھی “ایک سال بعد”۔ اس مقام پر ایک بہت خوبصورت اور غیر معمولی اسکول بنا ہوا تھا۔ دونوں نے مشترکہ فیصلہ کیا اور اسکول میں داخلہ لے لیا۔ سو کلاسیں شروع ہو گئیں اور دونوں استقلال کے ساتھ کلاسوں میں اپنی حاضری مکمل رکھتے۔ کلاس میں جب بھی شعور کو سوال آتا تو ڈر، ڈر کے مارے پوچھنے نہ دیتا۔ پر شعور بھی کہاں دب کر رہنے والا تھا آخر ایک دن استاد اوٹ پٹانگ لگا ہوا تھا کہ شعور نے بیچ میں ایک پٹاخا سوال دے مارا۔

استاد آخر استاد ہوتا ہے، جواب تو نہ آتا تھا، لہٰذا استاد جی نے استادی کرتے ہوئے جواب دیا ” براہِ مہربانی یہاں سوال پوچھنا منع ہے”۔ جواب نہ ملنے پر شعور ڈر کو ساتھ لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور اسکول چھوڑ کر اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔

دونوں مستی میں مگن چلتے ہوئے جا رہے تھے کہ ایک مقام آیا جہاں تختی بولتی تھی “دو سال بعد”۔ وہاں  مدرسے کی ایک باکمال عمارت بنی ہوئی تھی۔ شعور نے یہاں داخلہ لینے کا فیصلہ کر لیا، اس فیصلے پر ڈر بغیر کچھ بولے دل ہی دل میں خوش ہوئے جا رہا تھا۔ آخر وہ جانتا تھا کہ یہاں اس کو شعور پر راج حاصل ہونا تھا اور شعور سے کئی زیادہ بڑھ کر اہمیت اور عزت ملنی تھی۔

ایک دن دونوں مدرسے کی سیر کے دوران کیا دیکھتے ہیں کہ رستے میں م صاحب وضو فرما رہے ہیں۔ شعور نے  عادت سے مجبور پھر سوال دے مارا “ارے م صاحب آپ کی ڈاڑھی زمین کو چھو رہی ہے اسے تھوڑا کٹوا کیوں نہیں دیتے” م صاحب یک دم طیش میں آکر بولے “ارے گستاخ!” تو ساتھ ہی ڈر کی ڈر کے مارے چیخ نکل گئی جس پر م صاحب نے فوراً محسوس کیا کے ڈر تو کچھ اپنا ساتھی سا لگتا ہے اور ڈر کی موجودگی کےاحساس میں لہٰذ کرتے ہوئے دھیمے سے لہجے میں بولے “براہِ مہربانی یہاں سوال پوچھنا منع ہے”۔ شعور سمجھ گیا کہ یہاں پر بھی اس کا گزارہ مشکل ہے اور ڈر کے ساتھ وہاں سے بھاگ نکلا۔         

شعور کسی مقام پر بھی دل شکستہ نہ ہوا، بلکہ نہ چاہتے ہوئے بھی ڈر کو اپنے ساتھ سفر میں گھسیٹتا رہا۔ راستے میں دونوں بیشتر مقامات پر رکتے، سال کا تختی بھرا پیغام خریدتے اور ہر مقام پرشعور سوالات پوچھتا،  کبھی کسی دربار میں، کبھی دوستوں کی محفل میں، کبھی مسافر خانے میں، کبھی کسی ٹاک شو پر،  تو کبھی سڑک پر چلتے کسی انجان بندے سے۔ لیکن ہر جاہ ایک ہی جواب ملتا “براہِ مہربانی یہاں سوال پوچھنا منع ہے”

ایک دن دونوں تھکے ہارے ہوئے جا رہے تھے کہ ڈر میں اچانک چستی پیدا ہوئی، غائب سے ایک طاقت آنے لگی اور چہرے پر مسکراہٹ بکھری تو شعور جان گیا کہ اب اس کی منزل قریب ہے۔ چلتے چلتے ایک بہت شاندار عمارت نظر آنے لگی۔ یہ عمارت کے جتنا قریب تھے پہنچتے اتنی ہی وحشت شعور کے دل میں بڑھتی اور ڈر اتنا ہی پھولتا جاتا۔ عمارت کو دیکھ کر یقیں تھا پیدا ہوتا کے بے کراں سرمایہ خرچ ہوا ہو گا اس پر۔ کہ اس کا وہاں ہونا بھی ضروری تھا مگر اتنے شہانہ انداز میں بھی نہیں۔ اس کی اکبریت دیکھ کر نتیجہ واضح ہوتا تھا اور تختی دیکھ کر بھی واضح ہو گیا جہاں بڑا بڑا لکھا تھا “خبردار! یہاں سوال پوچھنا منع ہے۔” جسے پڑھتے ہی شعور یہ اپنی زندگی کا آخری سوال پوچھتے گر پڑا “خبردار؟”۔ شعور کے مرنے پرڈر نے ایک آنسو بہائے بغیر اس کو وہیں سپرد خاک کر دیا۔

عرش پر شعور نے جب آنکھ کھولی تو فرشتوں نے پوچھا “ہاں بھائی دنیا سے کیا سبق حاصل کر کے آئے ہو؟” تو شعور نے جواب دیا “براہِ مہربانی یہاں سوال پوچھنا منع ہے، پہلا سبق، اور دوسرا یہ کہ کچھ جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں ‘براہِ مہربانی’ کی  جگہ ‘خبردار’ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے”۔