ازم اور آئیڈیالوجی کی سیاست و سماج کے مسائل

MH Chohan
پروفیسر محمد حسین چوہان

ازم اور آئیڈیالوجی کی سیاست و سماج کے مسائل

از، پروفیسر محمد حسین چوہان

نظریہ یا آئیڈیالوجی مختلف افکار و نظریات، عقائد و معتقدات، تخیلات و اقدار کے باہمی منطقی رشتوں کا ایک مربوط و مبسوط نظام فکر ہے، جس میں کسی نظریہ کے نظریاتی اور عملی پہلو مساوی طور پر موجود ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان منطقی ربط قائم ہوتا ہے۔ خیالات کی منطقی تصدیق کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ علت و معلول کے دائرے میں رہ کر بات کی جاتی ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ آئیڈیالوجی ہر جگہ معقولات سے ہی اپنے نظریے کا پرچار کر رہی ہو۔

آئیڈیالوجی عقیدے کو بھی اپنا موضوعِ سخن بنا سکتی ہے۔ اس کا دائرۂِ کار وسیع ہوتا ہے۔ مذہب، معیشت، سیاست، تعلیم، اخلاقیات جیسے موضوعات کو تجربات کی شکل میں بیان کر رہی ہوتی ہے۔ مروّجہ سماجی ڈھانچہ کیسا ہے اور اس کو کیسا ہونا چاہیے۔ کوئی بھی آئیڈیالوجی اپنے خیالات و افکار میں تنہا نہیں ہوتی۔ وہ بہت سے افکار دوسرے نظریات سے بھی مستعار لیتی ہے۔ آئیڈیالوجی دوسروں سے خیالات مستعار لے کر نئی آئیڈ یالوجی کا تار و پود بُنتی رہتی ہے۔ جس کا بنیادی مقصد نشانِ منزل کا پتا بتانا مقصود ہوتا ہے۔

ہیووڈ کے نزدیک سیاسی نظریہ دیگر بہت سے خیالات سے ہم آہنگ ہو کر سیاسی عمل کو تحریک دیتا ہے۔ آئیڈیالوجی منطقی سلسلوں کا باہم مربوط ایسا سٹرکچر ہے جس کا اظہار کسی گروہ یا جماعت کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہ وضاحت کرتا ہے کہ سماج کس طرح کا ہے اور اس کو کس طرح کا ہونا چاہیے۔ آئیڈیالوجی جس طرح اپنی تکمیل دوسروں سے خیالات مستعار لے کر کرتی ہے اسی طرح یہ کبھی اپنے قد و کاٹھ پر مکمل طور پر کھڑی بھی نہیں ہو سکتی۔ رفتارِ زمانہ کی نئی تخلیقات اور تقاضوں کے پیشِ نظر اس کو مختلف چیلنجز کا سامنا بھی رہتا ہے، جب تک یہ حقائق اور اثباتیت کے درجے پر پہنچ نہیں جاتی۔

مگر انسانی ذہن کا کسی آئیڈیالوجی کے ساتھ چِپکے رہنا بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اس بِناء پر آئیڈیالوجی کے اندر منفی تأثر ابھرتا ہے۔ ازم اور آئیڈیالوجی اکھٹے ہو جاتے ہیں؛ جہاں ازم ہو گا وہاں آئیڈیالوجی بھی ہو گی۔

ازم انسانی ذہن کی بے معنی نفسیاتی کیفیت کا نام ہے۔ فطرت، انصاف اور فطری بہاؤ کا رستہ روکتا ہے۔ نیکی و خیر کے نقطۂِ کمال میں بھی اس کے اندر رجعت قَہقَری کا عُنصر پیدا ہو جاتا ہے۔

