سقراطی طنز از ڈبلیو ٹی سٹیس آخری قسط

socrates سقراطی طنز
سقراط Image: ethics.org.au

سقراطی طنز از ڈبلیو ٹی سٹیس آخری قسط

(A Critical History of Greek Philosophy by W.T Stace سے ایک اقتباس)

ترجمہ از، غُلامِ شبیر

سقراط نے دو بارہ کہا، “اگر کوئی انسان ارادتاً غلط کرتا ہے تو وہ اس انسان سے بہتر ہے جو غیر ارادی طور پر کرتا ہے۔”

سقراط نے علم کو تصورات پر مبنی قرار دیا جو علم کے پھیلاؤ کی وجہ تھے۔ یہ سوفِسطائی اصول علم کے بالکل متضاد تھا۔ جو کلی طور پر علم کو ادراک قرار دیتے تھے۔ جہاں تک منطق یا دلیل کا تعلق ہے تو وہ آدمی کا آفاقی عُنصر ہے، جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ سقراط کا تصورات کے ذریعے علمی جان کاری دینا، حقیقت کو معروضیت کے تناظر میں دیکھنے کے نظریے کا احیاء تھا۔

یہ تمام انسانوں کے لیے معتبر تھا، جو تمام انسانوں کو باندھنے والا تھا، اور اس Sophistic تعلیم کو رد کرنے والا تھا؛ یہ سکھاتی تھی کہ سچ کوئی ایسی چیز ہے جس سے متعلق ہر فرد اپنے ادراک کے تحت یہ سوچ سکتا ہےکہ وہ ایسا ہی ہے۔ عقلِ سلیم یا دلیل کا ایسا آفاقی عُنصر ہمیں اس وقت مزید واضح سمجھ آتا ہے جب ہم کسی ایک تصور کی وضاحت کر سکیں، یا اگر ہم کسی بھی لفظ کی وضاحت کرنا چاہیں، مثال کے طور پر لفظ آدمی کی وضاحت کرنا ہو تو ہم اپنی وضاحت میں ایسی خصوصیات شامل کریں گے جو تمام انسانوں میں ایک جیسی ہیں۔

ہم انسان کی وضاحت سفید جسامت کے حیوانِ عاقل کے طور پر نہیں کر سکتے۔ اسی طرح ہم انسان کی وضاحت میں صرف انگریزی بولنے والے شامل نہیں کر سکتے، وہ اس لیے کہ کچھ لوگ انگریزی بولتے ہیں جب کہ دوسرے نہیں، بَل کہ ہم کچھ اس قسم کی خاصیت شامل کریں گے جیسا کہ “دو ٹانگوں والا” کیوں کہ دو ٹانگوں کی خاصیت تمام انسانوں میں عام ہے، سوائے اس کے کہ کسی میں ایسی خاصیّت جسمانی معذوری اور مسخ شدگی کی شکار نہ ہو جائے۔

تاہم کوئی ایک تعریف اسی طرح تشکیل پاتی ہے جس طرح سے ایک تصور، مثلاً ایک گروہ میں شامل افراد کی عمومی خصوصیات کو شامل کرنا اور ایسی خصوصیات کو خارج کرنا جن میں گروہ کے افراد مختلف ہیں۔

 در حقیقت، کسی چیز کی تعریف کسی ایک تصور کا نچوڑ ہی ہوتا ہے جسے الفاظ میں بیان کیا گیا ہوتا ہے۔

سو، تعریفات مقرر کر کے ہم ایک حقیقت بارے معروضی معیارات کو رواج دیتے ہیں۔

اگر، مثال کے طور پر ہم مثلّث کی تعریف مقرر کرتے ہیں، تو پھر ہم کسی بھی اقلیدسی شکل کا موازنہ اس تعریف کی رُو سے کر سکتے ہیں, جس کی رُو سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آیا یہ مثلث ہے یا نہیں۔ پھر کسی بھی انسان کو یہ اختیار نہیں ہو گا کہ وہ چاہے تو مثلث کہے، یا نہ کہے۔

