سقراطی طنز ڈبلیو ٹی سٹیس

socrates سقراطی طنز
سقراط Image: ethics.org.au

سقراطی طنز ڈبلیو ٹی سٹیس

(A Critical History of Greek Philosophy by W.T Stace  سے ایک اقتباس)

ترجمہ از، غلامِ شبیر 

سوفسطائیوں کے سچائی اور بھلائی کے معیارات کے خاتمے سے متعلق جو استدلال پیش کیے تھے اس کے کچھ ہی عرصے بعد ایتھنز میں فلسفے کے ایک اور استاد سقراط منظرِ عام پر آئے۔ ان کی قسمت میں تھا کہ وہ سچائی اور بھلائی سے متعلق معیارات کی تجدید کریں اور عقلِ سلیم کی زندگی کے بے ترتیب شعوری کاموں سے شناسائی کرا سکیں۔

سقراط 470 قبلِ مسیح میں ایتھنز میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مجسمہ ساز اور ماں جنائی دائیہ تھی۔ ان کی ابتدائی زندگی اور تعلیم سے متعلق بہت کم معلومات ہیں۔

وہ اپنے والد کا پیشہ بہ طور مجسمہ ساز اپنانا چاہتے تھے۔ بعد کے سالوں میں ایتھنز میں Acropolis قَلعہ میں چند مجسمے نمایاں کیے گئے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سقراط ہی کا تخلیقی کام تھا۔

پر اں کے مقابلے میں اپنی ابتدائی زندگی میں ہی انھوں نے اپنا پیشہ اس لیے ترک کر دیا کہ وہ خود کو اس چیز کے لیے وقف کر سکیں جسے وہ اپنا مقصدِ حیات سمجھتے ہیں یعنی فلاسفی کے لیے۔

انھوں نے تمام زندگی ایتھنز ہی میں گزاری۔ اسے کبھی نہ چھوڑا سوائے قلیل متعدد کے تین موقعوں پر جو انھوں نے ایتھنز کی فوج میں فوجی مہمات میں گزارے۔ ایتھنز میں بیس سے تیس سال کا عرصہ انھوں نے اپنے فلسفیانہ مقصد کی جاں فشانی میں گزارا۔

ان پر قومی دیوتاؤں کے انکار، اپنی مرضی کے دیوتا تخلیق کرنے، اور ایتھنز کی نوجوان نسل کو گم راہ کرنے کے الزامات لگائے گئے۔ ان الزامات کے نتیجے میں انھیں موت کا سزا وار ٹھرایا گیا اور مار دیا گیا۔

سقراط کی ظاہری شکل و صورت دل کش نہ تھی۔ وہ پَستہ قد، جسامت میں بھاری اور اچھی شکل و صورت کے مالک نہ تھے۔ جیسے ہی ان کی عمر بڑھی ان کے سر کے بال اڑ گئے؛ ان کی ناک چوڑی، ہم وار اور اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔ وہ مخصوص ادا سے چلتے اور اپنی آنکھوں کو گھمانے کا کرتب جانتے تھے۔ ان کے کپڑے پرانے اور بوسیدہ ہوتے تھے۔ وہ اپنی ظاہری صورت پر بہت کم یا بالکل بھی توجہ نہ دیتے تھے۔

سقراط کا ماننا تھا کہ ایک ما فَوق الفطرت آواز ہے جو انھیں زندگی کا راہِ عمل اختیار کرنے میں رہنمائی دیتی ہے، جسے وہ اپنی “غیبی آواز” کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ آواز انھیں ارادہ کیے گئے اعمال کے اچھے برے نتائج بارے پیشگی آگہی دلاتی ہے اور کوئی بھی چیز اس آواز کی حکم عدولی کی طرف مائل نہیں کرتی۔

سقراط نے کوئی فلاسفی ترتیب نہیں دی؛ بہ الفاظِ دیگر کسی قسم کا فلسفیانہ نظام نہیں دیا۔ وہ فلسفیانہ رجحانات و مَیلانات اور اس کے طریقے کے مصنف تھے۔ وہ اپنی آراء کو تحریر میں کبھی نہیں لائے۔


متعلقہ تحریر:

انتقادی و اجتماعی ضمیر کے نمائندے اخلاقی فلسفے کاظہور   از، پروفیسر محمد حسین چوہان


