شناسائی کا چراغ کہاں ہوتا ہے پائلو کوئیلو

Paulo Koehlo پائیلو کوئیلو
Paulo Koehlo

شناسائی کا چراغ کہاں ہوتا ہے 

ترجمہ از، غلامِ شبیر

(پائلو کوئیلو کی کتاب Manuscript Found in Accra سے اقتباس)

کسی شخص نے کہا:

‘جب ہر چیز تاریک دکھائی دیتی ہے، تو اس وقت ہمیں روح حیوانی سے بلند ہونے کی ضرورت ہوتی ہے: اتنا بلند، کہ روح ہم سے حسن و جمال سے متعلق گفتگو کرنے لگے۔’

اور وہ جواب دیتا ہے:

لوگ کہتے ہیں، ‘داخلی خوب صورتی ہی معنی خیز ہے، نہ کہ ظاہری خوب صورتی۔’

بہ جا طور پر، یہ درست نہیں ہے۔

اگر ایسا درست ہوتا تو پھول شہد کی مکھیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اس قدر خلقی کیمیکلز ریلیز کرنے میں مصروف نہ ہوتے؟

بارش کے قطرے سورج کی روشنی میں خود کو قوسِ قزَح میں نہ بدل لیتے؟ فطرت خوب صورتی پسند ہے اور اتنی ہی فرحت بخش ہو سکتی ہے جب اس خوب صورتی کو باقی رکھا جائے۔

ظاہری بناؤ سنگھار داخلی خوب صورتی کو آشکار کرتا ہے جس کے روشن اظہار ہماری آنکھوں ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اگر ایک آدمی نے بھدا لباس پہنا ہوا ہو یا اس کا لباس ہمارے سلیقہ مند خیال سے مطابقت نہ رکھتا ہو، یا جسے دوسرے لوگوں کو متأثر کرنے کی فکر لاحق نہ ہوتی ہو۔

آنکھیں باطن کا آئینہ ہیں جو پوشیدہ چیزوں کی جھلک دیتی ہیں، ایک ایسے آئینہ کی مانند جو موجودات میں آدمی کے باطن کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس لیے اگر ایک آدمی کسی آدمی کی آنکھوں میں ایک تاریک باطن کا مشاہدہ کرتا ہے تو وہ اپنی ہی بد صورتی کو دیکھے گا۔


آپ کے ذوقِ نظر کے لیے کچھ اور:

سڑک پر تنہا از، از، پائلو کوئیلو   ترجمہ از، غلام شبیر

عام آدمی کے خاص بننے کے زندگی سوز جتن از، پائلو کوئیلو   ترجمہ از، غلام شبیر


خوب صورتی تمام عالَم میں موجود ہے، لیکن اندیشہ ناک حقیقت یہ ہے کہ ہم عالَم میں پھیلی اس خوب صورتی کی توانائی سے بے ربط ہیں۔ اس لیے ہم ذہنی طور پر خود کو دوسروں سے مرعوب کر لیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے باطن کی خوب صورتی کا ابطال کرتے ہیں جسے دوسرے نہ دیکھ سکتے ہیں نہ دیکھنا چاہتے ہیں۔

اپنے باطن کی خوب صورتی کو پسند کرنے کی بَہ جائے ہم زمانے کی روش میں بہہ جاتے ہیں۔ ہم ایسا ہونا چاہتے ہیں جسے دوسرے خوش نما سمجھتے ہیں، اور آہستہ آہستہ ہماری روح مرجھا جاتی ہے، ہمارا ارادہ کم زور ہونے لگتا ہے، اور تمام امکانات جنھیں ہم دنیا کو مزید خوب صورت بنانے کے لیے بَہ ُروئے کار لانا تھے ختم ہو جاتے ہیں۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ دنیا کا اچھے سے اچھا تصور کیا ہو سکتا ہے۔ ہم چاندنی ہونے کا احساس کھو دیتے ہیں اور تالاب کا پانی بن جاتے ہیں جس میں محض چاند کی روشنی منعکس ہوتی ہے۔

کل کو سورج کی روشنی میں تالاب کاپانی بخارات بن کر اڑ جائے گا، اور اس داخلی خوب صورتی کے مرجھانے کے نتیجے میں ایک دن کوئی کہے گا:

‘آپ نا پسندیدہ ہیں۔’

یا،

‘وہ خوب صورت ہے۔’

ان سادہ سے الفاظ سے، وہ ہماری خود اعتمادی چرا لیں گے اور ہم نا پسندیدگی کی تلخی کا ہدف بنتے رہیں گے۔

ایک لمحہ ہم بَہ راہِ نام دانائی میں عافیت محسوس کرتے ہیں، جو ایسے لوگوں کے خیالات کا مجموعہ ہے جنھوں نے دنیا کی اپنے زاویے سے صراحت کی بَہ جائے اس کے وہ زندگی کو حیرتوں کے زاویے سے دیکھتے۔

یہ بَہ راہِ نام دانائی غیر ضروری اصولوں، ضابطوں اور ایسے پیمانوں پر مبنی ہے جن کا مقصود قطعی اطوار کا جواز پیدا کرنا ہے۔