پوسٹ ماڈرنسٹ کا بیانیہ عقلی و تخیلاتی نہیں، وہ جو کچھ دیکھتے ہیں، تعمیر کرتے ہیں۔ تجربیت حقیقت ہے اور اضافیت اخلاقی؛ اس بناء پر آئیڈیالوجی علمی تصدیق کا درجہ حاصل نہیں کر سکتی۔ مگر اس کے کچھ پہلو منطقی اثباتیت کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ تجربہ ہی وہ واحد شے ہے جو آئیڈیالوجی کی صحت کا تعین کرتا ہے۔

مگر المیہ یہ ہے کہ انسان بھی نفسیاتی طور پر کسی نہ کسی آئیڈیالوجی کے زیرِ اثر رہنے پر مجبور ہے۔ انسانی ذہن آئیڈیالوجی کی تخلیق کرتا ہے اور آئیڈیالوجی اس کی نشانِ منزل بن جاتی ہے۔ جب آئیڈیالوجی عملی رہ نمائی کرنے سے قاصر ہو تو ازم انسان کو اس کے ساتھ چمٹے رہنے پر مجبور کرتا ہے، جس سے کش مکش، اور تضادات جنم لیتے ہیں۔

انسانی عقل، سماجی تجربہ اور انسانی نفسیات میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی۔ ہمیشہ تضاد کی صورت قائم رہتی ہے۔ انسانی نفسیات نا قابلِ اعتبار ہے۔ یہ مسلسل متغیر، منطقی اور غیر منطقی کیفیتوں کے زیرِ اثر رہتی ہے، اور آئیڈیالوجی اس کی ہر جگہ رہ نمائی نہیں کر سکتی؛ بَل کہ سائنسی حقائق اور سماجی تجربات سے بھی یہ ما وراء ہو جاتی ہے۔

آئیڈیالوجی کو اسی لیے متشدد، متعصب، غیر شفاف، کلیت پسند ازم اور جانب داری جیسے الزامات کا سامنا رہتا ہے۔ انسانی ذہن کی تشکیل سماجی ماحول میں ہوتی ہے۔ جیسا سماجی ماحول ہو گا، انسانی ذہن اسی طرح کی آئیڈیالوجی کو قبول کرے گا، جس میں اَن گنت سیاسی و سماجی، مذہبی، علاقائی و نسلی اور طبقاتی پہلو موجود ہوں گے۔

مگر سیاسی آئیڈیالوجی میں سیاسی معاشیات ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ سیاست کا سب سے بڑا نَقص یہ ہے کہ وہ آئیڈیالوجی کے زیرِ اثر رہنے پر مجبور ہے۔ جس نظریۂِ سیاست میں حقائق کے بر عکس آئیڈیالوجی کی چھاپ جتنی زیادہ گہری ہو گی وہ اتنی ہی مُخرّبِ اخلاق اور انسان دشمن ہو گی اور اس میں موجود ازم اور جانب داری سماجی ترقی کے سفر کو سست کر دے گی۔

سیاسی نظریہ کو افکار کی سائنس کہا جاتا ہے، جس میں منطقی ربط کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مگر یہ منطقی ربط اور استدلال عقیدہ پرستی کے قالب میں ڈھل جائے تو انسان لا مرکز ہو جاتا ہے اور آئیڈیالوجی غالب آ جاتی ہے جس سے حقائق پسِ پردہ چلے جاتے ہیں اور تجرید کا رنگ غالب آ جاتا ہے؛ کیوں کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مذہبی آئیڈیالوجی سیاست سے جب بھی ہم آہنگ ہوتی ہے تو وہ تاریخی تجربات اور موجودہ حقائق کو تجرید کا رنگ دینا شروع کر دیتی ہے، جس سے سماجی حرکیات اور ترقی کا پہلو سست پڑ جاتا ہے۔

جہاں جہاں جنونی مذہبی سیاست کو فروغ ملا وہاں کے معاشرے ترقی کے سفر میں بہت پیچھے رہ گئے، جب کہ سیاسی آئیڈیالوجی کی اساس انسانی تجربات پر مستحکم ہوتی ہے۔ مغربی معاشروں میں کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ کی محاذ آرائی، مسلم دنیا میں میں مذہبی فرقہ پرستیاں اور ہندوستاں میں جاری ہندو ازم کی سیاست نے منفی آئیڈیالوجی کو فروغ دیا، جس سے بد امنی، انتشار، غیر جمہوری قدروں کا فروغ اور مسلمانوں کا جینا دو بھر ہو گیا۔