ان کا فلسفیانہ طریقہ خالصتاً مکالماتی تھا۔ ان کا معمول تھا کہ وہ روزانہ ایتھنز کے بازار میں یا کسی ایسی جگہ پر جاتے جہاں لوگوں کا مجمع ہوتا اور وہاں کسی ایسے آدمی سے گفتگو میں مصروف ہو جاتے جو ان سے بات کرنے کے لیے تیار ہوتا۔

دورانِ گفتگو زندگی اور موت سے متعلق گہرے مسائل زیرِ گفتگو رہتے۔ امیر ہو یا غریب، جوان ہو یا بوڑھا، اپنا یا بے گانہ جو بھی ہوتا وہ اس مکالمے میں بہ راہ راست شرکت کرتا اور ہر قسم کے فکری بندھن سے آزاد ہو کے سقراط کی گفتگو سنتا۔

وہ سوفسطائیوں کے بر عکس کام کی کوئی اجرت نہ لیتے۔ غالباََ یہی وجہ تھی کہ وہ عمر بھر سفید پوش رہے۔ وہ سوفسطائیوں کو لمبی لمبی، شکایت آمیز تقریروں اور ان کی خود کلامیوں کی وجہ سے نا پسند کرتے تھے۔

دورانِ مکالمہ وہ زیادہ گفتگو کرنے پر مُصر نہ رہتے اور جب مکالمہ نہ ہوتا تو وہ کسی فلسفیانہ موضوع پر سَیر حاصل گفتگو کرتے۔

سقراط گفتگو میں سوالات اور آراء کو جگہ دیتے ہیں۔ تاہم سدا سے گفتگو میں گرو کا سا مقام رکھتے ہیں اور اسے سِیر حاصل رستوں کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ گفتگو خصوصاََ طریقۂِ سوال جواب کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔

سقراط تیکھے سوالات کے ذریعے سکھاتے ہیں، یوں شریکِ گفتگو ساتھی کے خیالات کی از سرِ نو احیاء کرتے ہیں، دلیل کے ذریعے ان کی اصلاح یا بڑھاوا دیتے ہیں۔

اپنے معمول کے کام میں، سقراط بلا شبہ خود کو ایک ایسے مشن میں مصروف رکھے دکھائی دیتے ہیں جو کسی ما فَوق الفطرت قوت کے زیرِ اثر ہے۔

یہ مقصد کیا تھا اس کا اندازہ ہمیں افلاطون کی لکھی Apology of Socrates سے ہوتا ہے جس سے سقراط کے الفاظ سے کا پتہ چلتا ہے: Chaerephon جو سقراط کے وفادار دوست تھے ان کے بارے بتاتا جاتا ہے: انھوں نے Delphi سفر کیا اور یہ سوال بڑی بے باکی سے غیبی آواز سے پوچھا۔

انھوں نے یہ سوال کیا کہ کیا سقراط کے علاوہ ایتھنز میں کوئی دوسرا گیانی یا دانا بھی ہے۔ اور اس پر راہبہ نے جواب دیا: نہیں

اس پر سقراط نے کہا، “جب میں نے یہ جواب سنا تو میں نے سوچا اس سے غیبی قوت کا کیا مطلب ہے؟ اس کا کیا اشارہ ہو سکتا ہے؟ بلا شبہ میں نے خود کو کسی سے بڑا یا چھوٹا خیال نہیں کیا۔ تو پھر اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے٬ جب وہ غیبی آواز وثوق سے کہتی ہے کہ میں سب سے دانا آدمی ہوں، بلا شبہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتی: یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ طویل دنوں تک مجھے سمجھ نہ آئی کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ آخرِ کار بہت غور و خوض کے بعد میں نے یہ راستہ کچھ اس طرح شروع کیا۔

“میں نے خود کو ایک ایسے آدمی کے طور پر ڈھال دیا جو دانا دکھائی دیتا ہے، یہ سوچتے ہوئے کہ اگر کوئی ایسا گیانی یا دانا یہاں یا کسی بھی جگہ ہے، تو مجھے چاہیے کہ آواز کے اس بول کو مسترد کر دوں اور اس غیبی آواز کو یہ کہوں:

