فلاح پا جانے والے شاعر

Emran Azfar

فلاح پا جانے والے شاعر

از، عمران ازفر

تصنیف حیدر کا مصنّفہ مضمون پاکستان کی معروف ویب گاہ ہم سب پر چند روز قبل پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس مضمون میں صاحبِ مضمون نے اپنی گذشتہ شاعری سے لا تعلقی کا اعلان کیا۔


میں ایک عورت دشمن شاعر رہا ہوں


مضمون کے پڑھتے ہی کئی طرح کے سوالات ذہن کے نہاں خانوں میں گردش کرنے لگے۔ اُسی وقت اس موجودہ راقم نے یہ متحرک مشینی چرخہ تھاما اور آنکھوں میں پڑتی روشن سے مقابلہ کرتے ہوئے، تصنیف کے مضمون پر اپنی دانست میں رائے دی۔

تصنیف حیدر اردو شعر و ادب کی معاصر پِیڑھی کا اہم حوالہ ہیں۔ یہ وہ پود ہے جو اکیسویں صدی کے طلوع کے بعد ادبی منظر نامے پر اپنی شناخت کے نشانات تخلیق کرنا شروع کرتی ہے جن میں سے تصنیف حیدر نے خود کو ایک جینوئن اور اچھے تخلیق کار کے طور پر منوایا ہے۔

اردو زبان و ادب کی معروف ترین ویب گاہ ریختہ کے بنیاد گزاروں کی اگلی صفوں میں شامل تصنیف شعر کہتے ہیں، فکشن لکھتے ہیں، ادبی دنیا کے نام سے پرچہ مرتب کرتے ہیں اور سب سے اہم سماجی سیاسی زندگی پر کھل کر اپنی رائے دیتے ہیں۔

جون دو ہزار اکیس سے پہلے تصنیف حیدر کے لیے عورت اور عورت کا حصول سب سے اہم موضوعات میں سے ایک موضوع اور سب سے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ رہا ہے۔ مگر اپنی اس تحریر میں وہ خود سے رجوع فرمانے کی نشان دہی کر رہے ہیں اور عورت کے سماجی تفاعل میں انقلاب لانے کے خواہاں ہیں۔

وہی تصور جو ان کی نظم و نثر میں غالب رہا، مگر اہم سوال یہ ہے کہ گذشتہ عشرے میں تصنیف نے جس طرح عورت کو دیکھا، تخلیق کیا اور لوگوں کے سامنے پیش کیا، زمانے کی روش کے مطابق وہی عورت کا مستند تصور ہے یا تصنیف خود جنسیاتی مُنھ زور عمر کے عہد میں اس صنفِ لطیف کو اپنی ضرورت کی آنکھ سے دیکھتے رہے ہیں؟ یہی ہمارا مفروضہ ہے جس پر مضمون میں بات کی جائے گی۔

تصنیف حیدر کے شعری و نثری اُسلوب کی خوبی روانی اور اثر انگیزی ہے۔ ہاں کبھی کبھار وہ جذبات کی رو میں کچھ ایسے بہہ جاتے ہیں کہ ان کے مصنفہ متون میں زبان سوقیانہ اور عامیانہ رنگ اختیار کر لیتی ہے۔

ایک جذباتی انسان اپنی زندگی میں عموماً کوئی بھی کام کرتا ہے تو جذبات کے سیلِ بے سمت میں بہہ کر کرتا ہے۔ عقل، توازن، دلیل، معروضی حالات، روایتی تدریج اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے کیوں کہ وہ کسی بھی کام سے پہلے اپنی دلیل گھڑتا ہے، پھر اسی گھڑی ہوئی دلیل کے درست ہونے کا خود کو یقین دلاتا ہے۔ اپنے اطراف موجود افراد کو اس دلیل میں شریک کرتا ہے، خود مُکتفی مکالمے سے سب کے اعتراضات کو رفع کرتا ہے اور پھر خم ٹھونک کر اپنے مؤقف کی نِگہ بانی کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بعض اوقات اپنے ہم نواؤں سے، اپنے خیال کے حق میں نعرے بازی کراتا ہے اور پھر اپنے جذباتی خیال/ وابستگی/ نقطۂِ نگاہ کی پرستش کرنے لگتا ہے۔