سرمایہ داریت، کمیونزم اور سوشلزم نے بھی کوئی کَسر نہیں اٹھا رکھی، مگر مؤخرُ الذّکر نے انسان کو عقیدہ پرستی سے نکال کر عقل و تجربات کی راہوں پر ضرور گام زَن کیا۔

اس کے علاوہ جہاں آئیڈیالوجی کسی بھی سیاسی جماعت پر غالب ہو گی وہ ضرور شر انگیزی کا باعث بنے گی۔ متشدد آیئڈیالوجی کا نَقص یہ ہے کہ وہ حقائق اور تجربات کو اپنے سیاسی بیانیے میں شامل نہیں کرتی۔ دوسرا بڑا نَقص یہ ہے کہ آئیڈیالوجی قبل اَز تجربی ہے؛ یہ تعصبات اور مَیلانات کا اظہار کرتی ہے۔ زمان و مکان کے اندر مسلسل تبدیلیوں کا سلسلہ رواں دواں رہتا ہے، نقش بنتے اور مٹتے رہتے ہیں، جہاں آئیڈیالوجی رفتارِ زمانہ کے ساتھ مطابقت پذیری پیدا نہیں کر سکتی۔

منطق و اخلاق بھی بہت سی چیزوں کو رد و قبول کرتے رہتے ہیں، مگر آئیڈیالوجی ہیرو پرستی، تقدیس پرستی، پرسنیلٹی کَلٹ اور زُعمِ دانش وری میں الجھی رہتی ہے۔ اسی بناء پر پس ماندہ سماج میں ہیرو کھمبیوں کی طرح جنم لیتے ہیں۔ یہ اپنے اندر اقدار ی، عملی و تجربی شہادتیں بھی نہیں رکھتی، مگر موجود رہتی ہے۔ یہ سیاست کے علاوہ ادب اور آرٹ میں بھی اپنا اثر و نفوذ رکھتی ہے۔

سیاست کو آئیڈیالوجی اور ازم سے پاک کرنے سے ہی ایک سچے اور صحت مند سماج کی تشکیل ممکن ہو سکتی ہے۔ علمِ سیاسیات و معاشیات ابھی تک سماجی علوم کے دائرے میں کھڑے ہیں، مکمل سائنس کا درجہ حاصل نہیں کر سکے۔ لیکن آلاتیت پسندی اور دیگر تجربی علوم آئیڈیالوجی کی دُھند، رستے سے صاف کرنے میں کافی حد تک کام یاب بھی ہوئے ہیں۔

انسان کو لا مرکز کر کے جس کسی بھی آئیڈیالوجی کی بنیاد رکھی جائے گی، وہ متعصب، انتشار پسند، امن دشمن اور ترقی کے عمل کو سست کرنے والی ہو گی؛ اس کی ترجیحات میں مخصوص گروہ، طبقے، فرقے اور نسل کی طرف داری ہو گی۔

اسی بناء پر آئیڈیالوجی کو جانب داری کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ عالم گیر سطح پر قابلِ قبول ایک بھی سیاسی نظریہ موجود نہیں ہے جس کو علمی تصدیق کی مکمل حمایت حاصل ہو، مگر تمام سیاسی نظریات کو ایک جیسا بھی نہیں سمجھا جا سکتا۔ ان میں ایک وسیع خلیج بھی موجود ہے؛ کسی بھی نظریے میں جتنے زیادہ غیر عقلی عناصر موجود ہوں گے وہ اتنا ہی سماج سے عدم مطابقت کا حامل ہو گا۔