اسی طرح، اگر ہم لفظ آدمی کی تعریف مقرر کرتے ہیں، تو ہم اس تعریف کے ساتھ کسی دوسری ذی روح چیز کا موازنہ کر سکتے ہیں جس بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ آیا یہ آدمی ہے یا نہیں۔

 پھر، اگر ہم نیکی کا درست تصور مقرر کرنا چاہتے ہیں، تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا کوئی ایسا خاص عمل ہی نیکی ہے جس کا فیصلہ اس عمل کو مقرر کردہ تصور سے موازنہ کر کے ہی کیا جا سکتا ہو؟

سوفسطائی یہ نہیں کہہ سکے گا “جو کچھ مجھے درست دکھائی دیتا ہے، وہی میرے لیے درست ہے، جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں وہی میرے لیے نیکی ہے،” تو اس کا یہ عمل نفسی یا ذاتی اثر پذیری سے نہیں، بل کہ مقرر کردہ تصور یا تعریف کے تناظر میں جج کرنا چاہیے، جو حقیقت اور فرد کی خود انحصاری کا ایک معروضی معیار ہے۔ یہ وہ نظریۂِ علم تھا جسے سقراط نے پیش کیا۔

علم سے متعلق انھوں نے کہا کہ وہ ایسی چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ کسی آدمی کا ادراک ہو۔ اگر ادراک کو ہی علم مانا جائے، تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہر شخص اس چیز کو حقیقت کہہ سکتا ہے، جو اس کی من پسند ہو۔

علم کا مطلب چیزوں کا ایسا علم جو بلا واسطہ ان چیزوں کے ساتھ مخصوص ہے، یعنی جیسا کہ وہ ہیں اور ایسا علم چیزوں کے تصورات کا علم ہے۔ اس لیے سقراط کی فلسفیانہ بحث محض درست تصورات کو تشکیل دینا ہے۔ انھوں نے جان کاری حاصل کی:

  • قدر کیا ہے؟
  • دانائی کیا ہے؟
  • اعتدال کیا ہے
  • ان موضوعات بارے حقیقی تصورات یا تعریفات کیا ہیں؟

اسی طرح انھوں نے درست حقیقت تک رسائی کے لیے ایک معروضاتی درست حقیقت اور ایک معروضاتی درست اصول کی صورت میں بنیاد تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ان کا تصورات کو تشکیل دینے کا طریقہ استقرائی تھا۔

وہ ایسی جُزوی مثالیں دیتے ہیں جو آفاقی طور پر قابلِ مشاہدہ ہیں، اور ایسا معیار تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان تمام میں یک ساں ہے, اور جس وجہ سے وہ انواع میں ہونے کے با وجود یک ساں ہیں۔ اسی طرح مشاہدے سے تصور تشکیل پاتا ہے۔ تب وہ اس تصور کے مقابلے میں نئی نئی مثالیں لاتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں کہ آیا وہ تشکیل دیے گئے تصور سے میل کھاتی ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں، تو تصور کی نئی مثالوں کی روشنی میں درستی کرتے ہیں۔

لیکن سقراطی نظریۂِ تعلیم ایک نظریہ نہ تھا جسے بڑھاوا دیا جائے، بل کہ ایک عمل تھا جس کا مشاہدہ وقت کے ساتھ کیا جا سکتا تھا۔ مزید برآں، سقراط نے ہمیشہ جو بھی نظریہ پیش کیا وہ عملی نوعیت کا تھا۔ وہ زندگی میں قدر کی خاصیت کا مظاہرہ کر کے قدر کی جان کاری کا تصور سمجھنا چاہتا تھا۔ ان کا ایسا طرز عمل ہمیں ان کی اخلاقی تعلیم کے مرکزی نکتے کی طرف لاتی ہے، جو علمی یعنی تصورات پر مبنی قدر کا اظہار تھا۔