چُوں کہ یہ سب ایک طرح کا منظم نظام ہوتا ہے جس کی پوری آگہی خود اس سے جڑے اولین انسان کو بھی نہیں ہوتی لہٰذا وہ جذباتی انسان اپنے مؤقف کے دفاع پر اس وقت تک ڈٹا رہتا یے جب تک کوئی اور واقعہ، خاص تصور یا خیال کا اس پر طاری نہ ہو۔ اپنے سخت گیر مؤقف کی عام مقبولیت کے لیے یہ بعض ڈنڈے لے کر بھی آ جاتا ہے۔ اردو ادب میں ترقی پسندوں اور رومان پرستوں کے باہمی مباحثے اور ہمارے معاشروں میں بین المسلکی مناظروں سے ایسی بے شمار مثالیں سامنے لائی جا سکتی ہیں۔

جذباتی فرد کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ وہ اول خود تفاخر کا مریضانہ حد تک اسیر ہوتا ہے اور اسی جذبہ کے تحت خود پر طاری کسی بھی وقتی کیفیت کو مکمل اور آخری حقیقت سمجھتا ہے۔

دوسرا وہ ہمیشہ چُوں کہ اپنی عظمت اور اطراف پھیلے افراد کی کم مائیگی کا پکا یقین رکھتا ہے اس لیے اسی اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ دوسرے کیا سوچتے ہیں؛ جو دلیل دوسروں کے پاس ہے اس کی کیا اہمیت ہے، بھلے اس کا مؤقف جو اس مخصوص زمانے اور وقت کے پھیلاؤ میں اس پر طاری ہے کا حقیقت اور حقیقی صورت حال سے سرے سے کوئی تعلق نہ ہو۔

تصنیف حیدر چُوں کہ جذباتی انسان ہیں اور خود پر ویسے ہی بھروسا کرتے ہیں جیسے ایک حقیقی تخلیق کار کو کرنا چاہیے، جیسے کہ مرزا نوشہ اور مرزا چنگیزی کیا کرتے تھے۔ اسی یقین کے تحت مرزا چنگیزی نے تمام عمر اپنی جذباتیت کے خول میں بسر کی اور کبھی اس کھال سے باہر نکل کر سچ کا سامنا کرنے کی ذرہ برابر بھی سعی نہیں کی۔

تخلیق کاروں کو خود پر متوازن تفاخر کرنا بھی چاہیے کہ ان کا فطرت سے رابطہ دیگر لوگوں کی نسبت زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ بَہ ہر حال، مرزا نوشہ کے کلام کو پوری ایمان داری اور اردو پسندی کے تعصب سے آزاد ہو کر پڑھا جائے تو فارسی تراجم کی وہ بھونڈی مثالیں قائم ہوں گی جن کے بعد کسی بھی متوازن فرد کے پاس مکالمے کے دلائل نہیں رہیں گے۔ لیکن چُوں کہ مرزا نوشہ خود جذباتی ہیں لہٰذا کوئی بھی جذباتی فرد فارسی کے قدیم شعراء کو غلط اور مرزا جی کو حق بَہ جانب قرار دینے کی غلطی نہیں کرے گا کہ جذباتی رد عمل اس کی متوازن دلیل کو بے توقیر ثابت کرنے میں تأمل سے کام نہیں لیں گے۔

اگر اس بات سے صرفِ نظر کیا جائے کہ اس کائنات میں موجود تمام اشیاء، مظاہر، نظام کے نشانات، چرند، پرند، انسان، حیوان، فنی پیرا میٹرز، فکری زاویۂِ نگاہ غرض ہر اک شئے کے کئی رنگ، ذائقے اور چہرے ہوتے ہیں۔ ایک متوازن آدمی ان بہت سی شکلوں اور موضوعات میں سے خود سے جڑے مواد سے ربط قائم کرے گا۔ یہی صورتِ احوال شاعری کی بھی ہوتی ہے کہ اس میں ایک ہی بڑے موضوع پر مختلف تخلیق کار اپنے اپنے انداز میں تخلیقی عمل سے گزر کر اپنی اپنی الگ اور منفرد تمثال تخلیق کرتے ہیں۔

حقیقت کے اس پہلو سے فوری طور توجہ ایک طرف کر کے اوپری متن پر توجہ دی جائے اور اس کے مندرجات کو سامنے رکھا جائے تو اس مضمون کے تین بڑے نکات ہیں۔

اول یہ کہ جنسیاتی موضوعات پر شعر موزوں کرتے ہوئے، مضمون نگار شاعر کو سب شاعروں/ عورتوں نے یقین دلایا کہ وہ عورت کی جنسیت اور بدن پیمائی کا سب سے منفرد شاعر ہیں اور انھوں نے جنسیت کی دنیا کے وہ وہ رنگ نکالے ہیں جن کی مثال اردو شاعری میں نہیں ملتی۔