جن جن معاشروں میں سدھار کی راہیں ہم وار ہوئیں انھوں نے مذہب اور کلچر کو انسان کا ذاتی اور انفرادی مسئلہ قرار دیا۔ سیاست کی بنیاد انسانی ضروریات اور سماجی تجربات پر رکھی اور آئیڈیالوجی سے نجات حاصل کرنے کی بھر پُور کوششیں کی گئیں، مگر ہزار کوششوں کے با وُجود آئیڈیالوجی کے کچھ نفسیاتی، طبقاتی اور جغرافیائی پہلووں سے انسان نجات حاصل نہیں کر سکا۔

ہر عہد کی ایک آئیڈیالوجی ہوتی ہے جو اپنی تصدیق کے لیے تجربے کی محتاج ہوتی ہے۔ قرُونِ وسطیٰ میں سیاست پر مذہب کا رنگ غالب رہا اور سیاسی آئیڈیالوجی مذہب کی کنیز بنی رہی۔ مگر انسانی تجربات کے ہاتھوں ارتقاء کا عمل کافی حد تک سست رہا؛ سولھویں صدی میں یورپ میں مذہبی رنگ کی چھاپ گہری رہی۔ انیسویں صدی کے وسط تک سائنسی ازم اور بیسویں صدی میں کمیونزم اور سوشلزم کا طُوطی بولتا رہا؛ پھر لبرل ڈیموکریسی اور سوشل ڈیموکریسی نے تضادات اور سخت گیری کو ختم کرنے کی کوششیں کیں۔ ازم اور آئیڈیالوجی نے دنیا کو دو بلاکوں میں تقسیم کر دیا۔ مگر یہاں تمام تر سیاسی آئیڈیالوجی کا مرکزِ سخن انسانیت کی بقاء، آزادی اور جمہوریت تھی، استحصال سے پاک معاشرے کا قیام تھا۔

مارکسزم نے دنیا بھر کے قدیم نظریات کا ڈھانچہ تبدیل کر دیا۔ دنیا بھر میں انقلاب کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ مارکسزم نے نہ صرف سیاست، بَل کہ دیگر شعبہ جات میں بھی انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں۔ جن کا بنیادی مقصد استحصال سے پاک غیر طبقاتی معاشرے کا قیام تھا۔

یہ تجربہ اپنے اندر بہت سے تضادات اور انسان کی نفسیاتی کم زوریوں کے باعث نا کام ہوا۔ مگر جاتے جاتے انسانیت کو بہت کچھ دے بھی گیا۔ آج کی ترقی یافتہ فلاحی ریاستوں پر مارکسی تعلیمات کا گہرا اثر ہے۔ مگر سوشلزم اور کمیونزم، ازم، کلیت پسندی، سخت گیری، اَتھاری ٹَیرین، غیر جمہوری رویے، اور شخصی آزادی کے طعنوں سے بچ نہیں سکے۔ منڈی کی معیشت نے اس کا دور تک پیچھا کیا، منصوبہ بند معیشت نہایت سادگی سے سرمایہ داروں کے ہاتھ سے مات کھا گئی۔ اس کو علامہ اقبال نے بھی خراجِ تحسین پیش کیا تھا:

اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

علمِ سیاسیات کے عالموں نے کمیونزم اور سوشلزم کو آزادی اور جمہوریت کے منافی قرار دیا۔ انسانی نفسیات سے متصادم سمجھا اور ان کو ایک سائنسی متشدد مذہب کے روپ میں پیش کیا۔ جب کہ سوشلزم کی بنیاد سائنسی حقائق، تاریخی و سماجی تجربات و حرکیات پر تھی، جو کسی بھی قسم کی آئیڈیالوجی کا منکر تھا۔ یہ مزدور طبقے کی بالا دست طبقے پر طبقاتی جد و جہد کے ذریعے حکم رانی چاہتا ہے۔ تاریخی شواہد یہی بتاتے ہیں، مگر یہ نظریہ رُو بَہ زوال ہے۔ ریاست کا خاتمہ بھی اس کے آدرش میں شامل ہے۔ سماج میں صرف اس کے نزدیک دو طبقے یعنی ایک ظالم اور مظلوم ہیں۔