سقراط کا ماننا تھا کہ انسان اس وقت تک درست کام سر انجام نہیں دے سکتا جب تک اسے معلوم نہ ہو جائے کہ درست کیا ہے، اور نا درست کیا ہے؛ اسے یہ اس وقت ہی معلوم ہو گا، جب اسے درستی کا تصور معلوم ہو۔ اس لیے، اخلاقی علم کی بنیاد علم پر ہے، اور علمی بنیاد پر ہی اس کی نشو و نما ہونی چاہیے۔

اس لیے، سقراط نے جہاں نہ صرف یہ خیال کیا کہ آدمی اس وقت تک درست کام سر انجام نہیں دے سکتا جب تک اسے علم نہ ہو، وہیں پر ایک غیر واضح دعوے کو تقویّت دی کہ اگر کوئی انسان علم رکھتا ہے تو وہ غلط نہیں کر سکتا۔

تمام قسم کی غلط عمل کاری بے علمی سے جنم لیتی ہے۔ اگر ایک انسان علم رکھتا ہے کہ درست کیا ہے، وہ قطعی طور پر وہی کرے گا جو درست ہے۔ تمام انسان صحیح کو کھوجتے ہیں، لیکن صحیح کیا ہے اس بارے تمام افراد کا زاویۂِ نگاہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ “کوئی بھی انسان، سقراط نے کہا، “ارادتاً غلط نہیں کرتا۔” وہ غلط اس لیے کرتا ہے، کیوں کہ وہ صحیح کے درست تصور کو نہیں جانتا، اور لا علم ہونے کی صورت میں خیال کرتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے صحیح کر رہا ہے۔ سقراط نے دو بارہ کہا، “اگر کوئی انسان ارادتاً غلط کرتا ہے… وہ اس انسان سے بہتر ہے جو غیر ارادی طور پر کرتا ہے۔”

اولُ الذّکر اپنی ذات میں کسی کام کی جان کاری کی وجہ سے بہتر ہے، جسے علم ہے کہ کسی کام کی بھلائی کیا ہے، لیکن ثانیُ الذّکر بھلائی کا علم نہ ہونے کی وجہ سے درست راہ سے گم شدہ ہے۔

ارسطو نے اس نظریۂِ تعلیم پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ سقراط نے انسان کے غیر عقلی حصوں کو نظر انداز کر دیا یا بھول گئے۔ انھوں نے کہا، سقراط خیال کرتے ہیں کہ ہر آدمی کے افعال محض عقل کے تابِع ہیں، اس لیے اگر وہ محض درست عقلی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں، وہ درست کام ہی سر انجام دیں گے۔ انھوں نے اس حقیقت کو فراموش کر دیا کہ اکثر انسانوں کے افعال جذبات کے تابع ہوتے ہیں، “جو انسانی غیر منطقی خاصا ہے۔”

ارسطو کی سقراط پر تنقید نا قابلِ تردید ہے۔ یہ بات قابلِ مشاہدہ ہے کہ انسان عملاً غلط کرتے ہیں، جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ درست کیا ہے اور جن کے متعلق یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ کبھی بھی غلط نہیں کریں گے۔ یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ سقراط نے ایسی غلطی کیوں کی؛ وہ اس لیے کہ انھوں نے اپنے زاویۂِ نگاہ سے تبادلۂِ خیال کیا۔

سقراط انسانی کم زوری سے ما وراء دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی رہ بَری جذبات سے نہیں بل کہ منطق سے ہوئی تھی، جس نے ان کا ایسے تعاقب کیا جیسے رات دن کا کرتی ہے۔ اگر سقراط نے یہ جان کاری حاصل کی کہ درست کیا ہے، تو انھوں نے اسے کر کے دیکھا۔

وہ اس بات کو نہ سمجھ پائے کہ جن لوگوں نے غلط کیا، وہ کیسے درست کی جان کاری حاصل کر پائیں. اگر وہ سر کش ہیں تو سقراط کے سمجھنے میں اس لیے ہیں کیوں کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ درست کیا ہے۔ اس لحاظ سے ارسطو کی تنقید بَہ جا ثابت ہوتی ہے۔