شاعر کی ان جنسیاتی نظموں کی بنیاد پر واہ واہ، بلے بلے ہوئی اور وہ اس ماحول میں لذت کشید کرتے نظمیں کہتے رہے۔ خود بَہ قول شاعر یہ شاعری گزشتہ سات برس کے عرصے پر محیط ہے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ شاعر نے اپنی گزشتہ زندگی میں اپنی شاعری کو عورت کے جنسی تلذذ کے موضوع پر مرکوز رکھا۔ عورت کے بدنی خطوط کو جنس کے مشروب میں ڈھال کر مصرع مصرع بادہ نوشی کی اور متعلقین کو بھی جنسیت اور جنسی لذت سے لبا لب بھرے جام کے جام پیش کیے۔ اس مجلس میں اپنے معترفین کو بھی شامل کیا اور خوب شہرت کمائی۔

گویا در حقیقت شاعر کے نزدیک عورت کو انسان نہیں بَل کہ ایک گوشت پوست کا جسم ہے جو ان کے اکسانے اور نظموں کی حدت وصولنے کے بدلے ان کے سامنے دراز ہو جاتی ہے اور اپنا جسم جنسی نظم میں بیان کردہ نظریے کی عملی تفسیر کے لیے پیش کرتی ہے، جیسے ایک کھلونا چابی بردار کی انگلیوں کی جنبش پر رقص کناں رہتا ہے۔

شاعر کا عورت کو انسان نہ سمجھنے، اس کے دل و دماغ کے سماجی تفاعل کو لا یعنی ثابت کرنے اور اس کے جسم کو محض جنسی کھلونا بنا کر پیش کرنے کے عمل کی کوئی بھی متوازن فرد توصیف نہیں کر سکتا کہ عورت در اصل مرد کی طرح کا ایک وجود ہے جس کے پاس مرد ہی کہ طرح گوشت کے کچھ بے ترتیب دائرے ہوتے ہیں جنھیں وہ اپنی محبت کے سپرد کرتی ہے اور تمام عمر اس سپردگی کے میثاق کی نگرانی میں بسر کرتی ہے۔

اس عورت کو ہمارے بھٹکے ہوئے گناہ گار شاعر نے جنسی تلذذ کا ذریعہ جانا اور یقیناً غلط جانا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو سمیت دنیا کی تمام نمائندوں زبانوں کی شاعری میں عورت کے اس نوعیت کے پیکر موجود ضرور ہیں، مگر ان کی تعداد سنجیدہ اور سماجی زندگی میں عورت کے فاعلی کردار کے پیش کار کردار کی نسبت مقدار از حد کم ہے۔

دنیا کی نمائندہ زبانوں کی شاعری، فکشن، مضمون، خاکہ غرض جس بھی حوالے سے مطالعہ کریں تو آپ کے سامنے آگ کا دریا کی چمپا، اداس نسلیں کی عذرا، غلام باغ کی زہرہ، آنگن کی عالیہ، حسن کوزہ گر کی جہاں زاد، آٹو گراف کی چنچل شوخ لڑکیاں، کلرک کا نغمۂِ محبت کی دیوی، راجندر سنگھ بیدی کی لمبی لڑکی، منٹو کے باسط کی بیوی سمیت بے شمار کردار ایسے ملیں گے جن کا تعلق جنسیاتی عوامل کی رنگین راتوں سے نہیں بَل کہ زندگی کے عمل کی اونچ نیچ اور اس سماجی اتار چڑھاؤ میں مرد عورت کے تعلق کی پختگی اور آفاقیت پر ہے۔ لہٰذا کچھ مثالوں کے جنسی ادب اور عامیانہ جنسی شہوت سے لبریز نظموں کی بنیاد پر اس قدر وسیع ادبی خزانے کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