مگر اب سماج میں ایک سے زیادہ طبقات اپنا وجود رکھتے ہیں۔ جس کی بنیاد پر یہ بھی ایک طرح کی آئیڈیالوجی بن کر رہ گیا ہے، اور اس کو پہلے جیسی اب قبولیت نہیں رہی ہے۔ مگر پس ماندہ اور استحصال زدہ معاشروں میں اس کا بیانیہ مختلف شکلوں میں زندہ ہے۔ سوشلسٹ تحریکیں جن جن معاشروں میں طاقت ور رہیں وہاں اتنا ضرور ہوا کہ روایتی منفی آئیڈیالوجی کا خاتمہ ہو گیا؛ سیاست میں عملیت پسندی اور حقائق کو جگہ مل گئی۔ ازم اور آئیڈیالوجی کی چھاپ ماند پڑ گئی اور خوش حال معاشروں کا قیام عمل میں آیا۔ ازم جو تاریخی تضادات کی پیداوار تھا، دھیرے دھیرے دم توڑ گیا اور سیاست میں ازم ایک طاقت ور بیانیے کے طور پر قائم نہ رہ سکا۔


معاصر اسلامی نظریہ کے بعض اہم مسائل


سوشل ڈیموکریٹ اصلاحات کے قائل ہیں، مگر ایک مخصوس فلاحی ریاست کا قیام چاہتے ہیں اور یہ تصور ان کو بھی آئیڈیالوجی کے خانے میں داخل کر دیتا ہے۔ قومیت پسندوں کے ہاں سخت گیر آئیڈیالوجی کے انسان دشمن عناصر موجود ہیں، جس کی بنیاد نسل قومیت اور مذہب پر قائم ہے۔ موجودہ زمانے میں ہندوستان اس کی بدترین مثال ہے، جہاں ہندو آئیڈیالوجی نے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی جمہوری اور شخصی آزادیوں کا گَلا دبایا ہوا ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں طالبان کی سخت گیر سیاسی آئیڈیالوجی امن و ترقی کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے، جسے دیگر نسلی و مذہبی موڈریٹ طبقات کے متأثر ہونے کا امکان ہے۔

اگر طالبان اپنی آئیڈیالوجی کو عَصری تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے اعتدال کا راستہ اختیار کر لیں، تو افغانستان ایک بہتر اور کام یاب ریاست بن سکتی ہے۔ ان کی نیت صاف ہے مگر طریقۂِ کار میں اعتدال نہیں ہے۔ انھیں آئیڈیالوجی کے تجریدی پہلووں کے بر عکس اپنی سیاست کی بنیاد زمینی حقائق کے مطابق رکھنی چاہیے۔

مذہبی سیاسی آئیڈیالوجی اپنے سخت گیر مفہوم میں انسانی نفسیات اور ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ طالبان کے تصورِ اسلام میں علمی لحاظ سے کجی و نَقص پایا جاتا ہے؛ اسلام کی عقلی اور روحانی روح جو عہدِ رفتہ میں سائنس و فلسفہ کے ساتھ ہم آہنگ تھی، ارتقاء اور ترقی جس کا خمیر تھا، دوسری تہذیبوں سے کسبِ علم جن کا ایمان تھا، خذ ما صفا و دعا ما کدر کے اکتسابی اصول پر عربوں نے جو ترقی کی دوسری اقوام سے عُلوم و فنون مستعار لے کر ایک نامیاتی کلیت سے جدید تہذیب کی بنیاد رکھی سرا سر قوائے عقلی اور ارتقائی اصولوں کی نمائندہ تھی۔