‘یہ آدمی مجھ سے زیادہ دانا ہے اور تم نے کہا تھا کہ میں سب سے زیادہ دانا ہوں،

اور ایسا ہوا کہ میں نے کسی آدمی میں یہ دانائی دیکھی۔ ضروری نہیں کہ اس کا نام لیا جائے۔’

“یہ ہمارےشہریوں میں سے ایک تھا، ایتھنز کے لوگوں میں سے ایک، جس کے ساتھ مجھے اس قسم کا تجربہ ہوا۔ جب ہم نے ایک دوسرے سے باتیں کیں تو مجھے خیال آیا کہ یہ آدمی کئی آدمیوں سے زیادہ دانا دکھائی دیا، اور سب سے بڑھ کر اپنی ذات میں ایک دانا آدمی۔ لیکن وہ ایسا نہیں تھا۔ پھر میں نے اس اظہار کو سمجھنے کی کوشش کہ وہ ایک دانا آدمی ہے۔ لیکن جہاں تک میں سمجھ پایا وہ دانا نہیں تھا۔ تب وہ میرے ساتھ غصے ہو گیا اور جو مجمع سن رہا تھا وہ بھی پُر غضب ہو گیا۔

“میں وہاں سے چلا گیا اور میں نے سوچا:

‘بہ جا طور پر کم از کم میں اس آدمی سے دانا ہوں: غالباً ہم میں سے کوئی بھی خوب صورتی اور بھلائی سے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا۔ لیکن جب وہ کچھ نہیں جانتا تو وہ سمجھتا کہ وہ جانتا ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے جب مجھے کچھ معلوم نہیں ہوتا، تو میں ہر حال میں یہ نہیں سمجھتا کہ میں جانتا ہوں۔

“پھر مجھے ایسے لگا کہ میں اس آدمی سے تھوڑا بہت ذہین آدمی تھا۔ بہ جا طور پر میں یہ نہیں سمجھتا کہ میں ایسی چیزوں کے بارے میں جانتا ہوں جن کے متعلق مجھے کچھ بھی پتا نہیں۔

“اس کے بعد میں ایک اور ایسے آدمی کے پاس گیا جو بالکل دانا دکھائی دیا اور ٹھیک ویسا ہی تجربہ پایا۔

“پھر وہ بھی میرے ساتھ باتیں کرتا کرتا غصے ہو گیا۔ اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی پُر غضب کر دیا۔ چُناں چِہ میں مجمع میں کھڑے ایک کے بعد دوسرے آدمی کے پاس گیا یہ جاننے کے لیے کہ وہ اتنے پُر غضب کیوں ہو گئے ہیں۔ پھر ان سے معافی کا طلب گار ہوا اور یہ جان کر خوف زدہ ہو گیا کہ وہ مجھے نفرت کے قابل سمجھتے تھے۔”

کسی بھی بحث و مباحثہ میں، سقراط کا ایک اصول تھا کہ وہ کسی بھی معاملے میں خود کو مطلق لا علم سمجھتے تھے اور بحث میں شامل فریق سے اس کی دانائی سیکھنے کی طلب میں رہتے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی لا علمی محض دکھاوا نہیں تھا۔ وہ حقیقتاً اس نظریے سے متأثر تھے کہ نہ صرف وہ بل کہ دوسرے لوگ بھی چیزوں کے بڑے حصے جاننے سے لاعلم رہتے ہیں، جن کی جان کاری بہت اہم ہے جن میں بھلائی، خوب صورتی اور سچائی کی حقیقت چند اہم ہیں۔

ان کا ماننا تھا دانا کے خود ساختہ علم کا بڑا حصہ خود نمائی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس کے با وجود، وہ لا علمی کے اس کام کو آلۂِ استحصال کے طور پر استعمال کرتا ہے، اور یہ اس کے ہاتھوں میں ایک طاقت ور خطیبانہ آلہ بن جاتا ہے۔ جسے وہ خاص طور ایسے لوگوں کو متأثر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جن کے اذہان خود ساختہ دانائی اور اپنی تعریف سے بھرے ہوئے ہیں۔ جو صاحب علم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جس کی ان میں اہلیت نہیں۔