تاہم سقراط کا یہ نظریہ کہ فرد کا اعتقاد، اس کا عمل نفسی یا ذاتی اثر پذیری سے نہیں بل کہ مقرر کردہ تصور یا تعریف کے تناظر میں پَرکھا جائے، ایسا نہیں جسے آسانی سے نظر انداز کیا جا سکے۔ جب ہم پہلی نظر سقراط کے اس نظریے پر دوڑاتے ہیں تو ہمیں بڑی حد تک اس میں حقیقت دکھائی دیتی ہے۔

 جب ہم کہتے ہیں کہ انسان کا اعتقاد کسی ایک چیز پر ہے پر اس کا عمل کچھ اور ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدمی حقیقتاً کس چیز پر بھروسا کرتا ہے، اور اس کے اس یقین کو جانچنے کا معیار کیا ہے؟ ہر اتوار کو لوگ چرچ جاتے ہیں اور وہاں پر اپنے اعتقادات، عبادات کی تکرارا کرتے ہیں، جن کا بنیادی نظریہ اس بات کو فروغ دینا ہے کہ تمام ارضی مال و متاع روحانی اقدار کے مقابلے میں بے وقعت ہیں؛ ایسے لوگوں سے، اگر پوچھا جائے کہ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ وہ اس بات کو سچ مانتے ہیں تو اس بارے ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ان کا یقین ہے کہ ایسا ہی ہے۔

تاہم، جب سماجی معاملات میں ان کی منشاء دنیاوی مال و متاع ہی ہوتی ہے تو اس بارے میں ان کا طرزِ عمل ایسا ہوتا ہے کہ وہ اسے اعلیٰ کام خیال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا یقین کس نوعیت کا ہے؟ کیا ان کا یقین ایسے ہے جس طرح وہ کہتے ہیں، یا ایسے جس طرح سماجی معاملات میں طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔

کم از کم یہ حقیقت قابلِ استدلال نہیں ہے کہ وہ جس چیز کے اعلیٰ ہونے پر یقین کرتے ہیں یقیناً اسی پر عمل پیرا بھی ہیں؛ اگر وہ روحانی اقدار کے اعلیٰ و ارفع ہونے پر یقین رکھتے ہیں، تو انھیں عملی زندگی میں اس بارے تگ دو کرنی چاہیے نہ کہ مادی جاہ و حشمت کی!

کچھ ایسا ہی سقراط نے خیال کیا تھا کہ تمام آدمی بھلائی کھوجتے ہیں، لیکن بہت سے یہ نہیں جانتے کہ بھلائی کیا ہے۔ بہت سے کام یقیناً بھلائی کے ہیں، اگر چِہ ایسے کام جو برے ہیں بہت سے لوگ بلا شبہ برا جانتے ہوئے بھی ارادتاً غلط کرتے ہیں۔

سقراطی فلسفہ کی دو نمایاں خصوصیات ہیں جو ایک جیسے عمومی نظریے سے سامنے آتی ہیں اور عمومی نظریہ یہ ہے کہ بھلائی علم سے مشروط ہے۔

پہلی خصوصیت یہ ہے کہ بھلائی کو سیکھا جا سکتا ہے۔ ہم عمومی طور پر یہ خیال نہیں کرتے کہ بھلائی کو علمِ حساب کی طرح سیکھا جا سکتا ہے۔ ہم خیال کرتے ہیں کہ بھلائی کئی عوامل پر انحصار کرتی ہے، جو آدمی کی وراثتی، ماحولیاتی سرشت میں نمایاں ہیں، جن میں تعلیم، ریاضت اور خصلت سے کچھ حد تک تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ جب آدمی عمر رسیدہ ہوتا ہے تو اس کے کردار میں تبدیلی کا امکان کم ہوتا جاتا ہے۔ پر مستقل ریاضت، متواتر ضبطِ نفس سے ایک آدمی خود کو کچھ حد تک بہتر بنا سکتا ہے، لیکن مجموعی طور پر وہ جو ہے وہی رہتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ چیتا اپنے قدموں کے نشان تبدیل نہیں کرتا۔ لیکن جیسا کہ سقراط کے نزدیک بھلائی کی واحد شرط علم ہے اور علم بھی وہ جو تربیت کا مرہونِ منّت ہو، جو یہ بتاتا ہے کہ بھلائی کو سیکھا جا سکتا ہے صرف مشکل یہ ہے کہ ایسا معلم ڈھونڈا جائے، کسی ایسے کو تلاش کیا جائے جو بھلائی کے تصور سے واقف ہو۔