انھوں نے ہندوستان سے علمِ ہندسہ و فلکیات، یونان و روم سے فلسفہ، طب اور دیگر علوم مستعار لیے۔ ماضی پرستی و عقیدہ پرستی کے بر عکس ارسطو کے فلسفۂِ تجربہ و مشاہدہ پر علم کی بنیاد رکھی۔ مگر طالبان کی آئیڈیالوجی جوں کی توں اپنے سلف کی مَظہری نقل کرنے پر بَہ ضد ہے جو معنویت سے نا بلد ہے، جسے ان کی سیاسی و علمی آئیڈیالوجی تعطل و جمود کا شکار ہے۔

انھیں اپنے آپ کو عصری شعور اور تقاضوں کے سانچے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔

اس بناء پر مودی کی ہندو ازم کی آئیڈیالوجی اور طالبان کی سخت گیر آئیڈیالوجی ایک مخصوص طبقے کے علاوہ دوسروں کے لیے ضرر رساں ہیں۔

جہالت عقیدت کی ماں ہے کا طعنہ ابھی تک مسلم دنیا کو سننے کو مل رہا ہے۔ سیاسی آئیڈیالوجی ایک لمبا تاریخی سفر طے کر کے آج سوشل ڈیموکریسی تک پہنچی ہے جس کا آج بھی اپنا ہدف سوشلزم ہے۔ سوشلزم اور ریاستِ مدینہ کے تاریخی تصور کی ارتقائی اساس ایک ہی ہے۔ اسی طرح انار کسٹوں کو اپنی مرضی کی ریاست کے قیام کے لیے تنظیم سازی، مفادات کی کش مکش، ریاست کے قیام کے تمام مراحل سے گزرنا ہو گا جو کہ ایک آئیڈیالوجیکل عمل ہے۔


قرون وسطیٰ میں علمی ترقی کا سبب، ایک نظریۂِ علم


آئیڈیالوجی، ازم اور آرتھوڈاکس ماکسزم اور سوشلزم کی سخت ترین شکلوں سے نکلنے کے لیے ایک تیسرے رستے کا انتخاب ضروری تھا، جس کو ڈیموکریٹک سوشلزم یا سوشلسٹ ڈیموکریسی کا نام دیا گیا۔ سنہ 1876 مین لندن کی فیبئن سوسائٹی نے اس تیسرے رستے کا انتخاب کیا کہ اینٹی یوٹوپیا سیاست کی داغ بیل ڈالی جائے، جس میں جمہوریت پسندی، شخصی آزادی، عقلیت پسندی، اصلاح پسندی، وسعتِ نظری، عملیت پسندی، اخلاقی اقدار، انجذابیت، اور سمجھوتے کی سیاست کو فروغ دیا جائے، جس کو سوشل ڈیموکریسی یا ڈیموکریٹک سوشلزم کا درجہ بھی دیا گیا، جس کا تعلق لبرل ڈیموکریسی سے بھی قائم رہا۔

برنسٹن نے اس کو معتدل سوشلزم کا نام دیا، اس نے چھوٹے اور بڑے کار و بار کو قابلِ عمل قرار دیا۔ طبقات دو نہیں بہت سے ہیں اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے، اشیائے صرَف میں اضافہ ہو رہا ہے، استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ریگولیشن کی جائیں نہ کی طبقات کا خاتمہ کیا جائے، زراعت میں چھوٹے قطعۂِ اراضی بڑھ رہے ہیں؛ بینکنگ، تجارت، محصولات اور روزگار میں اضافہ ہو رہا ہے، اصلاحات، پینشن، سوشل سیکیورٹی، تعلیم میں بہتری نظر آ رہی ہے، طبقاتی تفریق میں کمی آ رہی ہے۔

طبقاتی جد و جہد کے بر عکس عوام اجتماعی کوششوں سے تبدیلی لانا چاہتے ہیں، جس میں کم و بیش سب طبقات کے لوگ شامل ہیں۔ سوشلزم حقائق پر مبنی ہے مگر بَہ تدریج تبدیلی انسانی مزاجوں کے عین مطابق ہے۔

لینن اور مارکس کا سخت گیر تبدیلی و انقلاب کا تصور اب ماند پڑ گیا ہے کیوں کہ صنعتی و جاگیر داری عہد کی استحصالی مظہریات ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ جب طبقات کو بنیادی ضروریاتِ زندگی میسر ہوں تو طبقاتی تفریق کی ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