اس قسم کا کھوکھلا علمی دعویٰ سقراط کے ہاں غیر متوقع علمی نمائش ہے۔ ایسا خود ساختہ دانا آدمی بحث و مباحثہ میں شامل لوگوں کے ساتھ اپنی ہی جہالت کا، جن کے متعلق وہ خیال کرتا ہے کہ وہ ان سے دانائی سیکھ سکتا ہے اپنی اس سیکھنے کی خواہش کے اظہار کا کھوکھلا دعویٰ کرتا ہے۔

اپنی علمی نمائش کی تمنا میں، وہ مضبوط دعوے کرتے کرتے بد دیانت ہو جاتا ہے۔ سقراط کو اس بحث و مباحثہ سے خوشی ہوئی، پر انھوں نے اظہار کیا کہ ایک دو باتیں انھیں مطلق سمجھ نہ آئیں۔ وہ چند تیکھے سوالات لے کر آگے بڑھے تا کہ ملے جوابات کے کھوکھلے پن، ہلکے پن اور ان کے جِہل کو کھولا جائے۔

خصوصاً یہ ایتھنز کے نو جوان لوگ تھے جو سقراط کے گرد جمع ہو گئے۔ ان کے لیے سقراط فہم و ادراک کے ارتقاء اور تحریک کی بنیاد تھے۔ یہی وہ سماجی بے زاری کا کام تھا جسے ان پر اس اعتراض کی بنیاد بنایا گیا کہ وہ “نوجوان نسل کو گم راہ کر رہے ہیں۔”

وہ کردار کے عالی اور سادہ گزران کرنے والے تھے۔ دانائی کے اس کام کا وہ کوئی معاوضہ نہ لیتے، اس لیے ان کی جمع پونجی کچھ نہ تھی۔ سفید پوش، دنیاوی جاہ و حشمت کو خاطر میں نہ لانے والے تھے۔ معمولی ضرورتوں اور خواہشات پر مکمل قانع، وہ نظر و فکر کی تحصیل میں خود کو مطلق وقف کیے ہوئے تھے، جس میں دانائی اور بھلائی کی قدر تھی۔ انھیں ثابت قدمی اور اخلاقی ہمت عطا کردہ تھی۔

جب وہ Peloponnesian کی جنگ میں فوج کے ساتھ تھے، تو انھوں نے اپنی دلیری اور ہر مصیبت کے سامنے اپنے دل کش استقلال سے اپنے ساتھی فوجیوں کو حیرت میں ڈا ل دیا۔ دو موقعوں پر انھوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنے ساتھیوں کی جان بچائی۔

کہا جاتا ہے کہ Delium کی جنگ میں یہ سقراط ہی تھے جنھوں نے ایتھنز کی طرف پیش قدمی کی۔ وہ بہت اچھے ساتھی تھے جن کی عادتیں بہت سادہ تھیں، اسبابِ زندگی کے پورا کرنے میں مطلق خود مختار، کبھی بھی اپنی اس خود مختاری میں کسی قسم کی تنگ دستی بارے متفکر نہیں ہوئے اور نہ ہی اسے بے رحم درویشانہ ذلت کی نظر کیا۔

اس طرح انھیں شراب کی طلب نہ ہوتی، بہ جائے اس کے اگر کوئی موقع میسر ہو، تو وہ نہ صرف پیتے بل کہ بالوں کو گھمائے مے کدہ میں موجود کسی بھی دوسرے آدمی سے زیادہ پیتے۔

افلاطون کی Banquet کے مطابق سقراط رات گئے تک بیٹھے شراب پیتے اور دوستوں سے فلسفہ پر گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ایک کر کے مقیم مے کدہ سے چلے جاتے صرف سقراط اور ان کے دو ساتھی رہ جاتے۔ بِالآخر صبح ہو جاتی، وہ دو بھی سو جاتے۔ لیکن سقراط جاگتے رہتے۔

پھر وہ اپنا مُنھ ہاتھ دھو کر نیچے بازار میں چلے جاتے تا کہ اپنے معمول کے کام کا آغاز کر سکیں۔

ان کی عمر کے سترہویں سال ان پر یہ تین اعتراضات لگائے گئے:

(1) قومی دیوتاؤں کا انکار کرنا

(2) اپنے مرضی کے دیوتا بنانا

(3) نوجوان نسل کو گم راہ کرنا

جو تمام بے بنیاد تھے۔

پہلا اعتراض جو انھوں نے کیا وہ تو ابتدائی یونانی مفکرین کی فکر کے بھی خلاف تھا، جن کی فکر سچائی کا آئینہ دار تھی۔