بھلائی کا تصور کیا ہے… وہ سقراط کے خیال میں علم کا وہ قیمتی حصہ ہے، جو ابھی تک کوئی فلسفی دریافت نہیں کر سکا، جو اگر دریافت کربھی لیا جاتا، تو وہ تربیت کا مرہونِ مِنّت ہوتا ہے، جس وجہ سے لوگ نیک ہوتے۔

سقراطی فلسفہ کی دوسری خصوصیت یہ ہے بھلائی ایک ہے۔ ہم بھلائی کے کاموں میں، مثال کے طور پر اعتدال، دانائی، دُور اندیشی، خیر اندیشی، مروّت کی بات کرتے ہیں۔ سقراط کا یہ ماننا ہے کہ ان بھلائی کے کاموں کا مَنبع علم ہے۔ اس لیے علم بَہ ذاتِ خود جسے دانائی کہتے ہیں ایک بھلائی ہے جو دوسری تمام بھلائیوں پر مشتمل ہے۔

اس سے سقراطی تعلیم کی درست وضاحت مکمل ہو جاتی ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ اس بات پر غور کریں کہ فکر کی دنیا میں سقراط کا کیا مقام ہے۔

 سقراطی تعلیم کے دو پہلو ہیں: 

  • اس کا پہلا پہلو اصولِ علم ہے، جو یہ ہے کہ علم کی بنیاد تصورات پر ہے۔ یہ سقراطی فلسفے کا سائنسی پہلو ہے۔
  • دوسرا پہلو ان کی اخلاقی تربیت کا ہے۔

بلا شبہ سقراطی تعلیم کا پہلا ضروری اور اہم پہلو تصورات پر مبنی سائنسی نظریہ ہے۔ یہ پہلو انھیں فلسفے کی دنیا میں ایک نمایاں مقام دیتا ہے۔

 دوسرا پہلو اخلاقی تربیت سے متعلق نظریات کا ہے جو ایک معنی خیز محرکِ فکر کا مقام رکھتے ہیں، جو اس وقت انسان کے محض منطقی استدلال کی بناء پر فریبِ نظر کی وجہ سے کثافت کی نظر ہو رہے تھے۔

چُناں چِہ اخلاقی تربیت کے ان اصولوں کی عمل گذاری کا فکر کی دنیا میں خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔ لیکن تصورات پر مبنی نظریے نے فلسفے کی دنیا میں انقلاب کا کام کیا۔

اس انقلاب کے ارتقاء کی بنیاد افلاطون کی فلاسفی پر ہے اور افلاطون کی فلاسفی کے توسط سے سقراط کی اور فی الحقیقت تمام متأخر تصوریت پر ہے۔ تاہم تصورات پر مبنی سقراط کے سائنسی نظریے کا ما حصل سوفسطائی تعلیمات کی معدومیت کی صورت میں ظاہر ہوا۔

سوفسطائیوں نے یہ تلقین کی کہ حقیقت یا سچائی کا احساسات کے ذریعے ادراک کیا سکتا ہے؛ اور جیسا کہ مختلف افراد کا احساس ادراک کسی ایک ہی چیز سے متعلق ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ایسی سچائی یا حقیقت فرد کے انفرادی ذوق کا معاملہ ہے۔

جو در اصل ایک معروضی حقیقت کے طور پر حقیقت کے تمام ایقان کی بیخ کنی ہے، اور اسی دلیل کی وجہ سے حسی ادراک پر مبنی سچ یا حقیقت کی معروضیت بارے یقین عنقا تھا۔