انقلاب کی نا گزیریت دم توڑ چکی ہے۔ ازم سائنس نہیں اخلاقی و نفسیاتی طور پر جو قبول ہے اور جو ہے وہی سائنس ہے؛ عملیت پسندی، عقلیت پسندی۔ اخلاق اور اقداری سماج عوامی مزاج سے مطابقت رکھتا ہے، طبقاتی بالا دستی جمہوریت نہیں ہے۔ اقلیت اور اکثریت کی جارحیت معنی نییں رکھتے، سمجھوتے اور افہام و تفہیم کی سیاست قابلِ عمل ہے۔

مارکسزم صنعت، پیدا وار اور دولت کی تقسیم سے جڑا ہوا ہے، اور ایک طرح کی تخیلاتی یُورش کا نمائندہ ہے، جب کہ فیبِئن آدرش تجربیت اور عملیت پسند تھے اور شخصی آزادی و جمہوریت کے علَم بردار، سنہ 1900 میں ٹریڈ یونین کا قیام عمل میں آیا جنھوں نے قانون کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات کے لیے جد و جہد کی۔

برطانوی سوشل ڈیموکریسی مارکسزم کی ارتقائی شکل ہے، جو بَہ تدریج اصلاحات کے ذریعے سوشلزم کا ہدف حا صل کرنا چاہتی ہے، مگر عقل و تجربہ کے عمل سے گزر کر یہ فیصلہ کرتی ہے۔ اس میں انقلابیت نام کی کوئی شے نہیں اور نہ ہی انقلاب کی کوئی ممکنہ صورت یہاں موجود ہے۔

پارلیمنٹ اور عدالت کے ذریعے تبدیلی لانا مقصود ہے۔ عملیت پسندی کے نزدیک آئیڈیالوجی انسان کو غلام بناتی ہے جب کہ ٹیکنالوجی با اختیار، جس سے معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔ اس بناء پر برٹش سوشلزم مارکس کے سوشلزم سے مختلف ہے۔ 1992 میں ٹونی بلیئر نے اپنے خطاب میں کہا:

ڈیمو کریٹک سوشلزم کا سلسلہ جاری رہے گا؛ عملیت پسندی و اخلاقی اقدار قائم رہیں گی۔ معاشیات اخلاقی و اقداری بھی ہوتی ہے۔ سوشلزم ریڈیکل لبرل ازم کا ورثہ ہے۔ عدل اجتماعی، یَک ساں مواقع، غربت، تعصب اور نا انصافی و بے روزگاری کا خاتمہ، برداشت، سمجھوتا اور اَینٹرپرائزنگ سے چھوٹے اور بڑے کار و بار کی ترقی۔ علم و تجربہ کے ساتھ اخلاقی اقدار کی پاس داری بھی ہمارے ایجنڈے میں شامل ہے چیزیں جس طرح موجود ہیں اس طرح ان کو بیان کرنا ہے نہ کہ تخیلات سے ان پر مُلَمّع کاری کرنی ہے۔

اسی طرح سنہ 1995 میں جرمن سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی نے بھی آرتھوڈاکس مارکسزم میں اصلاحات کیں۔ مقابلے اور منڈی کی معیشت کو سویڈیش سوشلزم کی پیروی میں متعارف کرایا گیا۔ یعنی معاملات کی نوعیت و حقیقت ہی انسان کا تصور ہے۔ برکی نے کہا جرمنی میں یوٹوپین سوشلزم ہو گا، مگر سوشلزم کا یوٹوپین آدرش نہیں ہو گا۔

پوسٹ لبرل ازم کے بعد سوشلزم اخلاقی اقدار اور انسانی ضروریات کو کَما حَقّہ پورا کرتی ہے۔