ان میں سے بہت سے ریاستی مذہب پر یقین نہ رکھتے تھے، اور بہت سے کھلے عام ان دیوتاؤں کے وجود سے انکار کرتے تھے۔

اب سقراط تنِ تنہا اس ریاستی مذہب یا دیوتاؤں سے رُو گردانی کیے ہوئے تھے۔ اس کے بر عکس وہ مقامی دیوتاؤں کی تعظیم کی ہدایت کرتے، اور مجمع میں شامل لوگوں کو تحریک دلاتے کہ وہ جس شہر سے بھی تعلق رکھتے ہیں، اس شہر کے رواج کے مطابق ان دیوتاؤں کی تکریم کریں۔

ایتھنز کے ملٹری لیڈر، فلسفی اور تاریخ دان Xenophon نے دیوتاؤں کے درمیان امتیاز کو واضح کیا اور یہ نظریہ دیا کہ کائنات کا ایک خالق ہے جو تمام انسانوں کی زندگیوں کو گھیرے ہوئے ہے، ان کی رہنمائی اور حفاظت کرتا ہے۔

دوسرا اعتراض سقراط کے اس دعوے کی بنیاد پر کیا گیا جب انھوں نے یہ کہا کہ ما فَوقُ الفطرت غائبی آواز زندگی میں ہماری رہنمائی کرتی ہے، چاہے ہم جو بھی اس دعوے کے بارے سوچیں، یہ نئے دیوتاؤں کو متعارف کرنے کے الزام کے لیے بہ مشکل ہی ایک بنیاد دیتا ہے۔

تیسرا الزام، نوجوان نسل کو گم راہ کرنے کا تھا، جو ویسے ہی بے نیاد تھا۔ اگر چِہ یہ حقیقت ہے کہ سقراط کے لاڈلے شاگرد Alcibiades ایتھنز کے باغیوں میں شامل ہو گئے تھے، اور ایک آوارہ اور بد اطور زندگی کی طرف راغب تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں ایتھنز والوں کے نزدیک فلسفی کے لیے تعصب تھا، لیکن سقراط Alcibiades کے ان بد اعمالیوں کا ذمے دار نہ تھے اور ان کا ایتھنز کی نئی نسل پر عمومی اثر گم راہ کرنے سے یک سر تبدیل تھا۔

ان الزامات کی حقیقی وجوہات کیا تھیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سقراط نے کئی ذاتی دشمن بنائے۔ اپنے معمول کے بحث و مباحثہ میں انھوں نے ایتھنز کے انتہائی طاقت ور آدمیوں کو بھی نہ چھوڑا، بل کہ بڑی بے دردی سے ان لوگوں کی جہالت کو عیاں کیا جو دانا ہونے کے دعوے دار تھے۔

تاہم یہ نا قابلِ یقین ہے جنھوں نے الزامات لگائے وہ Melitus، Lycon، اور Anytus تھے جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے بہ غیر کسی ذاتی عداوت کے یہ الزام لگائے۔ حقیقت میں وہ کم ظرف انسان تھے۔ جو با اثر لوگوں کے ذریعے آگے لائے گئے جو اس صورت حال کے پسِ منظر میں تھے۔

دوسری بات یہ ہے کہ سقراط نے خود کو ایتھنز کی جمہوریت کے لیے وقف کر دیا۔ وہ اپنے احساس میں مغرور انسان نہ تھے، نہ ہی وہ چنیدہ لوگوں کے مفادات اور ان کے حقوق کے حامی نہ تھے۔ لیکن انھوں نے جمہوریت کے نام پر عوام پر حکم رانی کو قبول نہ کیا۔

ان کا ماننا تھا کہ حکومت دانا، منصف، بھلے آدمی کے ہاتھ میں ہونی چاہیے، لائق اور تربیت یافتہ لوگوں کے ہاتھ جو حکومت کر سکیں، اور ایسے لوگ گنتی کے برابرہیں۔

انھوں نے اپنے وقت کی سیاست میں کوئی حصہ نہ لیا، اپنے تأثر اور رائے سے جوان آدمیوں کی رہ نمائی کو ترجیح دی، جن کے کندھوں پر ایک دن حکومتی فرائض کی انجام دہی ہو گی۔