 سقراط کا نمایاں مقام معروضیت پر یقین کی تجدید کرنی تھی۔ ان کی لیاقت اس بات سے واضح کہ انھوں نے یہ جانا کہ سوفسطائی تعلیمات کے تباہ کن اثرات کا سامنا کرنے کا واحد حل اس بنیادی مفروضے کو مسترد کرنا تھا، جو یہ ہے کہ ادراک ہی علم ہے۔

اس کے بر عکس سقراط نے اس نظریے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ علم کا ذریعہ محض تصورات ہیں۔ علم کو تصورات پر مبنی قرار دینا در اصل عقل کل قرار دینا ہے، اور اسے معروضیت کی حالت سے واپس لانا اور اسے ایک معروضی حقیقت ظاہر کرنا ہے.

اگر چِہ سقراط معروضی حقیقت کی طرف عقلی یقین کا احیاء کرنے والے ہیں، تاہم ہم یہ خیال نہیں کر سکتے کہ ان کی فکر محض قبل از سوفسطائی دور کی عقلی حیثیت کی طرف مراجعت ہے۔ اس کے بر عکس، ان کی فکر کا علاقہ سوفسطائی دور سے بہت پہلے کا ہے۔

فکر کا طبعی ارتقاء کیا ہے؟ آیا اس ارتقاء کا تعلق کسی فرد سے ہے یا گروہ سے ہے۔ فکری تحرّک تین مراحل سے واضح ہوتا ہے:

  • پہلا مرحلہ پختہ یقین ہے، جس کی بنیاد عقلی نہیں، یہ محض ایک رسمی یقین ہے۔
  • دوسرے مرحلے میں سوچ یا فکر تخریبی ہو جاتی ہے۔
  • تیسرا مرحلہ مَثبت سوچ کا احیاء ہے، اب جس کی بنیاد تصور، منطق پر ہے، نہ کہ محض رسم و رواج پر۔

سوفسطائی دور سے قبل لوگوں کا ماننا تھا کہ سچائی اور بھلائی معروضی حقائق ہیں؛ کوئی آدمی وثوق سے ان کا دعویٰ نہ کرتا وہ اس لیے کہ کوئی ان حقائق کی تردید نہ کرتا تھا۔ یہ بات واضح ہے کہ اس دور کے لوگ منطقی بنیادوں پر یقین نہیں کرتے تھے بَل کہ عادات اور رسوم پر یقین کرتے تھے۔

فکر کے پہلے مرحلے کو ہم سادہ یقین کا عہد کہہ سکتے ہیں۔ جب سوفسطائی منظرِ عام پر آئے تو وہ منطق اور فکر کو لائے جو اس وقت رائج قانون، رواج اور اتھارٹی کو منطقی یا فطری انداز میں سپورٹ کرتے تھے۔ سادہ یقین میں عقل کی پہلی مداخلت ہمیشہ تخریبی ہوتی ہے، جس وجہ سے سوفسطائی بھلائی اور سچائی کے تمام معیارات کی بیخ کنی کرتے تھے۔ سقراط ان تمام معیارات کا احیاء کرنے والے ہیں، لیکن ان کے نزدیک وہ سادہ یقین کے اب معیارات نہیں ہیں۔ ان کی بنیاد منطقی ہے۔

سقراط نے عقیدے کے فہم کو غیر مستحکم، غیر حاضر دماغی حالت کا بدل قرار دیا۔ ہم اس سلسلے میں سقراط کا تقابل Aristophanes سے کر سکتے ہیں۔

ارسٹوفینیز Aristophanes راسخ العقیدہ اچھے گزرے وقت پر یقین رکھنے والوں نے سوفسطائیوں کے عوامی اخلاقیات پر تباہ کن اثرات کو اس صفائی سے دیکھا جیسا کہ سقراط نے۔