مضمون کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ آج دو ہزار اکیس کے وسط میں یعنی لگ بھگ دس برس کے بعد شاعر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انھوں نے گزشتہ برسوں میں عورت کے وجود کی جنسیاتی تمثال کاری سے جو داد سمیٹی اور اس سے خود لذتی کے جو جوہر دریافت کیے وہ نا مناسب اور غیر ضروری تھے۔ لہٰذا وہ ان سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں، بل کہ اس سب پر لعنت بھیجتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہر اس شعری تجربے، نثری دستاویز پر لعنت بھیجتے ہیں جس میں عورت کا تذکرہ کیا گیا ہو کیوں کہ انھیں اب یہ معلوم ہوا کہ وہ عورت دشمن ہے، جیسے انھیں دس برس تک یہ معلوم رہا کہ وہ عورت دوستی میں اس کے جنسی اعضاء، اس کے کاندھوں، کولھوں، گندمی جلد، گہرائیوں سمیت کئی سطحی استعاروں سے عورت کی جنسیاتی لذت سے مملو عناصر کے شعری پیکر تراشتے رہے ہیں اور وہ اپنے اس یقین کی بنیاد پر اسی طرح کی ہیجانی کیفیات سے مملو نظمیں لکھتے رہے کہ عورت اور جنس کا یہ رشتہ آفاقی، اٹوٹ اور نا قابلِ یقین ہے۔

شاعر/ مضمون نگار نے دو باتیں دانستہ یا غیر دانستہ نہیں بتائیں: اول یہ کہ جب وہ اس روش کے عادی تھے (جس سے آج توبہ تائب ہو رہے ہیں) تو کس تخلیق کار، نقاد یا تخلیقی محرک کے تابِع تھے جن تخلیق کاروں، شاعروں کی نظمیں، غزلیں ان کی زندگی کے واقعات بالخصوص پڑھتے اور ان سے متأثر ہوتے تھے اور آج جب وہ اس سب پر لعنت بھیجتے ہیں اور ان سب کو بھی لعین کہتے ہیں جو عورت کی جنسیاتی تمثال کاری کرنے میں مگن ہیں تو وہ کس ہستی، شاعر یا محرک سے متأثرہ ہیں؟

تصنیف کی بات سے یہاں تک تو مکمل اتفاق ہے کہ جو تخلیق کار محض وقتی داد سمیٹنے کے لیے عورت پر لکھتے ہیں اور انھیں عورت میں سوائے جنس کے کچھ اور دکھائی نہیں دیتا ان کا متن قابلِ گرفت ہے اور ایسے شاعروں افسانہ نویسوں کی پکڑ لازمی ہونی چاہیے، جو اردو ادب کے کل سرمایے کے نصف سے بھی کہیں کہیں کم ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ جن شاعروں کے ہاں عورت ایک انسان کے روپ میں ہو اس بارے صاحبِ مضمون کیا رائے رکھتے ہیں۔ ان نظموں، افسانوں، ناولوں کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ اقبال کی والدہ مرحومہ کے لیے لکھی نظم، مجید امجد کا اچھوت ماں کا تصور اور بہت سی نظموں کے حوالے سے مفروضہ رد بھی کیا جا سکتا تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان نظموں کی روایت کا حوالہ دیا گیا۔

اس کے علاوہ کیا صاحبِ مضمون راشد کی نظم خود کشی سمیت بہت ساری نظموں کو جنسیاتی نظموں میں شمار کرتے ہیں کہ وہاں ہم رقص زندگی کی تلخی سے بھاگ کر آنے والے فرد کے لیے راحت اور سکون کا سبب ہوتی ہے جو اس کی زندگی کے بھدے پن کی کثافت کو کم کر کے اس کی زندگی میں لطافت کے وقفے لاتی ہے جو اسے پھر سے زندگی سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ دیتے ہیں۔

میرا جی کی نظم کلرک کا نغمۂِ محبت پر بھی آپ کی توجہ مرکوز نہیں ہوئی کہ جہاں عورت گھر والی کے روپ میں ہے جس کے بغیر شاعر باسی ڈبل روٹی کھانے پر اور ویران سنسان گھر میں اکیلے رہنے پر مجبور ہے۔

“دنیا کے رنگ انوکھے ہیں

جو میرے سامنے رہتا ہے اس کے گھر میں گھر والی ہے

اور دائیں پہلو میں اک منزل کا ہے مکاں، وہ خالی ہے

اور بائیں جانب اک عیاش ہے جس کے ہاں اک داشتہ ہے

اور ان سب میں اک میں بھی ہوں لیکن بس تو ہی نہیں ہے

ہیں اور تو سب آرام مجھے اک گیسووں کی خوش بُو ہی نہیں

________

میں اس کی ایسی باتوں سے تھک جاتا ہوں تھک جاتا ہوں

پل بھر کے لیے اپنے کمرے کو فائل لینے آتا ہوں

اور دل میں آگ سلگی ہے: میں بھی جو کوئی افسر ہوتا

اس شہر کی دھول اور گلیوں سے کچھ دور مرا پھر گھر ہوتا

اور تو ہوتی

لیکن میں تو اک پنچھی ہوں تو اونچے گھر کی رانی ہے

یہ میری پریم کہانی ہے اور دھرتی سے بھی پرانی ہے۔

شاعر نے نہ تو عورت کے اعضاء کی تصویریں بنائی ہیں ناں اس کے جنسیاتی پہلو پر زور دیا ہے مگر بہت کچھ واضح کر گئے ہیں۔