صرف دو مواقِع پر انھوں نے سیاست میں گرم جوشی سے حصہ لیا اور انھی دو مواقع پر ان کی رائے پر جارحانہ رویہ اختیار کیا گیا۔ یہ دونوں واقعات افلاطون کی “Apology” میں مفصل بیان ہوئے ہیں جو یہ ہیں۔

پہلا واقعہ Arginusae کی جنگ کے بعد کا متذکرہ ہے۔

Athenian fleet کو فتح حاصل ہوئی، لیکن جنگ میں پچیس بحری جہاز کھو بیٹھے اور ان جہازوں کا تمام عملہ ڈوب گیا، جو جرنیلوں کی بے احتیاطی کا نتیجہ تھا اور اس غفلت پر پورا ایتھنز غیظ و غضب میں تھا۔

پژ مُردہ جرنیلوں کی واپسی پر ان کا ٹرائل کیا گیا۔ ایتھنز کے قانون کے مطابق ہر ملزم کو علیحدہ سزا دی جاتی تھی، لیکن قصور وار جرنیلوں کو خوش کرنے کے لیے، ججوں نے جرنیلوں کی تمنا میں فیصلہ ان کی اجتماعی سزا کے طور پر کیا۔ Apology  میں سقراط کہتے ہیں، “ایتھنز کے لوگوں تم جانتے ہو میں نے رہاست میں کسی دوسرے کا دفتر استعمال نہیں کیا، بل کہ میں نے کونسل میں رہ کر ہی کام کیا اور ایسا ہوا کہ میرا قبیلہ Antiochis اس وقت ریاست کی زیرِ نگرانی تھا جب فیصلہ ہوا کہ ساحل پر لڑائی کے بعد عملے کو موت کے مُنھ ڈالنے والے دس جرنیلوں کو بہ جائے اس کے انھیں انفرادی سزا کا قصور وار ٹھہرایا جاتا، قانون کے بر عکس ان کی اجتماعی سزا کا فیصلہ کیا گیا۔

“اس موقع پر میں اپنے خاندان میں سے واحد تھا جس نے اس فیصلے کی مخالفت کی اور کہا قانون کو کو پامال نہ کیا جائے اور اس فیصلے کے خلاف ووٹ دیا، اور جب خطیبوں نے مجھے قصور وار ٹھہرانے اور گرفتار کرنے کی کوشش کی، آپ نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور مجھے دُھتکارا، تب میں نے یہ ارادہ کر لیا کہ قانون اور انصاف کی خاطر ہر خطرے کا سامنا کروں، بَہ جائے اس کے آپ کی طرح ایک جانب ہو جاؤں حالاں کہ کہ آپ کے فیصلے نا انصافی، قید میں ڈالے جانے یا موت کے خوف کے زیرِ اثر ہیں گو کہ اَیتھنز میں جمہوریت تھی جب اُمَراء کی حکومت طاقت میں آئی، حکومت میں آتے ہی مجھے اور میرے ساتھ چار آدمیوں کو Rotunda میں گرفتار کرنے کا حکم دیا اور حکومتی حکم جاری کیا کہ Leon of Salamis کو اپنے ذریعے سے جزیرے سے لے آئیں، تا کہ اسے موت کے گھاٹ اتارا جائے، اس قسم کا حکم انھوں نے اور بہت سوں کو جاری کیا، وہ اتنے بپھرے ہوئے تھے کہ انھوں نے جس پر چاہا اس پر فردِ جرم عائد کر دیا۔

“اور اس موقع پر میں نے نہ صرف الفاظ کے ذریعے کہا کہ مجھے بے دردی سے مار دو، مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ بل کہ جس چیز کی میں نے پروا کی وہ حکومتی اُمَراء کی نا انصافی اور خرابی تھی۔

“مجھے اس بات کا خوف نہ تھا کہ میں کچھ غلط کر رہا ہوں، جب کہ حکومت طاقت میں تھی؛ جب ہم نے Rotunda کو چھوڑا، میرے ساتھ کے چار Salamis بھیج دیے گئے، لیکن میں گھر واپس آ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ اس حکم عدُولی پر مجھے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا، بہ جائے اس کے حکومت اس بارے پوچھ گچھ کرنے میں جلدی نہ کرے۔”