لیکن اس نے اس بارے جو تدارک تجویز کیا وہ “اچھے گزرے وقت” کی طرف ایک پُر تشدد واپسی تھی۔ اس تدارک نے برے اثرات کا کام کیا، تجویز کردہ تدارک یہ تھا کہ نئی سوچ کو دبا دیا جائے۔ ہمیں سادہ یقین کی طرف واپس جانا چاہیے۔ لیکن سادہ یقین جب کسی سوچ کے زیرِ اثر تباہ کر دیا جائے تو کسی فرد کی طرف لوٹتا ہے نہ ہی کسی نسل کی طرف۔

ایسا اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک انسان دو بارہ بچے جیسی فطرت کی طرف نہ لوٹ جائے۔ فکر کی بیماری کا ایک ہی علاج ہے کہ وہ ہے زیادہ فکر۔ اگر فکر اپنی ابتداء میں ایسے رہ نمائی کرے جیسے وہ کرتی ہے یعنی تشکک اور انکار کی طرف رہ نمائی کرنا، جس کا واحد مقصد فکر کو دبانا نہیں بل کہ اس پر یقین کو استوار کرنا ہوتا ہے۔

یہ سقراطی طریقہ تھا اور یہ وہ طریقہ ہے جو تمام عظیم سرگرم نفوس کا ہے۔جو سایوں سے خوف زدہ نہیں ہوتے. ان کا یقین منطقی ہے۔ اگر منطق انھیں تاریکی کی طرف لے جاتی ہے، وہ ڈر کے مارے پیچھے نہیں دوڑ پڑتے. وہ پیش قدمی کرتے رہتے ہیں یہاں تک کے اجالا ہو جاتا ہے۔

وہ جعلی اساتذہ نہیں ہیں جو ہمیں یہ سیکھ دیتے ہیں کہ اگر منطق ہمارے عقائد بارے تشکک پیدا کرے تو ہم منطق کی طرف راغب نہ ہوں۔ تاہم فکر کو دبایا نہیں جا سکتا ہے۔ ایک منطقی مخلوق ہونے کے ناتے منطق کے ہم پر حقوق ہیں۔

ہم منطق سے مُنھ نہیں موڑ سکتے۔ ہمیں منطقی طرز کو جاری رکھنا ہو گا اور اپنے عقائد کو منطقی بنانا ہو گا۔ ہمیں انھیں تصور پر مبنی کرنا چاہیے جیسا کہ سقراط نے کیا۔ سقراط نے سوفسطائی اصولوں سے انکار نہ کیا، جو یہ تھے کہ تمام اداروں، معیارات، تمام موجودہ اور تمام رائج چیزوں کو منطق کی عدالت کے سامنے بَہ جا ثابت کرنا چاہیے۔

سقراط نے بنا سوال کیے اس حقیقت کو تسلیم کیا، انھوں نے فکر کے چیلنج کو قبول کیا اور اپنے عہد میں منطق کی جنگ جیتی۔

سوفسطائیوں نے اصولِ موضوعیت پیش کیا؛ یہ اصول تھا کہ سچ میرا سچ ہونا چاہیے، اور درست عمل میرا عمل ہے. ان کا ما حصل میری اپنی سوچ کے مطابق ہو نہ کہ ایسے معیارات ہوں جو مجھ پر لاگو کیے جائیں۔ سوفسطائیوں کی غلطی یہ خیال کرنا تھا کہ سچ میرا ہونا چاہیے، جو محض میری استعداد کے مطابق ہو، وہ اس لیے کہ میں احساس کو دریافت کرنے والی ایک تخلیق ہوں، جس کا مطلب ہے کہ میرا اپنا ذاتی سچ ہے۔

سقراط نے اس خیال کی درستی کی۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ سچ میرا سچ ہونا چاہیے یہ کہا کہ ایسی استعداد ایک منطقی آدمی کے طور پر ہو، جس کا یہ مطلب ہے کہ منطق ابھی تک کائناتی ہے جو کہ میرا ذاتی سچ نہیں، بَل کہ ایک کائناتی سچ ہے جو شئیر ہوتا ہے اور منطقی انسانوں کے لیے معتبر ہوتا ہے۔