اس جعلی دانائی کے پرچاریوں کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں خوب صورتی سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہیے وہ اس لیے کہ یہ سطحی اور عارضی ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔

تمام وجود جو آسمان کے نیچے وجود میں آئے ہیں، پرندوں سے لے کر پہاڑوں تک، پھولوں سے لے کر دریاؤں تک تخلیق کے عجائبات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔

اگر ہم بَہ راہِ نام دانائی یعنی لوگوں کے زاویے سے نہیں سوچتے کہ ہم کون ہیں، اسی صورت ہی میں ہم فطری دانائی کی روشنی سےاپنے مَن میں اجالا کر سکتے ہیں۔

محبت ہمارے پاس سے گزرتی ہے اور کہتی ہے:

‘میں نے پہلے کبھی بھی آپ کو نہیں دیکھا۔’

ہمارا من جواب دیتا ہے بَہ جا طور پر ایسا ہی ہے، آپ کی خیر ہو، میں یہاں ہوتا ہوں۔ بہ راہِ مہربانی مجھ پر نظرِ کرم کریں۔

تب محبت آپ کی آنکھوں سے زمانے کی گرد اڑا لے جانے کے واسطے اپنے احساس کی نرم و ملائم، تازہ ہوا لاتی ہے، جس پر من التجا کرتا ہے اب جب کہ آپ نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا ہے، تو مجھے چھوڑ کر نہ جانا، وہ اس لیے کہ ہم سب کی تمنا خوب صورتی کی ہے۔

خوب صورتی میں مطابقت نہیں ہے بل کہ اختلاف ہے۔ کون کسی زرافے کو اس کی لمبی گردن اور کسی کیکٹس پودے کا کانٹوں کے بہ غیر تصور کر سکتا ہے؟

ڈھلتی چڑھتی بے ترتیب پہاڑ ی چوٹیوں کے تأثر نے ہمیں چاروں اطراف سے گھیرے ہوتا ہے۔ چوٹیوں کے سلسلے میں یہ اختلاف نہ ہوتا تو کبھی بھی اپنا تأثر ہم پر نہ چھوڑتیں۔ اگر ہم انھیں ایک جیسا بنانے کی کوشش کرتے، تو ان کی کشش میں اتنی کشادگی نہ ہوتی۔

یہ ادھورا یا اختلافی پن ہی ہوتا ہے جو ہمارے لیے حیرت یا کشش کا باعث ہوتا ہے۔

جب ہم بلند قامت دیودار درخت کو دیکھتے ہیں، ہم یہ نہیں سوچتے: ‘اس کی شاخیں لمبائی میں ایک جیسی ہونی چاہییں۔’

ہمارے ذہن میں رہ رہ کر یہ خیال آتا ہے: ‘یہ کس قدر مضبوط ہے۔’

جب ہم سانپ کو دیکھتے ہیں، ہم کبھی بھی یہ نہیں کہتے: یہ تو راستے کنارے رینگ رینگ کر چل رہا ہے، جب کہ میں سر اٹھا کر چل رہا ہوں۔’ بل کہ ہم یہ سوچتے ہیں: چاہے یہ چھوٹا سا ہے، مگر اس کی جلد رنگ بہ رنگی، اس کی حرکات خوش ادا ہیں، اور مجھ سے زیادہ طاقت ور ہے۔’

جب اونٹ ریگستان عبور کر کے ہمیں مطلوبہ جگہ تک پہنچاتا ہے، ہم کبھی نہیں کہتے:’ یہ کُبڑا ہے اور اس کے دانت بد صورت ہیں۔’

ہمارےدل میں احساس پیدا ہوتاہے: ‘وہ اپنی وفا داری اور معاونت کی وجہ سے میری شفقت و الفت کا مستحق ہے۔ اس کے بہ غیر، میرے لیے ریگستان اور اس سے پرے کی دنیا ان دیکھی ہی رہتی۔’

غروب ہوتا سورج سدا سے ہی بہت خوب صورت ہوتا ہے؛ خاص طور پر اس وقت جب یہ بے ترتیب شکل کے بادلوں میں گِھرا ہو، یہی وہ حالت ہے جب مختلف رنگ ان بادلوں سے چھن چھن کر آسمان پر پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جس سے خواب اور شاعری کی دنیا آراستہ ہے

ان لوگوں پر رحم آتا ہے جو سوچتے ہیں: ‘میں خوب صورت نہیں ہوں۔ اس لیے محبت نے میرے دل کے دروازے پر دستک نہیں دی۔’

در حقیقت محبت نے دستک دی انھوں نے دروازہ بھی کھولا پر محبت کو دل کے آنگن میں اترنے نہ دیا۔

وہ عمر بھر دوسروں کے منظورِ نظر بننے میں مصروف رہے اور یوں اپنے اندر چھپی ایک دل کش شخصیت کی شناسائی سے محروم رہے۔

وہ دوسروں میں اپنا آپ تلاش کرتے رہے جب کہ محبت ان میں خاص کی متلاشی تھی۔

وہ اپنے سے باہر کی روشنی کو سب کچھ سمجھتے رہے اور اس بات کو بالکل ہی فراموش کیے رکھا کہ شناسائی کا چراغ ان کے باطن ہی میں جلتا ہے۔