مجید امجد کی آٹو گراف کا حوالہ بھی آپ بھول گئے جس میں شاعر کے ہاں عورت یا اس کی توجہ مرد کی شہرت، زمین سے وابستگی کا استعارہ ہے کہ اگر عورت اس سے محبت اور پرستش کے رشتے میں جڑی ہے جیسے کہ وہ کرکٹ کے میدان میں باؤلر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے تو وہ بے نشان نہیں رہیں گے اور نہ ہی پا بَہ گِل رہیں گے۔

“کھڑی ہیں یہ بھی راستے پہ اک طرف

بیاضِ آرزو بَہ کف

نظر نظر میں نا رسا پرستشوں کی داستاں

لرز رہا ہے دم بَہ دم

کمان ابرووں کا خم

___ وہ باؤلر ایک مَہ وَشوں کے جمگھٹوں میں گِھر گیا

وہ صفحۂِ بیاض پر بَہ صد غرور کلک گوہریں پھری

حسین کھلکھاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری”

سوال یہ ہے کہ کسی بھی مرد کے لیے عورت کیا ہے؟ وہ اس کے لیے جنسیاتی تسکین کا یک رخہ زینہ ہے یا اس کی زندگی کا ساتھی ہے، دوست ہے قدم قدم پر اس کے ساتھ ہے۔

میری رائے میں محبت زندگی کا لازمہ ہے عورت سے محبت اور بے انت محبت کے بغیر انسان کی عقل و وجدان تو کیا خود اس کی انسانیت بھی ادھوری رہتی ہے اور جب ایک شاعر جسے تصنیف نے مکمل مرد پکارا ہے محبت کرتا ہے تو اس کا مِحوَر و مرکز عورت کے وجود کے جنسی اعضاء یا رات کے اندھیرے میں کیے گئے تجربات نہیں ہوتے بل کہ عورت اس کا محبوب ہوتی ہے جس کا ساتھ زندگی کے ہر معاملے میں اسی طرح لازم رہتا ہے جیسے خود زندگی لازمی امر ہے اور وہ ہر طرح کے حالات میں اپنی محبت کا جوہر اپنے سینے سے لگا کر سینت سینت کر رکھتا ہے، اختلاف کر کے بھی اس کا احترام کرتا ہے، جھگڑ کر بھی اس پر فریفتگی کے ہزار راستے تلاش کرتا ہے اور ہر لمحہ اسی کے فکر و خیال میں غلطاں رہتا ہے۔ زندگی کے کسی موڑ پر وہ اسے جنسی تلذذ بنا کر نہیں دیکھتا کہ زندگی میں جنس کی ایک حیثیت ضرور ہے مگر وہ زندگی نہیں ہے۔

فرائیڈ محبت کے بارے میں کہتے ہیں:

“بہت سے مرد ایسی عورتوں سے محبت کے گہرے جذبات رکھتے ہیں جن کی وہ دل کی گہرائیوں سے عزت کرتے ہیں۔ لیکن ان کے لیے جنسی کشش محسوس نہیں کرتے اور ان سے جنسی اختلاط نہیں کر سکتے، لیکن ان عورتوں کے ساتھ وہ بہت شدت اور شوق سے جنسی عمل کرتے ہیں جن کی وہ عزت نہ کرتے ہوں بَل کہ ان سے کسی نہ کسی مفہوم میں نفرت کرتے ہوں یا ناپسند کرتے ہوں۔” (فرائیڈ کے مضامین، صفحہ 84)

 تصنیف حیدر کے نزدیک عورت ایک جنسیاتی کھلونا ہے جس سے انھوں نے اپنی جوانی کے ایام میں کھیلا اور داد و تحسین سمیٹی۔ اپنی خاص کیفیت کے ہر پَل کا مکمل لطف کشید کیا اور عورت کو جنسی مشین کے مترادف جانا جو ممکنہ حد تک وقت کی گزران اور تجربے کی وسعت کے ساتھ ایک بوجھ کی شکل اختیار کرنے لگا۔ اب ایک گم راہ مُلا کی مانند انھیں اپنی فطری کَجی کا احساس ہو گیا ہے تو وہ توبہ تائب ہو گئے ہیں اور اس جنسیاتی تلذذ میں ڈوبے نشانات سے لا تعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔


آپ کے ذوقِ نظر کے لیے کچھ اور:

طرز ہے شاگرد میں بھی ٹھیک ٹھیک استاد کی


تصنیف حیدر ایک ایسا مُلا جیسے ہیں جو دس برس تک خدا کے وجود سے انکار کرنے کے بعد ایک ڈراؤنی رات کے بدلے اپنے گزشتہ گناہوں سے معافی مانگ کر صراطِ مستقیم پکڑنا چاہتا ہے مگر یہ وہی کرے گا جس کے ہاں عورت انسان نہیں ہو گی۔

چوںُ کہ یہ جذباتی تخلیق کار اپنے تخلیقی عمل کے دوران عجلت پسندی کے اسیر ہوتے ہیں اور جلد بازی میں نظمیں، غزلیں لکھتے ہیں، لہٰذا استعارے سازی کے فن سے عاری ہوتے ہیں یا اس پر زیادہ توجہ نہیں دے پاتے۔ بعض اوقات یہ جذباتیت میں ڈوبے اپنے جنسی ساتھی کو راضی کرنا چاہتے ہیں تو ایسے میں یہ سامنے والے کی تعریف و توصیف کے لیے تیزی میں عامیانہ استعارے بنا کر، محبوب کو انسان کی بَہ جائے جنسی بیٹری بنا کر پیش کرتے ہیں جو ان کے انجن ریچارج کرتی رہتی ہے جب کہ عورت سے رشتۂِ محبت بالکل الگ قسم کی چیز ہے جو دو انسانوں کے درمیان رشتہ ہے جس میں اتار چڑھاؤ تو آتے رہتے ہیں، لیکن باہمی محبت کا جذبہ جوں کا توں قائم رہتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کے کردار کے معترف اور اپنی محبت کی پختگی کا یقین رکھتے ہیں کہ ان کا تختہ جنسی بیٹری کے تیزاب آمیز پانی کی حدت پر قائم ہونے کی بَہ جائے احساس کی ڈوری سے بندھا ہوتا ہے جو ان دونوں کو ہزار میل کے فاصلے اور ہزار حاسدوں کی بد گمانی کے بیج کے باوجود باہم پیوست رکھتا ہے۔

تصنیف کے مضمون میں ایک تأثر تخلیق کار کے لیے تلقین اور اصلاح احوال کی درستی کا ملتا ہے۔ شاید یہ آئندہ دنوں میں “تلقین شاہ” کی صورت اختیار کر لے یا پھر تصنیف کے اندر کا عورت پرست پھر سے جاگ جائے۔ اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا، مگر آج وہ ایک واعظ ہیں جو ویسے ہی اصلاح کی گولیاں کھلانے کی کوشش کر رہے ہیں جو گزشتہ صدی سے ترقی پسند پوری شدت مد سے کرتے رہے ہیں اور کچھ نہ کچھ آج بھی اپنا کام کر رہے ہیں۔

تخلیق اور تخلیق کار خالص محبت کی مانند دو آزاد وجود ہیں جن کی انگلی پکڑنے کی کوشش کرنا بَہ ذات خود غیر تخلیقی اور غیر ادبی فعل ہے۔ ادبی متون اور ادیب مذہبی خزانہ اور مذہب نمائندگان نہیں ہیں جن میں ایک خدا کا نیک بندہ غیر صحت مند اور ضعیف متون کی اصلاح کر کے متروکہ اور مستند کی فہرست جاری کرے تا کہ باقی امت اس پر عمل پیرا ہو کر درست راستے پر گام زَن ہو سکے۔

ادبی متن آزاد ہے جس پر ہر کسی کا حق ہے جو عورت خود کو جنسی کھلونا سمجھتی ہے وہ تصنیف حیدر (جو اب مولوی ہو کر درست راستے پر گام زَن ہیں) کی نظمیں پڑھے گی اور جس عورت کا عاشق اسے ایک مکمل انسان سمجھتا ہے۔ اس کے ساتھ گزری زندگی کو پھر سے تخلیق کرتا ہے تو وہ اپنے اس عاشق کے تخیل سے پھوٹے متن کا مطالعہ کرے گی۔