تاہم، سچ کو نہ صرف موضوعی صورت میں، بَل کہ ایک معروضی حقیقت، فرد کے احساسات کی خود مختاری، خیالات اور خود رائی کے طور پر بھی رواج دیا جا سکتا ہے۔

سقراط اور سوفسطائی عہد تعلیم و تربیت سے پُر ہے۔ اس کا لازمی سبق یہ ہے کہ منطق کی فوقیت کو رد کیا جائے، منطق پر شعور کے کسی دوسرے عمل کو قائم کیا جائے، جس کا نا گزیر طور پر اختتام سچ اور اخلاقیات کی معروضیت سے انکار اور تشکک ہو۔

آج بھی بہت سے تصوّف کا عقیدہ رکھنے والے اور دوسرے، اس ایک عقیدے کی تعلیم و تربیت دیتے ہیں جسے “وِجدان” کہتے ہیں؛ جس کے بارے میں وہ خیال کرتے ہیں کہ اعلیٰ قسم کا مذہبی علم جو حاصل ہوتا ہے، وہ وِجدان کے ذریعے پہنچ کر ہی حاصل ہوتا ہے، جسے منطق سے زیادہ بر تر تصور کیا جاتا ہے۔

لیکن سادہ طور پر ایسا خیال Protagoras کی غلطی کو نئے سِرے سے دُہرانا ہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ایسا علمی ذریعہ یعنی وجدان محض حِسّی ادراک نہیں جیسا کہ Protagoras سمجھتے تھے۔

بہ ہر حال، یہ ذاتی روحانی ادراک کی شکل ہے۔ یہ کسی ایسی چیز کا ذاتی فہم ہے جو صرف میرے ساتھ پیش ہے، جو اس جگہ کے ساتھ خاص ہے۔ یہ ایسا اس لیے ہے کہ یہ ادراک کی فطرت ہے۔ یہ روحانی اور فوقُ الحواس ہے، جو مادے، حواس اور ادراک کے بر عکس ہے۔

تاہم اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا خواہ ادراک حواسی ہو یا فوق الحواسی ہو. سچ کو ادراک کے جس درجے میں رکھو، وہ اصول ہے ایسا کرنے کے لیے Protagoras نے کیا، جنھوں نے فرد کے موضوعاتی تأثر کی طرف خود کو بے یار و مدد گار شکار کی طرح جانے دیا۔

میں ایک چیز کا ادراک کرتا ہوں؛ دوسرا انسان اس کے بر عکس ادراک کرتا ہے؛ جس چیز کا میں ادراک کرتا ہوں، اس کا میرے لیے سچ ہونا نا گزیر ہے، جس کا وہ ادراک کرتا ہے اس کا سچ ہونا اس کے لیے نا گزیر ہے، کیوں کہ ہم منطق کا انکار کر چکے ہیں، ہم نے اسے وِجدان سے نچلے درجے میں رکھ چھوڑا ہے، اس لیے ہم نے اس چیز کو دور پھینک دیا ہے جو کائناتی اور معروضی معیار کی بنیاد پر ہر فرد کے مختلف تأثرات کا تنِ تنہا موضوع ہو سکتا ہے۔

منطقی ما حصل یہ ہے کہ جب ہر انسان کا ادراک اس کے لیے سچ ہے تو یہ ایسی چیز نہیں جسے معروضی حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جائے، نہ ہی ان حالات میں ایسی چیز ہو سکتی ہے، جسے ایک معروضی اچھائی کے طور لیا جا سکے۔

بہ ہر حال، تِھیئری کا اختتام مکمل تشکک میں اور پُر اسرار ہونا چاہیے۔ یہ سچ بات ہے کہ تصوف کا عقیدہ رکھنے والے، ان تشکک کے ما حاصلات کا سادہ سا یہ مطلب لیتے ہیں کہ وہ اس قدر درست اور منطقی نہیں جیسا کہ فلسفی Protagoras تھے۔