انقلاب کی نا گزیریت اور طبقاتی جد و جہد، عقل و اخلاق کو چیلنج بھی کرتی ہے۔ احساسِ بے گانگی کا مسئلہ صرف انقلابیوں کے لیے ہے، دوسروں کے لیے نہیں۔ کار و باری طبقے کو منڈی سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور نہ منڈی کے بَہ غیر معیشت چل سکتی ہے۔

طبقے اور ہیُومن ایجینسی کا مسئلہ ہر جگہ ہے۔ قوانین کی پا بندی ضروری ہے۔ اصلاحات اور یک ساں مواقع کی فراہمی کے ذریعے چھوٹے طبقات خود بَہ خود ترقی کر کے دوسرے طبقات میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اب آئیڈیالوجی کی سیاست کی جگہ دنیا بھر میں لبرل ڈیموکریسی اور سوشل ڈیموکریسی کا دور دورہ ہے۔

جو معاشرے عقل و تجربے کے ذریعے اصلاحات لانے میں کام یاب ہوئے ہیں وہ سوشل ڈیموکریسی کے درجے پر پہنچ چکے ہیں اور جہاں سیاسی نظام عوامی جمہوریت کے بر عکس عسکری اداروں کے زیرِ اثر ہے یا مداخلت کا شکار ہے، مذہبی آئیڈیالوجی غالب ہے۔ جاگیر داریت و قبائلیت کے اثرات سیاست پر قائم ہیں۔ خاندانی و طبقاتی سیاست کا رواج عام ہے وہاں جمہوریت رینگنے پر مجبور ہے۔

سیاست و جمہوریت میں عقیدہ پرستی اور مذہبی تجریدی پہلو جہاں شامل ہیں وہاں بھی مسائل کے حل اور اصلاحات کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ سوشل ڈیموکریسی انھی ملکوں میں کام یاب ہوئی ہے جہاں ابتداء میں ہی زرعی اصلاحات کی گئیں۔ جاگیر داروں کا اسمبلیوں میں براجمان ہونا دورِ وحشت کی علامت ہے۔ جاگیر دار اور اصلاحات اک دیوانے کا خواب ہے۔

اس ترقی یافتہ دور میں جاگیر داری کا قائم رہنا کسی بھی ریاست کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ زرعی اصلاحات کے بَہ غیر معاشرے کا درست توازن کبھی قائم نہیں رہ سکتا۔ سرمایہ داری جلدی اصلاحات کی راہ ہم وار کرتی ہے، جب کہ جاگیر دارانہ اقدار جمود و تعطل کا باعث بنتی ہیں۔

مذہبی جنونیت سیاسی آئیڈیالوجی کی ایک منفی شکل ہے۔ جاگیر داریت اور عسکریت اس سے خراج حاصل کرتے ہیں جو ان کی بقاء اور مفاد کے لیے لازمی ہے۔ جسے حقیقی عوامی جمہوریت پنپ نہیں سکتی اور سماجی ارتقاء و ترقی رک جاتی ہے۔

مغرب میں ایک معتدل منصفانہ جمہوری نظام کے قیام کے پیچھے جاگیر داری کا خاتمہ اہم اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یورپ پر قدرت کا سب سے بڑا کرم مارکسی انقلاب تھا؛ اگر وہ نہ آتا تو یورپ آج بھی ایک وسیع طبقاتی تفریق میں گل سڑ رہا ہوتا۔ یاد رہے کہ مارکس نے آئیڈیالوجی کی دو قسمیں بتائیں تھیں: ایک مَثبت اور دوسری منفی، جب کہ وہ سوشلزم کو مکمل طور پر سائنسی سمجھتے تھے۔

ازم اور آئیڈیالوجی سے نکل کر ہی انسان ایک نئی دنیا بسا سکتا ہے جو حقیقت پر قائم ہو۔ یہ ایک ارتقائی عمل ہے مگر سوشلزم انسانی بقاء کے لیے ضروری ہے، جس کی معتدل شکل سوشل ڈیموکریسی کی شکل میں کام یاب جا رہی ہے۔